موجودہ دور میں اسلحے کی جنگوں کی اپنی حیثیت ہے تاہم ان
سے بڑھ کر جو جنگ اس دور میں اہمیت کی حامل ہے وہ تہذیب و ثقافت کی جنگ ہے
جس میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک ملک اپنے محالف ملک پر یلغار کرتا چلا
جاتا ہے اور اس کے بعد اپنی تہذیبوں کو مسلط کرنے کیلئے اپنے خیالات و
نظریات کے ساتھ اپنی سوچوں کو مخالف معاشرے پر لاگو کرنے کیلئے اقدامات
کرتے ہیں ۔
شہر قائد سمیت پورے ملک میں بھارت کی تہذیبی جنگ عروج پر ہے۔ ایک جانب
بھارتی سرکار پاکستان کی جانب آنے والے دریاؤں کے پانی تک کو روکنے کی
باتیں کرتا ہے اور روک بھی رہا ہے ،کشمیر میں اس کے انسانیت سوز مظالم دنیا
کے سامنے عیاں ہیں اس کے ساتھ بھارت کے اندر بھی ہندوؤں کی مسلمانوں کے
ساتھ زیادتیاں عروج پر ہیں ۔ کسی بھی شعبہ زندگی میں بھارتی ہندو اپنے آپ
کو مسلمانوں سے بالا سمجھتے ہیں جس کاوہ عملی اظہاربھی کرتے ہیں ۔ ایک
چھوٹی سی مثال اس کی کچھ عرصہ قبل بھارتی صف اول کے اداکار عامر خان کے
ساتھ ان کا رویہ ہے جس کے بعد وہ اپنے ملک بھارت کو چھوڑ کر امریکہ منتقل
ہوگئے ۔ عامر خان ایک نہیں انہی جیسی مثالوں سے بھارتی سرکار و عوام کا
اظہار ،ان کے اقدامات کے عین مطابق ہیں ۔کرکٹ بھارت و پاکستان میں اپنی ایک
حیثیت رکھتا ہے لیکن دنیائے کرکٹ کے شائقین اب یہ بات جان گئے ہیں کہ آئی
پی ایل میں پاکستان کا کوئی کھلاڑی شرکت نہیں کرتا اور نہ ہی بھارت کا کرکٹ
بورڈ انہیں شرکت کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ منظم سازش کے تحت بھارتی کرکٹرز و
بورڈ آئی سی سی کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن
اس کے باوجود بھارت سے ہماری قومی کرکٹ ٹیم کا کوئی میچ ہو یا پھر کسی بھی
اور کھیل میں وہ مخالف ہو ہماری عوام کے دل تیزی سے دھڑکتے ہیں ان کے خلاف
ہماری قوم کے جذبات عروج پر ہوتے ہیں بھارت سے دوستی کی باتیں عوام نہیں
چاہتے ۔ان سے کسی بھی مقام پر کسی بھی میدان میں ہارنا بھی نہیں چاہتے اور
یہی جذبات و احساسات رہے تو وطن عزیز کی عوام کبھی ہاریں گے بھی نہیں۔
اس حقیقت سے بھارت بخوبی واقف ہے وہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان کی فوج و عوام
کو دھکیلنا اسے پیچھے کرنا ، ہٹانا ان کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے لہذا
وہ چالوں سے اپنی سازشی منصوبوں سے پاکستان پر اپنے انداز میں حملہ آور
ہوتے ہیں اور انہی کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ماضی میں
بھارت نے جتنی بھی جنگیں پاکستان کے خلاف لڑیں ہیں ان میں انہیں شکست ہی کا
سامنا کرنا پڑا ہے ۔
بھارت اپنی فلمی صنعت کو بھر پور انداز میں بحال رکھتا ہے اور اس صنعت کے
ذریعے وہ اپنی سوچ و نظریات کو پھیلاتا ہے ان کے ذریعے بھارت اپنے مذموم
مقاصد حاصل کرتا چلا جاتا ہے ۔ بھارت دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت ہے اس قوت کے
