العقائد الضروریۃ

العقائد الضروریۃ
اللہ ربُّ العزت ایک ہے اسکا کوئی شریک نہیں نہ تو کوئی اسکی ذات میں شریک ہے اور نہ ہی صفات میں اور نہ دیگر کاموں میں اور وہ کسی کا محتاج نہیں سب اسکے محتاج ہیں اسکو کسی نے پیدا نہیں کیا اس نے سارے عالمین(ہر چیز ) کو پیدا فرمایا ہے نہ اسکا کوئی باپ ہے اور نہ ہی کوئی بیٹا ہے وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے وہ جس طرح اجالے میں دیکھتا ہے اسی طرح اندھیرے میں بھی دیکھتا ہے اس کے علم سے کوئی چیز چھپی نہیں وہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہے کرے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے اسکے ہر کام میں حکمتیں ہوتی ہیں وہ ہمارے سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں مسئلہ جب ہم کوئی اچھا کام کریں تو اسے اللہ کی طرف منسوب کریں کہ یہ اللہ کے چاہنے سے ہوا ہے اور برے کام کی نسبت اسکی طرف کرنا جائز نہیں
اور اللہ تعالیٰ کے لئے کسی ایسے لفظ کا استعمال کرنا جو دوسروں کے لئے بھی بولا جاتا ہو ۔جائز نہیں
مثال کے طور پر ۔لفظ ”اللہ میاں“ کا بولنا جائز نہیں کیؤں کہ میاں کا لفظ دنیا کے لوگوں کے لئے بھی بولا جاتا ہے بعض جگہ چھوٹے بچوں کو میاں کہتے ہیں اور بعض جگہ اپنے مرشد کو میاں کہتے ہیں اس لئے اللہ پاک کو ”میاں “ کہنا جائز نہیں (عامۂ کتب)
بلکہ اللہ تعالیٰ/اللہ رب العزت/اللہ پاک /کہنا چاہئے
اور بہت سے لوگ عام طور پر ایسے لفظ بولتے ہیں جس سے وہ ایمان سے خارج ہو جاتے ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا ۔
جیسے ۔وہ لوگ جنکے اولاد نہیں ہوتی وہ یہ کفری جملہ کہہ دیتے ہیں ”بچی نہ بچہ ۔خدا سے اچھا“معاذ اللہ ۔ایسے کفری الفاط آپ کوایمان سے خارج کر دیتے ہیں اور آپ کو خبر بھی نہیں ہوتی ۔لہذاٰ اس قسم کے الفاظ بولنے سے احتیاط کریں اور اللہ رب العزت کے تعلق سے پہلے غور کر لینا چاہئے کہ کیسا لفظ ہے۔
پیغمبر اسلام۔اور مسلمانوں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نبیوں کے بارے میں بھی اتنی معلومات حاصل کر لے کہ اپنے ایمان کو محفوظ کر سکے
نبی کی تعریف۔جنکو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت اور اپنے احکام بندوں تک پہنچانے کے لئے بھیجا ہو انہیں نبی کہتے ہیں اور انکے پاس وحی ( یعنی اللہ کا پیغام) نازل ہوتی ہے ۔نبی گناہوں سے پاک ہوتے ہیں انکی عادتیں نہایت ہی پاکیزہ ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نبیوں کو سب سے زیادہ عقلمند بناتاہے ۔اور اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو غیب کا علم عطا فرماتا ہے (یعنی وہ پوشیدہ چیزیں بھی دیکھ لیتے ہیں)جو اور کوئی نہیں دیکھ سکتا اور کل کیا ہوگا یہ بھی علم انکو اللہ عطا فرماتا ہے مثلاً اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں قیامت تک کے بارے میں بتا دیا اور قبروں کےا ندر کے حالات بتا دئیے اور وہ دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور بندوں کو اللہ کے احکام بتاتے ہیں اور انہیں صحیح راستہ رکھاتے ہیں۔