٩: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
زوراء میں جنگ ہوگی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم زوراء کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی
جانب ایک شہر ہے جو نہروں کے درمیان ہے وہاں عذاب مسلط کیا جائے گا اسلحہ
کا(مراد جنگیں ہیں) ، دھنس جانے کا، پتھروں کا اور شکلیں بگڑ جانے کا، جب
سوڈان والے نکلیں گے اور عرب سے باہر آنے کا مطالبہ کریں گے، یہاں تک کہ
وہ(عرب) بیت المقدس یا اردن پہنچ جائیں گے،اسی دوران اچانک تین سو ساٹھ
سواروں کے ساتھ سفیانی نکل آئے گا یہاں تک کہ وہ دمشق آئے گا، اس کا کوئی
مہینہ ایسا نہیں گزرے گا جس میں بنی کلب کے تیس ہزار افراد اسکے ہاتھ میں
بیعت نہ کریں، سفیانی ایک لشکر عراق بھیجے گا ، جس کے نتیجے میں زوراء میں
ایک لاکھ افراد قتل کئے جائیں گے، اس کے فوراً بعد کوفہ کی جانب تیزی سے
بڑھیں گے اور اس کو لوٹیں گے، اسی دوران مشرق سے ایک سواری( دابہ) نکلے گی،
جس کو بنو تمیم کا شعیب بن صالح نامی شخص چلا رہا ہوگا، چنانچہ( شعیب بن
صالح) سفیانی کے لشکر سے کوفہ کے قیدیوں کو چھڑالےگا اور سفیانی کی فوج کو
قتل کرے گا، سفیانی کے لشکر کا ایک دستہ مدینہ کے جانب نکلےگا اور وہاں تین
دن تک لوٹ مار کرےگا، اس کے بعد یہ لشکر مکہ کی جانب چلےگا اور جب مکہ سے
پہلے بیداء پہنچےگا تو اللہ تعالٰی(حضرت) جبرائیل علیہ السلام کو بھیجےگا
اور فرمائےگا اے جبرائیل( علیہ السلام) ان کو عذاب دو....
چنانچہ( حضرت)جبرائیل علیہ السلام اپنے پَیر سے ایک ٹھوکر ماریں گے، جس کے
نتیجے میں اللہ تعالٰی اس لشکر کو زمین میں دھنسا دے گا سوائے دو آدمیوں
کے، ان میں سے کوئی بھی نہیں پچے گا ، یہ دونوں سفیانی کے پاس آئیں گے اور
لشکر کے دھنسنے کی خبر سنائیں گے تو وہ یہ(خبر سن کر)گھبرائے گا نہیں، اس
کے بعد قریش قسطنطنیہ کی جانب آگے بڑھیں گےتو سفیانی رومیوں کے سردار کو یہ
پیغام بھیجےگا کہ ان( مسلمانوں)کو میری طرف بڑے میدان میں بھیج دو وہ(رومی
سردار)ان کو سفیانی کے پاس بھیج دےگا، لہذا سفیانی ان کو دمشق کے دروازے پر
پھانسی دے دےگا، جب وہ( سفیانی)محراب میں بیٹھا ہوگا تو ایک عورت اس کے ران
کے پاس آئے گی اور اس پر بیٹھ جائے گی، چنانچہ ایک مسلمان کھڑا ہوگا اور
کہےگا تم ہلاک ہو تم ایمان لانے کے بعد اللہ( تعالٰی)کے ساتھ کفر کرتےہو یہ
تو جائز نہیں، اس پر سفیانی کھڑا ہوگا اور مسجد دمشق میں ہی اس مسلمان کی
گردن اڑا دےگا اور ہر اس شخص کو قتل کردےگا جو اس بات میں اس سے اختلاف
کرےگا( یہ واقعات حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور سے پہلے ہوں گے) ، اس کے
بعد اس وقت آسمان سے ایک آواز لگانے والا آواز لگائےگا:
اے لوگو ! اللہ تعالٰی نے جابر لوگوں منافقوں اور ان کے اتحادیوں اور
ہمنواؤں کا وقت ختم کر دیا ہے اور تمہارے اوپر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)کی
اُمّت کے بہترین شخص کو امیر مقرر کیا ہے لہذا مکہ پہنچ کر اس کے ساتھ مل
جاؤ وہ مہدی(رضی اللہ عنہ)ہیں اور ان کا نام احمد بن عبداللہ ہے ....
اس پر حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور پوچھا یا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم !
