قافلہ صدق ووفا کے سر خیل عظیم المرتبہ
یارِ غار رومزار ،سسرِرسول ﷺ ،منکرینِ زکوۃ کے لئے شمشیر بے نیام، خلیفہ
بلافصل سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی ذات ،شخصیت کردار اور مناقب تاریخ اسلام کے
روشن دریچوں میں اجلے حروف کے ساتھ مرقوم ہیں ۔آپ کا نام عبداﷲ کنیت ابو
بکر، والد کا نام عثمان کنیت ابو قحافہ اور والدہ محترمہ کا نام ام الخیر
بنت ضحر بن عامر بن کعب تھا،والد کا سلسلہ نسب عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن
عمروبن کعب بن تمیم بن مرہ بن کعب بن لوئی القرشی التمیمی ہے ۔آپ کا نسب
عالی چھٹی پشت میں آنحضرت کے ساتھ جا ملتا ہے ۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا شمار مکہ کے تاجروں میں ہوتا تھا آپ کے والد گرامی
بھی شرفائے مکہ میں تھے ۔حلقہ بگوش اسلام ہونے سے قبل زمانہ جا ہلیت میں
لوگوں کا خون بہا آپؓ کے پاس جمع ہوتا تھا۔مکہ مکرمہ میں دیانت ،امانت راست
باز جیسے القاب سے ملقب تھے ۔زمانہ جاہلیت میں بھی شراب سے سخت نفرت تھی
اور کیوں نہ ہوتی ،کائنات کے عظیم المرتبہ انسان آنحضرتﷺ کی صحبت کا شرف پا
کر مقام صدیقت کی معراج پر فائز جو ہوناتھا اور ہادی عالم ﷺ کے بعد جا نشین
رسولﷺ کی حثیت سے امت کی رہنمائی جو کرنی تھی ۔اس عظیم المرتبہ شخصیت کی
ذات با برکت مجسم صدق ووفا پرمجھ جیسے کوتا ہ نظر وعلم کی تحریر کیا حیثیت
رکھتی ہے لیکن خلفاء راشدین کے ساتھ خصوصی شغف، انس ومحبت اور اعتقاد
ووابستگی لکھنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔شاہد یہی سیاہی۔۔۔ یہی سطور
وقرطاس۔۔۔اور آنحضرت ﷺکے غلاموں کی محبت شا فع محشر ساقی کو ثر کے ہا تھوں
جام کوثرپلانے نے کا سبب بن جائے ۔
آپ ؓؓکی عظمت کا انداز ہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ قرآن کر یم میں جب
غا ر ثور کی نقشہ کشی کی گئی تو تنہا ئی کے عالم میں نبوت وصداقت کا حسین
امتزاج ’’ثانی اثنین ‘‘کی صورت میں نظر آتا ہے ۔تا ریخ اسلام کے سب سے پہلے
معرکہ حق وباطل غزوہ بدر میں رات کی تاریکی میں جب محبوب کبریا ﷺ کی آنکھوں
سے آنسو رم جم با رش کی طرح رخسار مبارک اور داڑھی مبا رک کو تر کر رہے تھے
،اس وقت مونس و غمخوار قا فلہ صدق ووفا کے سا لار آنحضرت ﷺکو تسلیاں دے رہے
تھے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کی نصرت ومدد فرما ئیں گے۔غار ِ حرا میں جا کر گوشہ
نشی کے عالم میں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں جبین نیاز کو جھکانے والے آفتاب
وماہتاب ﷺ کو جب خلعت نبوت سے نوازا گیا تو آپ ﷺ نے اس راز کو مخلصین احباب
کے سامنے پیش کیا اور ہدایت کی طرف بلا یا تو مردوں میں سب سے پہلے حلقہ
بگوش اسلام ہونے والے شخص کو اگر دیکھنا ہو تو وہ بھی صدیق اکبرؓ ہوں گے
،آپؓ اخوت کے راز دار ،ہجرت مدینہ میں جب آنحضرت حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر
لٹا کر لو گوں کی امانتیں واپس کرنے کا کہہ کر جس شخصیت کے آستانہ پر تشریف
