آبی وسائل کی تعمیر : ضرورت ِ وقت
(Maemuna Sadaf, Rawalpindi)
ارض ِوطن کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم
سے تمام موسموں سے نوازا ہے ۔ ان تمام موسموں کی خوبی ہے کہ بارش برستی ہے
، کسی موسم میں کم تو کسی میں زیادہ خصوصا مون سون کے موسم میں بارشوں کی
مقدار باقی موسموں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔ اگر سال بھر میں بارش کی مقدار
کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں تقریبا چار ماہ بارش ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ
موسم سرما میں شمالی علاقہ جات میں برفباری قدرتی پانی کو چھ ماہ کے لیے
محفوظ کر دینے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔یہ برف موسم گرما میں پگھلتی ہے جس کی
وجہ سے دریاؤں میں پانی کی کمی پوری ہو جاتی ہے لیکن مون سون کی بارشوں کی
وجہ سے ان دریاؤں میں طغیانی کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جس کی بنا پر
قریبی دیہات زیر ِ آب آ جاتے ہیں ،نہ صرف کھڑی فصلیں ، مویشی بلکہ گھر تباہ
ہو جاتے ہیں بلکہ جانی نقصان بھی ہوتا ہے ۔پچھلے دس برس میں کم و بیش ہر
سال سیلاب کی وجہ سے کروڑوں ڈالر کا نقصان ہو جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کسی سو
کیوسک پانی بحیرہ عرب میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے ۔ اگر ملک میں چند ایک بڑے
یا کم از کم کچھ چھوٹے ڈیم بنا دیئے جائیں تو نہ صرف دریاؤں میں طغیانی اور
سیلابی صورتحال سے دیہاتوں کو بچایا جا سکتا ہے بلکہ کئی سو کیوسک پانی کو
بحیرہ عرب میں ضائع ہونے سے بھی بچایا جا سکتا ہے ۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملکی مسائل کو سیاسی رنگ دے دیا
جاتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال کالا باغ ڈیم کی ہے ۔ کالا باغ ڈیم کی
تعمیر کی کاغذی کاروائی پر کروڑوں ڈالر لگا دئیے گئے ، کئی کالم لکھے گئے ،
کانفرنسیں منعقد کی گئی لیکن عملی طور پریہ ڈیم سیاست کی نذر ہو گیا ۔ تمام
جماعتیں چاہے وہ آمریت ہو یا جمہوریت اس ڈیم کے نام پر سیاست چمکائی گئی
اور ایک ملکی ترقی کے منصوبے کو سیاسی رنگ دے کر پایاء تکمیل سے روک دیا
گیا ۔ کالا باغ ڈیم ایسا منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے ملک میں پانی کو ذخیرہ
کرنے کی صلاحیت تقریبا دو گنا ہوجائے گی ۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اگر جائزہ
لیا جائے تو اس صورت میں بھی یہ ڈیم ملک کی ترقی کے وسیع تر مفاد میں ہے ۔صرف
کالا باغ ڈیم ہی نہیں کسی حکومت نے چاہے وہ صوبائی ہو یا وفاقی پانی کے
ذخائر بنانے جیسے اہم معاملہ پر توجہ نہیں دی۔ اس کی مثال قدرتی طور پر
عطاء آباد کے مقام پر وجود میں آنے والی میٹھے پانی کی جھیل بھی ہے ۔قدرتی
طور پر تخلیق ہونے والی عطاء آباد جھیل کو ڈیم بنانے کی بجائے اس جھیل کو
اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا ۔اس وقت کی حکومت سے لے کر آج تک کی حکومت تک
کسی بھی حکمران نے اس جھیل کو ڈیم بنانے کے لیے اقدامات نہیں کئے حالا
نکہاس جھیل کا قدرتی طور پرجغرافیہ ایسا ہے کہ اگر اس جھیل پر ڈیم بنایا
جائے تو ا س ڈیم پر بہت کم لاگت آئے گی ۔صرف یہی نہیں مختلف مقامات پر
چھوٹے ڈیم بنا کر پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے ۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں
پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف ایک ماہ کے لیے ہے جو کہ ایک بہت بڑا خطرہ
ہے ۔ صرف یہی نہیں پاکستان کے ساتھ ازلی خار کو نبھاتے ہوئے بھارت کی آبی
جارحیت نے ملک میں پانی کی قلت کا خطرہ پیدا کر دیا ہے ۔ بھارت کی جانب سے
آئے دن ایسے اعلانات کئے جاتے ہیں جن میں سندھ طاس معاہدے کو توڑ دینے اور
پاکستان کا پانی روک دینے کی دھمکیا ں دی جاتی ہیں ۔ ایک طرف تو آبی قلت کا
خطرہ اور دوسری طرف بجلی کا بحران ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔بجلی
