موجودہ دور میں فلمیں انسان کی تفریح کا سب بہترین
ذریعہ ہیں۔پردے پہ نظر آنے والے فلمی اداکاروں کے علاوہ بہت سے فن کار
فلموں میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیں پردے پر نظر نہیں آتے ،جیسے اسکرپٹ
رائیٹر،پروڈیوسر،گیت کار ،موسیقار اورگلو کاروغیرہ۔ جن کے بغیر فلم کا تصور
نا ممکن ہے۔ان کی اہمیت فلموں میں اتنی ہی ہے جتنی کہ پردے پہ نظر آنے والے
اداکاروں کی۔پردے کے پیچھے کام کرنے والوں میں گلوکار بھی شامل ہیں۔ فلمی
نغمے گانے والے کو پسِ پردہ گلوکار کہتے ہیں۔ گلوکار پردے کے پیچھے گلو کار
ی کا کردار نبھاتے ہیں اور ان کے گائے ہوئے نغمے اداکاروں کے لیے فلمائے
جاتے ہیں۔ یعنی اداکاروں کے لیے پسِ پردہ گلوکاروں کی آواز استعمال کی جاتی
ہے۔
ہندوستانی فلمی نغمے گانے والے یاپس پردہ عرف پلے بیک سنگرس(Play Back
Singars) کے بغیر فلم مکمل ہونانا ممکن ہے۔ ہندی فلم کے مشہورگلو کاروں میں
کشور کمار،محمد رفیع ، جگ جیت سنگھ،دلیر مہندی ،آشا بھونسلے، الکا
یاگنک،کمال حسن،لتا منگیشکر، سونو نگم ، راحت فتح علی خان،ریکھا
بھردواج،سونیدھی چوہان، عدنان سامی ،طلعت محمود ،سمیت بے شمار نام ایسے ہیں
جو گلو کاری کی دنیا میں اپنی شناخت تسلیم کروا چکے ہیں۔ اسی فہرست میں ایک
بین الاقوامی شہرت یافتہ نام سکھ ویندر سنگھ کا بھی ہے۔
سکھ ویندر سنگھ کا نام ہندی فلم جگت میں تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان کی
پیدائش 18؍جولائی 1971ء کو صوبہ پنجاب کے امرتسر شہر میں ہوئی۔ان کو پچپن
ہی سے موسیقی کا شوق تھا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کے دوران ہی سے نغمے
گانے شروع کر دیے تھے۔بچپن میں انہیں جب بھی موقع ملتا وہ اپنے دوستوں کو
جمع کر کے اپنی دلکش آواز میں نغمے سنایاکرتے تھے۔ ایک دن کلاس روم میں
اپنے طالب علم دوستوں کے بیچ گانا گارہے تھے،اسی دوران کلاس ٹیچر کمرے میں
داخل ہوئی اور ان کانغمہ سن کر تذبذب میں پڑ گئی کہ اتنی سریلی آواز میں یہ
کون نغمہ زن ہے۔اس دن سے ان کی ٹیچر انہیں اپنی گود میں بیٹھا کر روز ان سے
نغمے سنا کرتیں۔سکھ ویندر سنگھ کا کہنا ہے کہ روز اس طرح گانا سناتے سناتے
مجھے ان سے عشق ہو گیا۔میرا پہلا عشق میری ٹیچر کے ساتھ ہوا۔
سکھ ویندر سنگھ کو فلمی دنیا میں’’ سکھی ‘‘ نام سے شہرت ملی ۔انہوں نے محض
آٹھ سال کی عمر ہی میں اسٹیج پر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا
تھا۔’سکھی‘ نے اپناپہلا اسٹیج نغمہ لتا منگیشکر کے گانے سا۔رے۔گا۔ما۔کو
گایا۔اس کے بعد ان کو فلم’ ’کرما‘‘ میں گلوگاری کا موقع ملا ۔ اس فلم میں
