فہد اور اسکی خالہ خالو کمرے میں بیٹھے خوش
گپیاں کر رہے تھے۔ خالو اپنے روزگار کا رونا رو رہے تھے اور خالہ باتوں ہی
باتوں میں ان پر طنز کے نشتر چلا رہی تھیں۔ فہد بھی اپنے چھوٹی سیسیلز مین
کی جاب کے شکوہ شکایتیں کر رہا تھا۔آج کل کی مہنگائی کے دور میں کہاں دس
پندرہ ہزار روپے میں کسی کا گزارہ ہو سکتا تھا۔ مگر غریب کی کس کو پرواہ ہے۔
غریب تو بس اپنا معیارِ زندگی پست سے پست کرتا چلا جاتا ہے اور کسی نہ کسی
طرح زندگی کے دن کاٹتا رہتا ہے۔
’’فہد بھائی اوپر آئیں……‘‘ ۔ فہد کا ایک کزن کمرے کے باہر ہی کھڑا ہو کر
اسے اوپر بلانے لگا۔
’’کیا ہوا؟؟؟‘‘ ۔ فہد باتوں میں لگا تھا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے پوچھنے لگا ۔
’’آئیں تو……‘‘ ۔ اس کے کزن نے زرا الفاظ کھینچ کر کہے اور سیڑھیوں سے اوپر
جانے لگا۔
فہد نے اپنی گود سے اپنے ننھے خالہ ذاد کو نیچے اتارا اور اوپر جانے لگا۔
اوپر اس کا کزن اس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ ایک ہی کمرہ تو بنا تھا
اوپر۔ کوئی اور موجود نہیں تھا۔
’’یہ لیں……‘‘ ۔ فہد کے کزن نے اسے ایک لپٹا ہوا کاغذ دیا۔
’’یہ کیا ہے؟؟؟‘‘۔ فہد نے حیرت سے اس کاغذ کے صفحے کو کھولتے ہوئے کہا۔
’’ریحانہ باجی نے دیا ہے……‘‘ ۔ اس کے کزن کے چہرے پر ایک شرارت بھری
مسکراہٹ آ گئی۔ اتنا بچہ تو وہ بھی نہیں تھا۔ معاملہ سمجھ گیاتھا۔
فہد چہک اٹھا۔ اس کے دل میں شہنائیاں سی بجنے لگیں۔ وہ فوراََ اوپر بنے
کمرے میں گھس گیا اور خط پڑھنے لگا۔
میرے پیارے فہد!
السلام و علیکم!
اب کاغذ و قلم ہاتھ میں اٹھایا ہے تو دل زور زور سے دھڑکنے لگا ہے۔ جانے
کیا کیا سوچا تھا لکھنے کو…… پر اب کچھ یاد نہیں آ رہا۔ سمجھ نہیں آرہا کیا
لکھو کیا چھوڑوں ۔ کہیں آپ کو کوئی بات بری نہ لگ جائے…… اور ایسا ہو گیا
تو میرا کیا ہو گا؟؟؟ میں تو اپنا آپ پورا کا پورا آپ کو سونپ چکی ہو۔
انتظار کرتی رہی کہ آپ کوئی پیغام بھیجیں یا کوئی بات آگے بڑھائیں…… مگر اب
دل کے ہاتھوں مجبور ہو چکی ہوں۔ جو ہو سو ہو…… میں آپ کو اپنا دل دے چکی
ہوں……
اگر میرا خط پڑھ کر آپ کو شرمندگی اٹھانا پڑی ہو تو اس کے لئے معذرت چاہتی
ہوں۔ مگر کیا کروں خود پر قابو نہیں رکھ پائی۔ ایک بوجھ سا ہر پل دل پر
ہوتا تھا، جسے آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتی تھی۔ ہر وقت آپ کے بارے میں ہی
سوچتی ہوں۔ خیالوں ہی خیالوں میں آپ کے ساتھ رہتی ہوں۔ نا جانے کیا کیا
باتیں کرتی ہوں۔ ہر دم نگاہیں آپ کے دیدار کو ترستی ہیں…… اور جب کبھی خوش
قسمتی سے آپ کی ایک جھلک نظر آ جائے تو جیسے زندگی میں بہار آ جائے۔ کھل
اٹھتی ہوں…… چہک جاتی ہوں…… جیسے مردو جسم میں جان پڑ گئی ہو۔ کھوئی ہوئی
مسکراہٹ لوٹ آئی ہو……جینے کی آرزہ مل جاتی ہے……
مجھ ناچیز پر نظر کیجئے …… دل نہ توڑئیے…… اپنا دل کا حال بیان کیجئے۔
آپ کے جواب کا اسی پل سے انتظار شروع ہو گیا ہے۔ امید ہے آپ ذیادہ نہیں