کے اس بحران کی وجہ سے گھریلو صارفین اورصنعتی مالکان کو شدید مشکلات کا
سامنا کر نا پڑ رہا ہے ۔ بجلی کا بحران ختم کرنے کا دعوی ٰ کرنے والی جماعت
آج تین سال کی حکومت کے بعد بھی اس بحران میں کمی تک نہیں کر پائی ۔لوڈ
شیڈنگ جوں کی توں ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ زراعت کا شعبہ ڈیم نہ بننے کی وجہ
سے مسلسل متاثر ہو رہا ہے ۔ موسم گرما میں پانی کی کمی جبکہ مون سون میں
سیلاب کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے ۔ اس طرح زراعت سے تعلق رکھنے
والے خاندانوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہیہے ۔پانی کی کمی وجہ سے
زرعی برآمدات میں بے انتہا کمی واقع ہو ئی ہے ۔ ا ن تمام مسائل کی بنیادی
وجہ ملک میں پانی کے ذخائر کی کمی ہے ۔ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود
ملک میں منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کسی بڑے
ڈیم کی تعمیر نہیں کی گئی اور نہ ہی چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں ۔سال ۱۰۱۲ء
میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ تربیلا ، منگلا اور چشمہ
میں مٹی کی تہہ جمع ہو جانے کی وجہ سے ان ڈیموں میں پانی جمع کرنے کی
صلاحیت پانچ لاکھ فٹ تک کم ہو چکی ہے ۔ ان ڈیموں کی صفائی بھی اسی وقت ممکن
ہے جب نئے ڈیم بنائے جائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ڈیم بارشوں کے موسم میں
یا موسم گرما میں پہاڑوں سے برف پگھلنے کی صورت میں پیدا ہونے والی سیلابی
صورت حال سے شہروں اور دیہاتوں کو بچانے میں ناکام رہتے ہیں ۔ اگرچہ ملکی
اور سیاسی سطح پر اس معاملے پر بے تحاشا بحث و مباحثہ ہو ا ہے تاہم عملی
طور پر کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا ۔۔اگر حکومت اور اپوزیشن کا ملکی معاملات
میں یہی رویہ رہا اور ڈیموں کی تعمیر کو پس ِ پشت ڈالا جاتا رہا تو پانی کی
کمی اور سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو بجلی ، پینے کے صاف پانی کے بحران کے
ساتھ ساتھ خوارک کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ۔
اگر پورے براعظم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات قابل ِ غور ہے کہ پاکستا ن
اور بھارت کے معرض ِ وجود میں آنے کے بعد بھارت نے کم و بیش سو ڈیم تعمیر
کئے لیکن پاکستان میں بس صرف اور صرف کاغذی کاروائیاں ہوئیں ۔ ملکی معاملا
ت کو سیاسی معاملات بنا کر سرخ فیتے والی فائلوں میں دفن کر دیا گیا ۔ یہی
وجہ ہے کہ جب پاکستان بھارت کے متنازعہ ڈیم کا کیس عالمی سطح پر اٹھا تا ہے
اس وقت پاکستان کی پوزیشن نہایت کمزور ہوتی ہے ۔
حال کی ایک خوش کن خبر یہہے کہ اب دیا میر بھاشا ڈیم بنایا جائے گا ۔ یہ
ڈیم سی پیک کا حصہ ہو گا جس کی لاگت سولہ ارب ڈالر ہو گی اور یہ ڈیم آٹھ
سال کی مدت میں مکمل ہو جائے گا ۔ دیا میر بھاشا ڈیم کے لیے چھپن ارب روپے
میں اڑتالیس ہزار ایکڑ اراضی حاصل کر لی گئی ہے ۔یہ ڈیم گلگت بلتسان کی
تحصیل دیامیر کے علاقہ بھاشا میں دریائے سندھ پر بنایا جائے گا ۔اس ڈیم سے
۴۵۰۰ میگا واٹ بجلی بنائی جا سکے گی ۔یہ ڈٰیم دنیا کا سب سے بلند ار سی سی
ڈیم ہو گا۔ اس ڈیم کی تعمیر تربیلا ڈیم کی زندگی ۳۵ سال تک بڑھا دے گی ۔ یہ
ڈیم دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب سے کئی دیہاتوں کو محفوظ رکھے گا ۔ اس
ڈیم کی تعمیر سے پینے کے پانی کی کمی اور فصلوں کی سیرابی میں بھی مدد ملے
گی ۔ اس ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ ایک خوش آئیند خبر ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں پانی کے ذخائر بنانے کے لیے وسائل بھی
موجود ہیں۔پاکستان کا جغرافیہ ، قدرتی طور پر بارشیں ، پہاڑوں پر موجود
برف، دریاؤں میں پانی کی مناسب مقدار ، یہ تمام وسائل پانی کی کمی کو پورا
کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ اگر دو چار بڑے ڈیم یا چند ایک چھوٹے ڈیم بنا دئیے
جائیں تو پاکستان میں موجود پانی اور بجلی کے بحران کو ختم کرنا ممکن ہو
جائے گا ۔ |
|