دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد -طائف
اسلام نے نکاح کا قانوں میاں بیوی کے راحت وسکون کے لئے بنایا ہے ۔ اور
واقعی شادی سے زندگی کا رخ ہی بدل جاتا ہے ، کردار میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے
، فکروخیال میں وسعت ودانائی جھلکتی ہے،زوجین کے درمیان ایک نئے رشتے سے
خون سے بھی بڑھ کر رشتہ استوار ہوتاہے جسے دیکھ کر سماج میں کوتاہ فکر والے
اس پہ عیب جوئی کرتے ہیں ،خصوصا ناسمجھ ساس جنم لینے والے اس مضبوط رشتے کو
شروع سے توڑنے اور میاں بیوی میں بسااوقات خلیج قائم کرنے ، بسااوقات طلاق
کی صورت پیدا کرنے کا کردار ادا کرتی ہے ۔ حالانکہ انہوں نے بھی اس سے پہلے
شروعاتی زندگی سے لطف اٹھایاہوگا(گرانہیں بھی ساس اچھی ملی ہو)۔
بہرکیف ! نکاح زوجین کے لئے الفت ومحبت کے ساتھ قلبی سکون کا باعث ہے
جیساکہ رب العزت نے اس بات کا ذکر کیاہے ۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا
لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ
فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الروم:21)
ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں
تاکہ تم ان سے آرام پاؤ ۔اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی
،یقینا غوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت ہی نشانیاں ہیں۔
طلاق اس سکون وراحت کے خلاف ہے ۔ اس وجہ سے طلاق جائز تو ہے مگر ناپسندیدہ
چیز ہے ۔ شوہر کو طلاق دینے سے پہلے ہزار دفعہ سوچ لینا چاہئے کہیں جلدبازی
نہ کرلے ۔ انسان خطا کا پتلہ ہے، اکیلے عورت کو قصوروار ٹھہرانا سراسر
ناانصافی ہے ۔ ہاں یہ بھی ایک سچائی ہے کہ عورت تیزمزاج اورتیڑھی فطرت کی
ہونے کے سبب تلخ نوائی میں مردوں سے کہیں آگے ہے ، اس سچائی کو سمجھتے ہوئے
عورت کی تیزمزاجی کا بدلہ طلاق سے نہیں لینا چاہئے ۔ عفوودرگذر انسان کی
عظیم خصلت ہے جو اسے غلطیوں پہ پردہ پوشی پر ابھارتی ہے ۔
إنَّ المرأةَ كالضِّلَعِ، إذا ذَهبتَ تقيمُها كسرتَها، وإن ترَكتَها
استمتعتَ بِها وفيها عِوَجٌ(صحيح مسلم:1168)
ترجمہ: عورت کی مثال پسلی کی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے لگوگے توتوڑ دوگے
اورا گر اسے یوں ہی چھوڑے رکھاتو ٹیڑھ کے باوجودتم اس سے لطف اندوز ہوگے۔
دوسری حدیث میں کسر(توڑنے ) کی شرح طلاق سے آئی ہے یعنی جو عورت کوزبردستی
سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا طلاق کی نوبت آجائے گی ۔
طلاق کے بیحد نقصانات ہیں ان سب نقصانات کے باوجود ناگزیر حالات میں طلاق
دینا جائز ہے ۔
یہاں زیربحث مسئلہ ایک ساتھ تین طلاقوں کا ہے ۔ کیا اسلام نے تین طلاقوں کا
حکم دیا ہے ؟ اگر کسی نے بیک وقت تین طلاقیں دے دیں تو کیا تینوں طلاقیں
واقع ہوجائیں گی یا پھر بیوی کے لئے کوئی گنجائش ہے ؟
طلاق ثلاثہ اس وقت سماج کے لئے اس قدر خطرناک مسئلہ بن گیا ہے کہ خواتین کی
