انجامِ محبت
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
محبت دنیا کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ اس کے فیض
سے دنیا کی رنگینی اور اس کے غضب سے دنیا کی سنگینی وجود میں آتی ہے۔ اسے
کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی یہ خود ہی درونِ دل میں اپنا گھر بنا
لیتی ہے اور خود ہی گھر کو خستہ حال قرار دے کر رخصت ہو جاتی ہے۔ اسے نہ
کوئی آنے سے روک سکتا ہے اور نہ کوئی اس کے جانے سے منع کر سکتا ہے۔اس کے
نتائج بھی کسی کے ارمان یا ادراک سے بالا تر ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ــ’’ چلو ثمرین گھر چلیں۔‘‘
نہیں امی میں نے ابھی اور کھیلنا ہے۔
’ نہیں بیٹا زیادہ نہیں کھیلتے ، اور دیکھو اوپر سے شام بھی ہو رہی ہے۔
پھر کیا ہوا ؟ ابھی سارے بچے بھی توکھیل رہے ہیں۔
’ نہیں بیٹا ہم نے اکیلے گھر جانا ہے، ان کے پاپا نے انہیں لینے آنا ہے۔
امی مجھے میرا پاپا کیوں نہیں لینے آتا؟ مجھے بتاؤ ناں وہ کہا ں رہتا ہے
میں اسے خود کہہ دوں گی ہمیں بھی لینے آیا کرو۔
’ چلو زیادہ باتیں نہ کرو ، میں نے تمھیں کل بھی کہا تھا مجھ سے زیادہ سوال
نہ پوچھا کرو‘
اچھا امی بس پانچ منٹ میں اور کھیل لوں پھر چلتے ہیں۔
’ جلدی کرو ثمرین بہت دیر ہو رہی ہے۔ مجھے اندھیرے سے ڈر لگنے لگتا ہے۔‘
شبانہ ایک نوجوان ماں تھی۔ اسے اگر کوئی اس بچی کے ہمراہ نہ دیکھے تو یہ
پتہ لگانا مشکل ہو کہ وہ کنواری ہے یا بیاہی۔ یہ بچی اس کا پردہ تھی ۔ اس
کا چہرہ ایک کھلا گلاب اور بال ایک کالی سیاہ رات تھے۔ اس کے چہرے پر کسی
بھی تیور یا سلوٹ سے یہ نہیں ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے دل میں کسی کے لئے
کوئی برا خیال بھی آیا ہو۔ وہ اپنی نظریں یوں زمیں میں پیوست کئے محوِ خرام
ہوتی جیسے وہ زمین سے باتیں کرتی جا رہی ہو۔ اور اگر اس نے اوپر دیکھ لیا
تو زمیں روٹھ جائے گی، آسمان تو پہلے ہی روٹھا ہوا تھا۔وہ کبھی کبھی آنکھ
ضرور اٹھاتی لیکن وہ کسی مستقبل کو نہیں بلکہ ماضی کو دیکھ رہی ہوتی۔
٭٭٭٭٭
وہ ایک غریب خاندان کی آس تھی لیکن خود اس کے دل کے آتش دان میں امید کی
ساری چنگاریاں بن جلے بھسم ہو چکی تھیں۔ اب وہ ماضی کی بس راکھ سمیٹتے
سمیٹتے ہی ہر روز آغوشِ بے خوابی میں چلی جاتی۔
کچھ سال پہلے اس نے میٹرک پاس کیا تھا اور پھر اس کا خیال تھا کہ پرائیویٹ
طور پر ایف ۔اے کر لے۔ گھر کی مالی حالت خوش گوار نہ ہونے کے باعث اس نے
سوچا کہ کوئی جاب بھی کی جائے۔ ماں باپ اور بہن بھائی کام کرتے کرتے تھک
چکے تھے۔ اور ویسے بھی گھر بیٹھ بیٹھ کے بوریت سے بھرے دن اور سوچوں سے
