وزیر اطلاعات ونشریات و قومی ورثہ مریم اورنگزیب نے
قوم کو آگاہ کیا ہے (اور یہ آگاہی کسی انکشاف سے کم نہیں) کہ وزیراعظم نواز
شریف کی توجہ فلمی صنعت کی بحالی اور ترقی پر مرکوز ہے۔ پاکستانی فلموں کی
بحالی ،ترقی اور استحکام کے لئے بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے
اثرات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں موجود پالیسی
جاری رکھی جائے گی۔ ان کے بقول وزیر اعظم نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے،
جو نامور فنکاروں، پروڈیوسرز ، نمائش کنندگان اور دیگر فریقوں سے باہم
مشاورت کرے گی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 65ء سے اب تک کے جائزہ سے معلوم ہوا
ہے کہ بھارتی فلموں اور غیر ملکی مواد کے پاکستانی سینماؤں پر چلنے سے
پاکستانی فلم انڈسٹری پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ دس
برس میں بھارتی فلموں کی یہاں نمائش سے پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی اور
ترقی میں نمایاں فرق پڑا ہے۔ اور یہ بھی کہ حکومت مرکزی فلم سنسر بورڈ کے
ایس او پیز کا نئے سرے سے جائزہ لے گی۔
ہمارے ہاں وزراء نہایت مصروف ہوتے ہیں، پورے محکمے کے مسائل ہوتے ہیں، جو
انہوں نے حل کرنے ہوتے ہیں، محکمانہ ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرنی ہوتی ہے،
محکمے کی کارکردگی کاجائزہ لینا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی پالیسیوں کی
حمایت میں بیانات دینا بھی ان کے فرائض منصبی کا حصہ ہوتا ہے۔ وزارت
اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کا تو کام ہی یہی ہے کہ وہ حکومت کی ترجمانی
کا فرض نبھائے، حکومتی نکتہ نگاہ سے قوم کو آگاہ رکھے، مخالفین کے سوالات و
تحفظات کا جواب دے۔ اس وزارت کے لئے حکومت کو ایسی شخصیت کی تلاش اور ضرورت
ہوتی ہے، جو حکومت کی بہترین نمائندگی کر نے اور مخالفین کو تسلی بخش جواب
دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ اہم فریضہ سینیٹر پرویز رشیداحسن طریقے سے
نبھا رہے تھے کہ ایک خبر کے ’’لیک‘‘ ہونے کا ملبے تلے دب گئے، مجبوراً
حکومت نے ان کی جگہ پر مریم اورنگ زیب کو حکومت کا دفاع کرنے اور مخالفین
پر لفظی حملے کرنے کا فریضہ سونپ دیا۔ ان کو وزارت ایسے موسم میں ملی ہے جب
حکومت پر مخالفین کے حملے عروج پر ہیں، حکومت پر سپریم کورٹ میں پانامہ
لیکس کا ایک بڑا مقدمہ زیر سماعت ہے، حکومت کے تمام مخالفین وہاں پہنچتے
ہیں اور کمرہ عدالت سے نکلنے کے بعد تمام سیاسی رہنما اپنے اپنے طور پر
حکومت کے خلاف اپنے جذبات وغیرہ کا اظہار کرتے ہیں۔ ان تمام لوگوں کے حملوں
کا سامنا چونکہ ایک وزیر (وہ بھی خاتون) نہیں کر سکتیں، لہٰذا دو تین دیگر
وزراء نے اپنی وزارتوں کے معاملات کو فی الحال پسِ پشت ڈال رکھا ہے، اور
تمام تر توانائیاں حکومت مخالف لوگوں کے جواب دینے پر صرف ہورہی ہیں، یوں
یہ بھاری ذمہ داری کئی وزراء نے بانٹ کر متعلقہ وزیر کا کام نسبتاً آسان کر
دیا ہے۔ یہاں خوشی اس بات کی ہے کہ ہمارے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے
ممبران اپنی وزارتوں پر بھی غور کرتے ہیں۔
حکومتی جائزے سے اس بات کا اندازہ لگایا گیاہے کہ پاکستانی سینماؤں میں
بھارتی فلموں کی نمائش سے پاکستان فلم انڈسٹری میں بہتری اور استحکام آیا
ہے، اور یہ بھی کہ یہ جائزہ 65ء سے اب تک کا ہے۔ ہمیں پاکستان کے سینما کی
تاریخ کا تو علم نہیں، مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ جس سال کا ذکر کیا گیا ہے
اور جب پاکستان فلم انڈسٹری اپنے عروج پر تھی تو اس وقت بھارت اور پاکستان
کی فلم ایک جیسی ہی ہوتی تھی، آہستہ آہستہ پاکستان میں یہ انڈسٹری زوال
پذیر ہوتی گئی اور بھارت میں اس کو ترقی ملتی گئی۔ کون نہیں جانتا کہ کچھ
سالوں سے پاکستان میں نئی فلمیں کچھوے کی رفتار سے بن رہی ہیں، اور سینماؤں
کی رونق بھی اسی رفتار سے چل رہی ہے، بے شمار سینما بند ہو چکے ہیں، یا
انہوں نے اپنی عمارت کو کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
مگر یہ امر تو پوری قوم کے لئے حیرت انگیز اور بڑا انکشاف ہے کہ بھارتی
فلموں کی پاکستان میں نمائش سے ہماری انڈسٹری بہتر ہوگی، حالانکہ اپنی
انڈسٹری کی جانب سے بھارتی فلموں کی نمائش کی مخالفت ہوتی رہی ہے۔ جہاں تک
فلم بین طبقے کا ذکر ہے تو وہ کئی سالوں سے پاکستانی فلموں کو فلم ماننے کے
لئے بھی تیار نہیں، اسی لئے سینما ویران ہوئے۔ اگر بھارتی فلموں کی نمائش
سے اپنی فلم انڈسٹری کو استحکام ملتا ہے تو اس اچھے کام میں تاخیر بلا جواز
ہے۔ مگر یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ بھارتی فلموں کے آنے سے اپنی فلموں
کا باب مکمل طور پر بند ہو جائے گا۔
|