نبی کچھ کہیں وہ ماننا فرض ہے اور انکی عزت و تعظیم فرض ہے انکے کسی بھی فرمان کا انکار یا انکی توہین کفر ہے جب تک آدمی انبیاء کے ہر ہر فرمان پر ایمان نہ لائے مومن نہیں ہو سکتا۔نبیوں کی اللہ کی بارگاہ میں بہت عزت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور پیارے ہوتے ہیں۔نبیوں میں جو نئی شریعت لائے وہ رسول بھی ہوتے ہیں جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کہ وہ نئی شریعت لیکر آئے اور کتاب بھی اللہ نے انہیں عطا فرمائی اس کتاب کا نام زبور ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کہ وہ بھی نئی شریعت توریت لیکر آئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو نبئ شریعت اور آسمانی کتاب انجیل لیکر بندوں کی ہدایت کے لئے آئے اور سب سے آخر میں ہمارے سرکار نبیوں کے امام(امام الانبیاء)جنکے صدقے میں زمین و آسمان بنائےگئے جنکے صدقے میں دنیا کو سجایا گیا اللہ تعالیٰ نے انہیں نبی اور رسول بنا کر بھیجا وہ جو کتاب لائے وہ ساری کتابوں میں افضل وہ جو شریعت لائے تمام شریعتوں میں افضل کیؤنکہ قرآن وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اس لئے کہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے
ذالک الکتاب لا ریب فیہ یعنی یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں قرآن کے ایک ایک لفظ پر ایمان لانا فرض ہے جس نے ایک لفظ کا بھی ا نکار کیا وہ کافر ہے اور اسی طرح باقی نبیوں پربھی جو کتابیں نازل ہوئیں ان پر بھی ایمان رکھنا کہ وہ سب اللہ کی کتابیں ہیں اور سارے نبیوں اور رسولوں پر ایمان رکھنا کہ وہ سب حق پر ہیں اور اللہ کے بندے ہیں اور نبی بشر ہوتے ہیں فرشتے اور جن عورتیں نبی نہیں ہوتیں۔
ایمان۔یعنی شریعت رسول ﷺ پر ایمان لانا اللہ کی وحدانیت پر ایمان لا جنت دوزخ پر ایمان لانا اور فرشتوں پر ایمان لانا اور آسمان سے جتنی بھی کتابیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں پر نازل فرمائیں ان سب پر ایمان لانا اور سارے انبیاء پر ایمان لانا مرنے کے بعد زندہ ہونے پر اور عذاب قبرپر میدان محشر اور میزان ۔پل صراط ۔حوض کوثر اور ضروریات دین میں سے ہر ایک پر ایمان لانا فرض ہے نمازیں روزہ حج زکوٰۃ نبی رسول فرشتے ان سب پر ایمان لان فرض ہے ۔
اور وہ ساری چیزیں جنہیں شریعت نے حر ام قرار دیا ہے حرام ماننا جیسے شراب ،جوا،زناوغیرہ اگر کسی نے شراب کو جائز کیا تو وہ کافر ہے اور اگر حرام سمجھتا ہے لیکن پیتا ہے تو وہ حرام کام کرنے کی بنا پر سزا پائیگا کافر نہیں ہوگا اسی طرح حرام کاموں کا بھی حکم ہے کہ اگر کسی حرام کام کو جائز سمجھ کر کیا تو کافر اور حرام سمجھ کر کیا تو وہ گنہگار سخت عذاب کا مستحق ہوگا لیکن اسکو کافر نہیں کہا جائیگا ۔
