ہر مسئلے کا حل، صرف تین روز میں!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
میں اخبارات سے کالمانہ خبر کشید
کرنے کی کوشش میں مصروف تھا، شہ سرخی سے ہوتی ہوئی بات ’صفحہ آخر‘ تک ا ٓ
پہنچی، پھر کھیل اور تفریح کے دیگر صفحات پر نگاہ ڈالی ، کسی خبر نے پکڑائی
نہ دی۔ میں مایوسی کی منزل کے قریب پہنچ ہی رہا تھا کہ موبائل پر ’پیغامی
گھنٹی‘ کی مختصر سی آواز نے توجہ اُس طرف مبذول کروا دی، دیکھا تو کسی
’’عامل بابے‘‘ کا میسج تھا۔ تحریر کچھ یوں تھی،’’عامل ․․․․ شاہ ـ․․․ اب
کوئی بھی پریشانی انشاء اﷲ حل ہوگی۔ محبت، دوستی، شادی، اولاد، سوتن، رہائی،
بیرونی سفر، بیماری۔ ہر مسئلے کا حل صرف تین روز میں ․․․‘‘۔ پیغام کے آغاز
میں عامل صاحب کا نام اور آخر میں فون نمبر بھی درج ہے۔ میں نے اخبار ایک
طرف رکھا، یہ تو ایک میسج تھا، جو شاید ہر کسی کو مل گیا ہوگا، اپنے یہ
عامل حضرات پمفلٹ اور بعض اوقات اخباری اشتہار کے ذریعے عوام کو ان کے
مسائل سے آگاہ کرتے ہیں ،جن سے عوام بے خبر ہوتے ہیں،یہ بھی بتایا جاتا ہے
کہ ان سے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، دوسرا یہ کہ اس کے لئے زیادہ
طویل عرصہ انتظار کی گھڑیاں بھی نہیں گننی پڑیں گی، بس تین دن کی بات ہوگی۔
انسان امیر ہو یا غریب، پریشانی اسے بیٹھنے نہیں دیتی، اس کے خاتمے تک وہ
اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ کوئی وقت تھا جب بے نظیر بھٹو اور میاں نواز
شریف اسلام آباد کے مضافات میں ایک ’باباجی‘ کے دربار پر حاضری دیا کرتے
تھے، ان کا طریقہ یہ تھا کہ چھڑی مارا کرتے تھے، جو چھڑی کھاتا وہ خود کو
خوش نصیب جانتا تھا، پاکستان کے مندرجہ بالا دونوں وزرائے اعظم بابا جی سے
مار کھا چکے تھے۔ شاید اس وقت ’’مار نہیں پیار‘‘ کی بدعت نے ابھی زور نہیں
پکڑا تھا۔ کیونکہ آجکل تو اس نعرے پر سب سے زیادہ زور سرکار ہی دے رہی ہے،
کسی بچے کو تھپڑ مارنے پر بھی استانی کو پیشیاں بھگتنا پڑتی ہیں، سزا بھی
ہو سکتی ہے۔ اور اگر مار خود سرکارکھا رہی ہو، اور وہ بھی اپنی خواہش پر تو
اُن کو کون پوچھ سکتا ہے؟ خیر ان لوگوں نے بابا جی سے اس وقت مار کھا لی جب
ابھی مار سے بچنے کا قانون ہی معرض وجود میں نہ آیا تھا۔ مار تو کھا کر
حکمرانی کا اجازت نامہ بھی مستقل ہی اپنے نام کروا لیا۔ یہ تو ایک بابا جی
کا معاملہ ہے، عامل اور بزرگ میں فرق ہے۔ یہاں ذکر عامل کا ہو رہا
ہے۔پریشانی کا حل نکالنے والے عامل ہر علاقہ اور ہر سطح کے لوگوں میں پائے
جاتے ہیں، کچھ عامل اپنی ہنر مندی اور صلاحیتوں کی بنا پر بہت اہمیت حاصل
کر چکے ہیں، کہ اب وہ صرف ’اوپر‘ کی سطح پر کام کرتے ہیں، ان کے پاس بڑے
اور اہم لوگ ہی آتے ہیں۔ ان کی خدمت بھی یقینا اسی لحاظ سے کی جاتی ہے۔ اسی
طرح ہر سطح کے لوگ اپنے اپنے معیار اور اپنی ذہنی اور مالی سطح کے مطابق
عاملوں سے رابطہ کر لیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ عامل لوگ بس قوم کو چکر دینے کا
فریضہ سرانجام دیتے ہیں، بلکہ ان کے بہت سے اندازے تیر بہ ہدف ثابت ہوتے
ہیں ، اُن کی باتیں پوری ہوتی ہیں، تب ہی تو وہ لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے
میں کامیاب رہتے ہیں۔ سائلین کی مالی حالت کے مطابق ہی ان کے عاملین کی
مالی حالت تبدیل ہوتی رہتی ہے، بڑے لوگوں کے عامل بھی بہت جلد ’بڑے‘ بن
جاتے ہیں۔
آجکل اپنے حکمران یا سیاستدان شایدعامل بابوں سے کماحقہٗ فائدہ نہیں اٹھا
رہے، اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، کہ یہ لوگ سخت مصروف ہیں، پانامہ ہے،
پیشیاں ہیں، دھرنے ہیں، الیکشن اگلے برس ہے، سرکاری افتتاح ہیں، اور بھی بے
شمار مسائل ہیں، جو عاملوں سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ تو ہمارا خیال ہے،
نہ جانے کن کن لوگوں نے عاملوں سے ملنے کے لئے اپنے نمائندے مقرر کر رکھے
ہیں، یا کون کون سے عامل ہیں جو خود بھی بڑے صاحبان کے پاس حاضر ہو کر
تعویذ وغیرہ دیتے اور ان پر دم کرتے ہیں، تاکہ وہ بلیّات سے محفوظ رہیں اور
کامرانیاں ان کے قدم چومیں۔ ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ اپنے حکمران اور
سیاستدان عاملوں کے پاس جاتے ہی نہ ہوں، کیونکہ مذکورہ بالا میسیج میں
سیاستدانوں کی امیدیں بر لانے کا کوئی ذکر نہیں، اگر ایسا ہی ہے تو عامل
بابے فوری طور پر اپنے اشتہاروں میں اپنی دیگر عنایات کے ساتھ سیاست کی
کامیابی، وزارت اور حکومت وغیرہ دینے کا وعدہ کرکے اپنی آمدنی میں خاطر
خواہ اضافہ کر سکتے ہیں، بس آزمائش شرط ہے۔
|
|