پچاس سے زیادہ منقسم ممالک پر مشتمل
عالم اسلام کواس وقت بہت سارے چلینجز کا سامنا تو ہے ہی مگر انتہا پسندی نے
اس کے لئے بقاء کا مسئلہ پیدا کر دیا ہے ۔عالم اسلام ہی کیا اب اس مسئلے نے
’’عالم انسانیت ‘‘کوبھی خوف میں مبتلا کردیا ہے اس لئے کہ اب عالم اسلام
میں بڑھتی ہو ئی انتہا پسندی کا شکار خود عالم اسلام ہی نہیں ہو رہا ہے
بلکہ اس کی زد میں روئے زمین کا چپہ چپہ آرہا ہے ۔تمام تر اجتماعی کو ششیں
مکمل طور پر نا کا م ثابت ہو رہی ہیں ۔ مسلم ممالک کا بنیادی ڈھانچہ تک اس
کی زد میں آچکا ہے ۔معصوم بچے اس کے سب سے زیادہ شکار ہورہے ہیں۔بے شمار
ماؤں بہنوں کی عزتیں تک اس رویہ سے پامال ہو چکی ہیں ۔نوجوان نسل انتہائی
تیزی کے ساتھ ان اثرات کو قبول کرتی ہو ئی نظر آتی ہے حتیٰ کہ ’’انسانی اور
دینی اقدار ‘‘اس کی زد میں آتی جا رہی ہیں ۔تہذیب و تمدن پر اس کے مہلک
اثرات مرتب ہو تے جا رہے ہیں۔ مالی اور جانی نقصانات کا اندازہ لگانا
تقریباََ ناممکن ہے ۔عالم اسلام اب دشمنوں کو بھول کر آپس میں گتھم گتھا ہے
۔اور خون مسلم کی ارزانی بالکل ویسی ہی ہے جیسے چنگیز خان کے دور میں تھی
۔نفرتوں ،کدورتوں اور بغض و حسد نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور
کوئی کسی کی سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔عربی اور عجمی نفرتیں پھر اپنا سر
ابھار رہی ہیں خود عرب ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے میں مصروف ہیں اور حد یہ
کہ ہر جگہ قوم و ملت ایک دوسری سے ہی الجھی ہو ئی ہے ۔
دورِ حاضر میں اس مسئلے کا باربار تجزیہ کیا گیا بعض اس کیلئے نظام تعلیم
کوذمہ دارٹھہراتے ہیں ،بعض خلافت کے خاتمے کو اور بعض مذہبی تنظیموں اور ان
کے لٹریچر کو اور بعض سیکولر اور لبرل حضرات کو ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ سبھی
عوامل بہت اہم ہیں مگر انتہا پسندی کا تجزیہ کرتے ہو ئے ہمیں یہ بھی مدنظر
رکھنا چاہیے کہ عموماََ میڈیا کا تجزیہ ہی تجزیہ تصور کیا جاتا ہے اس لئے
کہ ان کو اپنی بات دوسروں تک پہنچانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی ہے وہاں
بیٹھے انسان بھی انسان ہی ہوتے ہیں جو اپنے خاص ’’لذت اور مفاد‘‘کے تحت ہر
مسئلے کا تجزیہ کرتے ہیں ۔میڈیا پورے کا پورامغربی دنیا کے لئے ’’لونڈی
‘‘جیسی ہے جس کی نہ اپنی کوئی مرضی اورنہ ہی کوئی خواہش ہوتی ہے ۔مغرب نے
عالم اسلام سے متعلق پروپیگنڈے کی بدولت ایسی قبیح اور مکروہ تصویر پیش کر
رکھی ہے کہ مغرب کا عام انسان بھی انھیں ’’بربرقوم‘‘تصور کرنے پر مجبور ہیں
۔ہوں بھی کیوں نہیں آپ پوری روئے زمین پر ایک سرسری نگاہ ڈالئے صرف مسلمان
ممالک ہی جنگ جیسی صورتحال سے دوچار ہیں افغانستان ،شام ،عراق،یمن،لیبیا
،سوڈان ،پاکستان اور صومالیہ براہ راست ’’مسلم انتہا پسندی کے نرغے میں ہیں
۔جن دوسرے ممالک میں حالات قدرے ٹھیک ہیں وہاں کا معاملہ سعودی عربیہ
