حکم عدولی لوکانہ

زندگی جو جیسی تھی‘ چل رہی تھی۔ ہر کوئی اپنے کام میں مگن تھا۔۔ گریب‘ گربت عسرت بےبسی بےچارگی اور تنگی ترسی‘ چودھری بلامشقت عیش وعشرت اور مولوی صاحب مذہبی مسلے مسائل سنا کر چوپڑی کھانے میں مصروف تھے۔ کوئی معاملہ الجھ جاتا تو چودھری کے ڈیرے پر چلا جاتا اور وہاں سے اپنے بندے انصاف لے کر خوشی خوشی اور جیت کے نشے میں گھر لوٹتے۔ کوئی الجھاؤ کی گھمیر صورت نہ تھی۔

ہر کسی کا شخصی اسٹیٹس طے تھا۔ صدیوں سے چودھری زمین کا مالک تھا‘ باقی اس کے کامے یا پھر کچھ کمی تھے۔ مراسی باطور ڈاکیا اور ایلچی اپنے فرائض انجام دیتا تھا۔ مولوی صاحب مذہبی امور اپنی مرضی اور اپنے سلیقے سے طے کرتے تھے۔ مائی صاحبہ بچوں کو چار دیواری میں تعلیم دیتی تھیں۔ گویا زندگی سالوں سے ایک ہی ڈگر پر چلی آ رہی تھی۔

چھوٹی موٹی زمینی و سماوی آفاتیں ٹوٹتی رہتی تھیں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ان سے نپٹتے رہتے تھے اور اپنی بسات میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے۔ کچھ مجبوروں کی مجبوری سے فائدہ بھی اٹھاتے۔ چودھری اپنوں اور جوان بیٹیوں اور بہنوں والوں کی مدد کرتا۔ باقی لوگوں کو تسلی تشفی دیتا۔ اپنے حریفوں یا بدتمیزوں کی مالی اور زبانی خوب لہہ پہہ کرتا۔ مولوٰی صاحب دعا وغیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کے گناہوں کی یاد دلاتے۔ اکثر فرماتے یہ سب شامت اعمال ہے۔ تمہارے کیے کے جرم میں یہ عذاب اترا ہے۔ توبہ کرو صدقہ خیرات کرو اور اللہ کے گھر کی خوب خدمت کرو تا کہ تم پر آسمان سے آسانیاں نازل ہوں۔

وہ مصیبت یا عذاب سے زیادہ قیامت تھی۔ اس ہڑ کے سبب لوگ پریشانی اور افراتفری میں گھر گئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ لوگوں کو اشیا سے زیادہ جان کی فکر تھی۔ جان بچ گئی تو یہ چیزیں دوبارہ سے بن جائیں گی۔ جان ہی نہ رہی تو چیزوں کو سر میں مارنا ہے۔

چودھری کو اپنی پڑی تھی وہ کسی اپنے بندے کی کیا مدد کرتا۔ آخر سب جڑ کر مولوی صاحب کے پاس گئے کہ دعا کریں کہ آسمان سے آسانیاں نازل ہوں۔ مولوی صاحب کے اپنے ہاتھوں کے توتے اڑے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ تم سب اللہ کو ماننے والے ہو بسم اللہ شریف پڑھو اور پانی میں قدم رکھو اور اس کی برکت سے دوسرے کنارے پر پہنچ جاؤ۔

چودھری سمیت سب نے مولوی صاحب کے کہے پر عمل کیا اور اللہ کے فضل وکرم اور احسان سے‘ سلامتی کے ساتھ دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ انہیں کچھ بھی نہ ہوا‘ حالاں کہ دریا سب کچھ مٹا دینے پر تلا ہوا تھا۔ اللہ کے کلام اور اللہ پر کامل یقین ہونے کے سبب وہ ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔

مولوی صاحب ان میں نہ تھے۔ لوگ پریشان ہوئے کہ اتنا نیک اور اللہ کا بندہ ان کے ساتھ نہیں ہے۔ انہوں نے دیکھا مولوی صاحب اپنے بیوی بچوں سمیت چودھری کی رہائش گاہ کی تیسری منزل پر کھڑا تھا۔ انہوں نے مولوی صاحب کو آوازیں دی کہ آپ بھی اللہ کو یاد کرکے بسم اللہ شریف پڑھ کر آ جائیں۔ مولوی صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر ایک قیامت خیز لہر ابھری اور گاؤں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ ہاں البتہ مولوی صاحب کا بڑا بیٹا باپ کی حکم عدولی کرکے گاؤں والوں کے ساتھ آ گیا تھا۔

 
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 192855 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.