ساتھ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریتی ریاست بھی قرار دیتا ہے ۔ اس
کا ایٹمی قوت ہونا ایک جانب لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت ہے کہ شوبز کی دنیا
میں بھی بھارت نے بالی ووڈ کے بعد ایک مقام بنایا ہے ۔ اس کے اپنے بھارت
میں ان کی بنائی جانے والی فلمیں تجارتی نقطہ نظر سے سود مند ثابت ہوتی ہیں
۔وطن عزیز کے متعدد فنکاروں کو بھارت نے اپنی فلموں میں جگہ دی اور انہیں
اپنے مقاصد کیلئے استعما ل کیا ۔ وہ پاکستانی فنکار شہرت کی بلندیوں پر تو
پہنچ گئے لیکن وہ آج تلک اس نقطے کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ بھارتی فلموں
میں ان سے کس نوعیت کا کردار ادا کروایا گیا وران کا اصل مقصد کیا تھا ۔
لاہور و کراچی کے سینماؤں میں کچھ عرصہ قبل ایسا دور آیا کہ جب ان میں ملک
کی اپنی فلمیں کم بلکہ ختم تک ہوکر رہ گئیں اور بھارت کی فلمیں ہی ان پر
راج کرنے لگیں ۔ سینمامالکان کو اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ چاہیں تو
انگریزی فلمیں سینما پر چلائیں اور عوام کو دیکھائیں یا پھر اردو ، پنجابی
، پشتو و دیگر زبانوں کی اپنی فلمیں دیکھائیں ۔ تاہم سینما ؤں میں کام کرنے
والوں کا اور ان کے مالکان کا یہ کہنا ہے کہ جب ہم اپنی فلمیں دیکھا یا اور
چلایا کرتے تھے تو اس وقت ہمیں کاروباری فائدہ کم ہوا کرتا تھا لیکن جب
بھارتی فلمیں دیکھانا شروع کیں تو اس کے مثبت اثرات ہمارے کاروبار پر مرتب
ہوئے اور ہمیں بہت معاشی فوائد حاصل ہوئے ۔ ایسے مواقعوں پر جب انہیں یہ
کہا جاتا ہے کہ اس عمل سے ملک کی فلمی صنعت کو نقصان ہوتا ہے تو اس پر ان
کا جواب یہی ہوتا ہے کہ اس بات کا ہمیں علم ہے اور کچھ کو تو احساس بھی ہے
لیکن اس کے ساتھ ان یہ بھی جوا ب ہوتا ہے کہ ہم ایسی صورتحال میں کیا کریں
؟ ہم اپنا یہ کام چھوڑ کر کوئی اور کام کریں یا زیادہ منافع کمانے کیلئے اس
ہی کام کو بہتر انداز میں کریں ۔ سینمامالکان کایہ بھی کہنا ہے کہ یہ فکر
تو فلمیں بنانے والوں کو ہونی چاہئے کہ عوام آخر کیونکر ان کی فلمیں چھوڑ
کر بھارت کی فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔آخر وہ اپنی فلمیں اس طرح کیوں
نہیں بناتے جنہیں دیکھ کر عوام کو خوشی ہو اور ہمار ا کاروبار بھی بہتر ہو۔
کچھ سینما کے عملے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں ایک وقت ایسا بھی گذرا
ہے کہ جب پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ آیا کرتا تھا تو عوام بڑے شوق سے انہیں
دیکھا کرتے تھے ۔ ایک ڈرامے کا نام اندھیرا اجالا بتاتے ہوئے ان کا کہنا
تھا کہ اس وقت ہم بچے ہواکرتے تھے لیکن ہمیں یاد ہے کہ گھر کے سب بڑے اور
بچے مل کر اس ڈرامے کو ہمارے ساتھ دیکھا کرتے تھے ۔ ان کی مقبولیت کی حد تو
یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اس ڈرامے کی وقت سڑکوں پر ٹریفک کم ہوجایا کرتی
