از:حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی (بانی
ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
مرتب: وسیم احمد رضوی، نوری مشن مالیگاؤں
ذرا دیکھو! آج ہم کس دور سے گزر رہے ہیں۔آج لوگوں کی زبانیں بہت لمبی ہوگئی
ہیں۔اور نبی علیہ السلام کے بارے میں لوگ جو منہ میں آتا ہے بھونک دیتے ہیں۔
سمجھتے نہیں کہ سب کچھ لُٹ جائے گا، پَلّے کچھ نہیں رہے گا۔اب دیکھیے ان کا
شیوۂ ادب جو حضور کی چوکھٹ کے غلام تھے؛ حضرت براء بن عازب سے کسی نے مسئلہ
پوچھا کہ کن کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے؟ تو حضرت براء بن عازب نے
چار انگلیاں کھڑی کیں۔کہا: حضور نے ایسے چار انگلیاں کھڑی کرکے کہا جس کی
آنکھ پھوٹی ہو، جو لنگڑا ہو، جو بیمار اور لاغر ہو۔اور کہا کہ جس کے اندر
یہ عیب ہوں ان جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ اور پھر ساتھ میں کہنے
لگے کہ یہ جو مَیں نے چار انگلیاں کھڑی کرکے کہا کہ حضور نے ایسے انگلیاں
کھڑی کرکے کہا تھا؛ تو یہ بات مَیں نے سمجھانے کے لیے کی ہے ورنہ میری
انگلیاں حضور کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں۔(سنن ابو داؤد، کتاب الاضحیہ)…… ذرا
غور تو کرو! محبت کے لہجے کو دیکھو!کہا یہ مَیں بیانِ عدد کے لیے بتا رہا
ہوں؛ ورنہ میری انگلیاں حضور کی انگلیوں جتنی نہیں ہے؛ وہ بڑی تھیں اور یہ
چھوٹی ہیں۔……حالاں کہ کسی کو شائبہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ انگلیوں سے
مماثلت پیدا ہورہی ہے۔ یہ تعینِ عدد کے لیے کہا جارہا ہے۔ لیکن فوراً خیال
آیا اور کہا کہ میری انگلیاں حضور کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں۔
حضرت عباس بن عبدالمطلب سے کسی نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا حضور بڑے ہیں؟
پوچھنے والے نے تو عمر کے بارے میں پوچھا۔ تو کہا سال زیادہ مَیں نے گزارے؛
بڑے تو حضور ہی ہیں۔ تو یہ ان کا ادب تھا۔ یہ اصحابِ رسول کی زندگی تھی اور
ان کا انداز تھا۔ آج مَیں اور آپ دیکھیں کہ ہم کس جگہ کھڑے ہیں۔حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی حساس ہونا چاہیے۔ اور کوئی ہلکا اور مَیلا
لفظ زبان پہ نہیں آنا چاہیے۔ ورنہ سب کچھ لُٹ جائے گا؛ پَلّے کچھ بھی نہیں
رہے گا۔ جو گناہ گار ہے اس کی معافی ہے؛ بے ادب کی معافی نہیں ہے۔ گناہ گار
کو معاف کردیا جائے گا لیکن بے ادب کی معافی نہیں ہے۔ بلکہ رومی توکہتے ہیں
کہ بے ادبوں کے پاس بیٹھنا بھی نہیں چاہیے۔
تا توانی می گریز از یارِ بد
یارِ بد بدتر بود از مارِ بد
کہا جہاں تک ممکن ہو بُرے یار کی صحبت سے بچو؛یہ بُرے سانپ سے زیادہ بُرا
ہے۔ سانپ ڈستا ہے تو جان جاتی ہے اور بُرا یار ڈستا ہے تو ایمان جاتا ہے۔