زندگی بھنورمیں تبدیل ہوگئی ہے ۔ اسلام صاف وشفاف مذہب ہے ، اس کی تعلیم
عین فطرت ہے ، کسی بھی معاملہ میں کسی کے اوپر ادنی سا ظلم نہیں ہے ۔ قرآن
وحدیث کی روشنی میں تین طلاق کا تصور موجود ہے مگر اس کے اصول وقوانین ہیں۔
ایک آدمی کو صرف تین طلاقوں کا اختیار ہے وہ اپنی بیوی کو تین طلاق تک دے
سکتا ہے مگر یہ طلاق اکٹھی نہیں دے سکتا بلکہ الگ الگ وقتوں میں دینا ہوگا
تبھی الگ الگ طلاق شمار ہوگی ورنہ ایک ساتھ کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی ۔
اللہ تعالی نے واضح الفاظ میں فرمادیا ہے کہ طلاق کا الگ الگ وقت ہے۔
فرمانِ باری ہے: الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ
تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (البقرہ:229)
ترجمہ: یہ طلاقیں دومرتبہ ہیں ،پھر یاتواچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ
چھوڑ دینا ہے ۔
اس آیت سے ایک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دو طلاق الگ الگ وقت میں دینا چاہئے
۔جب دوطلاق الگ الگ وقت مقرر ہے تو تین طلاق کا وقت بدرجہ اولی الگ الگ
مقرر ہوگا۔ اسی طرح دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مرد کو دو طلاق تک ہی
رجوع کا حق ہے ، تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں بیوی ہمیشہ کے لئے جدا
ہوجاتی ہے ۔
گو یا اللہ تعالی نے بندوں کو ایک وقت میں ایک ہی طلاق کا اختیار دیا ہے
کوئی اپنے من سے ایک وقت میں تین طلاق دے دے یا تین سو طلاق دیدے اتنی ہی
طلاق واقع ہوگی جتنی اس کے اختیار میں بیک وقت ہے اور وہ ایک ہے ۔ اس کی
منطقی مثال یوں سمجھ لیں ۔کسی کے پاس بندوق ہے اور اس میں ایک گولی ہے وہ
کہے کہ میں تم کو تین گولی مارتاہوں ۔ظاہرسی بات ہے اس کے پاس ایک گولی ہے
ایک ہی لگے گی ۔ اور شرع سے یہ مثال سمجھ لیں کہ جس طرح پانچ وقتوں کی نماز
اپنے اپنے وقتوں میں فرض ہے کوئی پانچوں نمازوں کو ایک وقت میں اد کرلے تو
یہ نہیں مانی جائے گی اسی طرح ایک وقت کی تین طلاق تین نہیں مانی جائے گی۔
جو لوگ ایک وقت کی تین طلاقوں کو تین ہونے کا فتوی دیتے ہیں وہ اللہ کے حکم
کی نافرمانی کرتے ہیں ۔ اس آیت میں پہلی اور دوسری طلاق کے بعد شوہر کو
سوچنے سمجھنے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی مہلت نظر آتی ہے ,یہ مہلت
تین طلاق کے بعد ختم ہوتی ہے ۔ جس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی اس نے درمیان
سے دومہلتوں کو ختم کردیا۔ یہی مہلت میاں بیوی کو پھر سے قریب کرسکتی ہے ۔
لوگوں نے اس مہلت کو ضائع کرنا شروع کردیا تو طلاق کی قہریں نازل ہونے لگیں
۔
تین طلاق کی اسی عجلت کی وجہ سے عمرفاروق رضی اللہ نے وقتی طور پر بطور
تعزیرتینوں نافذ کرنے کا حکم دیا تھا ورنہ عہد رسالت میں تین طلاق اگر کوئی
غلطی سے دیدیتا تو ایک ہی شمار کی جاتی ۔ مسلم شریف کی حدیث ملاحظہ فرمائیں
:
كان الطلاقُ على عهدِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ وأبي بكرٍ