بھری راتیں گذارنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا کہ کوئی مصروف شخص سمجھ سکتا
ہے۔
اس نے خیال کیا کہ کوئی کام کرے۔ لیکن اس کی سوچوں کی دہلیز سے کچھ سوالوں
کے ناگن لٹک رہے تھے:
کیا کرے؟ کیسے کرے ؟ کہاں کرے؟
اس کی ایک کزن ،ساجدہ، کسی فیکٹری میں کام کرنے جاتی تھی ۔ کبھی کبھی ان کے
یہاں بھی آتی تھی اور اس کی بتائی ہوئی معلومات کے مطابق وہ ایک گاڑی پرعلی
الصبح جاتی اور اسی گاڑی پر شام کے دھندلکے میں واپس آجایا کرتی۔ تنخواہ
بھی ادنیٰ درجے کے گلی گلی کھلنے والے پرائیویٹ سکولوں میں فیمیل ٹیچروں کو
ملنے والے پندرہ سو دو ہزارسے زیادہ بنتی تھی۔ شبانہ کا اپنا ذہن بھی تعلیم
کی بجائے کسی عملی کام میں زیادہ تھا۔ وہ پڑھائی کی بوریت اور تھکن سے
پڑھائی کے دوران ہی اکتاہٹ کا شکار ہو چکی تھی۔ اس لئے تعلیم کا ماحول جو
اکثر لڑکیوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے شبانہ کے لئے بے کیف تھا۔ وہ گاڑی کا
سفر، لوگوں سے ملنا ملانا، ہنسنا ، ہنسانا ، آنا جانا بہت پسند کرتی تھی۔
غریبوں کے گھروں میں دل بہلانے کے لئے سوائے پریشانیوں کے ہوتا بھی کیا ہے۔
شبانہ کے والدین اسے کسی فیکٹری یا کارخانے میں جانے کی اجازت دینے سے
گھبرائے لیکن دیکھا دیکھی انسان کا حوصلہ بڑھا دیتی ہے۔ کچھ مجبوری سوچ بدل
دیتی ہے ۔ کچھ قسمت کا ہاتھ بھی ہوتا ہے ہر اچھے برے کام میں۔اس کی کزن
ساجدہ نے اس کی ہمت بندھائی۔ وہ گھر سے پچیس تیس کلو میٹر دور ایک فیکٹری
میں اپنا مستقبل تلاش کرنے لگی۔
کچھ مہینوں بعد خبر ملی کہ اس کی کزن نے ایک لڑکے سے محبت کی شادی رچا لی
ہے اور گھر والوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔لیکن اس کے گھر والوں نے اسے
اس بات کی اجازت سے پہلے ہی بری کیا ہوا تھا۔ اس کی عمر زیادہ ہو رہی تھی
لیکن کوئی رشتہ بھی نہیں مل رہا تھا۔ بہت سے رشتے دیکھے دکھائے گئے لیکن
وہی مشرقی مسئلہ کہ کسی کووہ نہ پسند آئی اور کوئی اسے نہ پسند آیا۔چلتے
چلتے کئی سال سمٹ چکے تھے ، لیکن رشتے کا مسئلہ نہ سمٹ سکا ۔ آخر کار اس کے
والدین جو تیزی سے زندگی کی گھاٹی اتر رہے تھے نے اسے اپنی شادی اپنی مرضی
سے کرنے کی اجازت اور اختیار دے دیا ۔ چنانچہ اس کا افیئر اسی فیکٹری کے
ایک نوجوان سے کچھ مہینوں تک چلا اور پھر دونوں شادی کے بندھن میں بندھ
گئے۔اور کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہ پڑی۔ جس فیکٹری میں لڑکیاں
اور لڑکے اکٹھے کام کرتے ہوں وہاں ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ کچھ
کامیاب اور کچھ ناکام ،اپنی اپنی قسمت !
