ہمارا معاشرہ آنکھیں بند کر کہ اندھا
دھندغیرقوموں کی تقلید کو ترقی کی علامت سمجھ بیٹھاہے۔ غیرقوموں جیسا
پہناوا ان کےجیسا طرززندگی، ہم ہوبہو انہی جیسا بنناچاہتے ہیں۔ مگر کیا
کیجیے تقدیر کی ستم ظریفی کا۔ کہ ہمارارنگ کالا ہے اور تیسری دنیاکے
پسماندہ ملک پاکستان میں پیدا ہوئے اب اپنی اس محرومی کا بدلہ لینے کے لیے
احساس کمتری کے شکار ہمارے لوگوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے مصداق
گوروں سے بھی ایک قدم آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اس میں کس حد تک کامیاب
رہے یہ توخیر وقت بتائے گا۔لیکن اسکول ، کالجز ، یونیورسٹیز، کاماحول ہماری
شادیوں کے فنکشنز عام بول چال میں ہندی ،انگریزی کی ملاوٹ دیکھ کر لگتا
نہیں کہ یہ وہ ہی پاکستان ہے ۔ جس کے لیے ہمارے آباء نے دوقومی نظرِئے کی
بنیاد پر ایک الگ اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا ۔ہمارے بزرگوں نے ہمیں
الگ اسلامی خطہ تو حاصل کرکہ دے دیالیکن افسوس ہم اس نعمت کی قدر نہ کرسکے
اور اسےایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے میں ناکام رہے۔ صدیوں برصغیر پہ حکومت
کرنے والے مسلمانوں کے دل میں اپنی عظمت و بڑائی کا احساس تو جاگزیں نہ ہو
سکا مگر صدحیف کہ ڈیڑھ سو سالہ انگریز کی غلامی نے ہمیں احساس کمتری کا
شکار ضرور کردیا۔ آزادی ملنے کے باوجود یہ احساس ہم ختم نہ کرسکے اور اس
کابھیانک نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہم اپنا تشخص اپنی تہذیب اپنی زبان اپنے مذہب
اپنی اقدار تک سے مطلق غافل ہوچکے ہیں ۔ ہروہ چیز جو ہماری ہے ہمیں اس سے
نفرت ہے اورہر اس چیزسے محبت ہے جو ہندوستان یامغرب سے آئے ۔جس تیزی سے
ہماری نوجوان نسل اپنی زندگی کے اہداف ومقاصد بدل رہی ہے گھر گھر میں چلتی
ہندوستانی فلمیں ،گانے داڑھی پگڑی پاکستانی لباس سے اظہار بیزاری تعلیمی
اداروں میں شلوارقمیص ،دینی تعلیم،تبلیغ پرپابندی اور کلچرل شوز کےنام پر
بےحیائی کی کھلی چھوٹ ہمیں بڑی تیزی سے تباہی کی جانب لے کرجارہے ہیں۔ کسی
بھی بچے کی اولین درسگاہ جس سے وہ سب سے زیادہ متاثرہوتاہے گھر کاماحول اور
اس کے بعد وہ مدرسہ جہاں وہ تعلیم کیلیے جاتاہے آج گھر گھر میں چلتی انڈین
فلمیں گانے اور انکی لے پر تھرکتے اجسام کیبل پہ چلتی مغرب زدہ گندی فلمیں
اورحکومتی سرپرستی میں تعلیمی اداروں کےاندر مخلوط ناچ گانے کی محافل
بےپردگی کا ماحول کھلے عام اسلامی شعائرکا مذاق اڑانا ایک معمول بنتا
جارہاہے۔ حکومت سے تو کیاامید ہوگی مگر حکومت کی اتحادی و غیر اتحادی مذہبی
سیاسی جماعتوں کو اس بات کا نوٹس ضرورلیناچاہیے اور عملی اقدامات اٹھانے
چاہیئں اسلام کے واضح احکامات ہیں کہ جس طرح اپنی بہن بیٹی قابل احترم ہے
اسی طرح کسی دوسرے کی بہن بیٹی کی عزت وآبروکا تحفظ بھی انتہائی ضروری ہے۔
۱۴فروری ویلنٹاین ڈے عرف عام میں بےحیائی کادن ایک ایسی رزالت و زلالت کی
انتہاء کا دن ہے جس میں کھلے عام بےحیائی پہ اکسایاجاتاہے نامحرم ایک دوسرے
کو پھولوں کے ساتھ محبت بھرے خطوط بھجواتے ہیں اور اس طرح غیرشرعی تعلقات
کا سلسلہ چل نکلتاہے جوبالآخر خاندان کی عزت اورایمان کا جنازہ نکال کر
اختتام پزیرہوتا ہےمیڈیا باقاعدہ پلاننگ کرکے نوجوان نسل کو اس خباثت میں
مبتلاکررہاہے ۔ویلنٹائن کون تھا ؟ اس کاسیاہ کارنامہ کیاتھا ؟ اور کب اس دن
کو منانے کا رواج ہو ا ؟ آج ہرشخص اسکی تاریخی حقیقت سے آگاہ ہے۔ یہاں
چنداں تفصیل کی ضرورت نہیں ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں کسی بھی فضول اور لایعنی
کاموں میں مبتلا ہونے سے منع کیا گیا ہےقران حکیم کی سورة نور آیت ۱۹میں
اللہ تعالی نے بڑےواضح احکامات میں فرمایا: بے شک وہ لوگ جو ایمان والوں
میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں انکے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے ۔
پاکستانی میڈیا اورعوام وخواص اس آیت پہ غورضرورکریں اسی طرح نبی کریمﷺنے
فرمایا
جس قوم نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے (بحوالہ سنن ابی
داود)آہ آج مسلمان پوری طرح دوسری قوموں کی نقالی میں ڈوب کر بھی خود
کومسلمان کہہ رہے ہیں۔ آخر میں ان والدین کی خدمت میں ایک حدیث مزیدپیش
کرنا چاہوں گا جو اپنے بچوں کو خود ان خرافات میں مبتلا دیکھ کرخوش ہوتے
ہیں یا انہیں ان برےکاموں سے نہیں روکتے جن سے سوائے دین و دنیا کی
ناکامیاں اور ذلتیں سمیٹنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا
آقاکریمﷺ کا فرمان عالیشان ہے
تین قسم کے اشخاص پر اللہ تعالی نے جنت حرام کردی ہے
دائمی شرابی( یعنی ہمیشہ شراب پینے والا )
والدین کا نافرمان (جو اپنے والدین کا دل دکھاتا رہتا ہے)
اور دیوث (جواپنےبیوی بچوں میں بےحیائی برداشت کرتا ہے)
(بحوالہ مسنداحمد۴۰/۲صحیح الجامع۳۰۴۷) |