تفسیر سورۃ البقرہ (حصہ اول)
(Zainab Amjad, Islamabad)
اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سورۃ البَقَرَۃ
مدنی سورتوں میں سے سب سے پہلی سورت ہے۔ ترتیب نزولی کے لحاظ سے 87 نمبرپر
ہے۔
اس کا اکثر حصہ ہجرت کے پہلے دو سالوں میں نازل ہوا اور کچھ حصہ 10 ہجری
میں نازل ہوا۔ کیونکہ قرآن لوگوں کی ضروریات کے مطابق بتدریج نازل ہوا۔
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا " اپنے گھروں کو قبرستان
مت بناؤ، شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے، جہاں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے۔"
ابو امامہ باہلیؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے،
قرآن پڑھو اس لیے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہو کر آۓ
گا اور دو سورتیں چمکتی ہوئی پڑھو، سورۃ البقرہ اور آل عمران۔ اس لیے کہ وہ
میدانِ قیامت میں آئیں گی گویا دو بادل ہیں ہو دو سائبان یا دو ٹکڑیاں ہیں
اڑتے پرندوں کی اور حجت کرتی ہوئی آئیں گی اپنے لوگوں کی طرف، اور سورۃ
البقرہ پڑھو کہ لینا اس کا برکت اور چھوڑنا اس کا حسرت، اور جادوگر اس کا
مقابلہ نہیں کر سکتے۔" (صحیح مسلم ۱۸۷۴)
آیت نمبر 1:
الٓمٓ
ا ل م
حروفِ مقطعات میں سے ہیں۔ مقطعات قطع سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے الگ کرنا،
کاٹنا۔ چونکہ یہ الفاظ علیحدہ علیحدہ پڑھے جاتے ہیں اس لیے انہیں حروفِ
مقطعات کہتے ہیں۔
ان حروف کا مطلب کیا ہے؟؟؟ اس کے بارے میں بہت سے نظریات پیش کیے جاتے
ہیں،لیکن کوئی مستند روایت موجود نہیں۔ ان کے معنی کا علم صرف اللہ تعالیٰ
کو ہے، البتہ مفسرین نے اس کے دواہم فوائد بیان کیے ہیں۔
1) مشرکین اپنے ساتھیوں کو قرآن سننے سے روکتے تھے کہ مبادہ وہ اس سے متاثر
ہو کر مسلمان ہو جائیں،اللہ تعالیٰ نے مختلف سورتوں کا آغاز ان حروف مقطعات
سے فرمایا تاکہ وہ اسے سننے پر مجبور ہو جائیں کیوں کہ یہ اندازِ بیاں نیا
اور اچھوتا تھا ۔
2) قرآن اسی قسم کے حروف مقطعات سے ترتیب اور تالیف پایا ہے، جس کی مثل
تالیف پیش کرنے سے اہل عرب (عربی زبان کے ماہر، اہل زبان) عاجز آ گۓ۔ یہ
دلیل ہے اس بات کی کہ یہ قرآن اللہ کا ہی نازل کردہ ہے، اور جس پیغمبر پر
یہ نازل ہوا وہ سچا رسول ہے، جو شریعت وہ لے کر آیا ہے، انسان اسی کا محتاج
ہے اور اس کی اصلاح اور سعادت کی تکمیل اسی شریعت سے ممکن ہے۔
اوراہم بات یہ ہے کہ جس بارے میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے خاموشی اختیار کی
ہو۔ اس ویسے ہی قبول کر لینا بہتر ہے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------
آیت نمبر 2
ذٰلِكَ الکِتٰبُ لَا رَیبَ فِیہِ ھُدًی لِّلمُتَّقِینَ
ترجمہ: یہ وہ کتاب ہے نہیں کوئی شک اس میں، ھدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے۔
عربی میں کتاب کا لفظ لکھی ہوئی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کوئی کتاب،
خط، آسمانی کتابیں، صحیفے، لوح محفوظ۔
یہاں پر ال کا اضافہ کر کے تخصیص کر دی گئ ہے۔ الکتاب سے مراد یہاں قرآن
مجید ہے۔
ریب : ایسا شک جو دل میں کھٹکے، اضطراب اور بے چینی پیدا کرۓ۔
ھُدًی: لطف اور مہربانی سے کسی کی راہنمائی کرنا۔
متقین: تقویٰ والے
تقویٰ: بچنا، پرہیز کرنا ، کانشیس ہونا۔ کس سے؟؟ گناہوں سے۔
دنیا میں کوئی ایسا کلام نہیں ،کوئی ایسی کتاب نہیں ، چاہے وہ کسی علم کے
بارے میں ہو، چاہے وہ اس وقت موجود کوئی آسمانی کتاب ہی کیوں نہ ہو۔ جس کے
بارے میں کوئی کہے کہ یہ ۱۰۰ فیصد سچ ہے، درست ہے، اس میں کوئی بھی غلطی
نہیں۔ دنیاوی علوم کی کتابیں تو ایک طرف، الہامی کتابوں میں اس قدر تحریف