اور رسولﷺ کو خاتم الانبیاء ماننا اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت محمد مصطفے ﷺ کے بعد کو نبی آ سکتا ہے تو وہ کافر ہے ۔اور فرشتوں پر اس طرح ایمان لانا کہ وہ اللہ کے نیک بندےہیں جو ہر وقت اللہ کی عبادت اور اسکے حکم پر عمل کرتے رہتے ہیں اور وہ معصوم ہوتے ہیں
کچھ مشہور فرشتوں کے نام درج کئے جاتے ہیں۔حضرت جبرئیل علیہ السلام جو اللہ کا پیغا م نبیوں تک پہنچاتے ہیں ۔حضرت میکائل اور حضرات عزرائیل اور اسرافیل اورمنکر ۔نکیر ۔۔۔۔۔یہ مشہور فرشتوں کے نام ہیں۔
مکروہات وضو ۲۱ہیں
(۱)عورت کے غسل کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا(۲)وضو کے لئے نجس جگہ بیتھنا(۳)نجس جگہ وضو کا پانی گرانا(۴)مسجد کے اندر وضو کرنا (۵)اعضائے وضو سے لوٹے وغیرہ میں پانی ٹپکانا (۶)پانی میں کھکھار وغیرہ ڈالنا(۷)قبلہ کی طرف تھوکنا یا کھکھارنا یا کلی کرنا(۸)بغیر ضرورت دنیاوی بات کرنا(۹)زیاد ہ پانی خرچ کرنا(۱۰)اتنا کم پانی لینا کہ سنت ادا نہ ہو(۱۱)منھ پر پانی مارنا(۱۲)منھ پر پانی ڈالتے وقت پھونکنا(۱۳)ایک ہاتھ سے منھ دھونا ۔یہ ہندؤں کا طریقہ ہے(۱۴)گلے کا مسح کرنا (۱۵)بائیں ہاتھ سے کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا (۱۶)داہنے ہاتھ سے ناک صاف کرنا(۱۷)اپنے لئے مسجد میں کوئی لوٹا وغیرہ خاص کر لینا(۱۸)تین نئے پانیوں سے تین بار سر کا مسح کرنا(۱۹)جس کپڑے سے استنجے کا پانی سکھایا گیا ہو اس کپڑے سے اعضا ئے وضو پونچھنا (۲۰)دھوپ کے گرم پانی سے وضو کرنا(۲۱)ہونٹ یا آنکھیں زور سے بند کرنا(بہار شریعت)
وضو توڑنے والی چیزیں۔پیشاب ،پاخانہ،وذی ،مذی،منی،کیڑا،پتھری،مردیاعورت کے آگے یا پیچھے پیچھے کے مقام سے نکلیں تو وضو ٹوٹ جائے گا خون پیپ وغیرہ کا اپنی جگہ سے نکل کر بہہ جانا وضو کو توڑ دیتا ہے منھ بھر کے قے (الٹی)ہونا کھانا یا پانی یا پتہ کی وضو کو توڑ دیگا ۔اور اگر تھوڑی تھوڑی قے ہوئی ۔تو سب ملا کر منھ بھر ہو تو وضو ٹوٹ جائیگا ۔ورنہ نہیں اور اگر بلغم کی قے ہوئی وضو نہیں ٹوٹے گا منھ بھر ہو یا اس سے زیادہ یا کم ۔اور اگر سو گیا تو بھی وضو ٹوٹ جائیگا ۔اور اگر ٹیک لگا کر سویا ہے تو اگر ٹیک ہٹانے سے گر جائے تو بھی وضو ٹوٹ جائیگا ۔اور اگرٹیک لگا کر سویا ہے تو اگر ٹیک ہٹانے سے گر جائے تو وضو ٹوٹ جائیگا ورنہ نہیں۔بیہوشی ،پاگل میں ،اور چکرانا اور اتنا نشہ کہ چلنے میں پیر لڑکھڑائیں ان سے وضو ٹوٹ جائے گا
بالغ کا قہقہہ (یعنی اتنی زور سے ہنسنا کہ دوسرے سنیں)لگانا نماز کی حالت میں وضو نماز دونوں کو توڑ دیگا رکوع سجدہ والی نماز کے علاوہ میں قہقہہ لگایا تو وضو نہیں ٹوٹے گا ۔البتہ نماز فاسد ہو جائے گی۔یہ سب چیزیں وضو کو توڑنے والی ہیں ۔اور عوام میں مشہور ہے کہ ستر کھلنے یا دوسرے کا ستردیکھنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یہ سب فضول ہے بے اصل ہے اس سے وضو نہیں ٹوٹتا(عامہ کتب)
الاذان