اس شادی کے بعد شبانہ کے دل میں بھی ایک منچلی خواہش نے جنم لیا۔ اس کے دل
میں چھم چھم کرتی، ناچتی گاتی ،پہلو بدلتی دلفریب امید کی ندی رواں ہو
گئیں، جن کی منزل کا خود اسے بھی ادراک نہ تھا۔ ۔ وہ بھی اپنی شادی اپنی
مرضی سے کر گذرنے کا منصوبہ بنانے لگی ، لیکن اسے توابھی کسی سے محبت بھی
نہیں ہوئی تھی ، شادی وہ کس سے کرے گی؟
٭٭٭٭٭
ایک دن بس میں سوار ہوتے ہی اس کی نظر ایک نوجوان کی نظر سے ٹکرا گئی۔ اسے
اس نے پہلے کبھی اس گاڑی میں فیکٹری جاتے نہیں دیکھا تھا۔ شاید وہ نیا
بھرتی ہوا ہو ۔ یا آج پہلے دن جا رہا ہو یا کسی کے ساتھ ویسے ہی جا رہا ہو
لیکن اس نظر نے ماچس کی طرح اس کے دل کے ایندھن میں بھانبھڑ مچا دیا تھا۔
شبانہ کی عادت نہیں تھی کہ وہ نظر اٹھا کر کسی نوجوان کو دیکھا کرے۔ لیکن
اس نوجوان کی طرف نظر اٹھاتے ہوئے اس کو پریشانی سے زیادہ خواہش کا سامنا
تھا۔ اس کا دل کرتا کہ اس کو دیکھتی جائے لیکن سارے لوگوں کے سامنے تو ایسا
کرنا مناسب نہ تھا۔
وہ نوجوان بھی اس کی فیکٹری میں داخل ہو گیا اسے اطمینان ہوا کہ وہ بھی اسی
فیکٹری میں کام کرنے آیا ہو گا ۔ اس کی خواہش تھی کہ واپسی پر بات زیادہ
واضح ہو جائے گی۔ آج کا دن جلدی ختم نہیں ہو رہا تھا ۔ اس کی نظریں فیکٹری
میں بھی اس کی تلاش میں لگی رہیں لیکن وہ فکٹری میں کہیں نظر نہ آیا ۔ ہر
کوئی اپنے اپنے یونٹ پر کام میں مصروف رہا تھا۔ہاف ٹائم پر بھی لڑکیاں
فیکٹری سے باہر نہیں جایا کرتی تھیں جبکہ لڑ کے باہر جا کر کھاپی آتے ،
چائے پی آتے کوئی سیگرٹ پی لیتے۔ لیکن لڑکیاں اپنا کھانا ساتھ ہی لاتیں
لیکن فیکٹری کے اندر ایک چھوٹی سی ٹک شاپ تھی جو صرف لڑکیوں کے لئے ہی تھی
جہاں سے وہ اپنی ضرورت کی کچھ چیزیں خرید لیا کرتیں۔
واپسی پر شبانہ کو حیرانی سے زیادہ پریشانی ہوئی کہ وہ خوبرو نوجوان واپسی
گاڑی میں سوار ہی نہ ہوا ۔ اسے ساری گاڑی خالی خالی لگ رہی تھی۔اس کی نظریں
شرماتی شرماتی شام کی آخری دھوپ کی طرح بے ضرر انداز میں گاڑی کی نشستوں پر
سے لا تعلقی کے سے انداز سے یوں گزرتیں جیسے کوئی پرندہ اپنے گھونسلے میں
بیٹھا دور افق پر ہلکی سی نظر ڈالتا ہے۔
جو دل میں بستے ہیں وہ اکثر نظر سے دور ہو جاتے ہیں تا کہ انہیں نظر نہ لگ
جائے۔ جنہیں نظریں ڈھونڈتے ہوئے اپنی بینائی کی بھی پرواہ نہیں کرتیں وہ نہ
جانے نظر کے سامنے آنے سے کیوں شرمانے لگتے ہیں۔
کچھ ایسا ہے اس چہرے نے شبانہ کی نظروں کے ساتھ بھی کیا۔ اس کی نظریں ایسے
ہی اسی چہرے کو تلاش کرنے لگ گئیں تھیں جیسے وہ روزِ اول سے ہی اس سے جدا
ہو گیا تھا اور اب ایک لا محدود مدت کی پیاس کے بعد اس سے ملاقات کا سامان
بنتے بنتے رہ گیا تھا۔محبت کا آغاز موسمِ بہار کی ابتدا اور اختتام پت جڑھ
جیسا ہوتا ہے یعنی مرنے کی خواہش اور زندہ رہنے کا خوف۔ یہ دونوں جذبات
