شادی بیاہ میں معاشرتی خرابیاں
(Waseem Ahmad Razvi, India)
از افادت: مولانا پیر محمد رضا ثاقب
مصطفائی (بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
اسلام ایک مکمل دین ہے۔ ہماری زندگی کے ہر گوشے میں اسلام کی تعلیمات ہے؛
جن کو اختیار کرکے ہم اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہم کچھ چیزیں اسلام سے
لیتے ہیں،کچھ چیزیں اپنی برادری سے لیتے ہیں، کچھ اپنی مشرقی روایات کو
اختیار کرتے ہیں، کچھ چیزیں ہم نے مغرب سے وصول کی ہیں؛ اور ایک معجونِ
مرکب ہے جو اضطراب اور بے چینی کا سبب ہے۔بلکہ ہماری تقریبات ہی دیکھ لیجیے۔
نکاح کی تقریب ہی دیکھ لیجیے۔ کہ پہلے ہم اتنا بڑا مجمعِ کثیر لے کے بیٹی
والوں کے گھر پہ حملہ کرنے نکلتے ہیں۔ اور پھر دو بجے کا ٹائم دیا اور چار
بجے گھر سے نکل رہے ہیں۔ وعدہ خلافی یہ یہودیوں کا طریقہ ہے۔اور پھر ہمارا
لباس اور ہماری بے پردگیاں؛ یہ نصاریٰ کا رنگ ہے۔ پھر بھنگڑے ڈالنے لگے۔ناچ
گانے لگے۔ ہم نے کہا: میاں! یہاں اسلام والی کیا چیز ہے؟ کہا: تھوڑی دیر
ٹھہرو، ابھی مولوی صاحب آئیں گے ، چند لمحوں کے لیے یہ دھوم ڈھڑاکا روک لیا
جائے گا، ان کو اسٹیج پہ بلایا جائے گا، ایک رسم ادا ہوگی؛ وہ حصہ اسلام کا
ہے۔ مولوی صاحب نکلیں گے پھر وہی سب شروع ہوجائے گا۔
ہماری شادیاں، ہماری تقریبات اور اگر آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں تو ہماری
محافلِ نعت بھی دیکھ لیں، ہمارے عرس بھی دیکھ لیں، ہماری مجالس بھی دیکھ
لیں؛ کہ مہمانِ خصوصی ایک شرابی ہوگا اور تہجد گزار جوتیوں پہ بیٹھا ہوگا۔
اور جس طرح نوٹ نچھاور کیے جارہے ہوں گے اور غریب کی غربت کا مذاق اڑایا
جارہا ہو گا …… پہلے ہم نے عمرے کے ٹکٹیں رکھے ہوئے تھے؛ مجمع بڑھانے کے
لیے۔ اب ہم نے ایک اور سلسلہ شروع کیا کہ جہیز کے لیے کچھ پرچیاں رکھ دو ……
مَیں ایک جگہ گیا تو وہاں انہوں نے مجھے بیان کرنے سے قبل بتایا کہ جناب ہم
نے سولہ ۱۶؍ بچیوں کے لیے جہیز کا انتظام کیا ہے اور پردے کے پیچھے دو ہزار
کے قریب بچیاں یہاں جلسہ سننے آئی ہیں۔ مَیں نے کہا کہ یہ زیادتی نہ کرو،
یہ ظلم نہ کرو۔ ہر پرچی پہ بیٹیو ں کے دل ڈھڑکیں گے اور جب سولہویں پرچی
بھی نکل جائے گی تو باقی بیٹیاں بوجھل قدموں نے جس طرح گھر پَلٹیں گی اس کا
شاید دولت والوں کو احساس نہیں۔ یہ اس غریب سے پوچھو جو اپنا گھر بیچ کے
بیٹی کو جہیز دیتا ہے۔ رسول اﷲ کے میلاد سے بچیاں گھروں کو روتی ہوئی جائیں
اور تم اس پہ داد وصول کرتے پھِرو!…… سولہ بچیوں کی شادی کی گنجائش ہے تو
رات کی تاریکی میں ان کے گھر میں ان کے لیے انتظامات کی رقم بھیج دیتے تو
کتنا اچھاہوتا۔ کاش! کہ اس رسمِ بد کا خاتمہ کیا جاسکے۔ کتنے بیٹے ہیں کہ
وہ فیکٹریوں میں اُوَر ٹائم over time لگا رہے ہیں کہ ہم نے اپنی بہنوں کے