جب امت مسلمہ پر نماز پنج گانہ فرض ہوئی تو ضرورت اس بات کی ہوئی کے لوگوں کو اوقات نماز میں نماز کے لئے بلایا کس طرح جائے رسول اللہﷺ نے اس بارے میں لوگوں سے مشورہ کیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ آگ جلائی جائے تاکہ لوگ دھواں دیکھ کر آ جائیں اور نماز ادا کریں تو کسی نے کہا کہ نقارہ بجایا جائے کہ اسکی آواز سن کر آ جائیں تو کسی نے کہا کہ ایک آدمی کو بھیجا جائے وہ سب کو خبر کرے لیکن کوئی ایسا فیصلہ نہ ہو سکتا جو دعوت نماز کے لئے مقرر کیا سکتا پھر جب رات میں سب سو گئے تو حضرت عمر ۔اور عبد اللہ ابن زید ابن عبدرب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو خواب میں ایک فرشتے نے اذان سکھائی حضرت عبد اللہ ابن زید نے یہ الفاظ رسول اللہﷺ کو بتائے اللہ کے رسول نے فرمایا خوب سچا ہے اور فرمایا یہ الفاظ بلال کو بتاؤ کہ وہ سب سے بلند آواز ہیں اس حدیث کو ۔ابو داؤد ۔ترمذی ۔ابن ماجہ۔دارمی روایت کیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں لگا لیا کرو کہ اس سے آواز اور بلند ہوتی ہے ۔اس حدیث کو ابن ماجہ نے عبد الرّحمن بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے ۔حدیث معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن مؤذنوں کی گردنیں سب سے زیادہ لمبی ہونگی (مسلم اور ابن ماجہ)۔علماء اس حدیث کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ گردن لمبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن قیامت میں شرمندہ نہ ہونگے کیؤنکہ جو شرمندہ ہوتا ہے اسکی گردن جھکی رہتی ہے اور بعض نے سواب کی زیادتی سے تعبیر کیا ہے (تسیر)۔اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جس بستی میں اذان کہی جاتی ہے اس دن اللہ تعالیٰ اس بستی کو اپنے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے (طبرانی صغیر)۔ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں جنت میں گیا اس میں موتی ہیں کند دیکھے کہ انکی زمین مشک کی ہے میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ کس کے لئے ہے تو انہوں نے عرض کی آپ کی امت کے مؤذن اور اماموں کے لئے ہیں (مسند ابو یعلی)۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی (ابو داؤد ۔ترمذی)
حضرت زیاد بن حارث صدائی کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے مجھے مجر میں اذان دینے کا حکم فرمایا میں نے اذان کہی اور بلال نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا جو اذان کہے وہی تکبیر کہے ۔اور اذان کے لئے الفاظ مقرر ہیں ۔وہ یہ ہیں
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر
اشہد ان لا الہ اللہ اشھد ان لا الہ اللہ
اشھد ان محمد الرسول اللہ ۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ
۔حیی علی الصلوۃ حیی علی الصلوۃ
حیی علی الفلاح حیی علی الفلاح
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ اللہ
حدیث۔حضرت امیر المؤمنین عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مؤذن اذان کہے تو جو شخص اسکے مثل کہے مگر جب حیی علی الفلاح حیی علی الفلاح