ہم اس(سفیانی)کو کس طرح پہچانیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ
بنی اسرائیل کے قبیلہ کنانہ کی اولاد میں سے ہوگا، اس کے جسم پر دو قطوانی
چادریں ہوں گی، اس کے چہرے کا رنگ چمکدار ستارے کے مانند ہوگا، اس کے داہنے
گال پر کالا تِل ہوگا اور وہ چالیس سال کے درمیان ہوگا ...
( حضرت مہدی رضی اللہ عنہ سے بیعت کے لئے)شام سے ابدال و اولیاء نکلیں گے
اور مصر کے معزز افراد( دینی اعتبار سے)اور مشرق سے قبائل آئیں گے، یہاں تک
کہ مکہ(مکرمہ)پہنچیں گے، اس کے بعد زمزم اور مقام إبراهيم( علیہ السلام)کے
درمیان ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے، پھر شام کی طرف کوچ کریں گے، حضرت
جبرائیل علیہ السلام ان کے ہر اوَّل دستے پر مامور ہوں گے اور میکائیل علیہ
السلام پچھلے حصے پر ہوں گے، زمین وآسمان والے چرند پرند اور سمندر میں
مچھلیاں ان سے خوش ہوں گی، ان کے دور حکومت میں پانی کی کثرت ہوجائے گی ،
نہریں وسیع ہوجائے گی، زمین پیداوار دگنی کردے گی اور خزانے نکال دے گی،
چنانچہ وہ شام آئیں گے اور سفیانی کو اس درخت کے نیچے قتل کریں گے جس کی
شاخیں بحرطبریہ(TIBERIAS)کی طرف ہے( اس کے بعد) وہ قبیلہ کلب کو قتل کریں
گے، جو شخص جنگ کلب کے دن غنیمت سے محروم رہا وہ نقصان میں رہا خواہ اونٹ
کی نکیل ہی کیوں نہ ملے...
میں نے دریافت کیا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! ان( سفیانی لشکر)سے
قتال کس طرح جائز ہوگا ،حالانکہ وہ موحد ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
جواب دیا: اے حذیفہ( رضی اللہ عنہ) ! اس وقت وہ ارتداد کی حالت میں ہوں گے،
ان کا گمان یہ ہوگا کہ شراب حلال ہے،وہ نماز نہیں پڑھتے ہوں گے ، حضرت
مہدی( رضی اللہ عنہ)اپنے ہمراہ ایمان والوں کو لے کر روانہ ہوں گے اور دمشق
پہنچیں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کی طرف ایک رومی کو(مع لشکر کے)بھیجے گا، یہ
ہرقل( جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کے دور میں روم کا بادشاہ تھا) کی
پانچویں نسل میں سے ہوگا اس کا نام طبارہ ہوگا وہ بڑا جنگجو ہوگا، لہذا تم
ان سے سات سال کے لئے صلح کرو گے( لیکن رومی یہ صلح پہلے ہی توڑ دیں گے )،
چنانچہ تم اور وہ اپنے عقب کے دشمن سے جنگ کرو گے اور فاتح بن کر غنیمت
حاصل کروگے، اس کے بعد تم سرسبز سطح مرتفع میں آؤگے، اسی دوران ایک رومی
اٹھے گا اور کہے گا صلیب غالب آئی ہے، یہ فتح صلیب کی وجہ سے ہوئی ہے، یہ
سن کر ایک مسلمان صلیب کی طرف بڑھے گا اور صلیب کو توڑ دے گا اور کہے گا
اللہ تعالٰی ہی غلبہ دینے والا ہے، اس وقت رومی دھوکہ کرینگے اور وہ دھوکے
ہی کے زیادہ لائق تھے، تو( مسلمانوں کی )وہ جماعت شہید ہوجائے گی، ان میں
سے کوئی بھی نہ بچے گا اس وقت وہ تمہارے خلاف جنگ کرنے کے لئے عورت کی مدت
حمل کے برابر تیاری کریں گے ( پھر مکمل تیاری کرنے کے بعد )وہ آٹھ جھنڈوں
میں تمہارے خلاف نکلیں گے ،
( مسند احمد کی روایت میں اسّی٨٠ جھنڈوں کا ذکر ہے دونوں روایات میں تطبیق
یوں ہوسکتی ہے کہ تمام کفار کل آٹھ جھنڈوں میں ہوں گے اور پھر ان میں سے ہر
ایک کے تحت مزید جھنڈے ہوں گے، اس طرح مل کر اسّی٨٠ جھنڈے ہوں گے ) ہر
جھنڈے کے تحت بارہ ہزار سپاہی ہوں گے یہاں تک کہ وہ انطاکیہ کے قریب