ہاتھ پیلے کرنے ہیں۔ اورایسے ہی کتنے بوڑھے باپ ہیں ۔
پچھلے دنوں میرے پاس ایک بوڑھا باپ آیا؛ جس داڑھی سفید تھی۔ میرا ملنے والا
شناسا ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ حضرت دعا کریں کہ میرا مکان فروخت ہوجائے۔
مَیں اسے آسودہ حال سمجھتا تھا۔ مَیں نے کہا کیوں؟ تو کہنے لگا مَیں نے دو
بیٹیوں کی شادی کی تھی تو قرض لیا ہوا تھا۔ اب مکان بیچنا ہے تاکہ وہ قرض
بھی اتر جائے اور ہو سکتا ہے کہ مجھے تھوڑے سے پیسے بچ جائیں تو مَیں کسی
بستی میں ایک چھوٹی سی کٹیاں زندگی گزارنے کے لیے خرید سکوں۔باقی میرے دو
بیٹے ہیں وہ کمائی کریں گے تو اپنا مکان بنالیں گے۔
مَیں اس شخص کو ظالم نہ کہوں؛ جس نے غریب کی بیٹی سے جہیز لیا ہے!اس کے دل
میں کوئی ترس نہیں آیا ! اس کو اﷲ کا خوف نہیں آیا!…… مَیں نوجوانو! آپ کو
یہ کہتا ہوں کہ تم نمازیں بھی پڑھتے ہو، روزے بھی رکھتے ہو ، سجدے بھی کرتے
ہو، لیکن اگر تمہاری شادی پہ غریب باپ اپنے گھر کا سارا اثاثہ لُٹادے اور
تمہارا گھر بھر جاتا ہے اور تم خوش ہوتے ہو کہ بڑا جہیز آیا ہے ؛ لعنت
بھیجو ایسے جہیز پہ۔یہ تمہارے لیے دوزخ کا ایندھن ہے ۔ یہ فیصلہ کرو آج کی
اس مجلس میں؛ جن کی شادیاں نہیں ہوئیں وہ بھی فیصلہ کریں اور جن کو اﷲ نے
اولادیں دی ہیں وہ اپنے بیٹوں کے لیے فیصلہ کریں۔ کہ ہم اپنے بیٹوں کے لیے
کسی سے جہیز نہیں لیں گے۔ اوراس رسمِ بد کا ہم عملی بائیکاٹ کریں گے۔
معاشرے کو ستھرا کرو،معاشرے کو اذیت میں مبتلا نہ کرو۔یہ بہت بڑی نیکی ہے،
ہے مشکل کام۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ مشکل گھاٹی نہیں چڑھا۔اور
مشکل گھاٹی کیا ہے؟ کسی پھنسے ہوئے کی گردن کو چُھڑانا، غلام کو آزاد کرنا۔
تو دورِ موجود کے اندر وہ بوڑھا باپ پھنسا ہوا ہے جس کے پاس کچھ بھی نہیں
ہے۔ اور گھر کی دہلیز پہ بیٹیاں بوڑھی ہورہی ہیں۔ اور بیٹوں والوں کے نخرے
دیکھنے والے ہوتے ہیں۔
امیر تو امیر رہے؛ غریب لوگوں کے نخرے بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ بہت سارے
غربا آتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ جناب ہم شادی کررہے ہیں تو دو سو سے کم
بارات نہیں ہوگی، ایک سو سے کم بارات نہیں ہو گی؛ اس کا انتظام کرنا ہے۔ تو
مَیں پوچھتا ہوں وہ کون ہے؟ وہ کہتا ہے جناب وہ بھی ہمارا چچا زاد بھائی
ہے، وہ ہماری خالہ کا بیٹا ہے۔ مَیں نے کہا وہ کیا کرتے ہیں ؟ تو وہ بھی
مزدور ہوتا ہے…… تو غریب غریب پہ بھی ظلم کررہا ہوتا ہے۔ وہ ایک سو یا دو
سو آدمی لے کر حملہ آور جو ہورہا ہے بیٹی والے کے گھر میں اس کو بھی سوچ
نہیں آتی اور باراتیوں کو بھی سوچ نہیں آتی کہ یہ ہم کیا قیامت توڑنے جارہے
ہیں۔ کاش! کہ معاشرے کے رستے ہوئے زخموں پر کوئی مرہم رکھنے والا ہو اور
ہماری معاشرت ایک خوب صورت معاشرت ترتیب پائے۔
ماخوذ از افاداتِ مصطفائی(زیرِ ترتیب)
|
|