بہشتی

یہ کوئی پچیس برس پرانی بات ہے۔
جب ہمارے کان نت روز نئی باتوں اور نئے الفاظ سے آشنا ہونا شروع ہوئے تھے۔ہم ان الفاظ کو اپنے تئیں روز مرہ گفتگو میں شامل کرنے کی کوشش کرتے۔ ایسی ایک روداد آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا:

"تمہارے دادا "بہشتی" بہت دلیر انسان تھے "
تائی جان کہہ رہی تھیں، اور میرے کانوں میں ایک نیا لفظ"بہشتی" آن وارد ہوا۔ یہ بہشتی کیا ہوتا ہے؟ بہت ذہن دوڑایا، لیکن سمجھ تھی کہ آن کے نہیں دے رہی تھی۔اسی شش و پنج میں کئی دن گزر گئے ۔ایک دن سکول میں ایک طالب علم نے دوسرے کو گالی دینے والے انداز میں کہا :
’’تم کوئی خاندانی آدمی تو نہیں ہو ساری عمر تو تمہارے بڑے بہشتی گیری کرتے رہے ہیں‘‘
سامع لڑکے کی غصہ کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہو گئیں اور گال تمتمانے لگے اور پھر جو ہوا سو ہوا ، لیکن میرے ذہن کی پرواز کا رخ کسی اور جانب مڑ گیا ۔
’’کیا تائی ماں نے دادا جان کو گالی دی ہے؟ یہ انہوں نے کیا گھٹیا حرکت کر دی؟ ہمیں روکتی اور خود یہ منحوس کام سرانجام دیتی ہیں؟ ‘‘
تائی ماں کا سلسلہ نہ رکنے والا تھا ،وہ ہر روز بڑھتی چلی گئیں ۔
کبھی کسی کو بہشتی، کبھی کسی کو بہشتی۔پھر تائی ماں کے ساتھ ساتھ دوسرے بھی شریک ہوتے گئے۔
میں تیسری جماعت میں تھا جب تایا جان اس دنیا سے کوچ کر گئے،بس پھر کیا تھا؟ ہر روز بات بات پر انہیں بہشتی بنا دیا جاتا۔اور میرے تن بدن میں چنگاریاں اٹھنے لگتیں۔
’’خدایا! ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ مرے ہوئے کو بھی نہیں بخش رہے؟ ‘‘
ٹھیک ایک سال بعد ہمارے ایک اور عزیز اس دنیا سے رخصت ہوئے، اور یہی لاحقہ ان کے نام کے ساتھ بھی جا لگا۔جونہی کوئی آس پڑوس میں فوتگی ہوتی، وہ بندہ اسی نام سے پکارا جاتا مثلاً:
سکینہ نے بڑے اچھے دن ہمارے ساتھ بتائے، بہشتن محض 12 سال کی تھی جب بیاہ کر ہمارے محلے میں آئی۔یا نور محمد بہشتی بڑا نیک آدمی تھا وغیرہ وغیرہ ۔
ایک دن یہ کھلی دہشت گردی ہمیں منظور نہ رہی اور تائی ماں سے پوچھ بیٹھا:
’’تائی ماں! آپ کب بہشتی ہوں گی؟‘‘
بس پھر کیا تھا؟
نجانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔
عرصہ دراز تک اگر یہ لفظ ذہن میں کلبلانے کی کی کوشش بھی کرتا تو زبردستی اسے دبا دیتا۔پھر بھی کبھی کبھی جب بہشتی ذہن میں گھستا تو ایک لمحے کے لیے سوچتا آخر یہ کون سی بلا ہے کہ اگر میں کہوں تو مجرم اور دوسرے کریں تو کوئی بات ہی نہیں؟
ایک دفعہ سائیکل کے ڈنڈے پر بیٹھا اسی سوچ میں گم تھا کہ اپنے ڈرائیور (اپنے کزن، جو کہ سائیکل چلا رہا تھا، اور ذہانت کے اعتبار سے ضرب المثل تھا) سے پوچھ بیٹھا کہ ’’بھائی! یہ بہشتی کیا ہوتا ہے اور تائی ماں اپنے آپ کو یا کسی اور کے بارے میں مجھے بہشتی کیوں نہیں کہنے دیتیں؟‘‘
اس نے کہا : ’’تو نے کسے بہشتی کہا؟‘‘
میں نے کہا :
’’کل آپ کو سکول سے واپسی پر دیر ہو گئی تھی اور تائی ماں نے پوچھا تھا کہ تمہارا بھائی ابھی تک سکول سے کیوں نہیں آیا؟ ‘‘
میں نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا کہ
’’وہ بہشتی شاید راستے میں کھیلنے لگ گیا ہوگا‘‘
ابھی میری بات مکمل ہونے میں چند حروف باقی تھے کہ کزن کا زناٹے دار تھپڑ میری کمر پر نشان ثبت کر گیا
’’ارے بے وقوف تو مجھے ابھی سے بہشتی کرنا چاہتا ہے؟‘‘
شدت جذبات سے میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور دل کی حسرت دوبارہ دل ہی میں رہ گئی۔ اگلے دن سکول جانا ہوا
لڑکے کسی ’’بہشتی موری‘‘ کی بات کر رہے تھے ۔راقم الحروف کان لپیٹ کر سائیڈ پر ہو گیا۔مبادا پھر کہیں سزا بھگتنی پڑے؟
پھر یوں ہوا کہ بندہ نے مندرجہ بالا حروف ذہن سے حرف غلط کی طرح مٹا ڈالے۔
جو بھی ہو ہمیں کیا؟ کوئی بہشتی ہو نہ ہو؟
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ہمارے علم میں اضافہ کا سبب کون بنا؟ تو لیجئے وہ بھی بتائے دیتے ہیں ۔ ساتویں جماعت کے اسلامیات کے استاذ صاحب نے ایک لڑکے پر جملہ چست کرتے ہوئے درج ذیل شعر پڑھا :
نکلنا بہشت سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
شعر غلط تھا یا درست؟ استاذ جی کو خلد یا بہشت کے استعمال کا علم تھا یا نہیں؟ لیکن ہمیں دو فوائد دے گیا۔
ایک تو شعر یاد ہو گیا
نمبر دو:ذہن میں جھماکا ہوا
بہشت، بہشتی بہشتن
یہ ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں۔
یعنی جو فوت ہو گیا اسے بطور دعا بہشتی کہا جاتا ہے
اللہ تائی ماں بہشتن کو جنت الفردوس عطا فرمائے ۔ انہیں مجھے اس لفظ کا معنی فورا بتا دینا چاہئے تھا۔ اب تو انہیں گزرے سات سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔
Abdul Saboor Shakir
About the Author: Abdul Saboor Shakir Read More Articles by Abdul Saboor Shakir: 53 Articles with 89687 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.