عمق(اعماق) نامی مقام پر پہنچ جائیں گے، حیرہ اور شام کا ہر نصرانی صلیب
بلند کرے گا اور کہے گا، سنو ! جو کوئی بھی نصرانی زمین پر موجود ہے وہ آج
نصرانیت کی مدد کرے، اب تمہارے امام مسلمانوں کو لے کر دمشق سے کوچ کریں گے
اور انطاکیہ کے عمق(اعماق) علاقے میں آئیں گے، پھر تمہارے امام شام والوں
کے پاس پیغام بھیجیں گے کہ میری مدد کرو، مشرق والوں کی جانب پیغام بھیجیں
گے کہ ہمارے پاس ایسا دشمن آیا ہے جس کے ستّر٧٠ امیر ( کمانڈر ) ہیں ، ان
کی روشنی آسمان تک جاتی ہے، اعماق کے شہداء اور دجال کے خلاف شہداء میری
امت کے افضل الشہداء ہوں گے، لوہا لوہے سے ٹکرائے گا، یہاں تک کہ ایک
مسلمان کافر کو لوہے کی سیخ مارےگا اور اس کو پھاڑ دےگا اور دوٹکڑے کردےگا،
باوجود اس کے کہ اس کافر کے جسم پر زرہ ہوگی تم ان کو اس طرح قتل عام کروگے
کہ گھوڑے خون میں داخل ہوجائیں گے اس وقت اللہ تعالٰی ان پر غضبناک ہوگا،
چنانچہ جسم میں پار اترجانے والے نیزے سے مارےگا اور کاٹنے والی تلوار سے
ضرب لگائےگا اور فرات کے ساحل سے ان پر خراسانی کمان سے تیر برسائےگا
چنانچہ وہ( خراسان والے )اس دشمن سے چالیس دن سخت جنگ کریں گے، پھر اللہ
تعالٰی مشرق والوں کی مدد فرمائےگا چنانچہ ان( کافروں )میں سے نولاکھ
ننانوےہزار قتل ہوجائیں گے اور باقی ان کی قبروں سے پتہ لگے گا( کہ کل کتنے
مردار ہوئے )...
دوسری جانب جو مشرق کے مسلمانوں کا محاذ ہوگا وہاں پھر آواز لگانے والا
مشرق میں آواز لگائے گا، اے لوگو ! شام میں داخل ہو جاؤ کیونکہ وہ مسلمانوں
کی پناہ گاہ ہے اور تمہارے امام بھی وہی ہیں، اس دن مسلمان کا بہترین مال
وہ سواریاں ہوں گی، جن پر سوار ہوکر وہ شام کی طرف جائیں گے اور وہ خچر ہوں
گے، جن پر روانہ ہوں گے اور ( وہ مسلمان حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے پاس
اعماق) شام پہنچ جائیں گے، تمہارے امام یمن والوں کو پیغام بھیجیں گے کہ
میری مدد کرو تو ستر٧٠ ہزار یمنی عدن کی جوان اونٹنیوں پر سوار ہوکر اپنی
بند تلواریں لٹکائے آئیں گے اور کہیں گے ہم اللہ( تعالٰی)کے سچے بندے ہیں
نہ تو انعام کے طلبگار ہیں اور نہ روزی کے تلاش میں آئے ہیں ( بلکہ صرف
اسلام کی سربلندی کے لئے آئے ہیں )یہاں تک کہ عمق انطاکیہ میں حضرت مہدی(
رضی اللہ عنہ)کے پاس آئیں گے ( یمن والوں کو یہ پیغام جنگ شروع ہونے سے
پہلے بھیجا جائے گا) اور وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر رومیوں سے گھمسان
کی جنگ کریں گے ، چنانچہ تیس ہزار مسلمان شہید ہوجائیں گے کوئی رومی اس روز
یہ(آواز) نہیں سن سکے گا (یہ وہ آواز ہے جو مشرق والوں میں لگائی جائے گی
جس کا ذکر اوپر گزرا)تم قدم بقدم چلوگے تو تم اس وقت اللہ تعالٰی کے بہترین
بندوں میں سے ہوں گے، اس دن نہ تم میں کوئی زانی ہوگا اور نہ مال غنیمت میں
خیانت کرنے والا اور نہ کوئی چور، روم کے علاقے میں تم جس قلعے سے بھی
گزروگے اور تکبیر کہو گے تو اس کی دیوار گرجائے گی چنانچہ تم ان سے جنگ
کروگے( اور جنگ جیت جاؤ گے )یہاں تک کہ تم کفر کے شہر قسطنطنیہ میں داخل ہو
جاؤ گے ، پھر تم چار تکبیر لگاؤ گے جس کے نتیجے میں اس کی دیوار گرجائے گی
اللہ تعالٰی قسطنطنیہ اور روم کو ضرور تباہ کرے گا پھر تم اس میں داخل ہو
