معیشت کے شب وروز

معیشت میں بہتری تو واضح طورپر نظر آرہی ہے۔سٹاک ایکسچینج سے بھی اچھی خبریں آتی رہتی ہیں۔آخری خبریہ تھی کہ 100۔انڈکس نے پچاس ہزار پوائنٹ کی حد عبور کرلی ہے۔سٹاک ایکسچینج میں بہتری معاشی ترقی کا مثبت اشارہ شمار ہوتی ہے۔سٹاک ایکسچینج میں بیٹھے ہوئے لوگ بہت خوش نظرآتے دکھائے گئے۔دوسرے ممالک کے لوگ بھی یہاں آکر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ایک دن پہلے عوام کو سفری سہولتیں پہنچانے کے لئے ملتان میٹروبس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔اس سے یہ تاثر ختم ہوا کہ تخت لاہور والے صرف اور صرف لاہور کے بارے سوچتے ہیں۔یہ تاثر اس وقت زیادہ شدت سے قائم ہواتھا۔جب لاہور میٹروبس کے بعد لاہور اورینج ٹرین پر کام تیزی سے شروع ہوا تھا۔ایک ماہ پہلے چشمہ نمبر3 نیوکلئیر پاور پلانٹ کا افتتاح بھی جناب نواز شریف صاحب نے فرمایاتھا۔بلوچستان میں سی پیک کے تحت بہت سی سڑکیں مکمل ہوچکی ہیں اور باقی پر کام جاری ہے۔گوادر بندرگاہ پر بہت سے منصوبے پائیہ تکمیل کو پہنچنے والے ہیں۔چین اور پاکستان دونوں اس طرف توجہ کئے ہوئے ہیں۔ایک کام جو گوادر میں نہیں ہورہا وہ گوادر کے آبائی لوگوں کو سہولیات بہم پہنچانے کا ہے۔یہ لوگ ابھی تک صاف پانی،بجلی اور رہائشی سہولیات سے محروم ہیں۔پرانے آباد لوگ تعداد میں بھی صرف پچاس ہزار ہیں۔وفاقی حکومت کو انکی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔بجلی کے وہ پروجیکٹس جو آج سے 2تا3سال پہلے شروع کئے گئے تھے۔وہ اب تکمیل کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔حکومت کی طرف سے قادر پور(ساہیوال) پروجیکٹس کے لئے کوئلے کا بحری جہاز کراچی آچکا ہے۔ریلوے کے طاقتور انجن کوئلے کو کراچی سے ساہیوال لانے کے لئے امریکہ سے پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔لگتا ہے کہ قادر پور پروجیکٹ جلد ہی بجلی پیداکرنا شروع کردے گا۔ایسے ہی ابن قاسم پورٹ پر لگنے والے2کول پاور پروجیکٹس بھیکی(شیخوپورہ) حویلی بہادر شاہ(جھنگ) اور تھر کول پاور پروجیکٹس بڑی تیزی سے مکمل ہوتے نظر آرہے ہیں۔حب کو(جامشورو) اور بلوچستان میں سی پیک کے تحت شروع کئے جانے والے پاور پروجیکٹس پر کام تیزی سے جاری ہے۔پاکستان کی ریاست کو درپیش 2مسائل میں سے ایک دہشت گردی تھا۔جسے فوج نے قربانیاں دیکر کافی حد تک حل کرلیا ہے۔دوسرا مسٔلہ جو پاکستانی معیشت کے لئے تباہ کن تھا۔وہ لوڈشیڈنگ کاتھا۔2018ء کے شروع میں یہ بھی اب مکمل طورپر حل ہوتا نظر آ رہا ہے۔جب بجلی اور گیس کارخانوں کو تسلسل سے اور سستی ملے گی۔معیشت میں اٹھان اسی وقت ہوگی۔معیشت میں Positivityبڑے پیمانے پر نظر آرہی ہے۔وزیراعظم نے صنعتوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے180۔ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا ہے۔امید ہے کہ ٹیکسٹائل اور دوسری صنعتوں میں اب بہتری پیداہوجائیگی۔اس پیکج کا اعلان بہت دیر بعد ہوا ہے۔100۔ٹیکسٹائل یونٹس کی بندش کی خبریں اب عام ہوچکی ہیں۔اب یہ دیکھنے کی بات ہے کہ درج بالا پیکج سے کتنے کارخانوں کے حالات میں بہتری آتی ہے۔موجودہ مالی سال کے شروع میں درج ذیل ٹارگٹ طے کئے گئے تھے۔جی۔ڈی۔پی = 5.7فیصد،زراعت = 3.5فیصد،صنعت= 7.7فیصد اور سروسز سیکٹر کی شرح نمو5.7=فیصد۔یہ تمام ٹارگٹ گزشتہ مالی سال 2015-16ء کی نسبت زیادہ تھے۔