وسنتين من خلافةِ عمرَ ، طلاقُ الثلاثِ واحدةً . فقال عمرُ بنُ الخطابِ :
إنَّ الناسَ قد استعجلوا في أمرٍ قد كانت لهم فيهِ أناةٌ . فلو أمضيناهُ
عليهم ! فأمضاهُ عليهم .(صحيح مسلم:1472)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ عہد رسالتمابﷺ اور عہد ابو
بکر اور عمر فاروق کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین
طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر نے فرمایا کہ جس معاملے
(طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی
سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس
کو ان پر لاگو کر دیا۔
یہ حدیث اس باب میں واضح ثبوت ہے کہ ایک وقت کی تین طلاق ایک ہی ہوتی ہے ۔
رسالت مآب ﷺ کی اسی بات پہ مہر لگی ہے ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ چونکہ خلیفہ
تھے وہ لوگوں کے لئے بطور سزا تین نافذ کیا تھا کیونکہ انہوں نے مہلت کو
ضائع کیا اور جلد بازی کرنے لگے ۔حدیث کے الفاظ پہ غور کریں بات سمجھ جائیں
گے ۔
فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو
أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم۔
"فقال عمر" کا مطلب یہ حضرت عمر کا بیان ہے انہوں نے دیکھا کہ لوگ طلاق کے
معاملہ میں جلدبازی سے کام لینے لگے جبکہ انہیں مہلت دی گئی تھی تولوگوں کو
اس غلطی سے روکنے کے لئے ہم نے تین طلاق کو تین نافذ کردیا تاکہ آئندہ لوگ
اس معاملہ میں جلد بازی سے رک جائیں ۔ تو یہ فیصلہ رسالت کا نہیں حضرت عمر
کا تھا جو ایک قسم کا اجہاد کہاجائے گا۔
طلاق ثلاثہ کا قہراور انسانی معاشرہ
آج لوگوں کے ذہن ودماغ میں یہی تصور ہے کہ طلاق کا مطلب ایک ساتھ تین طلاق
دینا ہے ۔ معمولی معمولی بات پہ تین طلاق دیدی جاتی ہے ۔ مرد تاخیر سے گھر
لوٹا بیوی دروازہ لگاکر سوگئی شوہر نے آواز لگائی دروازہ کھولو، گہری نیند
میں سوئی بیوی سے دروازہ کھولنے میں کچھ تاخیر ہوگئی شوہر نے تین طلاق
دیدیا۔ بعض تو بات بات پہ تین طلاق دیتے ہیں ۔ فلاں کام کیا تو تین طلاق،
فلاں کے گھر گئی تو تین طلاق، فلاں سے بات کی توتین طلاق۔ ان تین طلاقوں کا
قہر مظلوم بیوی اور معصوم بچوں پر گرتاہے ۔
ایک وقت میں تین طلاق دینا علمائے احناف نے بھی سخت گناہ لکھا ہے ،ظاہرا
ًاس کا مطلب یہی ہے کہ بعد میں بھی سخت قسم کا عذاب جھیلنا ہوگا۔ تین طلاق
کے فوراً بعد حلالہ کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے ۔
حلالہ یہ ہے کہ وہ عورت جسے تین طلاق دی گئی ہے اس کو پہلے شوہر کے لئے
حلال کرنے کے لئے کسی دوسرے مرد سے اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا کہ جماع کرکے
طلاق دیدے تاکہ شوہراول کے لئے حلال ہوجائے ۔
اس طریقہ کو شریعت مطہرہ کی کسوٹی پہ پرکھیں کس قدر ظالمانہ اور باغیانہ
روش ہے ؟۔ ایک طرف تو عورت کو تین طلاق دے کر قہر میں مبتلاکیا دوسری طرف