جاؤ گے اور تم وہاں چار لاکھ کافروں کو قتل کرو گے وہاں سے سونے اور
جواہرات کا بڑا خزانہ نکالو گے تم دارالبلاط( white house )میں قیام کرو گے
( حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں امریکہ بھی مسلمانوں کے قبضے
میں آجائے گا اور حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ وائٹ ہاؤس میں قیام فرمائیں
گے )
پوچھا گیا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )دارالبلاط کیا ہے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: بادشاہ کا محل
اس کے بعد تم وہاں ایک سال رہو گے، وہاں مسجدیں تعمیر کرو گے ،پھر وہاں سے
کوچ کرو گے اور ایک شہر میں آؤگے جس کو قددماریہ کہا جاتا ہے تو ابھی تم
خزانے تقسیم کر رہے ہوگے کہ سنو گے کہ اعلان کرنے والا اعلان کررہا ہے کہ
دجال تمہاری غیر موجودگی میں ملک شام میں تمہارے گھروں میں گھس گیا ہے،
لہذا تم واپس آؤگے ، حالانکہ یہ خبر جھوٹ ہوگی ،لہذا تم بیسان کی کھجوروں
کی رسی سے اور لبنان کے پہاڑ کی لکڑی سے کشتیاں بناؤ گے، پھر تم ایک شہر جس
کا نام عکا AKKO ہے وہاں سے ایک ہزار کشتیوں میں سوار ہوگے( اسکے علاوہ
)پانچ سو کشتیاں ساحل اردن سے ہونگی، اس دن تمہارے چار لشکر ہوں گے، ایک
مشرق والوں کا، دوسرا مغرب کے مسلمانوں کا، تیسرا شام والوں کا اور چوتھا
اہل حجاز کا( تم اتنے متحد ہوگے )گویا تم سب ایک ہی باپ کی اولاد ہو، اللہ
تعالٰی تمہارے دلوں سے آپس کے کینہ اور بغض عداوت کو ختم کردےگا، چنانچہ
تم( جہازوں میں سوار ہوکر )عکا AKKO سے روم کی طرف چلوگے، ہوا تمہارے اس
طرح تابع کردی جائے گی، جیسے سلیمان ابن داؤد علیہما السلام کے لئے کی گئی
تھی، ( اس طرح )تم روم پہنچ جاؤگے جب تم شہر روم کے باہر پڑاؤ کئے ہوگے تو
رومیوں کا ایک بڑا راہب جو صاحب کتاب بھی ہوگا( غالباً ویٹی کن پاپ ہوگا
)تمہارے پاس آئے گا اور پوچھے گا تمہارا امیر کہاں ہے ؟ اس کو بتایا جائے
گا کہ یہ ہیں، چنانچہ وہ راہب ان کے پاس بیٹھ جائے گا اور ان سے اللہ
تعالٰی کی صفت، فرشتوں کی صفت، جنت وجہنم کی صفت اور آدم علیہ السلام اور
انبیاء کرام علیہم السلام کی صفت کے بارے میں سوال کرتے کرتے موسی اور عیسی
علیہماالسلام تک پہنچ جائے گا ، ( امیرالمومنین کے جواب سن کر ) وہ راہب
کہے گا : میں گواہی دیتا ہوں کہ تمہارا مسلمانوں کا دین اللہ اور نبیوں
والا دین ہے وہ اللہ اس دین کے علاوہ کسی اور دین سے راضی نہیں ہے، وہ(
راہب مزید )سوال کرے گا کیا جنت والے کھاتے اور پیتے بھی ہیں وہ(
امیرالمومنین) جواب دیں گے ہاں ، یہ سن کر راہب کچھ دیر کے لئے سجدے میں گر
جائے گا اس کے بعد کہے گا اس کے علاوہ میرا کوئی دین نہیں ہے اور یہی موسی(
علیہ السلام )کا دین ہے اور اللہ تعالٰی نے اس کو موسی اور
عیسی(علیہماالسلام)پر اتارا ، نیز تمہارے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم)کی صفت
ہمارے یہاں انجیل برقلیط میں اس طرح ہے کہ وہ نبی( صلی اللہ علیہ وسلم)سرخ
اونٹنی والے ہوں گے اور تم ہی اس شہر( روم)کے مالک ہو، لہذا مجھے اجازت دو
کہ میں ان اپنے لوگوں کے پاس جاؤں اور ان کو اسلام کی دعوت دوں، اس لئے کہ(
نہ ماننے کی صورت میں)عذاب ان کے سروں پر منڈالا رہا ہے، چنانچہ یہ راہب
جائے گا اور شہر کے مرکز میں پہنچ کر زور دار آواز لگائے گا: اے روم والو !