شبانہ کے سینے میں یوں یکجا ہو چکے تھے جیسے ایک اگر بتی پر خوش بودار مادہ
اور اس کے اندر ایک باریک سا تنکا یک جان ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے من کے
صنوبر کے کچھ پتے مرجھائے اور کچھ نوخیز تھے۔
وہ کچھ پگلی سی ہو گئی تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھی ہوئی بھی باہر کے ہجوم میں
اسی شکل کی تلاش میں رہی رہتی لیکن وہ شکل تو کوئی عفریت کی تھی بس یکدم
ظہور میں آئی اور پھر یوں غائب ہو گئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔آئینے میں
اپنا چہرہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے پیچھے کوئی اور بھی کھڑا نظر آنے
لگتا۔
٭٭٭٭٭
اشعر کی والدہ کو شبانہ بالکل اچھی نہ لگی تھی وہ اسے اپنے گھر کی
چاردیواری میں وارد ہونے والے شام کے سائے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی تھی
جیسے دیکھتے ہی لوگ برقی قمقمے جلا دیتے ہیں۔ وہ اسے اپنے بیٹے کی بدقسمتی
سمجھتی تھی کیوں کہ محبت کی اس شادی کے فوراً بعد ہی اشعر کو کام سے جواب
ہو گیا تھا اور پھر پورے ایک ماہ تک کوئی جاب نہیں ملی تھی۔ اس کے گھر والے
اس کی شادی منحوس قرار دے چکے تھے اور یہ سب کی متفقہ رائے بن چکی تھی۔
اشعر کی والدہ کا تو بس ہی نہیں چلتا تھا ورنہ وہ اس کا سوتے میں ہی گلا
دبا دیتی۔ لیکن اشعر اپنی ماں کی ہر بات میں مخالفت کرتا اور شبانہ پر ہونے
والے ہر اعتراض کا جواب بڑی شدت سے دیا کرتا ۔ اشعر کے اس رویئے سے اس کی
ماں کو اور تپ چڑھتا اور جب اسے موقع میسر آتا تو وہ اپنا ملال اور جلال
ظاہر کئے بغیر نہ رہتی۔ وہ تو یہاں تک کہہ دیتی:
اس چڑیل نے میرا بڑہاپا برباد کر دیا ہے،
اس سے اس کا لختِ جگر چھین لیا ہے،
اس نے اس پر ضرور جادو، ٹونہ کیا ہے
، ورنہ اشعر تو ایسی ویسی کی طرف تو آنکھ نہیں اٹھاتا تھا۔
محبت کی یہ شادی اس گلاب کی طرح تھی جسے کھلنے سے پہلے ہی روگ لگ گیا ہو۔
شبانہ سارا سارا دن اپنی ساس کے طعنے معنے سن سن کر اپنی شادی پر خود بھی
پچھتاتی رہتی :
کاش اس کی اور اشعر کی کبھی ملاقات ہی نہ ہوتی،
یا وہ اپنے جذبات قابو میں رکھتی ،
یا اشعر ہی اس کی محبت کا جواب محبت سے دینے کی بجائے اسے نظر انداز کر
دیتا ۔
پھر چاہے اسے ساری زندگی ہی کیوں نہ رونا پڑتا لیکن کسی کا طعنہ اور دشنام
نہ سننا پڑتی۔
اب وہ شادی کو ایک ایسا پنجرہ جان رہی تھی جس میں کوئی پرندہ انگڑائی لینے
کے لئے اپنے پر پھیلا بھی نہ سکتا ہو۔وہ دلی طور پر اس بندھن سے آزاد ہو کر
ساری زندگی اشعر کے لئے رونا مول لے سکتی تھی لیکن قسمت اس کے ساتھ ایسی
سودے بازی کرنے کو تیار نہیں ہو رہی تھی۔ اسے اپنا آپ قابلِ نفرت لگ رہا
تھا جس نے اپنی خوشی کی خاطر ایک ماں کی خوشیوں پر پانی پھیر دیا تھا، جو