لا ئے تھے۔وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں ۔۔۔جس کے در پر نبوت چل کر آئی۔ آپؓ
کی ہجرت والی رات تمام راتوں سے بہتر تھی جب نبوت کے قدم آبلہ پا ہو گئے تو
مخلص وجا نثا ر صدیق نے صداقت کا حق ادا کرتے ہوئے نبوت کو اپنے کاندھے پر
سوار کر لیا تھا ۔ پھر اس کے بعد غا رِ ثور میں آپ کی خدمت اقدس کی خاطر
اپنے غلام کو مقرر کیا جو صبح و شام آپﷺ کی خبر گیری کرتا اور بکریوں کا
دودھ دھو کر آجناب کی خدمت اقدس میں پیش کرتا ۔
غار ثور میں قیام کے دوران آپؓ کی گود میں محو استراحت حبیب کبیریا ﷺ کی
نیند کی خاطر بچھو کے با ر بار ڈھسنے کے با وجو د اپنے جسم کو حرکت نہیں
دی۔مکہ مکرمہ کے تیرہ سالہ دور میں ہمیشہ آپﷺ کے ہمر کا ب رہے ۔قبائل عرب
کے مجمع میں تبلیغ کے لئے بھی آپ ؓ کے شانہ بشانہ اور ممد ومعاون تھے ،کفار
مکہ جب بھی آپﷺ کی طرف دست درازی کرتے تو جا نثار اپنی جا ن کو خطرے میں
ڈال کر سینہ سپرہو جاتا ،ایک موقع پر جب آنحضرت ﷺ خانہ خدا میں تقریر کر
رہے تھے جس پر مشرکین سخت بر ہم ہوئے اور آپ ﷺٹوٹ پڑے ایسے میں صدیق اکبرؓ
میدان میں کو د پڑے اور مشرکین کے ہجوم میں سے آپ ﷺ کو علیحدہ کر کے فرما
یا : کیا تم اس لئے ان کو قتل کرتے ہو کہ یہ ایک خدا کا نام لیتے ہیں ۔
مردوں میں سب سے پہلے اسلام لا نے والے پیغمبر کی صحبت میں کفار کے ہا تھوں
مار کھانے والے۔۔۔ اسلامی انقلاب کی ترویج واشاعت کی خاطر اپنا سب کچھ قربا
ن کرنے والے ۔۔۔۔اپنی لخت جگر کوخانوادہ نبوت میں بھیج کر آبا د کرنے والے
۔۔۔سفر ہجرت میں حق رفاقت ادا کرنے والے اور سراپا رسالت کو کندھوں پر
بٹھانے والے ۔۔۔غار ثور میں اﷲ کے محبوب ﷺ کو اپنی گود میں سلانے والے
ْ۔۔۔صاحب نبوت کا قرآنی اعزازحاصل کرنے والے ۔۔۔بدرو اُحد میں آنحضرت ﷺ کے
ہمدم وہمسفر۔۔۔نطق رسالت سے متعدد بار جنت کی بشارت پا نے والے ۔۔۔اپنے دور
خلا فت میں جھوٹے نبیوں کی مو ثر سر کو بی کرنے والے ۔۔۔رسول اکرم ﷺ کی
حیات طیبہ میں امت مسلم کی سترہ نمازوں کی امامت کا شرف حاصل کرنے والے
۔۔۔عرصہ حیات ووفات میں آپﷺ سے موافقت رکھنے والے اور از بعدوفات رشک خلد
بریں روضہ رسولﷺ میں پہلوئے رسالت میں ابدی ٹھکا نہ پانے والے یقیناصدیق
اکبرؓ ہی ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے آپ کو کتنے اعزازت سے نوازا ہے کہ عقل انسانی
دھنگ رہ جا تی ہے ۔
انہیں شواھد کے پیش نظر جب آپﷺ کی وفا ت کے بعد خلیفہ کے انتخاب کا وقت آیا
تو روشن ضمیر فر زندان اسلام نے آپؓ کے ہا تھ بیعت کر کے صیہونی بدلی کے
عزایم خاک میں ۔خلیفہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے خطبہ ارشاد فرما یا: لو
گو! تم نے مجھے خلیفہ مقرر کر کے آز مائش میں ڈال دیا ۔حا لا نکہ میں تم سے
بہتر نیکی کے کا نوں میں میرا تعا ون کر نا اگر میں سنت کے خلا ف چلوں تو
مجھے سیدھا کرنا۔ سچائی امانت ہے جھوٹ خیانت ہے تم میں سے جو ضعیف ہے وہ اس
وقت تک میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں اسے حق نہ دلاؤں اور تم میں سے قوی