تڑپائیں گے اور خط کا جواب جلد دیں گے۔
صرف اور صرف آپ کی
ریحانہ فہد
فہد نے کوئی پندرہ بیس بار وہ خط پڑھا ۔ جو محبت کی چنگھاری دل میں دبی
ہوئی تھی وہ بھڑک اٹھی۔ فہد نے اسی وقت ریحانہ کو جواب تحریر کر کے اپنے
کزن کے ہاتھ بھجوا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دلاور نیشیشے کا ایک کَش لگایا اور سر اٹھا کر ہوا میں بہت سا دھواں پھیلا
دیا۔ ایک درمیانے سے سائز کے ہال میں ٹیبلز اور کرسیاں لگیں تھیں۔ ہال میں
لائٹس آف تھیں۔ بس مختلف قسم کے چھوٹے موٹے لیمپس اِدھر ُادھر لگے تھے…… یا
پھر رنگ برنگی ڈسکو لائٹس ہال میں حرکت کر رہی تھیں۔ دلاور اکثر اس شیشہ
بار میں شیشہ پینے آتا تھا۔ بہت سے لڑکے لڑکیاں ایک ایک ٹیبل گھیریں شیشے
کے کَش لگا تے …… پیتے پلاتے نظر آ رہے تھے۔
کچھ دیر میں ایک لڑکی آئی اور شیشہ میکر کے آگے رکھے اسٹول پر بیٹھ گئی۔ اس
نے وائٹ کلر کی شرٹ اور بلو سکن ٹائٹ جینز پہن رکھی تھی۔دلاور کی نظر اسی
لڑکی پر ٹک گئی۔ وہ اپنا آڑر دے کے اپنا موبائیل چیک کرنے لگی۔ تھوڑی دیر
میں دلاور اٹھا اور اس کے ساتھ والے اسٹول پر بیٹھ کر ایک کولڈ ڈرنک آڈر کر
دی۔
’’ہائی…… ہاؤ آر یو؟؟؟‘‘ دلاور اس لڑکی سے مخاطب ہوا۔
’’ہائی…… ‘‘ اس نے بے نیازی سے ایک بار سراٹھا کر دیکھا۔
’’آئی ایم فائن……ہاؤ آر یو؟؟؟‘‘ ۔ اس نے رسماََ دلاور سے اس کا حال دریافت
کیا۔
’’آئی ایم او کے‘‘۔
’’آپ کو پہلے کبھی یہاں دیکھا نہیں!‘‘ دلاور نے باتبڑھائی۔
’’ا م م م…… یا…… میں ایکچلی یہاں نہیں رہتی…… میں ایکچلی ویکیشن پہ آئی
ہوئی ہوں‘‘ وہ بار بار اپنا چہرہ موبائیل پہ جھکا دیتی اور پھر دلاور کو
دیکھ کر بات کرتی۔
’’اوہ…… آئی سی……‘‘ دلاور بولا۔
’’…… کہاں رہتی ہیں آپ؟؟؟‘‘
’’…… میں…… میں انگلینڈ میں پڑھ رہی ہوں……بس چھٹیوں پر ہی یہاں آتی ہوں‘‘۔
اس نے جواب دیا۔
’’اوہ…… گُڈٖٖٖ!!!‘‘ دلاور اپنی بھنویں اٹھا کر بولا۔
’’کیا پڑھ رہی ہیں آپ؟؟؟‘‘
’’میں پولیٹکل سائنس کی اسٹیوڈنٹ ہوں‘‘۔ اتنے میں اس کی اور دلاور کی ڈرنک
ایک ساتھ آ گئی۔
’’اچھا! مجھے ابھی جانا ہے‘‘۔ دلاور نے اپنی ڈرنک اٹھائی اور کھڑا ہو گیا۔
’’آئی ہوپ آپ سے کل پھر ملاقات ہو؟؟؟‘‘ دلاور بولا۔
’’کل؟؟؟ نہیں سوری میں روز یہاں نہیں آتی……‘‘ وہ بولی۔
’’اچھا! تو پھر کیسے ہماری ملاقات ہو گی دوبارہ؟؟؟‘‘ دلاور نے مسکراتے ہوئے
پوچھا۔
’’ام م م…… اتنی جلدی اتنی بے تکلفی کی وجہ پوچھ سکتی ہوں میں؟؟؟‘‘ وہ اپنے
ہونٹوں کو ترچھا کر کے مسکرائی۔
’’ ہی ہی…… بس کوئی خاص وجہ نہیں…… مجھے نئے دوست بنانا پسند ہے اور آپ
مجھے اچھی لگیں……‘‘۔ دلاور نے صاف صاف بات کی۔ ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ
دلاور کسی لڑکی کی طرف بڑھا ہو اور اس نے انکار کر دیا ہو۔ وہ تھا ہی اس
قدر پر کشش اور جاذب النظر ……
’’اچھا!!! ہی ہی …… آئی ایم سوری ……مگر کل تو شاید میں کہیں شاپنگ وغیرہ پہ
جاؤں گی……‘‘