اب اسے غیرمرد کو متعہ کے لئے سونپا جارہاہے ۔ دوسرا مرد صرف عورت کی
شرمگاہ سے کھیلتا ہے اورکوئی مقصد نہیں ہوتاپھر شوہراول کی خاطر بغیر کسی
جرم وخطا کے بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ۔ یہ شریعت کے ساتھ کھلواڑ نہیں تو
اور کیا ہے ؟ کیا یہ متعہ کی شکل نہیں ؟
اسی جرم کی پاداش میں حلالہ کرنے والوں پر اللہ کی دن رات لعنت نازل ہوتی
ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ألا أخبرُكُم بالتَّيسِ المُستَعارِ قالوا بلَى يا رسولَ اللَّهِ قالَ هوَ
المُحلِّلُ لعنَ اللَّهُ المُحلِّلَ والمُحلَّلَ لَهُ(صحيح ابن ماجه:1585)
ترجمہ: کیا میں تمہیں کرائے کے سانڈ کے بارے میں خبر نہ دوں تو صحابہ نے
کہا کیوں نہیں یا رسول اللہۖ تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ حلالہ کرنے والا ہے اور
حلالہ کرنے اور کروانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔
نبی ﷺ نے حلالہ کرنےوالے کو کرائے کا سانڈ کہا ،حضرت عمررضی اللہ عنہ تو
اسے زنا گردانتے اور اس لعنتی فعل کا ارتکاب کرنے پر قابل گردن زدنی(رجم)
قرار دیتے ۔
عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَمَعْمَرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ
رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسْدِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ
بْنُ الْخَطَّابِ:لَا أُوتَى بِمُحَلِّلٍ وَلَا بِمُحَلَّلَةٍ إِلَّا
رَجَمْتُهُمَا[مصنف عبد الرزاق: 6/ 265]۔
ترجمہ: ثوری اور معمر سےروایت ہے ،وہ اعمش سے ،وہ مسیب بن رافع سے وہ قبیصہ
بن جابر اسدی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے
کہا :حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، اگریہ دونوں میرے علم
میں آگئے تو میں دونوں کو رجم کردوں گا۔
ایک ساتھ تین طلاق اور حلالہ کے سبب سماج میں بدترین اثرات مرتب ہوئے ،
عورتوں، بچوں، خاندانوں اور سماجوں پر قہر ٹوٹ پڑا ہے ۔ آئیے ان قہرکا
سرسری جائزہ لیتے ہیں ۔
(1)ذہنی تناؤ : تین طلاق دی جانے والی عورتیں یک لخت ذہنی تناؤ کا شکار
ہوجاتی ہیں ۔ ویسے بھی طلاق کا جسم ودماغ پر گہرا اثر ہوتاہے ۔ اور جب کسی
عورت کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی جائیں تو فورا اس کا ذہن حلالہ کی طرف جاتا
ہے جس سے اس کی روح کانپ جاتی ہے ۔ اس دکھ کو وہی عورت محسوس کرسکتی ہے جس
کے ساتھ ایسا ہواہے اور جسے مفت میں کسی مظلوم عورت سے رات بھر زناکاری کا
مزا لوٹنے کا موقع ملے وہ درد کیا اسے تو خوشی محسوس ہوگی دعاکرےگا ،ایسا
موقع باربار ہاتھ آئے ۔خواہشات کے غلام نے حلالہ کے نام پہ آفس بھی کھول
لئے ۔ شہروں میں بورڈ لگاہوتاہے "یہاں حلالہ کرایاجاتاہے" ۔ لعنۃ اللہ علی
المحل والمحلل لہ۔
حلالہ سے خوف زردہ ،ذہنی تناؤ کا شکار غیرت مندخواتین عزت وناموس کی حفاظت
کے لئے جان تو دے سکتی ہے مگر اپنی عزت کسی غیرکے ہاتھوں بیچ نہیں سکتی یا