کہے تو جواب میں لا حول ولا قوت الا با للہ کہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا (صحیح مسلم شریف)
اور جب مؤذن اشھد ان محمد الرسول اللہ کہے تو سننے والا درود شریف ﷺ پڑھے اور مستحب ہے کہ انگوٹھوں کو بوسہ دیکر آنکھوں سے لگا لے اور یہ کہے ۔قرۃ عینی بک یا رسول اللہ اللھم متعنی بالسمع والبصر (رد المختار) کہے الصلوۃ خیرٌ من النوم کے جواب میں یہ کہے۔
صَدَقتَ وبَوَرتَ وَباِالحقِ نَطَفتُ ۔اور باقی الفاظ کے جواب میں جو مؤذن کہے اسی کو کہنا
(در مختار۔رد مختار)
حدیث۔ابن عساکر نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ائے عورتوں کی جماعت جب تم بلال کو اذان یا تکبیر کہتے ہوئے سنو تو جس طرح وہ کہتاہے تم بھی کہو کہ اللہ تعالیٰ تمھارے ہر کلمے کے بدلے ایک لاکھ نیکی لکھے گا اور ہزار درجے بلند فرمائیگا اور ہزار گناہ معاف فرمائے گا اور ہزار گناہ معاف فرمائے گا تو عورتوں نے عرض کی یہ تو عورتوں ک لئے ہے مرد کے لئے کیا ہے آپ نے فرمایا اسکا دوگنا۔تو حضرات آپ اذان کو سن کر جواب دیجئے تاکہ آپ کی نیکیوں میں اضافہ ہو درجات بلند ہوں اور گناہ کم ہوں تاکہ اللہ تم سے راضی ہو جائے۔
اور مشائخ کا قول ہے اور تجربہ بھی ہے کہ جو شخص یہ الفاظ کہے گا اور انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں میں لگائے گا کبھی آنکھوں میں درد یا روشنی کی کمی کی شکایت نہیں ہوگی ۔
اور امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص مؤذن کو اشھد ان محمد الرسول اللہ
کہتے سنے اور یہ پڑھے مَرحَباَ یَحَبیِبیِ وَقُرَّۃُ عَنَبیِ مُحَمّد اِبنِ عَبدُاللہ ﷺ۔اور اپنے انگوٹھے چوم کر آنکھوں میں رکھے نہ کبھی اندھا ہوگا اور نہ کبھی آنکھیں دکھیں گی ۔اس حدیث کو امام مدنی فقیہ محمد بن خولانی اور اپنوں نے فقیہ عالم ابو الحسن اور وہ فقیہ زاہد بلالی اور وہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں اس حدیث کی اگر چہ ضعیف ہے لیکن علمائے حدیث کے نزدیک باب فضائل میں ایسی حدیث بھی قابل قبول ہوتی ہیں۔
بعض حضرات اذان میں رسول اللہ ﷺ کا نام سنکر انگوٹھے چومن بدعت اور ناجائز بتاتے ہیں اور اس کو کرنے پر دلیل مانگتے ہیں حالانکہ یہ طریقہ سلف صالحین کے زمانے سے رائج ہے۔اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ االرضوان نے اپنے رسالہ(منیر العین فی حکم تقبیل الابھا مین)میں ارشاد فرماتے ہیں ”حضور پرنور ﷺ کا نام پاک اذان میں سنتے وقت انگوٹھے یا شہادت کی انگلیوں کاچومنا قطعی جائز ہے اور اسکے جائز ہونے پر تشریح میں بہت سے زیادہ دلائل قائم ہیں ۔اوراگر دلائل نہ بھی ہوتے تو اس فعل کے نہ کرنے پر شرع سے دلیل نہ ہوناہی جواز کے لئے دلیل کافی تھا جو ناجائز بتائے ثبوت وہ پیش کرے کہ کیؤں نا جائز ہے۔پھر یہاں تو حدیث اور فقہا علماء سلف صالحین کا عمل سب کچھ موجود ہے ۔