ڈاکٹر مرتضی بن بخش صاحب حفظہ اللہ کے الفاظ کے ضمنا معنی
ہیں.
سب سے بڑا بے ادب وہ انسان ہے جو اللہ تعالی کو بھی پکارتا ہے. اور اللہ
تعالی کے ساتھ ساتھ مخلوق میں سے کسی اور کو بھی پکارتا ہے. یا اللہ مدد
بھی کہتا ہے اور یا غوث یا علی یا حسین بھی کہتا ہے. کیوں یا اللہ کافی
نہیں ہے؟ انسان کب کسی سے مدد مانگتا ہے جب محتاج ہوتا ہے. اگر ایک سے مدد
مانگے اور اسکی حاجت پوری نہ ہو تو دوسرے کے پاس جاتا ہے کہ نہیں؟ تیسرے کے
پاس جاتا ہے کہ نہیں؟ جو لوگ یہ کہتے ہیں یا علی، یا حسین، یا غوث انکو
اللہ تعالی کافی نہیں. اگر یا اللہ کافی ہوتا تو کبھی بھی یہ مسلمان سوچ
بھی نہ سکتا کہ جہاں پر یا اللہ مدد کافی ہے وہاں پر یا رسول اللہ اور یا
غوث کہنا؟ ہرگز جائز نہیں. دعا میں بے ادبی یہ تو کافی ہوچکی ہے. سب سے بڑا
بے ادب انسان ہے.
دوسرا نقطہ یہ ہے کہ دعا کرتے ہے اور دعا کی استجابت (قبول ہونا) کے لیے
جلدی کرتے ہیں. بس یوں مانگی اور یوں قبول ہوجاۓ. اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
"يُسْتَجَابُ لأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ يَقُولُ دَعَوْتُ فَلَمْ
يُسْتَجَبْ لِي".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ترجمہ: بندہ کی دعا قبول ہوتی ہے
جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے کہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی تھی اور میری دعا
قبول نہیں ہوئی ۔
(صحیح بخاری، رقم: 6340)
قبول نہیں ہوئ تو اپنے گریبان میں جاہنک کر نہیں دیکھتے کہ خرابی میرے اندر
ہے اپنے آپ کو سیدھا کرو، درست کرو. خلل کہاں پر ہے اسکے بارے میں غور و
فکر نہیں ہے. بعض لوگوں کے الفاظ سنیں بس ہمارا رب ہی عجیب ہے؟ نعوذ بللہ.
سنیں ذرا. دعا مانگتے ہیں سنتا ہی نہیں، دعا مانگ مانگ کے تھک گیے ہیں،
ولعیاذ بللہ. ہمارا رب ہوتا تو ہماری سنتا. شائد کسی اور کا رب ہے، ولعیاذ
بللہ.
واللہ عجب بات ہے. ٹھیک ہے پریشانی نے آپ کو گھیر کے رکھا ہے. اس دنیا میں
کوئ بھی انسان نہیں جو پریشان نہ ہو، یاد رکھیں. لیکن اس طریقے کے کفریہ
الفاظ زبان سے نکالنا کہ اللہ تعالی ہماری سنتا نہیں، دعا مانگ مانگ کے تھک
گیے ہیں؟ کتنے عرصہ سے دعا مانگ رہےھو جو تھک گیے ہو؟ ہمارا تو یہ حال ہے
فجر میں امام ایک صفحہ سے زیادہ پڑھےتو ہماری ٹانگیں کانپتی ہیں۔ تراویح کی
نماز میں ہماری کمر میں درد شروع ہو جاتا ہے.اور یہ بھول جاتےہیں کہ قرآن
مجید کی تلاوت ہو رہی تھی یا نہیں ہو رہی تھی. اللہ تعالی امام صاحب ابھی
رکوع کرے یہ دعا مانگتےہیں ہم! اور ہماری جان چھوٹ جاۓ، ولعیاذ بللہ. الا
من رحم اللہ.
اللہ کی شان میں بے ادبی ہے. دعا کی قبولیت ہمارے بس کی بات نہیں ہے ہمارے
بس کی بات ہے دعا مانگنا. جیسے ہمیں حکم دیا گیا ہے.