میرے نزدیک اس وقت تک ضعیف ہے جب تک میں اس سے کمزوروں کا حق نہ لے لوں
۔جہاد شرط زندگی ہے جو قوم جہاد چھوڑ دیتی ہے وہ کاہل اور بے عمل بن جاتی
ہے بدکاری موجب ہلاکت اور داعی مصائب ہے تم اس وقت تک میری اطاعت کرو جب تک
میں اﷲ اور اس کے رسول کے احکام کی پیروی کرتا رہوں ‘‘۔
یوں حلقہ عشاق میں صدیق کا مقام
جیسے فلک میں چاند ستاروں کے درمیان
حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک سچے عاشق رسو ل ہونے کے ساتھ تحفظ ختم نبوت کے محاذ
کے عظیم سپاہی تھے ،اگر چہ رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں بعض بد بختوں نے دعویٰ
نبوت کرنے کی مذموم کوشش کی جن میں اسود عنسی قابل ذکر ہے لیکن آپ ﷺ کی
وفات کے بعد طلحہ اسدی سباح تغلبی اور مسیلمہ کذاب نے دعویٰ نبوت کر کے امت
مسلمہ کی غیرت ایمانی کو للکارا ،سیدنا صدیق اکبر ؓنے ان فتنوں کی سرکوبی
کو اتنی اہمیت دی جس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ دور رسالت
میں غزوات اور سرایا میں جام شہادت نوش کرنے والوں کے مقابلہ میں سیدنا
صدیق اکبر ؓ کے دور میں ارتداد اورتحفظ ختم نبوت کی مہم میں جام شہادت نوش
کرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ،مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے سیف
الاسلام خالد بن ولید ؓ کی قیادت میں13ہزار مجاہدین اسلام کا لشکر جرار
روانہ فرمایا۔ اس کے مقابلہ میں مسیلمہ ملعون کے لشکریوں کی تعداد قریباً
40ہزار نفوس پر مشتمل تھی ۔با لآخر وحشی بن حرب نے مسیلمہ کذاب کی زندگی کا
چراغ گل کر کے اس عظیم فتنہ کے آگے باب باندھا جس وقت لڑائی اختتام پذیر
ہوئی تو دو ہزار لاشوں سے میدان بھرا پڑا تھا ،زخمیوں کی تعداد بھی ہزارو ں
میں تھی ۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی زندگی عظیم الشان کا رناموں سے لبریز ہے
خصوصاً انہوں نے جو سواد دس برس کی قلیل مدت جس وت میں اپنء سعی جمیلہ کے
نقش چھوڑے وہ قیامت تک محو نہیں ہو سکتے ۔
اس میں شک نہیں کہ خلیفہ دوم کے عہد میں بڑے بڑے کا رنا مے انجام پائے
مہمات امور کا فیصلہ ہوا ،رو م و فارس کی سلطنتیں رنگین ہوئیں ،تاہم ان سب
کی داغ بیل مر د مجاہد یار غار و مزار خلیفہ رسول عاشق رسول سیدنا ابوبکر
صدیق ؓ کے دور میں ہوئی ۔کسی بھی اہم معاملے میں اہل الرائے و فقہاء صحابہ
ؓ سے مشورہ لیتے تھے جن میں حضرت عمر ؓ ،حضرت عثمان ؓ ،حضرت علی ؓ ،عبد
الرحمن بن عوف ؓ،معاذ بن جبل ؓ ،ابی بن کعب ؓ اور زید بن ثابت ؓ قابل ذکر
ہیں ،عاملوں اور عہدیداروں کے انتخاب میں بھی آپ ؓ ان لوگوں کو ترجیح دیتے
تھے جو زمانہ رسالت میں عامل رہ چکے تھے جب بھی کسی عامل کا انتخاب فرماتے
تو اس کو بلا کر اس کے فرائض کی تفصیل اور خوف خدا کے بارے میں ارشاد
فرماتے ’’خلوت و جلوت میں خوف خدا رکھو جو اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے
لیے ایسی جگہ سے رزق کا انتظام فرماتے ہیں جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں
ہوتا ،جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے ،او اس کا اجر دو