انہوں نے چند لائینں ہی گائیں۔یہ نغمہ گاتے ہوئے انہوں نے محسوس کیا کہ
میری آواز میں وہ کھنک دھمک نہیں ہے ،جو ہونی چاہیے۔ یہ بات ان کے ذہن میں
سما گئی کہ میں اچھی طرح Performنہیں کر پا رہا ہوں۔ان کی بچپن کی خواہش
تھی کہ وہ فلمی دنیا کی گلوکاری میں اپنا نام روشن کریں گے۔ ان کا یہ خواب
یہیں سے ’سکھی‘ کو ٹوٹتا ہوا نظر آرہا تھا۔ لہٰذا وہ سب کچھ چھوڑ کر
انگلینڈچلے گئے۔ انگلینڈ اور امیر یکہ سے انہوں نے موسیقی میں کئی نئے
تجربے حاصل کیے۔اس کے بعد وہ ممبئی واپس آکر اپنے خواب کی تکمیل میں مصروف
ہوگئے۔
انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد’سکھی‘ نے 1991میں بنی فلم ’’خلاف‘‘ سے اپنے گلو
کاری کے کیرئیر کا دوبارہ آغاز کیا ، جس میں انہوں نے ’’آجا صنم میری جان
چلی‘‘ گانے کو آواز دی۔یہ گانا سُپر ہٹ ثابت ہوا ۔ اس کے بعد سکھ ویندر
سنگھ نے ہندی فلموں میں بیک ٹو بیک ہٹ گانوں کی لائن لگا دی۔ ہندی فلموں
میں اے۔آر۔ رحمن اور سکھ ویندر سنگھ کی جوڑی نے بہت سے کامیاب گانے دیے
ہیں۔ 1998میں بنی سپر ہٹ فلم ’’دل سے ‘‘ میں’’ چل چھنیاں چھنیاں ‘‘ گانے کو
سکھ ویندر سنگھ نے سپنا اوستھی کے ساتھ آواز دی، جس کے بول ہیں:
چل چھنیاں چھنیاں، چل چھنیاں چھنیاں
ساری عشق کی چھاں، چل چھنیاں چھنیاں
پاؤں جنت چلے، چل چھنیاں چھنیاں
وہ یار ہے جو خوشبو کی طرح،جس کی زباں اردو کی طرح
میری شام رات ،میری کائنات ،وہ یار میرا سنیاں سنیاں
چل چھنیاں چھنیاں، چل چھنیاں چھنیاں………………
درج بالا نغمے کے لیے سکھ ویندر سنگھ کو 1999 کے بیسٹ میل پلے پیک
ایوراڈ(Best Male Playback Award) سے نوازا گیا۔اس نغمے کو گلزار نے لکھا
تھا اور اے ۔آر۔ رحمن نے دھن تیار کی تھی۔ فلم ’’دل سے‘‘ کے چھنیاں چھنیاں
نغمے سے ’سکھی‘ کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی ۔اس نغمے کے بعد انہوں نے
کئی اور سپر ہٹ نغمے گائے جن میں 1998میں بنی فلم ’’تال‘‘کا نغمہ ’’رمتا
جوگی‘‘ شامل ہے۔ اس نغمے کو قلمبند کیا ہے آنند بخشی نے ،دھن تیار کی ہے
اے۔ آر۔رحمن نے اور سکھ ویندر سنگھ کا ساتھ دیا ہے الکا یاگنک نے،اس گانے
میں ’سکھی‘ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس نغمے کو 27الگ الگ انداز میں گایا
ہے۔نغمے کے بول ملاحظہ ہو:
نہ جانے دل وِچ کی آیا،اِک پریم پیالہ پی آیا
میں جی آیا میں جی آیا، میں پریم پیالہ پی آیا
اوے رمتا جوگی، اوے رمتا جوگی ہوے ہوئے
میں پریم دا پیالہ پی آیا، اک پل میں سادیاں جی آیا
ساری مدھو سالا پی آیا، اِک پل میں صدیاں جی آیا
