ایک برد بار ، تحمل مزاج اور تمام انسانی خوبیوں سے آراستہ ایک پرخلوص انسان

شہزاد انور چودھری

شہزاد انور چودھری کاشمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے بہت کم وقت میں نہ صرف صحافتی میدان میں کامیابی سے اپنے قدم جمائے بلکہ ادارتی ذمہ داریوں تک بھی جاپہنچے ۔میری ان سے پہلی ملاقات پشاور سے شائع ہونے والے ایک انگریز ی اخبار فرنٹیئرپوسٹ کے بیورو آفس میں اس وقت ہوئی ۔ شہزاد چودھری کی پر وقار شخصیت نے مجھے بے حد متاثر کیا اور پہلی ملاقات کا تاثر میرے ذہن میں ایسا محفوظ ہوا کہ دوبارہ میں کوشش کے باوجود انہیں بھول نہیں سکا ۔شہزاد کی دوستی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط اور پختہ ہوتی چلی گئی ۔ شہزاد چودھری نے فرنٹیئر پوسٹ کو اس وقت چھوڑا جب یہ اخبار حکومتی عتاب کے زیر اثر آگیا ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ شہزاد چودھری ضلع ساہی وال کے شہر اوکاڑہ میں 1974ء میں پیدا ہوئے ، جہاں ان کے والد محترم ہندوستان کے شہر جالندھر سے تقسیم ہند کے وقت نقل مکانی کرکے آباد ہوئے تھے ۔ آپ کے خاندان کے کچھ لوگ چیچہ وطنی اور کچھ اوکاڑہ میں قیام پذیر ہوئے ۔ آپ کے والد کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرتے تھے۔ شہزادنے ابتدائی تعلیم اوکاڑہ کے سرکاری سکول میں حاصل کی پھر جرنلزم میں گرایجویشن کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج اوکاڑہ سے 1993ء میں پاس کرکے لاہور چلے آئے ۔ یہاں آپ نے پوسٹ گرایجویٹ کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ہر شخص کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ضرور آتا ہے جو اسے زندگی کی شاہراہ پر کامیابی سے گامزن کرنے میں رہنمائی کرتا ہے ۔ شہزاد چودھری کی زندگی میں بھی سب سے اہم کردار پاکستان کے مایہ ناز ادیب ،مصنف اور کالم نگار روزنامہ ایکسپریس جناب حمید اختر صاحب کا تھا۔ چونکہ شہزاد چودھری کے ننھیال لودھیانہ کے رہنے والے تھے جہاں حمید اختر کا خاندان بھی بالکل ساتھ والے گھر میں رہائش پذیر تھا۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حمید اختر صاحب ایک روحانی اور بزرگ خاندان سے تعلق رکھتے تھے بلکہ ان کے بزرگوں کاایک دربار لودھیانہ میں موجود تھا جہاں کثیر تعداد میں ہندو مسلم سبھی نیاز مندی حاصل کرنے کے لیے جوق در جوق آتے ۔ شہزاد چودھری کے والد کی حمید اختر صاحب سے دوستی لودھیانہ سے میں پروان چڑھی اور زندگی کے آخری سانس تک یہ دوستی قائم رہی ۔ قیام پاکستان کے بعد جب شہزاد چودھری کا خاندان ضلع ساہی وال کے جنوب میں واقع چیچہ وطنی میں قیام پذیر ہوا۔ تو ان کے تایا اور دیگر کئی رشتے دار اوکاڑہ میں آ بسے ۔ حسن اتفاق سے حمید اختر کے بیشتر رشتے دار بھی اوکاڑہ میں ہی رہائش پذیر تھے اس لیے وہ جب بھی انہیں ملنے کے لیے اوکاڑہ آتے تو شہزاد چودھری کے والد صاحب کو ضرور ملتے بلکہ کئی کئی دن اکٹھے اسی گھر میں قیام پذیر ہوتے ۔