حلالہ کرکے شوہر اول کی طرف آنا کبھی گوارہ نہیں کرے گی ،یہ اس کے
لئےزہرہلال کا گھونٹ پینے سے کم نہیں۔ یہی وجہ سے ہے کہ اس تناؤ میں آکر
بعض خواتین جان تک کی قربانی دے دیتی ہے ۔
اگر مرد نے غلطی سے تین طلاق دے دیاہواور اس کے علماء نے حلالہ کا فتوی دیا
ہوتو وہ مرد بھی یہاں دم بخود ہوجاتا ہے ۔فتوی دینا آسان ہے مگر عملا اسے
تطبیق دینا بہت مشکل ہے ۔ غیرت مند آدمی اس فتوی کو نہیں تسلیم کرتا ،اگر
سماج والے زورزبردستی کرے تو سماج کے تین طلاق والے قہر سے بچنے کے لئے
قصداً جھوٹ بولتا ہے کہ اس نے دوطلاق دی ہے یا ایک طلاق دی ہے ۔ شریعت کے
معاملے میں قصدا ًجھوٹ بولنا محض تین طلاق کے قہر سے ہے ۔ جب معاملہ مقلدین
کے بڑے گھرانہ کا ہوتا ہے تو ان کے مفتیان پھر اہل حدیث علماء سے رجوع کرنے
کا حکم دیتے ہیں ۔ یہ ایسا موڑ ہے جہاں بہت سے مقلدین تقلیدشخصی سے تائب
ہوکر کتاب وسنت کا پابند ہوجاتے ہیں ۔
(2) حلالہ کرنے والے کی بے حیائی : ایک ساتھ تین طلاق کے نتیجے میں حلالہ
کرانا کھلی بے حیائی ہے ۔ حلالہ کرنے والا مزید بے حیائی کا راستہ اختیار
کرتا ہے۔ ایسی سستی بے حیائی وہ بھی تقلیدی قانون کے تحفظ کے ساتھ کس بے
حیا کو راس نہیں آئے گی ۔ نتیجۃً وہ مرد دوسری جگہ بھی تاک جھانک کرنے لگتا
ہے ، منہ مارنے کی لت اسے ایک دن بے حیائی کے دلدل میں ڈال دیتی ہے ۔ اس بے
حیائی کا اثر حلالہ کرنے والے کے علاوہ دوسروں پر بھی ہوتا ہے ۔ زنا کو
نکاح کا نام دے کر بے حیائی کرنے کا شوق عام طور سے اکثر مقلدین میں پایا
جاتا ہے اس حرص سے کہ کہیں اسے حلالہ کا موقع ملے زبردستی مردوعوت کو حلالہ
کے لئے مجبور کیا جاتا ہے ۔ اس معاملہ میں جبر بالکل ستی جیساہے جب
ہندوسماج میں شوہر کے مرنے پہ عورت کو زبردستی آگ میں ڈال دیا جاتا تھا،وہ
اپنی جان بچانی بھی چاہے تو بچانہیں سکتی ۔
(3) زوجین کا گھٹن: جس عورت کا حلالہ ہوجائے اور وہ پہلے شوہر کے پاس پھر
سے آجائے تو اس کے بعد بھی سکون نہیں ملتا۔غیرت مند شوہراور غیرت مندبیوی
کے ذہن میں ہمیشہ ایک رات کی ہمبستری کا تصور ہوتا ہے جو آئے دن
ستاتارہتاہے ۔ دونوں کی زندگی گھٹن والی بن جاتی ہے ، پہلے جو میاں بیوی کا
پیارتھا اور ایک دوسرے سے قلبی سکون ملتا تھا اس کا نام ونشان مٹ جاتا ہے ۔
بس ذہن میں خوف وذلت اور گھٹن کے آثار قائم رہتے ہیں ۔ ایسا رشتہ ہمیشہ
قائم رہنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ اگر سماجی ذلت کے خوف سے رشتہ بنابھی رہےپھربھی
اس رشتے میں الفت ومحبت اور پائیداری نہیں پائی جاتی ۔
(4) حلالہ کرنے والے سے تنازع: سو میں دس فیصد تقریبا ایسے معاملات پیش آتے
ہیں کہ حلالہ کرنے والے والا ایک رات کا مزہ چکھ کر صبح اسے طلاق دینے کے
بجائے اپنے وعدے سے مکر جاتاہے ۔ وہ کہتا ہے میں نے شادی کی ہے اس کو طلاق
اپنی مرضی سے دوں گانہ کہ کسی کے کہنے سے ۔اس میں حلالہ کرنے والا بھاری