رومی علیہ الرحمۃ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ بے ادب اکیلا نہیں مرتا جب
مرتا ہے تو پوری بستی کو لے کر مرتا ہے۔ کئیوں کے عقیدے برباد کرکے رکھ
دیتا ہے۔
تو حضور علیہ السلام کے حوالے سے ہمارا شیوۂ ادب وہی ہونا چاہیے جو صحابۂ
کرام کا شیوۂ ادب تھا۔ان کی زندگیاں دیکھیں اور ان کی زندگیوں کا مطالعہ
کریں کہ کس طرح انہوں نے حضور کے ادب کی رعایت کی، اور حضور کی تعظیم و
توقیر کو کس طرح بجا لایا۔
ایک صحابی آئے ؛ انہوں نے حضور کی بارگاہ میں سلام پیش کیا ۔ حضور نے جواب
نہیں دیا۔ وہ دوسری جانب سے آئے تو حضور نے پھر جواب نہیں دیا۔ وہ پریشان
ہوگئے اور کسی سے پوچھا کہ مجھے تو سمجھ نہیں آرہی ؛ آپ بتا سکتے ہیں کہ
حضور کس وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ جو تم نے سونے کی
انگوٹھی پہنی ہے یہ حضور نے منع کی ہوئی ہے اور یہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔
شاید حضور کی ناراضی کا سبب یہ ہو۔ تو انہوں نے وہ انگوٹھی اتار کے حضور کو
پیش کردی؛ حضور شاید آپ اس وجہ سے ناراض ہیں ۔ حضورنے انگوٹھی پھینک دی۔
ناراضگی کی وجہ ختم ہوگئی؛ باتیں چلتی رہی گفتگو ہوتی رہی۔ مجلس اختتام کو
پہنچی تو لوگ اُٹھ کے گھروں کو جانے لگے؛ وہ صحابی بھی اٹھے اور جانے
لگے۔کسی نے توجہ دلائی وہ انگوٹھی تو اٹھالو! تم تو شرعاً نہیں پہن سکتے؛
تمہاری بیوی تو پہن سکتی ہے؛ وہ انگوٹھی لے لو قیمتی سونا ہے۔ تو اس صحابی
نے کہا واللّٰہِ لا اخُذُہٗ ابَداً وقد طَرَحَہ رسولُ اللّٰہِ صلی اﷲ علیہ
وسلم۔ اﷲ کی قسم! مَیں اسے کبھی بھی نہیں اٹھاؤں گا جس کو میرے رسول نے
پھینک دیا ہے۔(صحیح مسلم ، کتاب اللباس)
ہم غور تو کریں! آج ہم اپنی زندگیوں پہ غور کریں! مدینہ کی گلی سے حضور
گزرے تو ایک گنبد نما مکان بن رہا تھا؛ ایسے مکان حضور پسند نہیں فرماتے
تھے۔ حضور نے دیکھا چہرے پر آثارِ پسندیدگی نہیں آئے۔ حضور گزر گئے۔کسی نے
اس صحابی کو بتایا حضور گزرے تھے؛ تیرا مکان دیکھا خوش نہیں ہوئے اس نے
کدال لیا اور مکان کو زمین کے برابر کردیا۔دو چار دن کے بعد حضورکا پھر
گزران ہُوا؛دیکھا تو وہ مکان نہیں تھا۔ فرمایا اسے بلاؤ۔ وہ بلایا گیا۔ کہا
مَیں گزرا تھا تیرا مکان تھا آج نہیں ہے؛ کیا ہوا؟ عرض کی؛ حضور!گِرا دیا۔
فرمایا کیوں؟ عرض کی سُنا تھا آپ کو پسند نہیں۔
اﷲ اکبر! مَیں اور آپ دیکھے کہ ہمارا کیا کیا حضور کو پسند نہیں ہے۔ سر سے
لے کر پاؤں تک ، شادی عقیقے ولیمے سے لے کر اپنی نجی اور سیاسی زندگی تک ؛
ہمارا طرزِ حیات، ہماری وضع قطع کیا کیا حضور کو پسند نہیں ہے۔ تو حضور کے
ساتھ اگر محبت کا ربط و رشتہ ہے تو تقاضۂ محبت ادب بھی ہے اور تقاضۂ محبت
اطاعت بھی ہے۔
ماخوذ از افاداتِ مصطفائی(زیرِ ترتیب) |