تمہارے پاس اسماعیل ابن ابراہیم( علیہماالسلام)کی اولاد آئی ہے، جن کا ذکر
توریت وانجیل میں موجود ہے، ان کا نبی( صلی اللہ علیہ وسلم)سرخ اونٹنی والا
تھا ، لہذا ان کی دعوت پر لبیک کہو اور ان کی اطاعت کرلو( یہ سن کر شہر
والے غصہ میں)اس راہب کی طرف دوڑیں گے اور اس کو قتل کردیں گے، اس کے فوراً
بعد اللہ تعالٰی آسمان سے ایسی آگ بھیجے گا جو لوہے کے ستون کی مانند ہوگی
، یہاں تک کہ یہ آگ مرکز شہر تک پہنچ جائے گی، پھر امیرالمومنین کھڑے ہوں
گے اور کہیں گے لوگو! راہب کو شہید کر دیا گیا، وہ راہب تنہا ہی ایک جماعت
کو بھیجے گا، (اپنی شہادت سے پہلے، ترتیب شاید یہ ہو کہ جب وہ شہر جاکر
دعوت دے گا تو ایک جماعت اس کی بات مان کر شہر سے باہر مسلمانوں کے پاس
آجائے گی اور باقی اس کو شہید کر دیں گے، پھر امیرالمومنین جنگ کے لئے اٹھ
کھڑے ہوں گے)، پھر مسلمان چار(٤)تکبیریں لگائیں گے ، جس کے نتیجہ میں شہر
کی دیوار گرجائے گی ، اس شہر کا نام روم اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہ لوگوں سے
اس طرح بھرا ہوا ہے، جیسے دانوں سے بھرا ہوا انار ہوتا ہے ( جب دیوار
گرجائےگی مسلمان شہر میں داخل ہو جائیں گے) ، تو پھر چھ لاکھ(٦٠٠٠٠٠)کافروں
کو قتل کریں گے اور وہاں سے بیت المقدس کے زیورات اور تابوت نکالیں گے اس
تابوت میں سکینہ( Ark the convenant of) ہوگا، بنی اسرائیل کا دسترخوان
ہوگا ، موسی علیہ السلام کا عصا اور(توریت کی)تختیاں ہوں گی سلیمان علیہ
السلام کا ایک منبر ہوگا اور من کی دو(٢)بوریاں ہوں گے جو بنی اسرائیل پر
اترتا تھا( وہ من جو سلوی کے ساتھ اترتا تھا)اور یہ من دودھ سے بھی زیادہ
سفید ہوگا
میں نے دریافت کیا یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)یہ سب کچھ وہاں کیسے
پہنچا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بنی اسرائیل نے سرکشی کی اور انبیاء(کرام علیہم السلام) کو قتل کیا، پھر
اللہ تعالٰی نے ان پر رحم کیا اور فارس کے بادشاہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ
وہ بنی اسرائیل کی طرف جائے اور ان کو بخت نصر سے نجات دلائے، چنانچہ اس نے
ان کو چھڑایا اور بیت المقدس میں واپس لاکر آباد کیا، اس طرح وہ بیت المقدس
میں چالیس(٤٠)سال تک اس کی اطاعت میں زندگی گزارتے رہے، اس کے بعد وہ
دوبارہ وہی حرکت کرنے لگے، قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ..؛؛وان
عدتم عدنا...؛؛ اے بنی اسرائیل اگر تم دوبارہ جرائم کروگے تو ہم بھی دوبارہ
تم کو دردناک سزا دیں گے، لہذا انہوں نے دوبارہ گناہ کئے تو اللہ تعالٰی نے
ان پر رومی بادشاہ طیطس(TITUS)کو مسلط کر دیا، جس نے ان کو قیدی بنایا اور
بیت المقدس کو( ستر٧٠ قبل مسیح میں)تباہ و برباد کر کے تابوت خزانے وغیرہ
ساتھ لے گیا، اس طرح مسلمان وہی خزانے نکالیں گے اور اس کو بیت المقدس میں
واپس لے آئیں گے، اس کے بعد مسلمان کوچ کریں گے اور قاطع نامی شہر پہنچیں
گے، یہ شہر اس سمندر کے کنارے ہے جس میں کشتیاں نہیں چلتی ہیں، کسی نے
پوچھا یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)اس میں کشتیاں کیوں نہیں چلتی ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیونکہ اس میں گہرائی نہیں ہے اور یہ جو
تم سمندر میں موجیں دیکھتے ہو اللہ( تعالٰی)نے ان کو انسانوں کے لئے نفع
حاصل کرنے کا سبب بنایا ، سمندروں میں گہرائیاں اور موجیں ہوتی ہیں، چنانچہ
انہی گہرائیوں کی وجہ سے جہاز چلتے ہیں،
حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا
اس ذات کی قسم جس نے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم)کو حق دے کر بھیجا ہے، توریت
میں اس کی تفصیل یہ ہے اس کی لمبائی ہزار میل اور انجیل میں اس کا نام فرع
یا قرع ہے اور اس کی لمبائی( انجیل کے مطابق)ہزار میل اور چوڑائی پانچ سو
میل ہے...