رقوم کا مطالبہ بھی کرتاہے تب تک مال مفت سمجھ کر عورت کی عزت سے کھواڑ
کرتا رہتاہے ۔ خصوصا ایسا حادثہ خوبصورت عورت کو پانے سے وقوع پذیزہوتاہے ۔
اب تنازع کا ایک غیرشعوری دروازہ کھل جاتا ہے جو اس آدمی کے ساتھ مفتی
صاحبان اور جن جن لوگوں نے اس معاملہ میں تعاون کیاتھاسب کے ساتھ لڑائی ،
گالی گلوج، لعن وطعن کا ماحول پیداہوجاتاہے۔ بسا اوقات قتل وخون تک بھی
نوبت آجاتی ہے ۔ دوچکی کے بیچ مظلوم عورت آٹے کی طرح پستی رہی اور تین طلاق
کے قہر سے سسکتی اورسہمتی رہی ۔
(5)مطلقہ اولاد پر ظلم: جب تین طلاق پہ غیرت مند عورت حلالہ کے لئے حامی
نہیں بھرتی ۔ یوں تو شاید باید ہی کوئی عورت حلالہ کرنے سے بچ رہے الا یہ
کہ عورت کے گھروالے طاقت وقوت کے ساتھ اس کا ساتھ دے ۔ طلاق کے نتیجے میں
بچے کی پرورش اور تربیت کا بڑا اہم مسئلہ پیش آتاہے ۔ جدائی پہ بچے کس کے
ساتھ ہونازک معاملہ کھڑا ہوجاتاہے ۔حلالہ کے بعد بھی پھر سے ایک ساتھ رہنے
والے میاں بیوی کی زندگی بے رنگ ہوجاتی ہے آپس میں کوئی انسیت نہیں تو بچوں
کی تربیت کیسے ممکن ہے ؟ ایسے اکثربچے ماں باپ کی طرح چڑھ چڑھے اور مجرمانہ
ذہنیت کے ہوتے ہیں۔
(6) سماج پہ حلالہ (زنا) کا اثر: حلالہ کرنے کی وجہ سے خواتین میں بے حیائی
کا فروغ ہوتاہے ،وہ ایک مرد کو ایک رات چکھ کر صبح سویرے اتنی آسانی سے
نہیں بھول سکتی ۔عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ تین طلاق والی کوشوہر کے چھوٹے
یا بڑے بھائی سے یا پڑوس کے کسی مرد سے حلالہ کرایاجاتاہے ۔ یہ عورت اپنے
ساتھ ہونے والی ایک رات کی داستان اورکرائے کے سانڈ کا منظر ذہن سے نہیں
نکال پاتی جس کے نتیجے میں شوہر اول سے دوبارہ شادی کرنے کے باوجود ایک رات
والے مردسے دوبارہ ملنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے ،بسااوقا ت پھر سے زنا میں
مبتلاہوجاتی ہے ۔ جب یہ عورت اپنی سابقہ رات کسی دوسری عورت سے ذکرکرتی ہے
تو یہ بے حیائی پھر دوسری خواتین میں پھیلنے لگتی ہے ۔
(7) تین طلاق کا فتنہ : طلاق کا کم ازکم اثر دوخاندان پر پڑتاہے ، ان دونوں
خاندانوں کافتنہ دیکھ کر پھر پورے سماج پر برا اثر پڑتا ہے ۔ ایک ساتھ تین
طلاق اتنا ظالمانہ طریقہ ہے کہ فورا ًہزاروں سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔
انہیں حل کرنے کے لئے پہلے مولویوں کا دروازہ کھٹکھٹایاجاتاہے ۔ انہیں دکھ
بھری کہانی سنائی جاتی ہے ، بچوں کی بربادی کا ذکر کرکے آنکھوں سے آنسو
بہایا جاتا ہے ۔اس پر کسی مولوی سے فتوی ملتا ہے کفارہ ادا کرو، کوئی کہتا
ہے حلالہ کراؤ، کوئی کہتا ہے غصہ والی طلاق نہیں ہوتی ، کوئی کہتا بغیر
گواہ کے طلاق نہیں ہوتی ، کوئی کہتا حمل میں طلاق نہیں ہوتی ۔ غرض جتنے
مولوی اتنی بات ۔ دوخاندان بری طرح اس فتنے کی زد میں چور چور ہوجاتے ہیں ۔
آخر کار بات حلالہ پہ اٹک جاتی ہے جو کہ بلاشبہ زنا ہے ۔
(8) کرائے کی حلالہ آفسز: ایک ساتھ تین طلاقوں کی وجہ سے دنیا کی آفسوں میں
