شہاب دین سارا دن دفتر میں صاحب کی چاکری
کرتا۔ وہاں سے ایک مل مالک کے گھر جاتا۔ ان کا سودا سلف لاتا یا کوئی اور
کام ہوتا تو وہ انجام دیتا۔ کبھی آٹھ بجے تو کبھی دس بجے وہاں سے خلاصی
پاتا تو گھر آتا۔ اس وقت اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ سا گیا ہوتا اور اسے آرام کی
اشد ضرورت ہوتی۔ مگر کہاں‘ گھر آتا تو کوئی ناکوئی گھریلو رپھڑ اس کا
انتظار کر رہا ہوتا۔ اسے نپٹانے میں اچھا خاصا وقت اٹھ جاتا۔ گھر والی اس
سے بےنیاز تھی کہ وہ سارا دن کتنی مشقت اٹھاتا ہے۔ گھر کی دال روٹی چلانے
کے لیے اسے کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔
اس روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس نے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ زکو
اپنے دانت درد کا سیاپا لے کر بیٹھ گئی۔ اس نے بڑے تحمل سے کہا۔ کاکے کو
ساتھ لے کر ڈاکٹر سے دوا لے آنا تھی۔ ابھی ایک پیراسیٹامول کی گولی لے لو
اور ساتھ میں اچھی طرح حکیم صاحب والا منجن کر لو۔ مجھے کھانے کو کچھ دو
سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ تمہیں کھانے کی پڑی ہے ادھر میں درد سے مر رہی ہوں۔
وہ بڑ بڑ کرتا ہوا صبر شکر کرکے بھوکا ہی چارپائی پر لیٹ گیا۔ تھکا ہوا تھا
سخت بھوک کے باوجود نیند نے اس کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ چوں کہ پیشاب کرکے
نہیں سویا تھا اس لیے اسے آدھی رات کو اٹھنا پڑا۔ زکو گہری نیند سو رہی تھی
لہذا اس نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا اور دوبارہ آ کر لیٹ گیا۔
صبح ٹھیک ٹھاک اٹھی بچوں کو کھلا پلا کر سکول بھیج دیا۔ پھر خود بھی پیٹ
بھر کر کھایا۔ وہ بھی اتنی دیر میں کام پر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ناشتہ
پانی دینے کی بجائے دانت کا درد لے کر بیٹھ گئی۔ کہنے لگی ساری رات درد سے
سو نہیں سکی‘ حالاں کہ وہ خراٹے بھری نیند سوئی تھی۔ وہ خود ہی رسوئی میں
گھس گیا۔ بھوک نے اسے نڈل کر دیا‘ جو ہاتھ لگا کھا لیا۔ وہ متواتر بولے جا
رہی تھی۔ اس نے کام پر جاتے ہوئے کہا: ڈاکٹر کے پاس جا کر دوائی لے آنا۔
دانت کا درد سخت تکلیف دیتا ہے۔ پیسے تمہارے پاس ہیں ہی۔ اس کے بعد کوئی
جواب سنے بغیر کام پر چلا گیا۔ اسے زکو کی اس حرکت پر کوئی غصہ نہ آیا‘
کیوں کہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی روز کا رونا تھا۔
رات کو جب گھر لوٹا تو اس نے پوچھا: دوا لائی ہو۔
اس نے جوابا کہا: نہیں لائی‘ دانت میں سخت درد ہو رہا ہے۔
کیوں نہیں لائی‘ لانا تھی۔ خواہ مخواہ درد برداشت کر رہی ہو۔
لگتا ہے دانت نکلوانا پڑے گا۔
کیوں نکلواتی ہو‘ دانت دوبارہ تو نہیں اگے گا۔ کھانے پینے میں دشواری ہو
گی۔
باطنی طور پر وہ چاہتا تھا کہ نکلوا ہی لے چلو چار دن تو اس کے منہ کو چپ
لگے گی۔ پھر وہ اس سے جعلی ہم دردانہ بحث کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ جس
کام سے وہ منع کرئے گا زکو وہ کام کرکے ہی رہے گی۔ کافی دیر بحث کرنے کے
بعد اس نے کہا چلو جس طرح مناسب سمجھتی ہو‘ کر لو۔
اچھا تو کل میں گاؤں جاتی ہوں وہاں سے دانت نکلواتی ہوں۔ ہمارے گاؤں کا
ڈاکٹر بڑا سیانا ہے۔
دلی طور پر وہ چاہتا تھا کہ چلی ہی جائے چار دن تو سکون کے کٹیں گے۔ دانت
نکلوا کر آئے گی تو بھی دو ایک دن اس کے منہ کو سکون رہے گا۔
اس نے کہا: شہر چھوڑ کر گاؤں جاتی ہو۔۔۔۔ نہیں نہیں یہاں ہی سے نکلوا لو یا
ڈاکٹر کو دیکھا لو جو مشورہ دے گا کر لینا۔
اسے دوبارہ سے ناٹک کرنا پڑا۔ وہ گاؤں جانے پر اڑی رہی۔ پھر اس نے کہا اچھا
جیسے تمہاری مرضی کر لو۔
وہ اپنی جیت پر خوش تھی۔ حالاں کہ جیت اسی کی ہوا کرتی تھی۔ اگلے دن صبح
صبح ہی وہ گاؤں جانے کے لیے بچوں سمیت تیار ہو گئی۔ کام پر جاتے ہوئے اس نے
کہا گھر کی چابی خالہ رحمتے کو دے دینا۔
زکو گاؤں میں پورا ہفتہ گزار کر آئی۔ اس نے گھر آتے ہی اس سے دانت کے متعلق
پوچھا۔ تمہیں اس سے کیا۔ تم کون سا میرا پوچھنے گاؤں آ گئے تھے۔ اس نے ہفتہ
عیش اور مرضی کا گزرا تھا۔ دانت اس نے نکلوایا یا نہیں نکلوایا وہ یہ نہ
جان سکا ہاں البتہ اس نے اس کی کوتاہی کی پاداش میں ہفتہ بھر کی یک مشت کسر
نکال دی اور اسے چوں تک کرنے کا موقع فراہم نہ کیا۔ |