،بحرین، مصر اور تیونس جیسا ہے ۔
انتہا پسندی نے ہمارے کم سے کم ایک درجن ممالک کو تباہ و برباد کر کے
رکھدیا ہے ۔لاکھوں انسانوں کی جانیں ضایع ہو چکی ہیں ۔شام و عراق میں
انسانیت کوکچل کے رکھ دیا گیاہے ۔کروڑوں انسان ہجرت کر کے مسکینی اور
محتاجی کی زندگی گذارنے پر مجبور کئے جا چکے ہیں ۔نئی نسلوں کا مستقبل داؤ
پر لگ چکا ہے اور وہ یہ سمجھنے سے عاجز ہیں کہ آخر سیاسی اور مسلکی رسہ
کشیوں کے بھینٹ انھیں کیوں چڑھایا جا رہا ہے ۔عالم اسلام کو اس جنگ جیسی
صورتحال سے نکالنے کے لئے نہ ہی کوئی پروگرام تشکیل دیا جاتا ہے اور نہ ہی
اس کی ’’اہمیت اور حساسیت‘‘کا ادراک کرنے کی کوشش کی جا تی ہے ۔پھر حیرت
بلکہ المیہ یہ کہ اس میں مذہبی ’عقائد اور جذبات‘ کے بے دریغ استعمال کی جا
رہا ہے ۔حد یہ کہ اس ’’وحشیانہ جنگ‘‘میں قاتل اور مقتول دونوں خوش ہیں اور
شہید ،مجاہد اور جنتی ہونے کے بھی مدعی ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا
یہ صورتحال صرف امریکی مداخلت اور اسرائیلی سازشوں سے ہی پیدا ہو گئی یا اس
کے عوامل کچھ اور بھی ہیں ۔تجزیہ کرتے ہو ئے صورتحال اب تجزیہ نگاروں کے
لئے بھی خوفناک بنتی جا رہی ہے کہ ان کے انسانیت کے درد بھرے غیر جاندارانہ
تجزیہ کو مسلکی نفرتوں کے نذر کردیا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ اب بہت سوں
نے نہ صرف ’’قلم اور زبانیں‘‘ بند کر دی ہیں بلکہ نفرتوں کے اس ماحول میں
’’حکم کفر‘‘کے ڈر سے افسانے اور ڈرامے لکھنے شروع کر دئیے ہیں ۔
یہ صورتحال ایک رات یا دس سال میں پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ اس پر ایک عرصے
سے کام برابر جاری ہے ۔اس میں کفار کی سازشوں کا عمل دخل تو ہے ہی مگر
اپنوں کی سنگ اور تنگ دلی بلکہ بے شعوری نے بھی ہمیں تباہی سے دوچار کر دیا
ہے ۔خلافت کا خاتمہ نہ 1923ء میں ہوا نا ہی کل بلکہ یہ المیہ ٹھیک نبی پاکﷺ
کی پیشن گوئی کے عین مطانق صرف تین دہائیاں بعد حضرت علیؓ کی شہادت کے ساتھ
ہی پیش آیا پورے چودہ سو برس ملنے کے باوجود مسلمان حکمرانوں نے ایسی
صورتحال کو جنم دیا کہ اجتماعی قیادت کا تصور ایک خواب بن گیا اور فی الحال
اس کی تعبیر ممکن نہیں ہے اس لئے کہ جو مذہبی طبقہ اس کے قیام کا قائل وہ
سب یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ خلیفہ اور نظام ان کے مسلک ،فکر اور تنظیم کے گود
سے جنم لے لے نہیں تو باطل اور گمراہ ہی نہیں بلکہ ملحد اور کافر ۔مسلمان
نسلوں میں خلافت کا زخم اب تک اتنا عمیق ہے کہ ہر دور میں علماء اور
دانشوروں نے اس تصور کو زندہ رکھا چودہ سو برس گذرنے کے بعد بھی مسلمانوں
نے اس تصور کو زندگی دی اور اس کی واپسی کے لئے صرف تمنائیں اور آرزوئیں ہی
نہیں پالی بلکہ اس کے لئے اﷲ کے ہاں آنسوں بہانے کے ساتھ ساتھ اپنا خونِ
جگر بھی پیش کیا ۔حیرت یہ کہ پورے چودہ سو برس میں کفار سے زیادہ ’’تصور
