اندھیرا آہستہ آہستہ اس کالونی کو نگل چکا تھا ۔۔۔ عاشر
اپنی گاڑی کہیں دور کھڑی کرکے اس کالونی کے ایک درخت کی اوٹ میں کھڑا تھا
۔۔۔؟؟ بجلی گئی ہوئی تھی ۔۔۔ ساری گلی سنسان اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی
۔۔۔؟؟؟ کہیں اکاّ دکاّ یوپی ایس کے انرجی سیور جل رہے تھے ۔۔۔؟؟ باقی گھپ
اندھرا تھا جس کے باعث کیپ پہنے کھڑے عاشر کا چہرہ دور سے صاف دکھائی نہ
دیتا تھا ہاں قریب سے دیکھو تو وہ کینہ توز نظروں سے سامنے کھڑے ساحل کو
گھور رہا تھا ۔۔۔؟؟؟ جو ماہ رخ کی موبائل پر نمبر ملا رہا تھا عاشر نے جیب
سے پستول نکالا اور اسے ایک ہاتھ میں پکڑے اعتماد سے قدم اٹھاتا اس کی پاس
آیا کیا تم مجھ سے چھپ رہے تھے طنزیہ انداز میں اسے پکارا ۔۔؟ ساحل جو پشت
کیے کھڑا تھا ۔۔؟؟ مڑا اس کی نگاہیں پہلے عاشر کے ہاتھ میں پکڑے پستول تک
گئیں اور پھر اس کی آنکھوں تک ۔۔۔۔؟؟؟ تم کیا کررہے ہو عاشر بظاہر اطمینان
سے کہا ۔۔۔۔؟؟ میں تمہیں تمہارا کارما ۔۔۔اعمال نامہ ۔۔ دینے آیا ہوں پستول
کی نال بازو لمبا کرکے اس کی طرف بلند کی ۔۔۔۔ سفید ٹی شرٹ میں ملبوس چھوٹے
کٹے گھنگریا لے بالوں والا ساحل اداسی سے مسکرایا ۔۔۔۔میں نے کبھی کسی کی
جان نہیں لی میرا کارما مجھے گولی کے زریعے دینے آئے ہو ۔۔۔۔۔تم اسی قابل
ہو ۔۔اس پہ پستول تانے عاشر کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔بہت
دفعہ میں نے تمہیں برداشت کیا ۔۔۔ تمہارا ایک ہی حل ہے ۔۔اس کے علاوہ تم
کسی اور طریقے سے ہماری زندگیوں سے نہیں نکلو گے ۔۔۔ تم واقع مجھے مارنے
آئے ہو ۔۔۔ہاں تاکہ تم ماہ رخ کو یہاں سے بھاگا کر نہ لے جاو عاشر تم
سمجھنے کی کوشش کرو ہم دونوں پیارے کرتے ہیں ایک تم ہو کے ماہ رخ کو بدنام
کررہے ہو ۔۔۔ بکواس بند کرو ۔۔۔ وہ غراّ یا ماہ رخ آنے ہی والی ہے اسے پہلے
میں تمہارا کام ختم کردوں ۔۔۔۔۔ عاشر تم ایسا نہیں کرسکتے تم مجھ سے میری
زندگی نہیں چھین سکتے ۔۔۔۔۔۔وہ سنجیدہ نظریں عاشر پہ جمائے ٹھہرے ہوئے لہجے
میں کہہ رہا تھا ۔۔۔۔اج تم مجھے روک نہیں سکتے میں نے قسم کھائی تھی تمہیں
اپنے ہاتھ سے گولی ماروں گا ۔۔۔۔۔۔ماہ رخ نے تمہارے وجہ سے مجھ سے شادی
کرنے سے انکار کر لیا اور اب تم اسے بھاگا کر لے جانا چاہتے ہو اب تو ماہ
رخ کی بھی خیر نہیں ۔۔ دیکھو عاشر تم مجھے مارنا چاہتے ہو ماردو ۔۔۔لیکن
ماہ رخ کا کوئی قصور نہیںاسے کچھ مت کہنا مجھے شوٹ کرکے چلے جاو ۔۔۔کوئی
یہاں نہیں ہے مگر اللہ دیکھ رہا ہے اللہ تمہیں کبھی یہ منظر بھُولنے نہیں
دے گا دیکھو عاشر وہ سمجھاتے ہوئے کہے جارہا تھا ۔۔مگر عاشر نے ٹریگر
دبادیا ۔۔۔۔؟؟؟ سائلینسر نے آواز دبالی ۔۔۔ کلک ہوا ۔۔۔ایک گولی شعلے کی
لپٹیں لیے نکلی اور ساحل کے پیٹ میں پیوست ہوگئی۔۔۔۔؟؟ خون کا فوارہ پھوٹا
۔۔۔۔ وہ بے اختیار آگے کو جھکا پیٹ پہ ہاتھ رکھے بے یقینی صدمے سے پھیلی
آنکھوں سے عاشر کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عاشر نے تنے بازو ٹریگر دبایا دوسری
گولی اس کے کندھے میں جالگی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ دوہرا ہو کر گھٹنوں کے بل زمین پہ
جالڑھکا ۔۔۔۔ درد اتنا شدید تھا اس کے لبوں سے کرا ہیں نکلنے لگیں ۔۔۔ آہ
۔۔۔ ۔ آہ ۔۔۔تکلیف سے چہرہ سفید پڑتا جارہا تھا ۔۔ اور سفید شرٹ بھی سرخ
ہوتی جارہی تھی ۔۔۔۔ ؟؟؟؟ جاری ہے
|