* دجال معین شخص ہوگا *
دجال ایک معین شخص ہوگا،کیونکہ احادیث میں واضح طور پر اس بات کو بیان کیا
گیا ہے، لہذا کسی ملک، ادارے یا طاقت کو دجال سمجھنا درست نہیں، جیسا خوارج
اور دیگر باطل فرقوں کا خیال ہے ...
قاضی عیاض رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں؛
هذه الأحاديث التي ذكرها مسلم وغيره في قصةالدجال حجة في صحة وجود الدجال
وإنه شخص بعينه...
ترجمہ :
دجال کے واقعہ میں ساری احادیث جن کو امام مسلم وغیرہ نے ذکر کیا ہے، دجال
کے وجود کے صحیح ہونے پر دلیل ہیں اور اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ دجال ایک
شخص معین ہوگا ...
دجال کا ذکر قرآن مجید میں:
دجال کا فتنہ اتنا زیادہ اہم ہے کہ قرآن مجید میں بھی اس فتنے کا تذکرہ ہے،
بخاری کی شرح فتح الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمت اللہ علیہ فرماتے
ہیں...
دجال کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں کیا گیا ہے :
"يوم يأتي بعض آیات ربک لا ينفع نفسا إيمانها "
ترجمہ :
" جس دن آپ کے رب کی بعض نشانیاں آئیں گی تو کسی کو اس کا ایمان فائدہ نہیں
دے گا "
سنن ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین چیزیں ایسی
ہیں کہ جب وہ ظاہر ہو جائیں تو ایسے شخص کا ایمان لانا جو پہلے ایمان نہیں
لایا تھا اس کو فائدہ نہ دےگا ... (وہ تین چیزیں یہ ہیں) 1: دجال
2: دابت الأرض
3: سورج کا مغرب سے نکلنا
یہ صحیح درجہ کی حدیث ہے، لہذا اس آیت میں دجال کا بھی ذکر ہے نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث مذکورہ آیت قرآنیہ کی تفسیر ہے :
ابوداؤد کی شرح عون المعبود میں ہے :
اللہ تعالٰی کا یہ قول " لينذر بأسا شدیدا "
(تاکہ ان کو سخت عذاب سے ڈرائے )
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے لفظ باس کو شدت کے ساتھ اور اپنی جانب سے قرار
دیا ہے، لہذا اس کے رب ہونے کا دعوٰی کرنے اور اس کے فتنے اور قوت کی وجہ
سے یہ کہنا مناسب ہے کہ آیت سے مراد دجال ہو.
دجال کے خروج سے پہلے کے حالات :
1: حضرت اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرماتھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
دجال کا بیان فرمایا : اس کے ظاہر ہونے سے پہلے تین سال ہوں گے (جن کی
تفصیل یہ ہے کہ):
پہلے سال آسمان اپنی ایک تہائی بارش روک لے گا اور زمین بھی اپنی ایک تہائی
پیداوار روک لے گی،
دوسرے سال آسمان اپنی دو تہائی بارش روک لے گا اور زمین بھی اپنی دو تہائی
پیداوار روک لے گی،
تیسرے سال آسمان اپنی مکمل بارش روک لے گا اور زمین اپنی پوری پیداوار روک
لے گی، لہذا گھر والے اور باہر والے مویشی سب مر جائیں گے ...
مذکورہ روایت میں ہے کہ آسمان بارش روک لے گا اور زمین اپنی پیداوار روک لے
گی ،
مسند اسحاق ابن راہویہ کی روایت میں ہے :
" ترالسماء تمطر وهى لا تمطر وترى لارض تنبت
وهى لا تنبت "
تم آسمان کو بارش برساتا ہوا دیکھو گے حالانکہ وہ بارش نہیں برسا رہا ہو گا
اور تم زمین کو پیداوار اگاتا ہوا دیکھو گے حالانکہ وہ پیداوار نہیں اگا
رہی ہوگی -
اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بارش بھی برسے اور زمین پیداوار بھی اگائے
لیکن اس کے باوجود لوگوں کو کوئی فائدہ نہ ہو اور لوگ قحط سالی کا شکار
ہوجائیں ، جدید دور میں اس کی بیشمار صورتیں ہو سکتی ہیں عالم زراعت کو
اپنے قبضے میں کرنے کے لئے جو پالیسیاں یہودی دماغوں نے بنائی ہیں اس کے
اثرات اب ہمارے ملک تک پہنچ چکے ہیں.....
٢: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا....
خروج دجال سے پہلے چند سال بڑے دھوکے والے ہوں گے، اس میں سچا آدمی جھوٹ
بولے گا اور جھوٹا آدمی سچ بولےگا، خائن امین ہوجائے گا، امین خائن اور گھر
میں رکھے ہوئے جوتے کا تسمہ لوگوں سے بات کرے گا...
٣: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فتنوں کے بارے میں گفتگو فرمائی حتی کہ احلاس (ٹاٹ) کے فتنے کا ذکر
فرمایا، کسی کہنے والے نے عرض کیا فتنہ احلاس کیا ہے...... آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا
وہ بھگدڑ اور جنگ ہے اس کے بعد سراء ہو گا - جس کا فساد میرے اہل بیت میں
سے ایک شخص کے قدموں کے نیچے سے ہوگا وہ سمجھے گا کہ وہ مجھ سے ہے حالانکہ
وہ مجھ سے نہیں میرے دوست تو صرف متقی ہیں (اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر
جانتے ہیں کہ وہ سید کون ہوگا)، پھر لوگ ایسے آدمی پر صلح کرلیں گے جو پسلی
پر گوشت کی طرح ہوگا، پھر کالا فتنہ ہوگا جو کسی کو تھپڑ مارے بغیر نہ رہے
گا، پھر جب کہا جائے گا فتنہ ختم ہوگیا تو اور پھیلے گا، اس میں آدمی صبح
مومن شام کو کافر ہوگا، لوگ دو خیموں کی طرف لوٹ جائیں گے ایک خیمہ ایمان
کا جس میں نفاق نہیں دوسرا خیمہ نفاق کا جس میں ایمان نہیں تو جب یہ ہوجائے
تو اس دن یا اس کے اگلے دن دجال کے خروج کا انتظار کرو.
دجال کے خروج سے قبل کے حالات :
٤: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں حطیم میں حضرت حذیفہ
رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا انہوں نے حدیث ذکر فرمایا:
اسلام کی کڑیوں کو ایک ایک کرکے توڑا جائے گا اور گمراہ کرنے والے قائدین
ہوں گے اور اس کے بعد تین دجال نکلیں گے، میں نے پوچھا اے عبداللہ (حذیفہ)
آپ یہ جو کہہ رہے ہیں کیا آپ نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سنا
ہے؟ انہوں نے جواب دیا؛ جی ہاں میں نے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا
ہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ
دجال اصفہان کی یہودیہ نامی بستی سے ظاہر ہوگا -
یہ روایت کافی طویل ہے جس کا کچھ حصہ یہ ہے تین چیخیں ہونگی، جس کو اہل
مشرق و اہل مغرب سنیں گے (اے عبداللہ) جب تم دجال کی خبر سنو تو بھاگ جانا،
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ
عنہ سے دریافت کیا: اپنے پیچھے والوں (اہل و عیال) کی حفاظت کس طرح کروں گا
؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اُن کو حکم کرنا کہ وہ پہاڑوں کی
چوٹیوں پر چلے جائیں ،
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے پوچھا کہ اگر وہ
(گھر والے) یہ سب چھوڑ کر نہ جاسکیں، فرمایا: اُن کو حُکم کرنا کہ وہ ہمیشہ
گھروں میں ہی رہیں، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے
کہا کہ اگر وہ (بھی) نہ کرسکیں تو پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اے ابن عمر (رضی اللہ عنہ) وہ خوف فتنہ فساد اور لوٹ مار کا زمانہ ہے،
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے پوچھا اے عبداللہ
(حذیفہ رضی اللہ عنہ ) کیا اُس فتنہ وفساد سے کوئی نجات ہے؟
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیوں نہیں کوئی ایسا فتنہ و فساد نہیں
جس سے نجات نہ ہو...
٥: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا :
میں اپنی اُمّت کے بارے میں جس چیز سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے
والے قائدین ہیں، دجال کے وقت ان کی کثرت ہوگی اور یہ قائدین دَجّالی
قوّتوں کے دباؤ یا لالچ میں آکر خود تو حق سے منہ موڑیں گے ہی ساتھ ساتھ
اپنے ماننے والوں کو بھی حق سے دور کرنے کا سبب بنیں گے ...
٦: حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
جزیرۃالعرب خرابی سے محفوظ رہے گا جب تک آرمینیا خراب نہ ہوجائے، مصر خرابی
سے محفوظ رہے گا جب تک جزیرۃالعرب نہ خراب ہو جائے اور کوفہ خرابی سے محفوظ
رہے گا جب تک مصر خراب نہ ہوجائے،جنگ عظیم اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک کوفہ
خراب نہ ہوجائے اور دجال اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک کہ کفر کا شہر
(اسرائیل) فتح نہ ہوجائے ...
٧: حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: دجال کے خروج سے پہلے کے چند سال دھوکہ فریب کے ہوں گے،
سچے کو جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا، خیانت کرنے
والے امانت دار بنا دیا جائے گا اور امانت دار کو خیانت کرنے والا قرار دیا
جائے گا اور ان میں رویبضہ بات کریں گے، پوچھا گیا رویبضہ کون ہیں ؟ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹیا (فاسق وفاجر) لوگ وہ لوگوں کے( اہم)
معاملات میں بولا کریں گے ...
اس دور پر یہ حدیث کتنی مکمل صادق آتی ہے کہ نام نہاد مہذب دنیا کا بیان
کردہ وہ جھوٹ جس کو پڑھے لکھے لوگ بھی سچ مان چکے ہیں اگر اس جھوٹ پر کتاب
لکھی جائے تو شاید لکھنے والا لکھتے لکھتے اپنی قصہ کو پہنچ جائے ، لیکن ان
کے بیان کردہ جھوٹ کی فہرست ختم نہ ہو... کتنے ہی سچ ایسے ہیں جن کے اوپر
مغرب کی انصاف پسند میڈیا نے لفاظی اور فریب کی اتنی تہیں جمادی ہیں کہ عام
انداز میں ساری عمر بھی کوئی اس کو صاف کرنا چاہے تو صاف نہیں کرسکتا ...
مذکورہ حدیث میں خذاعۃ کا لفظ ہے اس کے معنی کم بارش کے بھی ہیں چنانچہ شرح
ابن ماجہ میں اس کی تشریح یوں کی ہے ؛
ان سالوں میں بارشیں بہت ہوں گی لیکن پیداوار کم ہوگی تو یہی ان سالوں میں
دھوکہ ہے...
٨: حضرت عمیر ابن ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا :
جب لوگ دو خیموں(جماعتوں)میں تقسیم ہو جائیں گے، ایک اہل ایمان کا خیمہ
ہوگا جس میں بالکل نفاق نہیں ہوگا دوسرا منافقین کا خیمہ جن میں بالکل
ایمان نہیں ہوگا تو جب وہ دونوں اکٹھے ہو جائیں گے اہل ایمان ایک طرف اور
منافقین ایک طرف تو تم دجال کا انتظار کرو کہ آج آئے کہ کل آئے ... جاری ہے
|