تفسیر سورۃ البقرہ (حصہ دوم)

آیت نمبر 3

الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ وَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقنٰھُم یُنفِقُونَ ۔
ترجمہ: جو لوگ ایمان لاتے ہیں غیب پر، اور قائم کرتے ہیں نماز، اور اس میں سے جو ہم نے ان کو دیا خرچ کرتے ہیں۔

یؤمنون: اس کا روٹ ورڈ ہے " ء ، م ، ن" یعنی کہ امن، امن کہتے ہیں اعتماد اور بھروسے کے ساتھ مان لینا۔

الغیب: غیب کہتے ہیں وہ چیز جو ہمارے حواس سے اوجھل ہو، کوئی ہمیں اس کے ہونے کی خبر دے۔
"ال" کا اضافہ کر کے اس کی تخصیص کر دی گئ ہے۔ کہ وہ غیب جس پر ایمان لانے کا حکم اللہ نے دیا۔
یقیمون: روٹ ورڈ ہے " ق، و ، م" یعنی کہ قوم ،مطلب ہے قائم کرنا، سیدھے کھڑے ہونا، ترجیحی حیثیت دینا، درست طریقے پر ادا کرنا۔
رزقنھم: روٹ ورڈ ہے " ر، ز، ق" یعنی کہ رزق۔ دو طرح کا ہوتا ہے۔ مادی(کھانا، پینا، مال و دولت وغیرہ)، معنوی (علم ، عقل و شعور وغیرہ)
ینفقون: روٹ ورڈ ہے "ن، ف، ق" یعنی کہ نفق ۔ نفق کہتے ہیں سرنگ کو، جو دونوں طرف سے کھلی ہوتی ہے۔ ایک طرف سے جو چیز اندر داخل ہوتی ہے، وہ دوسری طرف سے نکل جاتی ہے۔
سورۃ البقرہ آیت نمبر ۲ میں بتایا گیا کہ قرآن سے ہدایت وہ لوگ لیتے ہیں، جن کے دل میں تقویٰ ہو، تقویٰ اندرونی کیفیت کا نام ہے ، جس سے متعلقہ انسان اور اللہ ہی واقف ہوتا ہے۔ اب اگلی آیات میں ان لوگوں کی خصوصیات بتائی گئ ہے۔
وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں، یہاں پر غیب سے مراد ہے ایسی چیز جسے جاننے کا کوئی ذریعہ نہ ہو سواۓ وحی الہٰی کے۔ یہاں پر ہر غیب پر ایمان لانے کی بات نہیں ہے بلکہ وہ جس پر ایمان لانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اللہ پر ایمان لانا۔ فرشتوں ، تمام رسولوں ، تقدیر، اور آخرت پر ایمان لانا۔ جیسا کہ ایمانِ مفصل میں ہم اقرار کرتے ہیں۔
"میں ایمان لایا اللہ پر، اور اسکے فرشتوں پر، اور اسکی کتابوں پر، اور اسکے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پر، اور اچھی اور بری تقدیر پرکہ اللہ کی طرف سے ہے، اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر۔"
وحی کیا ہے؟؟ کیسے آتی ہے؟؟ کیسے قلب پر اترتی ہے؟؟؟ روح کا وجود
یہ سب ہم نے دیکھا نہیں، ہمارے حواس اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس کی خبر دی گئ اس قرآن کے زریعے، اور یہ سب ایمان بالغیب سے تعلق رکھتا ہے ۔ اور ان پر ایمان لانا ہدایت پانے کی شرطِ اوّل ہے۔ جو ان پر ایمان نہیں لاۓ گا، وہ صرف اس کتاب سے علم ہی پا سکتا ہے، ہدایت نہیں۔ اب جو ایمان لے آۓ اس پر جس کا حکم دیا گیا ہے تو اس کا یہ ایمان ثبوت مانگتا ہے۔
پہلا مطالبہ کیا ہے ایمان کا؟؟ نماز۔