خلافت اور قیام خلافت‘‘کی راہ میں مسلمان ہی زیادہ مزاحم ثابت ہو ئے ۔اور
یہ سلسلہ اب تک ہر جگہ جاری ہے ۔
اس کشمکش نے ایک خاص ذہنیت کو جنم دیا ہے عرصہ دراز تک اسلام پسند اور
علماء اپنوں سے ہی دست و گریبان رہے مگر اب گزشتہ ایک سو سال سے اسلام پسند
دوسروں کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی گتھم گتھا ہیں ۔اس کشمکش نے سخت گیر طبقات
کو جنم دیکر ایسا ’’زہر آلود لٹریچر ‘‘تخلیق کیا ہے کہ ہر مسلک اور مکتبہ
فکر دوسرے کو کافر قرار دیکر گردنیں اڑاتا پھرتا ہے اور اس جنگ میں ایک
دوسرے کی بہو بیٹیوں کی عزتیں بھی حلال کر دی گئی ہیں اور مال و جان کو مال
غنیمت کے دائرے میں لانے کیلئے بعض ’’تفردات اور سطحیت‘‘سے کام لیکر کامیاب
کوششیں کی گئی ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک نئی مصیبت یہ بھی ہے کہ اب حکو
متیں اپنے مخصوص سیاسی توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے اس لٹریچر سے
جنم لینے والے لوگوں کی کھلے عام پشت پناہی کرنے شروع کر دی ہے ۔مسلمان
پہلے دو بڑے مسالک ’’شیعہ اور سنی‘‘میں منقسم تو تھے ہی مگراب شیعوں اور
سنیوں میں تقسیم در تقسیم کی صورتحال پیدا ہو کر یہ کمزور عمارت ڈھ جانے کی
قریب پہنچ چکی تھی ۔پہلے متشدد شیعہ سنی ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے تھے
مگر اب خود شیعوں اور سنیوں میں درجنوں ایسے متشدد مکاتب فکر نے جنم لیا ہے
کہ وہ ہر مخالف چاہیے وہ شیعہ ہو یا سنی کافر اور واجب القتل قرار دے رہے
ہیں ۔
ان طبقات کے ساتھ ہی ساتھ مغرب کی تقلید میں ایک وسیع لکھی پڑھی مسلم آبادی
نے اپنی گردنوں میں سیکو لر ازم اور لبرل ازم کا طوق ڈال دیاہے یہ طبقہ شدت
اور انتہا پسندی میں کسی متشدد ملا یا مولوی سے کچھ بھی کم نہیں ہوتے ہیں
۔کہنے کو یہ نرم مزاج اور خوش طبیعت ہو تے ہیں مگر صرف دین بیزاروں کے لئے
۔ان کا رویہ اسلام پسندوں کے تئیں انتہائی معاندانہ اور جارحانہ ثابت ہوا
ہے ۔ مصطفیٰ کمال اتا ترک نے ترکی میں خلافت کے خاتمے کے باضابط سرکاری
اعلان کے بعد جس صورتحال سے ترکی کے ساتھ ساتھ سارے عالم اسلام کو دوچار
کردیا کے کانٹے اب تک نکالنے میں امت مسلمہ بری طرح گرفتار ہے ۔اتاترک کی
تحریک کو اگر دو لفظ میں خلافت کے خاتمے کی تحریک کہا جائے تو پھر یہ بھی
ماننا پڑے گا کہ اس کے بانی اتاترک نہیں بلکہ صدیوں پہلے خود مسلمان تھے
۔نام اور ہاتھ ضرور بدلے مگر یہ سب ’’اکبر بادشاہ‘‘کی اولادیں ثابت ہوئیں
کل مغلوں کے ہاتھوں مجدد الف ثانیؒ بے دینی کے خلاف آواز بلند کرنے کے
پاداش میں مصیبتوں سے دوچار ہو گئے تھے جبکہ ان کے کئی سو سال بعد مصر میں
سیکولر ازم کے محافظ جمال عبدالناصر کے ہاتھوں سید قطب شہید سول پر لٹکائے
گئے فرق صرف افراد اور اوقات تھا۔
اس کشمکش کے نتیجے میں امت انتہا پسندی کے غار میں گر پڑی ۔جس سے بعض اسلام