’’ویسے شاپنگ تو مجھے بھی کچھ کرنی ہے…… آپ میرا نمبر سیو کر لیں …… اگر آپ
چاہیں تو میں آپ کو کمپنی دے سکتا ہوں‘‘۔ دلاور نے نمبر دیا اور بار سے
باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دس بج رہے تھے۔میں کھانا وغیرہ کھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہیں
ساتھ رکھی چند ایک کتابوں میں سے ایک اٹھائی اور پڑھنے لگا۔اس میں مراقبہ
کرنے کے کچھ طریقے لکھے تھے۔ میں ایک مشق کی تفصیل پڑھنی شروع کر دی۔
’’مراقبہ اپنے ذہن کو ہر قسم کے خیالات سے خالی کرنے کا نام ہے۔ جب انسان
کا جسمانی ذہن مکمل طور پر پُر سکون اور ساکت ہو جاتا ہے تو اس کا روحانی
دماغ کام کرنے لگتا ہے۔ اپنے روحانی دماغ کو ایکٹیویٹ کرنے کے لئے مختلف
قسم کے مراقبے کے طریقے ہیں۔ مثلاََکسی خاص آواز پر دھیان دینا، کسی خاص
چیز کو تکتے رہنا، اپنے دل کی دھڑکن کو سنتے رہتا، یا اپنی سانس پر توجہ
کرنا وغیرہ……‘‘
میں نے ایک مشق پڑھی اور اس پر عمل کرنے کھڑا ہو گیا۔ گھر کی چھت ایسے
عملیات کے لئے سب سے موضوع جگہ تھی۔ خاص طور پہ رات کے اس پہر وہاں کوئی
آتا جاتا نہیں تھا۔لہذا میں نے کتاب اٹھائی اور چھت پر جانے لگا۔
کالی اندھیری رات تھی۔ چاند کا کچھ پتا نہ تھا کہ کہاں ہے۔ آسمان پر ستارے
جھلملا رہے تھے۔ موسم خوشگوار تھا۔ میں چھت پر پڑی ایک دری اٹھا لایا اور
نیچے بچھا دی۔باہر گلی میں بھی مکمل سناٹا تھا۔ میں نے ایک نظر باہر سڑک پر
جھانکا اور پھر آ کر دری پر چونکڑا مار کے بیٹھ گیا۔ ایک ٹھنڈی ہوا کا
جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا ۔ میں نے فوراََ ایک گہرا سانس لے کر ہوا میں
بھری اس تازگی کو اپنے اندر سمو لیا۔
میں نے آنکھیں بند کیں اور اپنی سانس پر توجہ کر دی۔ میں ایک گہرا سانس
لیتا اور اس کی ٹھنڈک اپنے اندر تک محسوس کرتا۔ پھر آہستہ سے پوری توجہ کے
ساتھ اپنے نتھنوں سے سانس باہر نکالتا ۔ پھر ایک گہرا سانس ناک کے ذریعے
لیتا پھر نکالتا۔ میں یہی عمل دہراتا جا رہا تھا۔ میری پوری توجہ میری سانس
کے لینے پر مرکوز تھی۔ پھر کچھ دیر میں کچھ خیالات نے ذہن پر دھاوا بولنا
شروع کر دیا۔
اسٹور میں کام کرنے والی سیلز گرل……
مجدی کی جاب کا مسئلہ……
دلاور کی حرکتیں ……
……اور پھر مکلی کا قبرستان…… میں خیالوں ہی خیالوں میں پھر مکلی کے اس
پرسرار قبرستان میں پہنچ گیا۔
مزار پر اس ملنگ بابا کا ملنا ……
’’تمہاری دنیا میں دکھ ہی دکھ ہیں‘‘ ۔ میری نظروں کے سامنے وہ بابا موجود
تھا۔
’’کیا رکھا ہے اس دنیا میں…… دیکھ تیرے ساتھ کیا ہوا…… تیرا بچپن کیسا
گزرا……
ہمیشہ تیرے دوستوں نے تجھے دھوکہ دیا۔ تجھ سے اپنا فائدہ حاصل کیا…… یاد کر
کیسے اس بے رحم نے تجھ معصوم پر ذیادتی کی تھی…… کیسے اس نے تجھے ہراساں
کیا……
یاد کر کیسے لوگ تیرا مذاق اڑاتے تھے…… ’’ او!چھ انگلیوں والے چھکے!!!!‘‘
میں نے زور لگا کر اپنی آنکھیں کھول دیں۔ میری سانسوں کا تسلسل ٹوٹ چکا
