حکمت آمیز باتیں-حصہ ششم
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
یہ تحریر فیس بک کے آفیشل پیج پر میری کہی گئی باتوں کا مجموعہ ہے، میری سوچ سے سب کو اختلاف کا حق حاصل ہے،میری بات کو گستاخی سمجھنے والے میرے لئے ہدایت کی دعا کر سکتے ہیں۔
|
|
ہمیں ایسے افراد کی قدر کرنی چاہیے جو بنا
مطلب کہ ہمارے دکھ درد کو کم کرتے ہیں یا کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے
افراد کی حوصلہ افزائی سے ہی اچھائی برائی پر حاوی رہے گی۔
بہت سے لوگ میرے بھائی شعیب حسن بخاری کی طرح تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر
اپنی زندگی کے فیصلے کرتے ہیں مگر کبھی وہ میرے بھائی کی ہی طرح محض ماضی
کو ہی یاد رکھتے ہیں کہ وہ تلخ ہوتا ہے مگر اگر وہ اُس سے سبق سیکھ کر
اوربھول کر یا یاد رکھتے ہوئے مستقبل کی طرف دیکھیں تو بہت کچھ حاصل کرسکتے
ہیں۔ اگر لوگ محض ماضی کی وجہ سے اچھا مستقبل خراب کرلیتے ہیں اس حوالے سے
اپنے آپ کو مضبوظ کرنا چاہیے اور مثبت سوچنا چاہیے۔لوگوں کو جہاں تک ممکن
ہو معاف کریں یا پھر نظر انداز کر کے اپنی خوشی اور سکون کو مدنظر رکھیں کہ
جب تک ہم خود سکون میں نہیں ہوں گے ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر پائیں گے تو
لہذا اپنی سوچ کو اورحوصلے کو انتا بلند رکھیں کہ کچھ بھی ہو آپ اپنی منزل
سے دور نہ ہوں تب ہی آپ خوشی اور سکون کے ساتھ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔...
دوسروں پر طنز کرنے سے اورتذلیل کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے اگر کچھ
حاصل ہوا کرتا تو ایسا کرنے کے بعد ہم اپنے آپ سے نظریں ملا سکتے اورندامت
نہ محسوس کرتے ہیں۔سچائی بیان کرنا چاہیے مگر کچھ لوگ سچائی کے انداز کو
بھی تذلیل سمجھتے ہیں جبکہ سچائی از خود کڑوی ہوتی ہے ہمیں اس کو تسلیم
کرنا چاہیے۔
کچھ لوگ ہاتھوں کی کمائی سے اپنی زندگی کو خوشگوار کر لیتے ہیں اور کچھ
زبان کی وجہ سے جو کچھ حاصل کرتے ہیں اسکی وجہ سے ساری عمر بے سکون رہتے
ہیں
آج اگر کوئی منفی سوچ رکھتا ہے یا پھر اپنا کوئی نظریہ رکھتا ہے تو سب
اُسکو سمجھانے لگ جاتے ہیں مگر اسکے حق میں ہدایت کی دعا نہیں کرتے ہیں اور
نہ ہی یہ ماننے کو تیار ہوتے ہیں کہ دوسرا بھی کوئی نظریہ رکھ سکتا ہے تب
ہی آج ہمارے ہاں اختلافی معاملات پر لڑائی جھگڑے و قتل غارت ہوتی رہتی ہے۔
زندہ فرد پر کتنے ہی کیوں الزامات نہ لگا دیے جائیں وہ قابل برداشت
ہوسکتےہیں مگر دنیا سے رخصت ہونے والے شخص کی بے حرمتی ناقابل برداشت ہوتی
ہے۔
ہمارے ہاں ایک رواج سا بن گیا ہے کہ اگر کسی کی شادی نہ ہو رہی ہو، نوکری
نہ مل رہی ہو، خاندان بھر میں کسی کے ساتھ تعلق خراب ہو رہے ہوں، ملک میں
دہشتگردی ہو، سیلاب آئے،خودکش حملے ہوں، اولاد ناک کٹوا دے تو یہ سب بھئی
فلاں کی کارستانی ہے اسکی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔ہم اپنی غلطی، کوتاہی
ماننے کو تیار نہیں ہیں تب ہی ہمارا معاشرہ ابتر حالت میں جا رہا ہے کہ ہم
اپنے آپ کو بچانے کی خاطر دوسروں پر الزامات کی بارش کرتے ہیں مگر حقائق کو
تسلیم کرنے سے ڈرتے ہیں۔
بے حس لوگ اکثر دوسروں کو عذاب میں مبتلا دیکھ کر بھی یہ نہیں سوچتے ہیں کہ
انکی وجہ سے دوسرا کتنے مسائل کا شکار ہو چکا ہے اور زندگی بے سکون ہو چکی
ہے ۔ہر فرد کو بس اپنے مفادات کی فکر ہے۔
آج سچے اور مخلص لوگوں کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ برداشت کر رہے ہیں
مگر جب جھوٹے اور منافق لوگوں پر اللہ کا عذاب آتا ہے تو وہ شور مچاتے ہیں
کہ ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا ہے آخر ہمارا کیا قصور تھا۔ایسے لوگ اکثر
اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے ہیں ورنہ آنکو سمجھ آجائے کہ وہ جو کرتے
پھرتے ہیں وہی سامنے آتا ہے۔ |
|