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس کے تین سو ساٹھ دروازے ہیں ہر دروازے سے ایک لاکھ جنگجو نکلیں گے مسلمان
وہاں چار تکبیر لگائیں گے تو اس کی دیوار گر جائے گی اس طرح مسلمان جو کچھ
وہاں ہوگا سب غنیمت بنالیں گے پھر تم وہاں سات(٧)سال رہو گے پھر تم وہاں سے
بیت المقدس واپس آؤ گے تو تمہیں خبر ملے گی کہ اصفہان میں یہودیہ نامی جگہ
میں دجال نکل آیا ہے اس کی ایک آنکھ ایسی ہوگی جیسے خون اس پر جم گیا
ہو(دوسری روایت میں اسکو پھلی کہا گیا ہے) اور دوسری اس طرح ہوگی جیسے گویا
ہے ہی نہیں( جیسے ہاتھ پھیر کر پچکادی گئ ہو)وہ ہوا میں ہی پرندوں کو(پکڑ
کر)کھائے گا اس کی جانب سے تین زور دار چیخیں ہوں گی جس کو مشرق مغرب والے
سب سنیں گے وہ دم کٹے گدھے پر سوار ہوگا جس کے دونوں کانوں کے درمیان فاصلہ
چالیس(٤٠)گز ہوگا اس کے دونوں کانوں کے نیچے ستر ہزار(٧٠٠٠٠)افراد آجائیں
گے ستر ہزار(٧٠٠٠٠)یہودی دجال کے پیچھے ہوں گے جن کے جسموں پر تیجانی
چادریں ہوں گی( تیجانی بھی طیلسان کی طرح سبز چادر کو کہتے ہیں)چنانچہ جمعہ
کے دن صبح کی نماز کے وقت جب نماز کی اقامت ہوچکی ہوگی تو جیسے ہی مہدی(
رضی اللہ عنہ)متوجہ ہوں گے تو عیسی ابن مریم علیہ السلام کو پائیں گے کہ وہ
آسمان سے تشریف لائے ہیں ان کے جسم پر دو کپڑے ہوں گے ان کے بال اتنے چمک
دار ہوں گے کہ ایسا لگ رہا ہوگا کہ سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں ....