ایک ڈائن کا انسانی روپ تھی جسے بازاری ہونے کا خطاب بھی مل چکا تھا۔ طنز
وطعن کے لمبے لمبے خار اس کے نازک دل کے آر پار ہو جاتے اور وہ بچاری ’سی‘
بھی نہ کر سکتی۔
اس کے رہنے کے لئے بس دس مربع فٹ کا ایک کمرہ تھا اور یہی وہ ساری سر زمین
تھی جس پر اس کے قدم چل پھر سکتے تھے۔ وہ اپنے گھر میں قید سی ہو گئی تھی۔
لیکن ایسے قیدی کے لئے کوئی نام نہیں رکھا گیا۔اس کی زنجیریں کوئی دیکھ
نہیں سکتا تھا اور نہ ہی اس کی ہتھ گھڑیا ں کوئی آواز پیدا کرتی تھیں۔
وہ گلِ یاسمین تھی جسے نفرت کی آگ میں پھینک دیا گیا ہو ۔ اس کا قصور یہ
تھا وہ کسی بڑے باپ کی ’بٹیا ‘ نہ تھی۔ مزدوروں کی بیٹیوں کو محبت کے
بازاروں میں نہیں جانا چاہیئے۔ وہاں وہ بہت سستی بِک جاتی ہیں اور پھر ساری
زندگی ان کے ماتھے پر پچھتاوے کی پٹی لپٹی رہتی ہے۔جسے صرف موت ہی آکر
اتارتی ہے۔
اشعر کی ماں کا خواب بھی کوئی امیر گھرانے کی لڑکی تھی۔ جو اپنے ساتھ اتنا
کچھ لے کر آتی کہ پھر اشعر کو بازار سے کچھ خرید کرنے کی ضرورت پیش نہ
آتی۔لیکن محبت کی اس کورٹ میرج نے اس کے چکنے چکنے خوابوں کی ڈراؤنی تعبیر
پیش کر دی تھی۔جسے وہ مرتے دم تک ماننے کے لئے تیار نہ تھی۔
لیکن اب شبانہ کے لئے امید کا کوئی دریچہ کھلنے کا امکان نظر نہیں آرہا
تھا۔اس کے ان سارے مظالم برداشت کرنے کے پیچھے جو مضبوط سہارا تھا وہ اشعر
کا پر خلوص رویہ تھا۔ وہ سارا دن اپنی ساس کے طعنوں کے فرائی پین میں گھلتی
رہتی لیکن شام کو اشعر کی محبت اس میں زندگی کا احساس پیدا کر دیتی اور وہ
اگلے دن کی ذہنی صعوبت کے لئے پھر سے تیار ہوتی۔
٭٭٭٭٭
اشعر کی طرف سے اس کے برتھ ڈے پر ملنے والے طلاق کے تحفے کے چند ہفتوں بعد
وہ ایک بچی کی ماں بن چکی تھی۔ طلاق اور ثمرین اس کی باقی ماندہ زندگی کے
لئے اشعر سے محبت کے دو یادگار تحائف تھے جنہیں وہ ساری زندگی اپنے سے دور
کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اشعر سے محبت میں پہل کرنے کا جرم اسی نے
کیا تھا اس لئے سزا بھی اسے ہی ملنی چایئے تھی۔
ویسے بھی دستورِ زمانہ یہی ہے غلطی کسی کی بھی ہو سزا ہمیشہ کمزور کو ملتی
ہے کیوں کہ طاقتور سزا لینا نہیں چاہتا۔ کمزور کو سزا دینے سے معاشرے کا
سکون برقرار رہتا ہے اس لئے یہی ٹھیک ہے۔اشعر کی ماں کی مرادیں پوری ہو گئی
تھیں اس کی شادی ایک امیر لڑکی سے ہو چکی تھی اور اس کا گھر بہت سارے سامان
سے بھر چکا تھا۔ اس کی والدہ اپنی نئی بہو کے کپڑے خود استری کر کے دے رہی
تھی اور وہ گھر شبانہ کی نحوست سے آزاد ہو چکا تھا۔
ادھر شبانہ کے غریب والدین زندگی کے صدمات کے عادی ہو کر پتھر کے مجسمے بن
چکے تھے۔ اس کا ایک جواں سال بھائی موٹر سائیکل سے گر کر ہلاک ہو چکا تھا۔
ماں کی آنکھوں کی بینائی جا چکی تھی، باپ کی بیماری نا قابلِ علاج ہو چکی