خلیفہ رسول اللہﷺ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ریحانۂ رسول ﷺ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔سیدنا ابو العاص اور علامہ شمس الدین سخاوی نے جسکی تصریح اپنی کتاب (مستطاب مقاصد حسنہ)میں فرمائی ۔اور جامع الرموز ۔شرح نقایہ۔فتاوی صوفیہ ۔کنز العباد ۔ردالمختار میں در مختار کے حاشیہ میں اور بہت سی دیگر فقہ کی کتابوں میں اذان میں ۔رسول اللہ ﷺ کا اسم مبارک سن کر انگلیوں یا انگوٹھوں کا چومنا مستحب قرار دیا ہے۔اور حضرت امام سخی اپنی کتاب (المقاصد الحسنہ فی الاحادیث الدائرۃ علی الالسنہ)میں فرماتے ہیں کہ مؤذن سے اشھد ان محمد الرسول اللہ سن کر شہادت کی انگلیوں کے اندرونی پورے چوم کر آنکھوں پر ملنا اور یہ دعا پڑھنا۔
اشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ رضیت بااللہ رباً وبالاسلام دیناًو بحمد نبیاً۔اسی حدیث کو دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب انہوں نے مؤذن سے
اشھد ان محمد الرسول اللہ سنا تو یہ دعا پڑھی اور دونوں انگلیوں کے اندرونی پورے چوم کر آنکھوں سے لگائے اس پر حضور نے فرمایا جو ایسا کرے جیسا میرے پیارے نے اس پر میری شفاعت حلال ہو گئی ۔ان دلائل سے یہ بات بالکل صاف ہو گئی کہ انگوٹھے یا شہادت کی انگلیاں اذان میں نام نبی سن کر چومنا اور آنکھوں سے لگانا قطعی جائز ہے جسکو اس وضاحت سے سکون نہ ملے وہ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان کا مذکورہ رسالہ دیکھے انشاء اللہ تعالیٰ تشفی ہو جائے گی ۔اور پھر بھی تشفی نہ ہو تو اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے شخص کے لئے حضرت شیخ سعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔گر نہ سبنید بروز سیٔرہ چشم۔چشمہ آفتاب راچہ گناہ (یعنی اگر دن میں چمگادڑ کو دکھائی نہیں دیتا تو سورج کا اس میں کیا گناہ ہے)اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو اذان سن کر یہ دعا پڑھے اللھم ربَّ ھذہ الدعوۃِ التامّۃ والصلوۃ القائمۃ آت محمدن سئیلۃ والفضیلہ والبعثہ والبعثہ مقاماً مّحمودن الذی وعدتہ۔اسکے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی (بخاری شریف ،ابن ماجہ،ابو داؤد،ترمذی،نسائی)اور طبرانی کی روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے واجعلنا شفاعتہ یوم القیامۃبھی ہے
اورقطب ربانی محبوب سبحانی سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی کتاب (غفیۃ الطالبین)میں اذان کے بعد کی دعایوں تحریر فرماتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بعینہ ہی دعا رد مختار میں بھی مذکور ہے اور اس پر عمل بھی ہے۔

مسائل اذان۔پانچوں وقتوں کی فرض نمازوں میں جبکہ جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کی جائیں اور جمعہ میں اذان کہنا سنت مؤکدہ ہے اور اسکا حکم واجب کے جیساہےکہ اگر اذان نہ کہی تو وہاں کے سب لوگ گنہگار ہونگے مسجد میں بغیر اذان اور تکبیر کے جماعت سے نماز پڑھنا مکروہ ہے (فتاوی عالمگیر)اور اگر کوئی شخص بستی میں نماز پڑھے جہاں مسجد میں اذان ہوتی ہے تو اب اسکو وہی اذان کافی ہوگی مگر کہہ لینا مستحب ہے۔اور اگر بستی سے باہر کھیتی وغیرہ میں ہے تو اگر مسجد کی اذان کی آواز وہاں پہنچتی ہو تو وہی کافی ہے مگرکہہ لینا بہترہے اور اگر مسجد کی اذان اس جگہ نہیں پہنچتی تو اب اذان کہنا ضروری ہے(بہار شریعت)اور اذان وقت ہونے کے بعد کہی جائے اگر وقت سے پہلے شروع کی اور درمیان میں وقت شروع ہو ا تو بھی دوبارہ اذان کہی جائیگی (در مختار)
اذان کا مستحب وقت وہی ہے جو نماز کا ہے یعنی فجر میں روشنی پھیلنے کے بعد اور مغرب اور جاڑوں کی ظہر میں اور وقت میں اور گرمیوں کی ظہر اور ہر موسم کی ظہر میں نصف وقت گزر جائے کے بعد مگر عصر میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ نماز پڑھتے پڑھتے مکروہ وقت آ جائے اور اگر اول وقت میں اذان ہوئی اور آخر وقت میں اذان ہوئی تو بھی سنت اذان ادا ہوگی (در مختار،بہار شریعت)بچے کے کان میں اور مرگی والے کے کان میں اور آگ لگنے کے وقت او ر میت کے دفن کے بعد اذان مستحب ہے (رد مختار)
عورتوں کو اذان اور تکبیر کہنا مکروہ تحریمی ہے اگر کہیں گی تو گناہ گار ہونگی (عالمگیر رد المختار)فاسق ۔ہجڑے۔ناسمجھ بچے کا اذان دینا صحیح ہے اور بے وضو اذان کہنا مکروہ ہے مکر کسی نے کہہ دی تو اذان ہو گئی ۔
ایک شخص کو ایک وقت میں دو مسجدوں میں اذان کہنا مکروہ ہے۔اذان کے درمیان کسی وجہ سے رک گیا تو اذان دوبارہ کہی جائے۔
اذان قبلہ کی طرف منھ کر کے کہی جائے اور سنت یہ ہے کہ اذان ملبند مقام میں کہی جائے تاکہ آس پاس والوں کو خوب سنائی دے اور بلند آواز سے کہی جائے مگر اپنی طاقت سے زیادہ آواز کرنا مکروہ ہے۔
مسئلہ۔مسجد میں اذان کہنا منع ہے (فتاوی عالمگیر)اور غایتہ البیان ،فتح القدیر ،طحطاوی ،میں ہے کہ مسجد کے اندر اذان کہنا مکروہ ہے اور یہ حکم ہر اذان کے لئے ہے فقہ کی کسی کتاب میں کوئی اذان اس حکم سے الگ نہیں یعنی خطبہ جمعہ کی ا ذان میں مسجد کے باہر ہی کہی جائیگی اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کرکہے اور جب حیی علی الصلوۃ پر پہنچے تو منھ داہنی طرف اور جب حیی علی الفلاح کے تو بائیں جانب گھمائے صرف منھ گھمائے پورا بدن نہ گھمائے (در مختار)
اقامت (تکبیر)اقامت بھی اذان ہی کی طرح ہے مگر بعض جگہ اسکے مسائل الگ ہیں جنہیں ہم بیان کریں گے ان شاءاللہ ۔جیسے حیی علی الصلوۃ کے بعد قدقامۃ الصلوۃ ۔دو بارکہنا اور فجر کی تکبیر میں الصلوۃ خیر من النوم نہ کہے اور تکبیر میں آواز اتنی بلند ہو کہ سب مقتدیوں کو سنائی دے مگر مجمع اتنا زیادہ ہے کہ آواز نہیں پہنچ سکتی تو حرج نہیں جیسا کہ آج کل مسجدوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ نماز ادا کرتے ہیں تو سب تک آواز پہنچانے میں حرج ہے
تکبیر کے وقت کوئی شخص مسجد میں آیا تو اسکو کھڑے ہوکر انتظا ر کرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ جانے اور جب مکبر حی علی الفلاح پر پہونچنے تک کھڑا ہو ایسے ہی جو لوگ مسجد میں موجود ہیں وہ بھی بیٹھے رہیں اس وقت اٹھیں جب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے اور یہی حکم امام کے لئے ہے۔یعنی امام ہو یا مقتدی اسی وقت کھڑ اہو جب تکبیر کہنے والا حیی علی الصلوۃ کو ختم کرے اور حیی علی الفلاح کو شروع کرے