ایک مزید آفس کا اضافہ ہوگیا ہے وہ ہے کرائے پہ چلنے والی حلالہ آفس ۔
برطانیہ سے شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق تین طلاق والی عورتیں حلالہ کے نام
پربرطانیہ میں کرائے پہ چلنے والی آفسوں میں اپنی عصمتیں لٹارہی ہیں اور
ایک رات کی دلہن بن کر اپنے گھروں میں عزت ووقار کھوبیٹھتی ہیں۔ اکثر اوقات
نفسیاتی بیماریوں میں مبتلاہوجاتی ہیں ۔ لندن ، برمنگھم ،بریڈفورڈ سمیت کئی
شہروں میں خفیہ حلالہ سنٹرزقائم کئے گئے ہیں ۔ علماء کو سارا ماجرا معلوم
ہے مگر بدنامی کے ڈر سے کچھ نہیں کرتے ۔ جنہیں حلالہ سے بدنامی کا ڈر ہوتا
ہے وہ خفیہ اداروں سے حلالہ کرواتے ہیں تاکہ دوسروں کو خبر نہ لگے ۔ ایسا
خفیہ حلالہ تو بدکاری کا اڈہ ہے ،اس سے نہ جانے کیا کیا بے حیائی پھیلے گی
۔ الحفظ والاماں ۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ حلالہ سنٹرز صرف برطانیہ میں پائے جاتے ہیں بلکہ اکثر
مقامات پہ پائے جاتے ہیں ۔ بعض مدارس اور بعض مولویوں کے گھر میں بھی حلالہ
کی خفیہ آفس پائی جاتی ہے ۔ یہ لوگ اپنے کارندے شہروں میں چھوڑے ہوتے ہیں
جو تین طلاق والی عورتوں کو ڈھونڈڈھونڈکر لاتے ہیں اور حلالہ کا فتوی دے کر
جنسی تسکین کے لئے اسے استعمال کرتے ہیں ، بعض تو کئی کئی دن تک اس کی
عصمتوں سے کھیلتے ہیں ۔
ایک ساتھ تین طلاق کے نام پر جو قہریں سماج وخواتین پہ گررہی ہیں انہوں نے
پورے سماج کو اندھیرے میں دھکیل دیا ہے ۔ ایسے ماحول میں غیرت مند خواتین
بیدار ہورہی ہیں ، مولویوں سے کوئی راہ ہموار نہیں ہورہی تو حکومت کا
دروازہ کھٹکھٹارہی ہیں ۔ سائرہ بانو (ساکنہ شمالی ریاست اتراکھنڈ) انہیں
مظلوم عورتوں میں سے ایک ہے جن کو شوہر نے بذریعہ خط ایک ساتھ تین طلاق
دیدیا۔ فون کے علاوہ شوہر سے رابطہ کا کوئی ذریعہ نہ تھا شوہر نے فون بند
کرلیا۔ وہ کہتی ہیں میں بچوں کے متعلق فکر مندہوں ، زندگیاں تباہ ہورہی ہیں
۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ بالآخر سائرہ نے سپریم کورٹ میں ایک ساتھ تین طلاقوں
پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مقدمہ ڈائر کردیا۔ اس کا اثر کیا ہوا آپ سب کے
سامنے ہے۔
ہماری حیاسوز حکتوں سے خالص شرعی مسائل میں عورتیں مولوی کی نہیں حکومت کی
مدد مانگ رہی ہیں اور حکومت بھی ہمارا تماشہ دیکھ ہمارے معاشرتی مسائل پہ
اپناقانون نافذ کررہی ہے ۔ اس میں حکومت کا قصور کم ہمارا قصور زیادہ ہے ۔
اللہ کے واسطے سماج کو ایک ساتھ تین طلاق اور حلالہ کے قہر سے بچائیں ۔ اس
کا واحد حل اسلام ہے ۔ اسلام نے مرد کو ایک وقت میں ایک طلاق دینے کا حکم
دیا ہے اس پہ کاربند رہے ۔اگر کوئی غلطی سے ، غصے میں آکر تین طلاق دے بھی
دیتا ہے تو یہ ایک ہی مانی جائے گی ۔ یہی حق ہے اسی میں سب کے لئے راحت ہے
۔
اللہ تعالی علماء حضرات کو دین کی صحیح سمجھ دے ،ان سے ہی عوام کی اصلاح
ممکن ہے جب تک کہ یہ لوگوں کو نہ بتائے کہ ایک وقت کی تین طلاق ایک ہے ۔
|