تھا۔ دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو رہیں تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی
مجھ پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹا ہو۔ ابھی ابھی کوئی قیامت آئی ہو…… تکلیف دہ یادیں
ذہن کی سطح پر ابھر آئیں تھیں۔
میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔
’’ہاں……سچ ہی تو ہے۔اس دنیا میں کیا رکھا ہے۔ دکھ ہی دکھ ہیں ہر طرف…… مطلب
پرستی…… دھوکہ دہی…… حسد ، بغض…… کوئی کسی کو اپنے سے بہتر نہیں دیکھ
سکتا……مال کی محبت…… دکھاوا…… غربت…… ‘‘
’’سچ ہی تو ہے۔ میری زندگی کون سی اچھی گزری ہے۔ اور میں خود بھی تو ایسا
ہی ہوں…… مطلبی…… خود غرض…… میں نے کسی کے لئے کیا کیا ہے…… میرے آس پاس
کتنے لوگ تکلیف میں ہیں پر میں نے کبھی کسی کی تکلیف دور کرنے کے بارے میں
نہیں سوچا…… بس چلتے پھرتے کبھی پانچ دس روپے کسی کو دے کر سمجھا کہ حاتم
طائی کی قبر پر لات مار دی……سب ایسے ہی تو ہیں۔ دنیا میں کتنی مفلسی ہے۔
کتنی تکلیف ہے۔ مذہب کے نام پر، رنگ کے نام پر ، نسل ، خاندان، قبیلے کے
نام پر کتنا تعصب ہے…… کس قدر نا انصافی ہے ۔ دہشت گردی…… جنگیں…… کمر توڑ
دینے والی مہنگائی……بے حیائی…… جسم فروشی……‘‘
’’واقعی…… ایسی گندی دنیا میں رہنے سے تو بہتر ہے کہ بندہ دنیا ہی چھوڑ
دے……‘‘۔ میں چھت پر بیٹھا بیٹھا جانے کیا کچھ سوچے جارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
دلاور اور سبین پارک ٹاور میں شاپنگ کر رہے تھے۔ دلاور کو اپنا نیا ساتھی
مل گیا تھا۔ایک انگلینڈ میں پڑھنے والی ماڈرن لڑکی…… سبین بھی کھلے ذہن کی
لڑکی تھی۔ لڑکوں کے ساتھ گھومنا پھرنا، دوستی کرنا، پکنک پر جانا اس کے لئے
کوئی انوکھی بات نہ تھی۔
سبین ایک ڈیزائنر شاپ کی طرف بڑھنے لگی۔ دلاور بھی بہترین ڈریسنگ کئے اس کے
ساتھ ساتھ تھا۔ دونوں کا کپل بہت اچھا لگتا تھا۔
’’یہ ڈریس اچھا ہے نا؟؟؟‘‘ ۔ سبین کو ایک سوٹ پسند آ گیا۔
’’یا…… اٹس کول……‘‘۔ دلاور کو بھی ڈریس پسند آیا۔
دلاور نے آناََ فاناََ سیلز مین سے پرائز پوچھی اور فوراََ اپنے کریڈٹ کارڈ
سے پیسے دے دئیے۔
’’نو…… اٹس ناٹ فئیر……‘‘
’’میں یہ سوٹ نہیں لوں گی……‘‘ سبین نے وہیں دوکان میں کھڑے کھڑے کہہ دیا۔
اسے دلاور کا پیسے دینا اچھا نہیں لگا۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔ چلو……‘‘ ۔ دلاور نے اس کی بات نظر انداز کر دی اور ڈریس لے
کر دوکان سے باہر نکلا۔
ان کا گھومنا پھرنا اب روز کا ہو گیا تھا۔ سبین کا بیچلرز ختم ہو گیا تھا
اور وہ چھٹیوں پر پاکستان آئی ہوئی تھی۔ ماسٹرز شروع کرنے سے پہلے وہ کچھ
بریک لینا چاہتی تھی۔ اس کے ذیادو تر دوست انگلینڈ میں ہی رہتے تھے۔
پاکستان میں کوئی قریبی نہ تھا۔ مگر اب دلاور کی صورت میں اسے ایک اچھا
دوست مل گیا تھا۔ دلاور تو ویسے بھی لڑکیوں کو پھسانے میں ماہر تھا۔ جلد ہی
سبین اس کے قریب آ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔ |