اسے اب پروا نہیں تھی---- کہ اس ریس میں اب
وہ کونسے نمبر پر آئے گا--آخری یا پھر Finishing لائن اس کے نصیب میں ہی
نہیں ایسی ٹرین کی طرح جو ٹریک سے بار بار اتار جاتی تھی مگر ٹرین نے احد
کر رکھا تھا کہ وہ ہر مسافر کو اس کی منزل پر پہنچائے گی----وہ زندگی سے
دوستی کرنا چاہتا تھا---- اور اس کے لیے وہ زندگی کی ہر قابل قبول سٹارٹ
ماننے کو تیار تھا---اور اس کے پلے کوئی بھی سٹارٹ نہیں تھی--- بس اس کو
اپنے وجود کو Oxygen Cylender سے ہٹوانہ تھا--- بس وہ اپنی سانسیں اپنی
مرضی سے لینا چاہتا تھا اپنی فضا میں کھلی لمبی پھیپھڑوں کی گہرائی تک کی
سانس وہ ہاتھ پاؤں پھیلا کر کسی پرندے کی طرح اونچا اڑنا چاہتا تھا-------
زندگی بس ایک بات تو میری بھی مان لے--- ہم تو ہر ایک بات تیری ہی مانتے
آئے ہیں ---
ارے دیکھوں وہ منحوس ہڈ حرام کمرے میں ہے یا کہے دفع ہو گیا---- کمبخت نہ
کرایا دیتا ہے نہ ہی کمرا چھوڑتا ہے--- ایسا لگتا ہے ہم یتیموں نے بھی کوئی
یتیم خانہ کھولا رکھا ہے--- پہلے والے میں بیوی اور اس کے دو بچے گھر کا
ستیاناس مار گئے اب یہ ناسور لگ گیا ہے--- جان لے کر ہی جائے گا--- آج اس
کی ایسی خیر لونگی کے سارا سامان اٹھا کر باہر نہ پھینک دیا تو بانو میرا
نام نہیں--- سلمان کو ایسا لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہوں اس نے خود
کو تسلی دی ہاں یہ خواب ہی ہے ابی وہ اس خوش فہمی کی اور موج لینے ہی والا
تھا کہ---
ارے دروازہ کھٹکھٹاتی ہے یا میں توڑ دوں دروازہ--------
اماں خدا کا خوف کروں --- صبح کے سات بجے ہے اللہ اللہ کروں --- کیوں کسی
غریب کی بد دعا لینی ہے----
اچھا میں تو کوئی راج کماری ہوں اور تو شہزادی--- ہے نا؟
اماں جان کا پارا نیچے آنے کو ہی تیار نہ تھا--- وہ ایسے گرم تندور کی طرح
ہو رہی تھی جس کی تپش کوسوں دور تک محسوس ہوتی ہیں---
سلمان کے کان ، آنکھ، ناک، سب کے سب بیدار ہو چکے تھے اسے سمجھ نہیں آرہا
تھا کہ وہ اس نئی آفت کا سامنا کیسے کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
|