پسندمکاتب فکر کے ہاں ایسی متشدد نسل نے جنم لیا جو ہر مسئلے کا علاج بندوق
اور گولی قرار دیتی ہے اس کے لئے وہ ایک ہی سانس میں درجنوں مثالیں پیش
کرکے مخالف کا منہ بند کر دیتے ہیں اور اب ان نوجوانوں کی پود پورے عالم
اسلام میں پھیل چکی ہے ۔مغربی قوتیں ان کے جذبات کا بھر پور ادراک کرتے ہو
ئے اپنے مخصوص اہداف کے حصول تک ان کی پشت پناہی کرتے ہیں اور جب ’’شام اور
عراق‘‘کی برباد ی کے اہداف حاصل ہو تے ہیں پھر وہ اپنے لذات اور جذبات کے
عین مطابق ان ممالک میں اپنے اتحادیوں کی حمایت کرتے ہیں ۔اس مقصد کے حصول
میں آپ ان مغربی قوتوں کو کبھی سویت یونین کے خلاف برسر پیکار مجاہدین کی
پشت پناہی کرتے ہو ئے دیکھیں اور کبھی انہی مجاہدین کے خاتمے کے لئے طالبان
کی پشت پر اور جب وہ مقصد بھی حاصل ہو جائے تو’’اقدار اور شرم و حیا ‘‘کے
تمام تر اصول بالا ئے تاک رکھتے ہو ئے آپ انھیں طالبان پر ڈیزی کٹر بم
گرانے والوں میں دیکھیں گے ۔سوال مغربی لذات کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ آخر
عالم اسلام میں موجود اسلام پسند وں ہی کے لئے ایسے حالات کب تک تخلیق کئے
جائیں گے کہ وہی ہر دونوں حالات میں مارے جائیں ۔
مغرب کی نظر عرب دنیا کے ’’سیاہ سیال سونے‘‘پر تھی اس کے لئے اس نے ہر طرف
اپنے تجارتی کارندوں کو پھیلا کر مغرب تک اچھے داموں اور حکمران خاندانوں
کے تحفظ کے وعدے کے بعد سبھی معاملات درست کر کے اس کے دروبام پر قبضہ کر
لیا اور نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ صرف ایک امریکہ کی فوجیں سو ممالک میں
پھیلی ہوئی ہیں ۔دولت کے فراوانی کے نتیجے میں عرب دنیا کو عیاشی کے
دروازوں تک پہنچا کر ’’تعلیم اور سائنس ‘‘سے دور رکھ کر ان ممالک کو عسکری
اور سیاسی میدان میں تنگ دامن کر کے عالمی سطح پر مسکینوں کے صف میں لا
کھڑا کیا ۔اس سب سے جہاں عالم عرب بالعموم اور عالم اسلام بالخصوص مغرب کو
باج ادا کرنے لگا وہی اسے اس کے ’’طفل حرام اسرائیل‘‘کو تحفظ اور یک گونہ
راحت میسر ہوئی اور معاملات یہاں تک پہنچ گئے کہ عیسائیت بیزار سیکولر
مغربی لکھے پڑھے تاجر طبقے کو متشدد یہودیوں کے ساتھ مل کر عالم انسانیت کو
برباد کرنے میں جارحانہ عزائم کی تکمیل سے کوئی روک نہیں پایا ۔ایک طرف
مسلمانوں میں سیکولروں اور لبرلوں کی پشت پناہی اپنے لئے لازم اور واجب
کردی وہی دوسری طرف اس کی مخالفت کرنے یا راہ میں رکاوٹ بننے والے اسلام
پسندوں کو کہیں خود اور کہیں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کراکے بے چینی،اضطراب
اور تشدد کو فروغ دیکر یہ بات اسلام پسندوں کے ذہنوں میں بٹھا دی کہ مغربی
اور مسلم سیکولروں سے نجات کا واحد ذریعہ صرف بندوق اور بغاوت ہے ۔
دہشت گردی کی آڑ میں امت کو تباہ کر نے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا
حتیٰ کہ ان اسلام پسندوں کے لئے بھی قافیہ حیات تنگ کیا گیا جو پر امن