بالا کر دیتا ہے ،بیشک بندگان خدا کی خیر خواہی بہترین تقویٰ ہے ۔‘‘
آپ ﷺ کی مبارک زبان سے بے شمار مواقع پر آپ ؓ کے فضال و مناقب کا ذکر ہوا
چنانچہ بخاری شریف میں موجود ہے ’’ابوبکر ؓ اپنی صحبت اور مال کے لحاظ سے
میرا سب سے بڑا محسن ہے اگر اس میں خدا کے سوا کسی کو دوست بنا سکتا تو
ابوبکرؓ کو بناتا لیکن اسلامی محبت و اخوت افضل ہے‘‘ ،حضرت ابوبکر ؓ نے گو
کسی مکتب میں باقاعدہ زانوائے تلمذ نہیں کیا تاہم فطری جو دت طبع اور دربار
نبوت کی حاشہ نشینی سے آسمانی فضل و کمال پر مہر درخشاں ہو کر چمکے فصاحت
وبلاغت میں کمال رکھتے تھے ،تقریر و خطابت کا خداداد ملکہ تھا۔ بنی ساعدہ
میں آپ ؓ کی شاہکار تقریر سے بر جستگی اور زور کلام کا اندازہ ہوتا ہے ،اس
کے علاوہ نسب دانی ، تعبیر رؤیا ،علم تفسیر ،علم حدیث پر بھی آپ ؓ کو دسترس
حاصل تھی ،ورع و تقویٰ آپ ؓ کے معدنِ اخلا ق کا سب سے درخشاں گوہر ہے ۔
ایک مرتبہ پینے کے لیے پانی مانگا لوگوں نے پانی میں شہد ملا کر دیا جیسے
ہی منہ کے قریب کیا بے ساختہ اشک بار ہو گئے اور اس قدر رویے کہ حاضرین پر
رقت طاری ہو گئی بعد میں استفسار پر فرمایا کہ مجھے رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد
گرامی یاد آگیا تھا کہ ’’ظاہر فریب دنیا مجسم ہو کہ میرے سامنے آئی میں نے
اس کو ردکر دیا ‘‘یکا یک شہد دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ کہیں میں اس دام
تزویر میں نہ پھنس جاؤں ۔آپ ؓ کا ذریعہ معاش تجارت تھی ، فرماتے ’’میں قریش
میں سب سے بڑا متمول تاجر تھا ‘‘عہد اسلام میں بھی تجارت کو جاری رکھا کہ
دور دراز ممالک کے سفر کیے ،چنانچہ آپ ﷺ کی وفات سے ایک سال قبل تجارت کی
غرض سے بصریٰ تشریف لے گئے ۔
27ماہ کی خلافت کے بعد اپنی لخت جگر عائشہ صدیقہ ؓ سے فرمایا ’’جان پدر
‘‘میری جائیداد فروخت کر کے زمانہ خلافت میں مجلس شوری ٰ کی طرف سے دیے گئے
مشاہرے کی مجموعی رقم بیت المال میں جمع کر دینا ۔
اور جان جان آفرین کے سپر د کردی، جس تخت پر آپ ﷺ کو غسل دیا گیا اسی تخت
پر نہلائے گئے ،غارثور میں رسو ل اﷲ ﷺ کو گودمیں سلانے کا کیا حسین صلہ ملا
کہ تاحشر پہلوئے رسول ؐمیں ٹھکانہ مل گیا ۔انفاق فی سبیل اﷲ ،مہمان نوازی
اور لباس و غذا میں سادگی میں اپنی مثا ل آپ تھے ۔
وفات کے وقت پوچھا کہ آج کونسا دن ہے ……؟لوگوں نے بتایا دوشنبہ (پیر )پھر
پوچھا رسو ل اﷲ ﷺ کا وصال کس دن ہوا ……؟بتایا گیا اسی روز تو فرمایا میری
آرزوہے کہ آج رات تک اس عالم فانی سے رحلت کر جاؤں چنانچہ یہ آرزوبھی پوری
ہوئی اور 65برس کی عمر میں ۲۲جمادی الثانیہ ۱۳ھجری کو راہ گزین عالم
جاودانی ہو ئے ۔
وصیت کے مطابق ولادت کے وقت تجہیز و تکفین کا سامان کیا گیا آپ ؓ کی زوجہ
اسماء بنت عمیس نے غسل دیا حضرت عمر فاروق ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی حضرت
عثمان ،طلحہ ،عبد الرحمن بن عوفؓ، اور حضرت عمر ؓ نے قبر میں اتارا یوں آپ
کا رفیق حقیقی یارِ غار و مزار آپ ﷺ کے پہلو میں جا پہنچا ۔
|