والد گرامی کا انتقال ہوا تو سر پر یتمی کا تاج لیے شہزاد نے لاہورکا رخ کیا اور یہاں ان کا قیام حمید اختر صاحب کے گھر میں ہی تھا ۔ پوسٹ گرایجویٹ کی ڈگری تو شہزاد پہلے ہی حاصل کرچکے تھے اب کسی اچھی ملازمت کی تلاش تھی ۔ مشکل کی اس گھڑی میں حمید اختر صاحب ایک دن شہزاد چودھری کو اپنے ساتھ لے کر انٹرفلو ایڈورٹائزنگ کے دفتر جا پہنچے جہاں ان کے رشتے دار محمداشرف صاحب ایک اعلی عہدے پر فائز تھے ۔ حمید اختر صاحب نے شہزاد چودھری کو ان سے متعارف کرواتے ہوئے ملازمت کی درخواست کی تو محمداشرف صاحب نے شہزاد کو اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ہی ملازمت پر رکھ لیا ۔ یہ شہزاد چودھری کی اپنی زندگی میں پہلی ملازمت تھی ۔اس ملازمت نے آپ کو عملی زندگی میں با اعتماد طریقے سے قدم رکھنے کا اہل بنایا اور کامیابی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو اپنے بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار کر عبور کیا ۔ یہاں آپ نے تین سال تک ملازمت کی پھر ینگ ایشیا ٹی وی کے پلیٹ فارم پر پاکستان ٹیلی ویژن کے اشتراک سے ایجوکیشن پروموشن کے حوالے سے محمد یاسین جنجوعہ کی سرپرستی میں کام شروع کیا ۔ جب یہ ادارہ ختم ہوگیا تو جناب رضوان اشرف جو محمد اشرف کے فرزند ہیں۔ وہ فرنٹیئرپوسٹ اخبار کے بیورو آفس میں مارکیٹنگ ہیڈ تھے ۔ ان کے توسط سے آپ نے 1998ء میں "فرنیٹئر پوسٹ " کو جوائن کیا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں میری شہزاد چودھری سے پہلی ملاقات ہوئی اور یہی ملاقات دوستی کی شاہراہ پر بااعتماد طریقے سے چلنے کی بنیاد بنی ۔ مجھے یاد ہے کہ میں جب بھی بنک آف پنجاب کی پریس ریلیز لے کر شہزاد چودھری کے پاس جاتا تو دوسرے دن وہ خبر یقینی طور پر اخبار کا حصہ ہوتی ۔ باہمی محبتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جب حکومتی پابندیوں کا شکار ہوکر فرنیٹئر پوسٹ بند ہوگیا تو آپ نے کچھ عرصہ روزنامہ اوصاف کے بیورو آفس میں بھی شعبہ اشتہارات میں ملازمت کی ۔ اسی اثنا ء میں جناب مجیب الرحمان شامی صاحب نے روزنامہ پاکستان اکبر بھٹی سے خرید لیا ۔ مارکیٹنگ شعبہ کو استوار کرنے کی ذمہ داری شامی صاحب نے جناب عتیق بٹ صاحب کے سپرد کی ۔ حسن اتفاق سے عتیق بٹ صاحب شہزاد چودھری کی مارکیٹنگ کے حوالے سے خدمات کے معترف تھے ،انہوں نے شہزاد چودھری کو روزنامہ پاکستان کے شعبہ مارکیٹنگ کو جوائن کرنے پر آمادہ کیا ۔اس طرح شہزاد چودھری نے سال 2000ء میں بطور مارکیٹنگ ایگزیکٹو روزنامہ پاکستان کو جوائن کرلیا اور اب تک( 2017ء)روزنامہ پاکستان ہی بطور منیجر سپلیمنٹ / ایڈورٹائزمنٹ فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ اس وقت اپنی بہترین خدمات کی بدولت شعبہ مارکیٹنگ میں وہ اہم مقام حاصل کرچکے ہیں جس مقام پر پہنچ کر ایک انسان کو انتہائی کامیاب ترین شخص قرار دیاجاتاہے۔

دھیمے لہجے میں بات کرنے والے ایک پروقار شخصیت کے حامل انسان "شہزاد چودھری"سے میری دوستی کو بھی تقریبا 22 سال ہوچلے ہیں۔ اس دوران بے شمار مرتبہ وہ میر ے پاس بنک آف پنجاب تشریف لاتے رہے ۔ میں نے ہمیشہ اپنے کام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کا ایک اچھے دوست کی طرح استقبال کیا ۔دونوں کے ذہن ملتے ہوں تو وقت گزرنے کااحساس نہیں ہوتا ۔ باہمی قربتوں کے بڑھتے ہوئے سلسلے اس حد تک دراز ہوگئے کہ میں انہیں اپنے سب سے بااعتماد دوست کی شکل سے دیکھنے لگا اور انہوں نے بھی کبھی میرے اعتمادکو ٹھیس نہیں پہنچائی۔اس بات کا کریڈٹ بلاشبہ شہزاد چودھری کو جاتاہے جو ایک پرخلوص انسان ہی نہیں ایک بہترین منتظم بھی ہیں جن کی انتظامی صلاحیتوں کا اظہار ہفت روزہ مارگلہ نیوز انٹرنیشنل میگزین کی اشاعت ، مواد ، طباعت اور بہترین پرنٹنگ کے معیار دیکھ کر بخوبی ہوتا ہے ۔

میری زندگی کا بیشتر حصہ بھی صحافتی سرگرمیوں ، لکھنے لکھانے میں ہی صرف ہوا ۔ اس کے باوجو د کہ میں حادثاتی طور پر بنک میں بطور میڈیا کوارڈی نیٹر ملازم تھا لیکن صحافیانہ حس مجھے وہاں بھی اپنے جوہر دکھانے کے خوب مواقع فراہم کرتی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے شہزاد چودھری جیسے باوقار اور پر خلوص دوست بھی میسر آئے اور میں انہیں اب تک ایک اہم اثاثے کی صورت میں اپنے دل میں محفوظ کیے چلا آرہا ہوں ۔ امید تو یہی کی جاسکتی ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک ان سے محبت و چاہت کا رشتہ اسی طرح استوار رہے گا ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہماری دوستی نو پرافٹ نو لاس کے پیمانے پر استوارہوئی ہے اور یہ بنیاد اتنی مضبوط ہے جس پر جنتی منزلیں چاہیں تعمیر کرلی جاسکتی ہیں ۔

جب میں بنک سے ریٹائر ہوچکا اور اردو ڈائجسٹ کی ملازمت بھی ختم ہوگئی تو صحافیانہ حس نے مجھے بھی میگزین نکالنے پر مجبور کیا۔ بمشکل ایک ہی شمارہ میں شائع کیا تھا کہ مزید اشاعت سے توبہ کرلی کیونکہ میگزین کے لیے تحریری مواد کی فراہمی اور سلیکشن ، کمپوزنگ ، تین مرتبہ پروف ریڈنگ ، پھر ڈیزائننگ ، کاغذکی مہنگائی اور پرنٹنگ کے بہترین معیار کی تلاش ، اشاعت کے بعد مارکیٹنگ کا مشکل مرحلہ ، تشہیری اداروں کے ساتھ مسلسل روابط اور میگزین کے لیے اشتہارات کا حصول ۔ مخلوص سٹاف کا انتخاب ، دفتر کا کرایہ ، بجلی گیس کا بل ، نامہ نگاروں کا انتخاب ، دفتر کے جاری اخراجات ۔ یہ سب کچھ اس قدر مشکل دکھائی دے رہا تھا کہ میں نے میگزین ایڈیٹر بننے سے توبہ کرلی ۔ لیکن جب میں نے برادم شہزاد چودھری کی ادارت میں بہت ہی خوبصورت میگزین مارگلہ نیوز انٹرنیشنل دیکھا تو آنکھیں کھلی کہ کھلی رہ گئیں ۔ یہ میگزین بلاشبہ خوبصورت تحریری مواد ، بہترین پرنٹنگ ، لاجواب کاغذ اور ادارتی ذمہ داریوں کا حسین امتزاج دکھائی دیا ۔اس میگزین کا ایک میں ہی معترف نہیں ہوں بلکہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کے بانی اور ممتاز سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا میرا تحریر کردہ انٹرویو جب مارگلہ نیوز انٹرنیشنل میں شائع ہوا تو وہ بھی میگزین کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ میں یہاں ان کے وہ الفاظ تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو انہوں نے مجھے ایک خط کے ذریعے میگزین کے بارے میں ارسال کیے-
I greatly appreciate your effort and interest in making the Margalla News a very balanced and educationally rewarding magazine . I hope interesting interviews and articles in the future will keep your publication at the top.

میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے یہ بہترین الفاظ برادر شہزاد چودھری کی خدمات اور قائدانہ صلاحیتوں کے گواہ ہیں ۔ جو شخص بچپن میں وکیل بننے کا خواب دیکھا کرتاتھا۔ قدرت نے انہیں ایک مستند مارکیٹنگ ایگزیکٹو ، بہترین رائٹر ، بلاصلاحیت ایڈیٹر اور کامیاب منتظم بنا دیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ مارگلہ نیوز انٹرنیشنل بلاشبہ شہزاد چودھری کی صلاحیتوں کا بہترین اظہار ہے ۔ جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔جہاں میں شہزاد چودھری کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں وہاں میں ان کے ادارتی ٹیم کی خدمات کا بھی معترف ہوں بطور خاص جن میں انعام راؤ ، شاہدعمران ں مبشر ندیم ، طلحہ رشید بٹ ، عامر بھٹی ، محمد عامر شامل ہیں ۔

ایک ملاقات میں شہزاد چودھری نے بتایا کہ یہ میگزین 2000ء سے شائع ہورہا تھا جس کے روح رواں اور چیف ایڈیٹر محمداکرم شاہد ہیں وہ خود تو بزنس مین ہیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ ان کی ادارت میں ایک ایسا میگزین مارکیٹ میں متعارف کروایاجائے جو معاشرے کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مرد و زن اور بچوں کے حقیقی جذبات کی ترجمانی بھی کرتا ہوں اور صاف ستھری صحافت کا امین ہو ۔جو عوام الناس کی ہر سطح پر رہنمائی کرے اور اچھااور معیاری تحریری مواد فراہم کرے ۔ ہم نے اپنے ہر دلعزیز چیف ایڈیٹر محمداکرم شاہد کی توقعات اور ہدایات کے عین مطابق میگزین کو تیار کرکے مارکیٹ میں برائے فروخت پیش کررہے ہیں ۔ جس کا عوام کی جانب سے خاطر خواہ اور مثبت جواب بھی ہمیں مل رہا ہے ۔

شہزاد چودھری کو اﷲ تعالی نے ایک محبت اور تعاون کرنے والی بیوی بھی عطا کی جو ان کی زندگی میں 1999ء میں داخل ہوگئی اور اب تک مسلسل اور پوری طرح اپنی موجودگی کا احساس کروا رہی ہے اﷲ تعالی نے انہیں دوبیٹیوں اور ایک بیٹے سے بھی نوازا ۔جو ابھی تعلیمی مراحل طے کررہے ہیں ۔ شہزاد چودھری کی شخصیت جس قدر پرکشش اور متاثر کن دکھائی دیتی ہے وہ جس قدر انہماک اور توجہ سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں وہ جس محبت اور خلوص کے ساتھ دوستی اور محبت کے رشتے نبھا رہے ہیں اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ ان کی اہلیہ کو جاتاہے جو انہیں گھر میں پرسکون ماحول فراہم کرتی ہیں اور شہزاد پوری توجہ کے ساتھ اپنے فرائض منصبی انجام دینے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 668144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.