میں پی آیا، میں پی آیا،میں جی آیا، میں جی آیا
اوے رمتا جوگی، اوے رمتا جوگی ………………
اس نغمے کے منظر عام پر آتے ہی سکھ ویندر سنگھ کو فلمی دنیا میں ایک نئی
پہچان ملی اور زیادہ تر فلم ساز اپنی فلموں میں ان کو گلو کاری کے لیے دعوت
نامہ بھیجنے لگے۔’سکھی‘ کی اس طرح شہرت نے انہیں فلم جگت میں گلوکاری کے
تاج پر بیٹھا دیا۔انہوں نے بالی ؤڈ کے ہراداکار کے لیے اپنی آواز دی ہے۔
سکھی نے ہندی فلم کی دنیا میں مشہور کنگ خاں(عامر،سلمان،شاہ رخ) کی سپر ہٹ
فلموں کے لیے بھی متعدد فلموں میں اپنی گلو کاری کے باعث جادو جگایا ہے۔
انہوں نے ہندی فلموں میں بے شمار سپر ہٹ نغمے دیے،جن میں’’چھنیاں چھنیاں‘‘،
’’ رمتا جوگی‘‘، ’’ نئی میں سمجھ گئی‘‘، ’’تال سے تال ملا‘‘، ’’رُت آگئی
رے‘‘، ’’یہ جو زندگی ہے‘‘،’’جانے تو میرا کیا ہے‘‘، ’’پیا ملیں گے ‘‘،
’’حولے حولے‘‘،’’بیڑی جلئے لے جگر سے پیا‘‘،’’رب نے بنا دی جوڑی‘‘،’’آجا
میرا جی کردا‘‘، ’’قسم تم کو میرے وطن‘‘،’’عشق دا مارا‘‘ وغیرہ بہت مشہور
ہیں ۔ ان کے علاوہ 2008میں بنی سپر ڈوپرفلم ’’سلم ڈاگ ملینئر‘‘ کا نغمہ ’’
جئے ہو‘‘ کو اپنی آوازدی۔ اس فلم نے ’سکھی‘ کو ’’آسکر‘‘ تک پہنچا دیا۔ ہندی
فلمی نغمے میں ’جئے ہو ‘کو پہلاآسکر ایورڈحاصل ہوا ہے۔ اس نغمے کو گلزار نے
قلم بند کیا ہے،دھن تیار کی ہے اے ۔آر۔ رحمن نے اور سکھ ویندر کا ساتھ دیا
ہے مہالکشمی ایئر،وجئے پرکاش اورتنوی شاہ نے۔ نغمے کے بول ملاحظہ ہو:
جئے ہو، جئے، ہو جئے ہو، جئے ہو
آجا آجا جندے شامیانے کے تلے
آجا ذری والے نیلے آسمان کے تلے
جئے ہو، جئے ہو، جئے ہو، جئے ہو
رتی رتی سچی میں نے جان گنوائی ہے
نچ نچ کوئلوں پہ رات بتائی ہے
انکھیوں کی نیند میں نے پھونکوں سے اڑا دی
گن گن تارے میں نے انگلی جلائی ہے
جئے ہو، جئے ہو،……………………………………………………
1986میں بنی فلم ’’کرما‘‘ سے اپنی گلو کاری کیرئیر کا آغاز کرنے والے سکھ
ویندر سنگھ نے اب تک بے شمار فلموں میں سپر ہٹ نغمے دیے۔ان کے گائے ہوئے
نغمے ’’خلاف‘‘، ’’قربان‘‘، ’’تال‘‘،’’دل سے‘‘، ’’دل کیا کرے‘‘، ’’پھول اور
آگ‘‘، ’’بی بی نمبر1‘‘، ’’دل لگی‘‘، ’’جانور‘‘، ’’خوف‘‘،’’ہم تو محبت کریں
گے‘‘، ’’جنگل‘‘، ’’راجا کو رانی سے پیار ہو گیا‘‘، ’’1،2، کا
4‘‘،’’یادیں‘‘، ’’بس اتنا سا خواب ہے‘‘ ، ’’نہ تم جانو نہ میں ‘‘،’’تیرے
نام‘‘،’’اِک کھلاڑی اِک حسینہ‘‘،’’چک دے انڈیا‘‘، ’’ایک تھا ٹایگر‘‘،
’’حیدر‘‘، ’’زیڈ پلس‘‘، ’’دل دھڑکنے دو‘‘،’’تماشہ‘‘ ،’’دیواریں‘‘ وغیرہ
فلموں میں بہت مشہور ہوئے ہیں۔
’سکھی‘ نے ہندی فلموں کے علاوہ بے شمار پاپ البم بھی کیے ہیں۔اس ساتھ ہی