جدوجہد کے قائل تھے ،اسلامک فرنٹ آف الجزائر کے بعد اخوان المسلمون مصر کو
اسی برس بعد جب مغربی پیمانے اور لذت کے عین مطابق حکومت کرنے کا موقعہ ملا
تو اس کواس کے’’ اپنوں ہی کے ہاتھوں‘‘ایسی وحشت ناک صورتحال سے دوچار کردیا
گیاکہ القائد کے سر براہ ڈاکٹر ایمن الظواہری نے طنزیہ انداز میں اخوان کو
دہائیاں قبل اپنی کہی ہوئی بات یاد دلائی کہ’’ میں نے بہت پہلے کہا تھا پر
امن طریقوں سے مغرب آپ کو کبھی بھی آگے بڑھنے نہیں دے گا‘‘۔امریکی سابق صدر
جارج بش نے مسلم دنیا کے خلاف با ضابط جنگ کا آغاز کرتے ہو ئے’’کروسیڈ
‘‘کااعلان کردیا اور اب نصف درجن مسلم ممالک کو تباہ و برباد کرنے کے بعد
نئے امریکی صدر ’’ٹرمپ‘‘نے ’’آگ کا مقابلہ آگ سے ‘‘کرنے کا فیصلہ لیتے ہو
ئے ’’انتہا پسند اور شدت پسند‘‘الفاظ استعمال کرتے ہو ئے دوبارہ پر تشدد
طریقے اختیار کرنے کا فیصلہ لیکر یہ ثابت کردیا کہ جہاں اسلام پسندوں کی
راہیں مسدود کر کے انھیں جان بوجھ کر ’’مین اسٹریم ‘‘سے الگ کر کے پر تشدد
راہوں پر چلنے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ عالم اسلام پر قابض حکمران
طبقہ’’حقیقی اور غیر حقیقی خوف ‘‘میں مبتلا رہ کر ایک جانب اسلام پسندوں کو
راستے مسدود کریں تو دوسری جانب وہ اپنی جھولی مغرب کی طرف ہی پھیلائے
رکھیں ۔
بد قسمتی سے بڑے بڑے علماء اورمتبحر دانشور بھی اس صورتحال میں شدید ردعمل
کے شکار ہو گئے اور انھوں نے بعض مواقع پر طاغوت سے جہاد اور کشمکش پر
ابھارتے ہو ئے ’’کافر اور مسلمان حکمرانوں‘‘کے لئے ایک ہی حدت میں علم اور
دلائل کے دریا بہا دئیے جس کے نتیجے میں ایسا وسیع لٹریچر منظر عام پر آگیا
کہ اسے مستفید ہونے والوں میں ہر نئے دن نئی وحشت اور شدت جنم لیتی ہے ایک
سال قبل میں نے انہی صفحات پر’’ تطہیر لٹریچر‘‘ کی ضرورت پر زور دیا تھا
۔عالم اسلام میں جہاں غیروں کو مدعو سمجھنے کے برعکس مکمل طور پر واجب
القتل قرارہی تصور کیا جا تا ہے وہی اب اس تنفر و تشدد نے ان اپنوں کو بھی
گھیر لیا ہے جو مسلکی اور فکری بنیادوں پر ہم سے دوری بنائے ہو ئے ہیں ۔اس
کا ایک بڑا نمونہ ابو بکر بغدادی سے متعلق اخوان المسلمون عراق کے مرشد عام
کا یہ انکشاف ہے کہ ان کے بقول میرے ایک معتبرشخص نے ابو بکر بغدادی سے
پوچھا کہ آپ ہر اس شخص کو واجب القتل قرار دیتے ہیں جو خلیفہ نہ مانتے ہو
ئے آپ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے جبکہ آ پ کے استاد اور اخوان کے مرشد عام
عراق نے بھی ابھی تک آپ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ہے اب اگر وہ آپ کے ہاتھوں
گرفتار ہو جائیں تو ان کے ساتھ آپ کیا کریں گے ؟ابوبکر بغدادی نے اس سوال
کے جواب میں کہا کہ اگر وہ میرے ہاتھوں گرفتار ہو جائیں تو استاد ہونے کے
ناطے میں انھیں قتل نہیں کرون گا البتہ اگر میرے کسی ساتھی نے انھیں گرفتار
کیا اور میرے سامنے ذبح کیا تو میں اس کو منع نہیں کروں گا ۔ |