کر دی گئ ہے کہ اصل بات تو کہیں نظر نہیں آتی۔ خود ان کے عالم بھی اس بات
کو مانتے ہیں کہ جو چیزیں اس میں بیان کی گئ ہیں، حالات و وقعات کے بارے
میں، پیغمبروں کے بارے میں وہ کبھی ہوئیں ہی نہیں۔
صرف قرآنِ پاک ہی ایسی کتاب ہے جو خود اپنے بارے میں کہتی ہے کہ اس میں
کوئی شک نہیں ، کوئی شبہ نہیں، ۱۰۰ فیصد حق ہے۔ کیا؟؟؟ یہی کہ یہ اللہ کی
طرف سے ہے۔ اور جب یہ کنفرم ہو گیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے تو یہ بات خود
بخود طے ہو گئ کہ اس کے متن میں بھی کوئی کمی بیشی، کوئی کجی نہیں۔ اس میں
جو واقعات بیان کیے گۓ ہیں، ان کی صداقت میں، جو احکام اور مسائل بیان کیے
گۓ ہیں، ان سے انسانیت کی فلاح و نجات وابستہ ہونے میں اور جو عقائد بیان
کیے گۓ ہیں، ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔
آج کی سائنس کی ہر دریافت قرآن کے برحق ہونے کی دلیل ہے۔
تھیوری آف ایکسپنشن آف یونیورس: ۱۹۲۰ کے عشرے میں پیش کی گئ ، جس کے مطابق
یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔
قرآن نے ڈیڈھ ہزار سال پہلے ہمیں یہ بتا دیا۔ پارہ ۲۷، سورۃ الذاریٰت ، آیت
۴۷ ، " آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقینناً ہم اس کو وسعت
دینے والے ہیں"
بِگ بِینگ تھیوری سامنے آئی ۱۹۶۰ سے عشرے میں، اس کے مطابق پہلے یہ کائنات
ایک اکائی تھی، کسی ٹریگر کے ایکٹیویٹ ہونے کی وجہ سے ایک دھماکے کے نتیجے
میں زمین، آسمان وغیرہ وجود میں آۓ۔
اب قرآن کی طرف آئیں۔
پارہ ۱۷، سورۃ الانبیاء ، آیت ۳۰، " کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ
آسمان اور زمین باہم ملے ہوۓ تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا، اور ہر زندہ چیز
کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے۔"
پارہ ۷، سورۃ الانعام، آیت ۱۰۱، " وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اللہ کے
ہاں اولاد کہاں ہو سکتی ہے حالانکہ اس کی کوئی بیوی تو ہے نہیں اور اللہ نے
ہر چیز کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔"
پارہ ۲۳، سورۃ یٰسٓ ، آیت ۸۱-۸۲ " جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے،
کیا وہ ان جیسوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں، بیشک قادر ہے، اور وہی تو پیدا
کرنے والا دانا ہے (۸۱) وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما
دینا(کافی ہے) کہ ہو جا ، وہ اسی وقت ہو جاتی ہے"
سائنسدان آج تک اس ٹریگر کی کھوج میں ہیں۔ جو قرآن نے ڈیڑھ ھزار سال پہلے
بتا دیا۔
پودوں میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں، یہ پتا چلا ۱۷۹۰ میں۔
قرآن کھولیں۔ پارہ ۲۱، سورۃ لقمٰن، آیت ۱۰، " اسی نے آسمانوں کو بغیر ستون
کے پیدا کیا تم انہیں دیکھ رہے ہو، اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو ڈال دیا
تاکہ وہ تمھیں جنبش نہ دے سکے اور ہر طرح کے جاندار زمین پر پھیلا دیۓ اور
ہم نے آسمان سے پانی برسا کر زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اُگا دیۓ۔"
پارہ ۲۳، سورۃ یٰسٓ، آیت ۳۶، "وہ پاک ذات ہے جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے
خواہ وہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں، خواہ خود ان کے نفوس ہوں ، خواہ وہ
جنہیں یہ جانتے بھی نہیں۔"
جس وقت قرآن کا نزول ہوا ، اس وقت کس کوزمین پر ان علوم کے بارے میں خبر
تھی۔ کسی کو بھی نہیں۔ ایک واحد اللہ جو سب جانتا ہے، جو ہوا، جو ہو گا، جو
ہو رہا ہے، کیونکہ سب اسی کے تابع ہے، سب اس کا بنایا ہوا ہے۔
بیان کرنے بیٹھیں تو کبھی بات ختم نہ ہو، مگر یہ چند مثالیں کافی ہیں، اس