انہوں نے عامر خان کے سپرہٹ پروگرام ’’ستیہ میو جیتے‘‘کے لیے بھی اپنی
آوادزدی ہے ۔اس کے علاوہ بہت سے اسٹیج پروگرام کے لیے بھی وہ نغمہ زن ہوئے
ہیں۔’سکھی ‘کاایک اور اہم کارنامہ ’’مولانا آزاد نیشنل اردو
یونیورسٹی،حیدرآباد‘‘ کا ’’‘‘ ترانہ‘‘ ہے ۔ سکھ ویندر نے ریکھا بھرواج کے
ساتھ مل کر ’’مانو ترانہ‘‘ کو آواز دی ۔ترانے کو قلم بند کیا گلزار نے اور
اس کی دھن تیار کی وِشال بھردواج نے۔یہ ترانہ نومبر2014میں لانچ کیا
گیا۔ترانے کا ایک بندملاحظہ ہو:
یہ جامعہ ہے زبانِ اردو، یہ جامعہ ہے زبانِ اردو
زبانِ اردو کا آشیاں ہے، یہ جامعہ ہے زبانِ اردو،…………
کلام سارے ہیں درج روح میں،قلم سے اترا ہوا بدن ہے
یہ علم کا شہر گھر ہے میرا، میرا مدرسہ، میرا وطن ہے
تعلیم کا موسم ہے، تہذیب کی فصلیں ہیں
ہم روشنی کرتے ہیں، سورج کی نسلیں ہیں
اردو کی اڑے خوشبو، یہ جامعہ ہے زبانِ اردو…………
سکھ ویندر سنگھ نے گلو کاری کے علاوہ گیت نگاری ،موسیقی اور ادا کاری میں
بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں، لیکن ان کو جوشہرت و اہمیت گلوکاری میں حاصل
ہوئی وہ اور کسی بھی فن میں نہیں ملی۔ان کو جو شہرت ملی ہے یہ ان کی اپنی
محنت کے باعث ملی ہے۔ ’سکھی‘ کسی کام کو آسان نہیں سمجھتے ،لیکن مشکل بھی
نہیں سمجھتے۔ ہر کام کو وہ چیلنج کے طور سے لیتے ہیں اور پوری ذمے داری کے
ساتھ اس کا م کو انجام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں دل سے گاتا ہوں ،اس
لیے لوگوں کے دل تک پہنچتا ہوں۔ان کا یہ آتموشواس ان کو ترقی کی نئی منزل
تک پہنچادیا ہے۔
’سکھی‘ اپنے کام کو بہت محنت اور ایمانداری سے کرتے ہیں ۔وہ اس بات کی فکر
کبھی نہیں کرتے کہ اس کا معاوضہ یا ایوارڈ مجھے ملے گا یا نہیں؟ ان کے اب
تک کے کارکردگی پہ سات مرتبہ نیشنل ایوارڈ پیش کیا جا چکا ہے ،لیکن انہوں
نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ابھی ایوارڈ لینے کی عمر نہیں ہے۔ ویسے ان کو
78ٹرافیز اور بیسٹ ایوارڈ ’آسکر‘ مل چکا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایوارڈ سے
زیادہ ریوراڈ اہم ہوتا ہے۔ایوراڈ تو چار لوگ مل کے دیتے ہیں لیکن ریوارڈ تو
ان گنت لوگوں کی طرف سے ملتا ہے۔ اس لیے ریوراڈ کی اہمیت میرے نذدیک زیادہ
ہے۔
سکھ ویندر سنگھ آج بھی ہندی فلم گلوکاری میں نت نئے تجربے کر رہے ہیں اوراس
کے باعث ہی ان کا چرچہ ہندی فلموں میں ہوتا رہتا ہے ۔ ان کا نام ہندی فلم
جگت میں زندہ ہے اور ان کے بعد بھی زندہ رہے گا۔
٭٭٭
نوٹ: اس مضمون کو لکھنے میں You Tube اور Wikipediaسے استفادہ کیا گیا ہے۔ |