اور عینی شرح بخاری میں ہے امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا جب مؤذن حیی علی الصلوۃ کہے سب لوگ صف میں کھڑے ہو جائیں اور فتح الباری میں امام اعظم ابو حنیفہ کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب مؤذن حیی علی الفلاح کہے اس وقت کھڑے ہوں انہیں دونوں قولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلیٰحضرت امام احمد رضاخاں علیہ الرحمۃ الرضوان نے اپنی کتاب فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں جب مؤذن حیی علی الصلوۃ کہہ لے اور حیی علی الفلاح کہنے کا ارادہ کرے اس وقت کھڑے ہوں یہ ہمارے امام امام اعظم کا قول ہے اور امام کی اقتداء واجب ہے لہذاٰ حیی علی الصلوۃ اور حیی علی الفلاح کے درمیان کھڑے ہوں ۔
مسئلہ۔در مختار میں ہے جب کوئی مسجد میں ایسے وقت می آئے کہ تکبیر کہنے والا تکبیر کہہ رہا ہو تو یہ بیٹھ جائے اور جب امام اپنے مصلیٰ میں کھڑے نہ ہو ۔یہ بھی کھڑا نہ ہو ۔
فائدہ۔اس میں دلیل ہے اس بات کی کہ جب تکبیر سے پہلے کھڑا ہونا صحیح نہیں کیؤنکہ فرمایا گیا ہے کہ جب کوئی مسجد داخل ہو اور تکبیر کہنےوالا تکبیر کہہ رہا ہو تو بیٹھ جائے جب تک امام نہ کھڑا ہو یہ بھی نہ کھڑا ہو ۔تو اگر تکبیر سے پہلے کھڑا ہونا صحیح ہوتا تو بیٹھنے کا حکم کیؤں دیا جاتا اور امام اس وقت کیؤں بیٹھا ہوتا ۔اس لئے کہ اگر امام کھڑا ہوتا تو یہ نہ کہا جاتا کہ جب امام کھڑا ہو اس وقت کھڑے ہو اور صحیح روایت سے بھی ظاہر ہے(بعض جگہ رواج ہے کہ لوگ تکبیر سے پہلے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے
جب امام حیی علی الصلاۃ سے فارغ ہو تو کھڑے ہوں یہی قول ہے (فتاوہ عالمگیر۔ردالمختار۔طحطاوی۔لرافی الفلاح۔وقایہ ۔جامع الرموز میں ہے اور یہی فتاوہ ہزاریہ میں بھی ہے اور عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ میں بھی یہ مسئلہ درج ہے کہ جب مؤذن حیی علی الصلاۃ کہہ لے تب امام اور مقتدی کھڑے ہوں اور پہلے سے کھڑے ہوکر نماز کا انتظار کرنا مکروہ ہے
اور عینی شرح بخاری میں امام اعظم اور امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کا قول نقل ہے
نوٹ ۔گزشتہ صفہ پر ہے بقیہ
اب ان دلائل سے بات بالکل صاف ہو گئی کہ جب مؤذن حیی علی الصلوۃ کہہ لے اور حیی علی الفلاح پڑھنا شروع کرے اس وقت امام و مقتدی کھڑے ہوں پہلے سے کھڑے ہونا مکروہ ہے۔
مفتی محمد شاہد علی مصباحی
دارالعلوم برکاتیہ نظامیہ ، راگول، مودہا، یو۔ پی۔ انڈیا
 

Muhammad Shahid Ali misbahi
About the Author: Muhammad Shahid Ali misbahi Read More Articles by Muhammad Shahid Ali misbahi: 2 Articles with 1847 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.