کتاب کے برحق ہونے میں، جو اللہ نے نازل کی، یعنی قرآنِ مجید، اور یہ اس
بات پر دلیل دے رہی ہیں کہ اس کتاب میں جو بھی ہے ،۱۰۰ فیصد سچ ہے، اس میں
کوئی بھی شک نہیں۔
قرآن اللہ کا کلام ہے، اللہ کی زبانی، حدیث بھی اللہ کی طرف سے ہے(پیغمبر
کوئی بات خود سے نہیں کہتا، سب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے) ، مگر پیغمبرﷺ کی
زبانی۔
اب باقی سب کتابوں کو ایک طرف کر کے قرآن اور حدیث کا موازنہ کریں۔ ہمیں
قرآن بھی نبی ﷺ نے پڑھ کر سنایا اور حدیث بھی۔ مگر جس کو تھوڑی سے بھی عربی
آتی ہے وہ دونوں کو دیکھ کر پہچان لے گا کہ اللہ کا کلام کون سا ہے۔ زبان،
لب و لہجہ دونوں کا بلکل مختلف ہے۔ ایک انسان اور اللہ کے کلام میں فرق
یہاں سے ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ پھر کسی کو بھی اس میں کوئی شک نہیں رہتا کہ
یہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اور اس کی سچائی میں کوئی شک نہیں۔
اب یہ اللہ کا کلام ، یہ حق بات ہم تک آئی کیوں؟؟ کیا ضرورت تھی؟؟؟ یہ نازل
ہوئی انسانیت کی فلاح کے لیے، انسان کی ھدایت کے لیے، یہ سب کو راستہ
دکھاتی ہے۔ سیدھا، سچا راستہ، جیس راستے کے بارے میں ہم نے سورۃ الفاتحہ
میں پڑھا۔ اب ہے تو یہ تمام بنی نوع انسانی کے لیے، مگر اس سے فائدہ کون
لیتا ہے؟؟؟ اس سے فائدہ صرف وہ اٹھاتے ہے۔ جو تقویٰ رکھتے ہیں۔ جو بچنا
چاہتے ہیں، اس دنیا میں گناہوں سے، اور آخرت میں عذاب سے۔ جو لوگ کانشیس
ہوتے ہیں اپنے امتحان کے متعلق ، امتحان کی تیاری کے متعلق۔ وہ ہی اس کتاب
سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
پارہ ۲۹، سورۃ الدھر، آیت ۲۹، " یقیناً یہ تو ایک نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے
رب کی راہ لے لے۔"
جو جس ارادے سے اس کے پاس جاۓ گا ، وہ وہی پاۓ گا۔ جس کا جتنا بڑا ظرف ہو
گا ، وہ اتنا ذیادہ پاۓ گا۔ ظرف کیا ہوتا ہے؟؟؟ یہ ظروف سے نکلا ہے، جس کا
مطلب ہے برتن، جو جتنا بڑا برتن لے کر دریا پر جاۓ گا وہ اتنا ذیادہ پانی
لے گا۔ جو ایک گلاس لے کر جاۓ گا، وہ ایک گلاس پانی ہی لے سکے گا، جو ایک
بڑا ڈرم لے کر جاۓ گا، وہ ڈرم بھر کر لے آۓ گا۔
تو اب سوال ہے کہ ہمارا کتنا بڑا ظرف ہے، ہم کتنا پانی لے سکتے ہیں۔
ہم اس کتاب سے چاہتے کیا ہیں، ثواب؟؟ فخر؟؟ علم؟؟ ھدایت؟؟ پس جو ہم لینا
چاہیں گے ہمیں وہ ہی ملے گا۔ سوچیں اللہ نے ہمیں بےشمار نعمتیں عطا کی ہیں،
ہر وہ چیز جو ہم چاہتے ہیں، ہمیں عطا کر دی گئ اور اتنا عطا کیا کہ ہم چاہ
کر بھی نہیں گن سکتے۔ جب کوئی ہمیں اتنا دے، مانگنے پر دے، بن مانگے دے،
بار بار دے، بے شمار دے، تو اس دینے والے کا کچھ مقصد تو ہو گا نا۔ وہ کچھ
تو ہم سے چاہتا ہو گا۔ تو اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟؟ اسے تو کسی چیز کی
ضرورت نہیں، وہ ہم سے چاہتا ہے کہ قرآن جو کہتا ہے ہم نے اس پر عمل کرتے
جانا ہے۔ نے جھجک عمل کرتے جانا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس میں کوئی
نقصان نہیں ، جب اللہ نے کہہ دیا کہ یہ کتاب سیدھی راہ کی طرف راہنمائی
کرتی ہے۔ اور پھر اللہ نے اسے کسی شک و شبہ سے بالاتر قرار دے دیا۔ تو ہم
پھر کس سوچ میں پڑے ہیں۔
اب ہمیں ھدایت چایئے تو وہ ہمیں کیسے ملے گی اس کتاب سے؟؟؟ ھداہت آتی ہے
تقوی سے، اور تقویٰ اندر کی کیفیت کا نام ہے، اور ہم سے ذیادہ (اللہ کے
سوا) کون جانتا ہےکہ ہمارے دلوں میں کیا ہے ؟؟؟ تو اپنا محاسبہ ہم نے خود
کرنا ہے۔ گناہوں سے بچنے کی تڑپ اور آخرت کے ایگزام کی تیاری کے متعلق
کانشیس ہونا تقویٰ ہے اور یہ ہمیں ہدایت تک لے جاۓ گا۔ انشاءاللہ تعالٰی
(جاری)
|
|