ایسے ہی 2016-17ء کے لئے بچت میں16.06فیصد اور سرمایہ کاری17.7فیصد طے کی گئی تھی۔یہ ٹارگٹ حاصل ہوتے ہیں یا نہیں سال ختم ہونے کے بعد انکا صحیح پتہ چلے گا۔زراعت کی پیداواریں گزشتہ سال کی نسبت بہتر نظر آرہی ہیں۔شرح نمو اس شعبہ میں منفی سے مثبت ہونے کا قوی امکان ہے۔5.7۔فیصد جی ۔ڈی۔پی۔ گروتھ ریٹ بہت ہی اونچا ہے۔گزشتہ سال کے4.7فیصد پر بھی معیشت دانوں نے اعتراضات کئے تھے۔آزاد تحقیقاتی اداروں کے مطابق شرح نمو گزشتہ مالی سال میں3.5۔فیصد تھی۔ابھی معیشت میں اتنی جان نہیں ہے۔کہ سال کے آخر میں5.7۔فیصد کی شرح نمو حاصل کرلے۔صرف اور صرف زراعت میں بہتری ہے۔صنعت کی طرف سے کوئی بڑی خوش خبری ابھی سننے میں نہیں آتی۔البتہ کچھ پرائیویٹ صنعت کاروں نے کمرشل بنکوں سے رابطہ کرنا شروع کردیا ہے۔سی پیک کے تحت ہونے والی تمام سرگرمیاں ابھی انفراسڑکچر کے شعبہ میں ہیں۔جس کے اثرات شرح نمو پر دیرکے بعد پڑتے ہیں۔موجودہ سال کی پہلی سہ ماہی میں صنعت کاروں نے باہر سے مشینری ضرور منگوائی ہے۔ابھی تک باہرسے بڑے پیمانے پر سرمایہ آنا شروع نہیں ہوا۔جولائی تا نومبر2016ء تک489۔ملین ڈالر باہر سے آئے ہیں۔اسے پاکستان جیسے بڑے ملک کے لئے مونگ پھلی ہی کہا جاسکتا ہے۔حکومت اپنے اخراجات پر حد نہیں لگاسکی یا ہم اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ٹیکس وصولیاں کم ہیں۔دسمبر تک حکومت ملک کے اپنے مالیاتی اداروں سے452۔ارب کے قرض لے چکی ہے۔یہ رقم گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے سے دگنے سے بھی زیادہ ہے۔اور باہر سے قرض اب 73۔ارب ڈالر ہوچکا ہے۔یہ قرض کیسے واپس ہوگا بات سمجھ نہیں آتی۔اندرونی اور بیرونی قرض ریاست پاکستان پر اب جی۔ڈی۔پی کے 65فیصد کے برابر ہوچکا ہے۔اسے خطرناک صورت حال ہی کہا جا سکتا ہے۔برآمدات بھی گزشتہ سالوں میں25ارب ڈالر سے کم ہوکر19.5ارب ڈالر ہوچکی ہیں۔موجودہ مالی سال میں برآمدات کا ٹارگٹ 24ارب ڈالر طے کیاگیا ہے۔لیکن یہ حاصل ہوتا نظر نہیں آتا۔ہماری فی کس آمدنی صرف1474۔ڈالر فی کس ہے۔جو بے شمار ملکوں سے کم ہے۔پاکستان میں بے روز گاری کی شرح کل لیبر فورس کا 6 فیصد ہے ۔یہ اونچے درجے کی شمار ہوتی ہے۔اس میں کمی ہوتی نظر نہیں آتی۔ہمارے ملک میں لوگ کل کتنے رہتے ہیں اس کاکسی کو بھی پتہ نہیں۔اﷲکرے مارچ2017ء سے شروع ہونیوالی آبادی کی گنتی کا عمل مکمل ہوجائے۔یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان سے آتے ہوئے مہمانوں کو اب واپس بھیجا جائے۔36۔سال مہمان نوازی کے لئے کوئی تھوڑی مدت ہے۔؟۔صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں آبادی کی گنتی کا صحیح اندازہ کثیر تعداد میں موجود مہمانوں کی موجودگی میں ناممکن ہے۔IMF اور Word bank نے ہمارے ملک کے لئے موجودہ مالیاتی سال کے لئے اچھی پیشن گوئیاں کررکھی ہیں۔لیکن قرض دینے والے یہ ادارے تو پہلے بھی یہ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ وابستہ رہو۔کشکول ہمارے سامنے پیش کرتے رہو اور ہم کچھ نہ کچھ اس میں ڈالتے رہیں۔IMFسے تو اب ہمیں مستقل چھٹکارہ حاصل کرناچاہیئے۔جیسا کہ ہم نے دیکھا معیشت میں مثبت اور منفی دونوں رجحان پائے جاتے ہیں۔منفی کو مثبت میں بدلنے کو کوشش ہمیں جاری رکھنی چاہیئے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.