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ
وسلم)اگر میں ان کے پاس جاؤں تو کیا ان سے گلے ملوں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ( رضی اللہ عنہ)ان کی یہ آمد پہلی آمد کی طرح
نہیں ہوگی جس میں وہ بہت نرم مزاج تھے بلکہ تم ان سے اس ہیبت کے عالم میں
ملوگے جیسے موت کی ہیبت ہوتی ہے وہ لوگوں کو جنت میں درجات کی خوشخبری دیں
گے، اب امیرالمومنین ان سے کہیں گے کہ آگے بڑھئیے اور لوگوں کو نماز
پڑھائیے تو وہ فرمائیں گے کہ نماز کی اقامت آپ کے لئے ہوئی ہے( لہذا آپ ہی
نماز پڑھائیے)اس طرح حضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ
امت کامیاب ہوگئی جس کے شروع میں میں ہوں اور آخر میں عیسی(علیہ السلام)ہیں
،
پھر فرمایا: دجال آئے گا اس کے پاس پانی کے ذخائر اور پھل ہوں گے ، آسمان
کو حکم دے گا کہ برس ! تو وہ برس پڑے گا، زمین کو حکم دے گا کہ اپنی
پیداوار اگا تو وہ اگا دے گی، اس کے پاس ثرید کا پہاڑ ہوگا( اس سے مراد
تیار کھانا ہوسکتا ہے ممکن ہے جس طرح آج ڈبہ پیک تیار کھانا بازار میں
دستیاب ہے اسی طرح ہو)جس میں گھی کا چشمہ ہوگا یا بڑی نالی ہوگی( اس میں
بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ تیار شدہ کھانا ہوگا) ، اس کا ایک فتنہ
یہ ہوگا کہ وہ ایک دیہاتی کے پاس سے گزرے گا جس کے والدین مر چکے ہوں گے تو
وہ دجال اس دیہاتی سے کہے گا کیا خیال ہے اگر میں تیرے والدین کو زندہ کرکے
اٹھا دوں تو کیا تو میرے رب ہونے کی گواہی دے گا ؟ وہ( دیہاتی )کہے گا کیوں
نہیں ؟ اب دجال دو شیطانوں سے کہے گا اس کے ماں باپ کی شکل اس کے سامنے بنا
کر پیش کردو، چنانچہ وہ دونوں تبدیل ہو جائیں گے ایک اس کے باپ کی شکل میں
اور دوسرا اس کی ماں کی شکل میں، پھر وہ دونوں کہیں گے اے بیٹے! اس کے ساتھ
ہوجا یہ تیرا رب ہے ، وہ( دجال )تمام دنیا میں گھومے گا سوائے مکہ مدینہ
اور بیت المقدس کے اس کے بعد عیسی ابن مریم علیہماالسلام اس کو فلسطین کے
لد( LYDD)نامی شہر میں قتل کریں گے ...
اس حدیث میں زوراء میں جنگ ہونے کا بیان ہے لغت میں زوراء بغداد کو کہا گیا
ہے یہ نہروں( دجلہ وفرات) کے درمیان واقع ہے، تاریخی اعتبار سے دو نہروں کے
درمیان کا علاقہ وہ تمام علاقہ ہے جو اس وقت ترکی سے لےکر شام ہوتا ہوا
بصرہ تک جاتا ہے، یعنی فرات اور دجلہ کے درمیان کا مکمل علاقہ جس کو انگلش
میں میسپوٹیمپا ( Mesopotamia )کہتے ہیں، دریائے دجلہ وفرات کا زیادہ حصہ
عراق سے ہی گزرتا ہے ، حضرت مہدی( رضی اللہ عنہ )کو جنگ اعماق کے موقع پر
تین جگہوں سے مدد آئے گی، شام سے، مشرق سے ، خراسان اور یمن سے، حالانکہ ان
کے علاوہ بھی کتنے مسلم ممالک ہیں لیکن آپ غور کریں حضرت مہدی( رضی اللہ
عنہ )کو مدد انہی جگہوں سے آرہی ہے ، جہاں اس وقت بھی مجاہدین اللہ( تعالٰی
) کے راستے میں جہاد میں مصروف ہیں ،
اس روایت میں رومیوں سے صلح ٹوٹنے کے بعد عمق میں جنگ کا ذکر ہے، اس سے
مراد اعماق ہی ہے، اس میں یہ ذکر ہے کہ اللہ( تعالٰی) کافروں پر ان خراسانی
کمانوں کے ذریعے تیر برسائے گا جو ساحل فرات پر ہوں گی، آپ اگر نقشے میں
دیکھیں تو اعماق سے دریائے فرات کا قریب ترین ساحل بھی بحیرہ اسد بنتا ہے
اور یہاں سے اعماق کا فاصلہ پچھتر ٧٥ کلومیٹر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ
خراسان سے آنے والی کمانوں سے مراد توپ یا مارٹر ہوسکتی ہے اور یہ وہی
خراسان کا لشکر ہوگا جس کے بارے میں فرات کے کنارے جنگ کرنے کا ذکر ہے اس
روایت سے پتہ چلتا ہے کہ فتح روم کے لئے بحری جہاد بھی کیا جائے گا ... ان
شاء اللہ
دجال کی آمد کا انکار :
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی
اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اس امت میں کچھ ایسے لوگ ہونگے جو رجم
( سنگسار ) کا انکار کریں گے، دجال( کی آمد )کا انکار کریں گے، عذاب قبر کا
انکار کریں گے، شفاعت کا انکار کریں گے اور لوگوں( گنہگار مسلمانوں )کے
جہنم سے نکالے جانے کا انکار کریں گے ...