تھی۔ اور پھر شبانہ کا صدمہ بھی شدید سرد موسم میں آنے والی دھند کی طرح
ماحول کو مذید مایوس کن بنا رہا تھا۔وہ اپنی فیملی کے غموں میں سے ایک غم
بن چکی تھی۔ اس کا دوسری شادی کا بھی کوئی ارادہ نہ تھا اور نہ ہی اس کا
چہرہ اب نظروں کا انتخاب رہ گیا تھا۔ وہ اب ماضی کی چیز بن چکی تھی ۔ ایک
ایسی بہار جس کے پھول کھل کے بکھر چکے ہوں اور اب اس کے دامن میں اگلی
زندگی کا بھی کوئی ارمان سو نہیں رہا تھا۔
وہ ایک پرائیویٹ سکول میں ملازمہ بن چکی تھی۔ اس کا کام صبح سویرے سکول کی
صفائی اور پھر شام تک اپنی خدمات کسی نہ کسی شکل میں پیش کرتے رہنا تھا اس
ساری کوفت کا عوضانہ چند ہزار روپوں کی شکل میں ایک انسان کی سانسیں جاری
رکھنے کے لئے کافی تھا۔
دن کی روشنی میں وہ کئی ماسک پہن لیتی لیکن رات کا اندھیرا اس کے سارے ماسک
اتاردیتا اور اس کا حقیقی چہرہ ، تاریکی کے آئینے میں اپنا سا منہ لے کے رہ
جاتا ۔ وہ اب اشعر کے متعلق سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی لیکن اس کی یادوں کا
جال اس کے نازک خیال کے گرد اتنا مظبوط تھا جسے وہ ساری قوت ِ ارادی لگا کر
بھی توڑ نہیں سکتی تھی۔
یہ جال آکاش بیل کی طرح اس کی یادوں کے صنوبر کا سارا نیکٹر چوس جاتا اور
وہ ہر صبح پہلے سے زیادہ مرجھاتی جا رہی تھی۔ یادوں کا نحس سایہ ہر وقت اس
کے ساتھ ساتھ چلتا اور اندھیرا آنے کے ساتھ ہی وہ سایہ ایک ریچھ کی طرح اس
سے لپٹ جاتا جسے وہ صبح تک اپنے ذہن سے پرے کرنے کی کوشش کرتی کرتی تھک
جاتی۔
اسے اس کیفیت میں رہنے کے باعث اندھیرے سے خوف آنے لگا تھا ۔ وہ کبھی کبھی
آدھی رات کو اٹھ کر لائیٹس جلا دیتی اور پھر اپنی کیفیت نارمل کرنے کی کوشش
کرتی۔ اس کے گھر والے اس کے اندر کی حالت سے باخبر ہونے کے باوجود پوچھتے
کہ کیا ہوا لیکن وہ کسی کو کیا بتائے کہ کیا ہو ا ہو اجو ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭
وہ کسی ایسی دنیا میں چلی جانا چاہتی تھی جہاں کی ہوائیں ماضی کو بھلا دیں
لیکن ایسی دنیا تو اسے موت کے جہان میں بھی ملنے کی توقع نہیں تھا۔ ماضی کی
یاد ایک ڈراؤنا خواب تھی لیکن یہ خواب نہ صرف رات بلکہ دن کا بھی تھا بلکہ
ہر لمحے کا تھا۔ اب سوائے صبر، ضبط اور برداشت کے کوئی رستہ نہیں تھا جس پر
زندگی کی دو پایہ گاڑی کو ڈالا جا سکتا۔ اسے اپنی کمسن ثمرین کے مقدر سے
بھی خوف آنے لگتا تو وہ فوراً اسے گلے سے لگا لیتی۔ اس کا رونا ضرورت سے
زیادہ تھا لیکن اتنا رونے سے بھی اس کی آتشِ غم بجھ نہیں پاتی تھی۔ وہ اپنا
گلا دبانے کا سوچتی تو ننھی ثمرین کی معصومیت ا س کے ہاتھ دبوچ لیتی۔ وہ اب
مرنے یا جینا کا نہیں بلکہ یاد بھلانے یا پتھرا جانے کا سوچ رہی تھی اور
شاید یاد کا بھلا دینا ہی اس کے لئے بہترین ماسک تھا۔ |
|