اب یہاں نماز پڑھتے نہیں، نماز قائم کرتے ہیں۔ نماز کیسے قائم کرتے ہیں؟؟ نماز کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھتے ہیں۔ اپنے ٹائم ٹیبل کو نماز کو اوقات کے مطابق سیٹ کرتے ہیں۔ نماز اس طرح پڑھتے ہیں ، جس طرح پڑھنے کی تاکید کی گئ ہے۔ یعنی درست طریقے پر۔ درست طریقہ کیا ہے، جو سنتِ نبویﷺ کے مطابق ہے۔
دوسرا مطالبہ ایمان کرتا ہے کہ خرچ کرنا۔
اب نماز پہلے اور خرچ کرنا بعد میں کیوں؟؟ جب بھی ہمارے سامنے کوئی ہماری جان اور مال کی چوئس رکھے تو یقیناً ہم جان کو ہی ترجیح دیں گے۔ یہ جان ہمارے لیے ذیادہ قیمتی ہے۔ اس لیے اطاعت کا اظہار پہلے جسم کے ذریعے اور پھر مال کے ذریعے۔
تو بات یہ ہے کہ ہم نے اب خرچ کیا کرنا۔ وہ نعمتیں جو ہمیں ملیں ہیں۔ جو ہماری ملکیت میں ہیں۔ جو ہمیں بہت پسند ہیں۔ وہ خرچ کرنا ہے۔ دوسروں کو دینا ہے، جن کا حق اللہ نے ہمارے ساتھ بنایا ہے۔ شئیر کرنا ہے۔ وہ مال بھی ہو سکتا ہے، علم بھی ہو سکتا ہے، خیر و بھلائی کی کوئی بات، کوئی اچھا مشورہ ، کسی کی اخلاقی مدد، ہماری کوئی صلاحیت اور خوبی جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہے جس سے انسانیت کو کوئی فائدہ پہنچ سکے۔ کچھ بھی۔ ضروری نہیں کہ ہمارے پاس بہت سا مال ہو اور ہم بڑی بڑی ڈونیشنز دیں۔ ایک مسکراہٹ بھی صدقہ ہے۔ کسی سے بھلی بات کرنا بھی صدقہ ہے۔ سبحان اللہ ! کیا خوبصورتی ہے ہمارے دین کی، مگر افسوس ہمارے پاس دیکھنے والی نگاہ نہیں، سمجھنے والا دماغ نہیں، محسوس کرنے والا دل نہیں۔
اب جہاں تک بات ہے دینے کی تو دینے کا تعلق سیدھا دل سے ہے۔ بات یہاں پھر آ جاتی ہے ظرف کی، جتنا بڑا ظرف ہو گا، جتنا بڑا دل ہو گا، اتنا انسان دے گا۔ اتنا شئیر کرۓ گا۔ یہ خوبصورت خوبی بیان کی گئ ہے متقیوں کی، کہ وہ دینے والے ہوتے ہیں، لفظ استعمال کیا گیا ہے ینفقون کا، مطلب ہے دونوں دہانوں سے کھلی ہوئی سرنگ۔ کہ اللہ انہیں جو بھی دیتا ہے، مادی رزق یا معنوی رزق ، وہ اس میں سےاللہ کی راہ میں باکثرت خرچ کرتےہیں۔ اپنے پاس جمع نہیں کر کے رکھتے،وہ مال کی محبت میں نہیں اٹکتے، وہ اپنے اللہ سے محبت رکھتے ہیں، وہ اللہ کی محبت میں خاص اسی کے لیے دوسروں پر خرچ کرتے ہیں۔
پارہ ۲۹سورۃ الدھر آیات ۸-۱۰ " اور اللہ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو (۸) ہم تو تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی کے لیے کھلاتے ہیں، نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر گزاری (۹) بیشک ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں ، جو اداسی اورسختی والا ہو گا (۱۰) "