خروج دجال :
(١): حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا :
دجال مشرق کی اس سر زمین سے نکلے گا، جسے خراسان کہا جائے گا، اس کے پیچھے
ایسی قومیں ہوں گی جن کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھال کی طرح ہوں گے ...
(٢): حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ کیا عراق میں کوئی ایسا علاقہ ہے جسے خراسان
کہا جاتا ہے ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا دجال
وہاں سے نکلے گا ...
عراق سے مراد سرزمین فارس ہے جس میں آج عراق، ایران آذربائیجان اور
بلوچستان کے بعض علاقے مثلاً مکران وغیرہ شامل ہیں، اُس وقت کا خراسان آج
کے افغانستان وایران اور بلوچستان کے بعض حصوں پر مشتمل ہے ...
(٣) حضرت ہیثم بن اسود فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ
نے پوچھا اور اس وقت وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے
تھے کہ کیا تم اس علاقے کو پہچانتے ہو جو تمہاری طرف ہے وہ بہت نمکین اور
دلدلی زمین ہے جس پر کائی کی طرح کوئی چیز جمی ہوئی ہے اس علاقے کا نام
کوثی ہے ؟ میں نے کہا ہاں پہچانتا ہوں،
انہوں نے فرمایا: دجال وہیں سے نکلے گا ...
( ٤): حضرت اسحاق ابن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ
عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اصفہان کے ستر ہزار( ٧٠٠٠٠)یہودی دجال کے
پیروکار ہوں گے جن کے جسموں پر سبز رنگ کی چادریں ہوں گی...
(٥): حضرت عمرو بن حُیث حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں
کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
دجال روئے زمین کے ایک ایسے حصہ سے نکلے گا جو مشرق میں واقع ہے اور جس کو
خراسان کہا جاتا ہے، اس کے ساتھ لوگوں کے کتنے ہی گروہ ہوں گے اور ان( میں
سے ایک گروہ کے )لوگوں کے چہرے تہہ بتہ پھولی ہوئی ڈھال کے مانند ہوں گے
...
دجال کے ساتھ ایک گروہ ایسا ہوگا جن کے چہرے پھولی ہوئی ڈھال کے مانند ہوں
گے کیا واقع میں ان کے چہرے ایسے ہوں گے یا پھر انہوں نے اپنے چہروں پر
کوئی ایسی چیز پہن رکھی ہوگی جس سے وہ اس طرح نظر آرہے ہوں گے ؟
اس حدیث میں خراسان کو دجال کے نکلنے کی جگہ بتائی گئی ہے، دجال کا خروج
پہلی روایت میں اصفہان اور اس روایت میں خراسان سے بتایا گیا ہے اس میں
کوئی تعارض نہیں، کیونکہ اصفہان اور ایران ایک صوبہ ہے اور ایران بھی پہلے
خراسان میں شامل تھا ...
خراسان کے بارے میں اس لشکر کا بیان گزر چکا ہے جو امام مہدی( رضی اللہ عنہ
)کے حمایت کے لئے آئے گا، لہٰذا حضرت مہدی( رضی اللہ عنہ )کے لشکر کے آثار
اگر ہم پورے خراسان میں تلاش کریں تو وہ افغانستان کے اس خطے میں نظر آتے
ہیں جہاں اس وقت پختون آبادی زیادہ ہے یہاں دجال کے نکلنے کا مقام اصفہان
میں یہودیہ نامی جگہ بتایا گیا ہے، بخت نصر نے جب بیت المقدس پر حملہ کیا
تو بہت سے یہودی اصفہان کے اس علاقے میں آکر آباد ہوگئے تھے، چنانچہ اس
علاقہ کا نام یہودیہ پڑگیا، یہودیوں کے اندر اصفہانی یہودیوں کا ایک خاص
مقام ہے ان کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے جس میں ہے کہ
دجال کے ساتھ سترہزار ( ٧٠٠٠٠ )یہودی ہوں گے، پرنس کریم آغا خان فیملی کا
تعلق بھی اصفہان سے ہے اور اس خاندان نے برصغیر میں جو خدمات اپنی قوم کے
لئے انجام دی ہیں اور دے رہے ہیں وہ اس پائے کی ہیں کہ اگر اس دور میں دجال
آجائے تو یہ خاندان دجال کے بہت قریبی لوگوں میں شامل ہوگا، اس کے علاوہ
اور بھی بہت سی شخصیات ہیں جو اصفہانی یہودی ہیں اور اس وقت عالم اسلام کے
معاملات میں بہت اثر و رسوخ رکھتی ہیں ....
جاری ہے ....
|