بہت سے اوروں کے کارنامے شاہوں اور شاہ
والوں کے کھاتے چڑھتے آئے ہیں اور آتے وقتوں میں ان کارناموں کے حوالہ سے
شاہ اور شاہ والے جانے اور پہچانے گئے ہیں۔ اسی طرح ناکردہ یا شاہوں کے
کردہ پاپ اور جرم کم زوروں کا مقدر ٹھہرے ہیں۔ ہٹلر انسانیت کا بدترین دشمن
کہا جاتا ہے لیکن ١٨٥٧ میں خون میں رنگ دینے والا چٹا ساب ہل پر نہایا
تاریخ کے اوراق پر نظر آتا ہے۔ دھرتی اور دھرتی والوں سے غداری کرنے والے
شورےفا میں داخل ہوئے۔ اندھیر یہ کہ آج بھی انہیں قوم کے ہیرو سمجھا اور
جانا جاتا ہے۔
شکورے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا حالاں کہ وہ وچارہ شاہ یا کسی شاہ والے
کا غدار نہ تھا۔ مشقتی تھا صبح جاتا رات کو آتا۔ جو محنتانہ میسر آتا بیوی
بچوں پر خرچ کر دیتا۔ اپنے لیے ایک پائی بھی بچا کر نہ رکھتا۔ اس کا مؤقف
تھا اگر یہ پل سمبھ گئے تو وہ سفل ہو جائے گا۔ اس کا خلوص اور پیار اس کی
کپتی بیوی کے نزدیک صفر کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ شکورے نے
باہر باہر بہت کچھ جمع کر رکھا ہے اور اس جمع پونجی پر سانپ بن کر بیٹھا
ہوا ہے۔ لاکھ قسمیں کھانے اور یقین دلانے کے باوجود وہ اپنی ہٹ پر ڈٹی ہوئی
تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ساری جمع پونجی اور مکان جو شکورے کو وراثت ملا تھا۔
اس کے نام کرکے مرنے کی کرے۔ اس کے پاس تھا ہی کیا جو بیوی کے نام کر دیتا۔
رہ گیا مکان وہ کون سا اس نے قبر میں لے جانا تھا۔ بچوں کا ہی تو تھا۔
اس کی بیوی کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ سب کچھ حاصل کرکے اپنے یار ڈرائیور
کے ساتھ جنت بسانا چاہتی تھی۔ خود تو سارا دن کھاتی پیتی اور جی بھر کر
سوتی جب شکورا گھر آتا تو کوئی ناکوئی بہانہ تراش کر رات گئے تک اس کی ×××
ایک کر دیتی۔ وہ وہ باتیں اس سے منسوب کر دیتی جن کا اس کے فرشتوں کو بھی
علم نہ ہوتا۔ وہ جان چھڑانے کی لاکھ کوشش کرتا مگر کہاں۔ رات گئے تک مختلف
قسم کے میزائل اور بم برساتی۔ بڑی مشکل سے خلاصی ہوتی تو بن کھائے پئے صبر
شکر کے گھونٹ پی کر سو رہتا۔ وہ یہ سب اس لیے برداشت کرتا کہ اس کے بچے بڑے
ہو کر یہ نہ کہیں کہ باپ نے انہیں راہ میں ہی چھوڑ دیا۔
اس دن تو کمال ہی ہو گیا۔ شانو نے ایسا الزام اس پر دھر دیا جو کبھی اس سے
متعلق رہا ہی نہ تھا۔ لڑائی میں کہنے لگی تم نے اپنی پہلی بیوی اور بچے کو
اپنی معشوقہ رجو کے لیے زہر دے کر مار دیا۔ اس بیوی کو مارا جو اس کی جان
تھی جب کہ بچہ بڑی منتوں مرادوں سے ہوا تھا۔ شکورے نے پوچھا یہ تمہیں کس نے
بتایا‘ کہنے لگی تمہاری بھرجائی نے جو بڑی کھری عورت تھی۔ وہ کھری عورت جو
پچاس خصم بدل کر آئی تھی۔ سچ اور حق کی سخت دشمن تھی۔ وہ یہ سب سن کر بڑا
حیران ہوا اس نے اپنے بچے اور بیوی کو اس رجو کے لیے مارا جسے اس نے کبھی
دیکھا سنا ہی نہ تھا۔ جان پہچان یا پیار محبت تو بڑی دور کی بات۔
آدھی رات کو باآواز بلند کہی گئی اس بات کو آج چالیس برس ہو چلے ہیں۔ وہ بہ
مشکل چلتا پھرتا ہے لوگ اسے آج بھی بیوی اور بچے کا قاتل سمجھتے ہیں۔ وہ
مسجد میں سر پر کلام مقدس رکھ کر قسمیں کھا چکا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں چور
یار اور ٹھگ کی قسم کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی شرافت اور علاقہ کے
لوگوں سے بھلائی کسی کو یاد تک نہیں۔ قیامت یہ کہ اسے اس کے بچے بھی بڑی
امی اور اپنے بڑے بھائی کا قاتل سمجھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ کہ شکورے کی
بیوی نہ شاہ تھی اور نہ شاہ والی تھی اس کے باوجود اس کا کہا شاہ یا شاہ
والی کا سا ثابت ہوا۔ |