متقیوں کی یہ خوبی بیان کی گئ ہے ، کیونکہ اس کتاب سے ہدایت وہ ہی پا سکتے ہیں ، جو دینے والے ہوتے ہیں، کیونکہ یہ کتاب تو دینے کا مطالبہ اتنا کرتی ہے کہ دل میں بخل اور دنیاوی حرص رکھنے والے تو دے ہی نہیں سکتے، کیونکہ بخل ضروری نہیں بڑی بڑی چیزوں میں ہو، بعض اوقات انسان کسی کو جگہ دینے میں بھی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اور دینے کا بنیادی مقصد ہے، انسان کے دل سے دنیا کی شرکیہ محبت کو ختم کرنا۔ شرکیہ محبت جو کہ انسان اور اللہ کے درمیان آ جاۓ۔
اب جو بھی ہم خرچ کریں گے، وہ کبھی جاتا نہیں، لوٹ کر آتا ہے، آج ہم جو دیں گے وہی ہمیں بھی ملے گا، آج ہم کسی کو جگہ دیں، اچھی بات کریں، علم کی بات کسی کو بتائیں، کوئی پُر خلوص مشورہ، کوئی مالی اخلاقی مدد ۔ انشاءاللہ وہی بھلائی ہمیں پلٹ کر ملے گی۔ فوری نہیں تو کسی اور وقت، اس جگہ سے نہیں تو بہت سی اور ایسی جگہوں سے جہاں سے آپ کو امید بھی نہیں ہو گی۔ اگر آج ہم کسی کو معاف کر دیتے ہیں۔ کسی کا بدلہ چھوڑ دیتے ہیں تو ہم لوزرز نہیں ہیں، ہمیں کبھی نہ کبھی اس کا انعام ملے گا۔ کیونکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا گویا اللہ کے ساتھ بزنس کرنا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ بزنس کر لیا، اسے کبھی نقصان ہو ہی نہیں سکتا۔
اب یہ سب باتیں کون سمجھ سکتا ہے۔ جس کو قرآن سے ہدایت ملی ہو، تقوی والوں کو نورِ بصیرت عطا ہوتا ہے، وہ ہر بات کے لانگ ٹرم ایفیکٹس دیکھتے ہیں۔ وہ اس دنیا کی تیاری بارے میں فکر نہیں رکھتے جس کے بارے میں جب آخرت میں پوچھا جاۓ گا کہ اے انسان تم کتنا عرصہ دنیا میں رہے تو وہ کہے گا کہ ایک ادھ دن یا اس سے بھی کم۔ بلکہ وہ اپنا سب کچھ وہاں بھجوا رہے ہیں ، جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ کتنے نادان اور نادار ہیں ہم، کہ ہمیشہ کے سفر پر روانگی قریب ہے اور ہمارے پاس زادِ راہ ہی نہیں ہے۔
اس آیت میں تقویٰ والوں کی دو خصوصیات کا ذکر ہے۔ اللہ کے ساتھ ان کا معاملہ اور بندوں کے ساتھ ان کا معاملہ۔
دل کے اندر تقویٰ اللہ کا ، اور اللہ کے بندوں کے ساتھ احسان کا معاملہ۔
اللہ ہمارے دلوں میں بھی وسعت ڈال دے اور ہمارے دلوں کے نیتوں کو اپنے لیے خالص کر لے۔ آمین

(کرنے کا کام: اپنے دلوں کا جائزہ لیں کہ ہم انسانوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوۓ دل میں کیا سوچتے ہیں؟؟ کسی سے بھلائی کرتے ہوۓ ہماری نیت کیا ہوتی ہے؟؟؟ کیا ہم اللہ کی خاطر کرتے ہیں یا ان سے بدلے کی خواہش رکھتے ہیں، یا تعریف کے منتظر تو نہیں رہتے؟؟؟)
(جاری)بببب
 
desert rose
About the Author: desert rose Read More Articles by desert rose: 13 Articles with 16386 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.