اور آپ یہ جان لیں یہ جہل مرکب میں مبتلا لوگ جو ایسی بات کرتے ہیں یہ جان
لیں کہ جب آپ کی دعا قبول نہیں ہوتی جب آپ صرف اللہ تعالی سے دعا مانگتے
ہوں تو آپ یہ یقین رکھیں آپ کے لیے اس میں خیر ہے. کیا خیر ہے؟ اللہ تعالی
کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کوئ شخص دعا کرتا ہے، جب
کوئ شخص دعا کرتا ہے تو اس دعا کہ بدلے اسے تین میں سے ایک چیز ضرور ملتی
ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ،
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ:
" مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ، وَلَا
قَطِيعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا
أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي
الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا "
قَالُوا: إِذًا نُكْثِرُ، قَالَ: «اللَّهُ أَكْثَرُ»
(مسند أحمد:ج3/ص18 ح11149 و البزار 3144 وسندہ صحیح)
ترجمہ: ''ایسا کوئی بھی مسلمان نہیں ہے جو گناہ اور قطع رحمی کی دعا کو
چھوڑ کر کوئی بھی دعا کرتاہو الا یہ کہ اللہ اسے تین میں سے ایک چیزدیتا
ہے: یا تواس کی دعا جلد پوری فرمائے گا یا پھر آخرت کے توشے کے طور پر جمع
فرماۓ گا یا اس کے بدلے اس کے برابر کی اس کی کوئی برائی ( کوئی مصیبت) دور
کردیتا ہو اس پر ایک شخص نے کہا: تب تو ہم خوب (بہت) دعائیں مانگا کریں گے،
آپ نے فرمایا:''اللہ اس سے بھی زیادہ دینے والا ہے''۔
اس حدیث کی تفصیل:
یا تو اسکی دعا قبول ہوتی ہے. اور یہ ہی مقصد ہے اسکی دعا کااور ہم میں
سےکوئ انسان بھی نہیں ہےجس کی زندگی میں دعا قبول نہ ہوئ ہو.یا اسکی وہ دعا
قبول نہیں ہوتی مگر ایک دوسری چیز یاشر جسکا اسکوعلم نہیں اللہ تعالی اس
دعاکے بدلے ٹال دیتا ہے. آپ یا ہم علم غیب تو نہیں جانتے، ایک مصیبت آنے
والی تھی جسکو اللہ نے اس دعا کے بدلے ٹال دیا
ایک مثال: ہم نے دعا مانگی بچوں کی صحیح تربیت کی یا امتحان میں بچوں کی
کامیابی کی دعا مانگی. بچہ پڑھتا نہیں ہے اسکا رزلٹ فیل آگیا. وہ شخص ناراض
ہوگیا دعا تو مانگی تھی. اگر شروع سے بچے کی دیکھ بھال کرتے تو شائد یہ
رزلٹ نہ آتا. باہر حال، آپ کی دعا زائع نہیں ہوئ آپ کو نہیں پتا کہ کوئ بڑی
مصیبت آنے والی تھی. جو اس بچہ کے ناکامی سے بڑ کر تمہیں تکلیف پہنچاتی.
اللہ تعالی نے اسے اس دعا کہ بدلے دور کر دیا
کیوں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان الدعاء ھو العبادۃ
دعا ہی عبادت ہے
(ابن ماجہ، رقم: 3828 وسندہ صحیح)
آپ نے عبادت کی. اللہ تعالی نے اس دعا کے صدقہ آپ کی زندگی میں ایک مصیبت
آنے والی تھی اسکو ٹال دیا. آپ کو پتہ تھا کہ آپ کے بچہ کا اکسیڈنٹ ہونے
والا تھا؟ نہیں پتہ تھا تو اللہ تعالی نے آپ کے بچہ کو محفوظ کر دیا. دعا
کچھ مانگی تھی اور اللہ تعالی نے آپ کو اس دعا سے بہتر عطا فرمایا
تیسری بات جو دعا آپ نے مانگی اگر دعا قبول بھی نہ ہو. اور نہ ہی وہ شر آپ
سے ٹلا ہے وہ شر یا مصیبت آپ کو پہنچ گیا ہے تو قیامت کے دن یہ دعا آپ کے
نامہ اعمال میں عمل صالح بن کر آیگی جس وقت ذرہ برابر نیکی کی اشد ضرورت
ہوگی، اللہ تعالی نے فرمایا:
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ
مفہوم: پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا.
(سورۃ الزلزلۃ 99 آیت: 7)
مثقال ذرہ اور دعا تو ترازو میں کتنی بھاری ہے یا کتنا اسکا وزن ہے اللہ ہی
جانتا ہے |