اس نے بہت ہمت سے ایک بار پھر پاس رکھی
کتاب اٹھائی“‘ کافی دیر سے وہ ایک ہی ٹاپک پر اٹکی تھی‘‘
بہت کوشش کے باوجود ٹاپک کلیئر نہیں کر پارہی تھی،، کرتی بھی کیسے‘‘ذہن تو
کہیں اور تھا‘‘تھک ہار کر اس نے کتاب پھر سے سائیڈ پر رکھ دی‘‘اور نماز کے
لیے اٹھ کھڑی ہوئی‘‘
ہمیں اللہ بس ا س وقت یاد آتا ہے،،جب اس سے کچھ مانگنا ہو،،یا جب سب ہمیں
چھوڑ جائیں‘‘ سب رستے بند ہو جائیں‘‘ اس نےجائےنماز بچھائی،اور نیت
باندھی‘‘ اک سکون اسکے اندر پھیلنے لگا‘‘
نماز پڑھ کے وہ اٹھی‘‘تو پرسکون تھی‘‘ موسم بھی بدل رہا تھا‘‘ وہ آہستہ
آہستہ چلتے ہوئے کھڑکی تک آ گئی‘‘ سیاہ آسمانی چادر تاروں سے بھری ہوئی
تھی‘‘مایامحویت سے آسمان کو دیکھتی رہی‘‘
میرا اللہ سے تعلق بس اتنا ہے‘‘ کہ انتہائی معمولی ھوں میں‘‘ بہت
خطاکار‘‘جب میں زندگی کی الجھنوں میں پھنس جاتی ہو‘‘وہ مجھے راستہ دکھاتا
ہے‘‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں اسے بس اس وقت یاد کرتی ہو جب مجھے کچھ
چاہیے‘‘وہ مجھے کبھی مایوس نہیں کرتا‘‘سونے سے پہلے چند لائنیں مایانے اپنی
ڈائری میں لکھی‘‘
‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘‘
صبح بہت پرنور تھی“‘ بہت دن بعد وہ اتنے سکون کی نیند سوئی تھی‘‘کالج کے
لیے تیار ہوکر وہ باہر آگئی‘‘ مایا!تمہاری وین والے کا فون آیا تھا،،وہ آج
نہیں آئے گا‘‘ جیسے ہی وہ ناشتے کی میز پر آئی،،ہانی نے اطلاع دی‘‘اوہ،،پر
میں نے تو آج نوٹس لینے تھے،، اب میں کیا کروں؟اس نے فکر مندی سے کہا‘‘
کیا ہوا مایا‘‘پریشان لگ رہی ہو؟بڑی امی آج وین والے نہیں آئے گا‘‘اور میرا
کالج جانا ضروری ہے‘‘بڑی امی کےپوچھنے پر وہ بتانے لگی‘‘
شاہ میر!بڑی ا می نے آوازلگائی‘‘
جی،،اس نے سوالیہ اندازمیں کہا‘‘
آفس جاتے ہوئے مایا کو کالج چھوڑ دینا‘‘بڑی امی نےکہا‘‘ جی اچھا‘‘اس نے
کہا‘‘ جاؤ بیگ لے آؤ میں باہر ویٹ کرتا ہوں‘‘شاہ میر نے مایا کی طرف دیکھتے
ہوئے کہا‘‘اور باہر کی طرف بڑھ گیا‘‘مایا نے کچھ دیر سوچا پھر ناچار اس کے
پیچھے آگئی(جاری ہے)
|