تھی۔ اب وہ ڈرامے نہیں ہیں اور جو چینلز پر یہ لوگ ڈرامے دیکھاتے ہیں ان کی
حالت تو ایسی ہے کہ ایک خاندان یا ایک گھرانہ تک اسے ایک ساتھ بیٹھ کر نہیں
دیکھ سکتا ۔
سینما میں فلمیں دیکھنے والوں کا یہ کہنا تھا کہ بنیادی طور ہم یہاں پر
تفریح کیلئے آتے ہیں ۔ اب اگر یہ سینما والے بھارتی فلم دیکھائیں یا اپنی
پاکستانی ہم تو دونوں دیکھیں گے ۔ کچھ کا یہ کہنا تھا کہ ہمیں تو بھارتی
فلمیں زیادہ پسند آتی ہیں اور ہم لوگ اپنے گھروں میں کیبل پر ان کی ہی
فلمیں دیکھتے ہیں۔ پاکستانی فلموں پر انہوں نے تنقید کرتے ہوئے مزید کہا کہ
بھارتی فلمیں ملک میں بننے والی فلموں سے زیادہ بہتر ہوتی ہیں ۔ سینما کے
قریب موجود دیگر لوگوں کا کہنا تھا کہ عوام کو تو ایک جانب رکھیں حکومت کے
وزراء تک بھارتی فلموں کو دیکھتے ہیں ، انہیں اس بات کا احساس ازخود ہونا
چاہئے کہ ان کے اس عمل سے کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔قریب کھڑے ایک
صاحب نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرا نام راشد ہے اور پیشہ کاروبار
کا ہے میں ان سب کی باتوں کو ایک جانب رکھتے ہوئے واضح الفاظ میں یہ کہتا
ہوں کہ بھارتی ثقافت کو ہماری حکومت خود پذیرائی بخشتی ہے وزیروں مشیروں کو
ایک جانب رکھئے آپ اس ملک کے وزیر اعظم کو دیکھئے ان کے طرز عمل کو دیکھئے
انہوں نے بھارتی فلموں کوپاکستانی سینماؤں میں نمائش کی اجازت تک دے دی ہے
۔ وہ بھارت جو کہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم ڈھا رہا ہے اور کشمیری عوام
جو کہ اب بھی پاکستان کا پرچم بلند کرتے ہیں، وزیراعظم ملک کے عوام کو ایک
جانب رکھیں مظلوم کشمیری عوام کیلئے بھارتی ثقافت پر بھارتی فلموں پر
پابندی عائد کریں ۔ آخر کیوں انہوں نے بھارتی فلموں کو پاکستان کے سینماؤں
میں نمائش کی اجازت دی ہے ؟؟؟
عوام نے اپنے ، اپنے انداز میں بھارتی فلموں کی ، ان کی ثقافت کی شدید
مخالفت کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ بھارت قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کا
دشمن رہا ہے انہوں نے کبھی بھی پاکستان کی کسی بھی شعبے میں تعریف نہیں کی
ہے ، ہمیشہ تنقید کرتے رہے ہیں ۔ ان کی ثقافت اور فلموں تک میں پاکستان کے
خلاف نعرے لگتے رہے ہیں جس سے ان کی ذہنی عکاسی واضح ہوتی ہے ۔ اس لئے
بھارتی ثقافت کو ، ان کی فلموں کو پاکستان میں مکمل طور پر بند کیا جائے ۔
سینما ؤں سمیت کیبل کے ذریعے بھی نمائش پر مکمل پابندی عائد کی جائے ۔
بھارت میں پاکستان کا سامنا کرنے کی نہ ہمت ہے اور نہ جرائت ، مخص اپنی
ثقافت کے ذریعے ہماری عوام کو وہ بے وقوف بنا نا چاہتے ہیں جس کی غیور عوام
کبھی اجازت نہیں دے گی ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو چاہئے کہ عوام کے اس پیغام
کو سمجھیں اور فوری طور پر بھارتی ثقافت کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارتی فلموں
پر پابندی عائد کریں ۔ |