"زری بیٹا آپ بوا جی کی بات کیوں نہیں سن
رہیں؟؟؟"....!!
شمائلہ بیگم کافی متفکر اور بے چین نظر آرہی تھیں... زری کی بد تمیزی اور
ضد یں بڑھتی جارہی تھیں.. انھیں اسکا یہ بدلاؤں کلفت اور کاہش کے سوا کچھ
نہیں دے رہا تھا یہ سب انکی سمجھ سے بالا تر تھا
زری نروٹھے پن اور اکڑ کے ساتھ بولی..
"مما آپکو میرے بارے میں کچھ نہیں معلوم نہ ہی آپ کے پاس اتنا وقت ہے....
بس مجھے نہیں پسند .... اس سے آگے کچھ نہیں سننا... "!!
"بوا جی ابھی کہ ابھی اک گلاس دودھ اور میری پسند کا آملیٹ .....ٹوسٹ کے
ساتھ میرے روم میں لائیں اب میں وہیں ناشتہ کرونگی.... سارا موڈ اوف کر
دیا.."!!
دھڑام...دھڑام!!... دو تین پلیٹ زمین بوس ہوچکیں... وہ تیز قدموں سے اپنے
کمرے کی جانب بڑھ گئ....
یہ منظر دیکھکرشمائلہ بیگم کے جسم میں سنسناہٹ سی دوڑ گئ.... بہت سے
مزعومات نے انہیں گھیرے میں لےلیا... وہ اوھام کا شکا ر ہونے لگیں...
وہ مفقود سی بیٹھی تھیں جب اچانک زبیر صاحب کے پکارنے سے چونکی... بس ہوں
کرسکیں...
زبیر صاحب اپنی بیوی کا یہ رویہ دیکھکر تشویش میں مبتلا ہوگئے...
"بیگم سب خیریت ہے...؟ آپ اتنی کھوئ کھوئ سی کیوں ہیں؟ ایسا کیا ہوا کہ
آپکا چہرہ زردی مائل ہوگیا.. ؟"!!
شمائلہ بیگم پھوٹ پھوٹ کے رودیں.... کچھ دیر دل ہلکا کرنے کے بعد...
روندھتی ہوئ آواز سے سب کچھ بتاتی گئیں
..زبیر صاحب نے انھیں چپ کرانے کی کوشش نہیں کی ...چاہا کہ انکا دل ہلکا
ہوجائے... وہ دونوں بازوؤں باندھے پورے انہماک سے اپنی بیگم کی تمام باتیں
سن رہے تھے... انکے چھرے پہ اک رنگ آتا اور اک جاتا گیا... تمام تفصیل سننے
کےبعد... وہ بس ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گئے...
"بیگم اتنا سب ہوتا رہا اور آپ نے مجھے کچھ بتانا بھی ضروری نہ سمجھا..
بتایا بھی تو جب پانی سر سے اوپر ہوگیا..."!!
شمائلہ بیگم آنسو پونچھتے ہوئے بولیں..
"کیا بتاتی...؟ آپ بزنس میٹنگز میں کافی مصروف تھے... میں نے ہر طریقہ آزما
کے دیکھ لیا مگر زری پہ کوئ اثر نہیں ہوا.. کوئ بھی جو زری کو دیکھتا ہے
یقین ہی نہیں کرسکتا کہ یہ وہ ہی زری ہے... ابھی آٹھویں جماعت میں ہے تو
اسکا دماغ آسمانوں پہ پہنچا ہو ا ہے بڑی ہوگی تو پتہ نہیں کیا حال
کریگی...؟ اک بات نہیں سنتی میری کوئ کہنانہیں مانتی... منہ زور اتنی ہوگئ
ہے کہ بڑوں چھوٹوں کا لحاظ ادب سب بھول چکی....میرا تو بی پی ہائے ہورہا
ہے....آخر کیا کروں اسکا..؟؟؟" !!
زبیر صاحب سگار سلگاکرچائے کاکپ اک ہاتھ میں پکڑےاور دوسرے میں اخبار تھامے
محو مطالعہ تھے ساتھ بیگم کی باتیں بھی سن رہے تھے...
"بیگم اسکا اب اک ہی حل ہے زونیر کی طرح اس سےبھی بور ڈینگ اسکول بھیج دو
چند ماہ وہاں گزارے گی تو خود بخود عقل ٹھکانے آجائیگی" !!
شمائلہ بیگم بھی چاہتی تو یہی تھیں مگر اماں جان سے کیا ہوا وعدہ آڑے
آگیا...
"ہم ایسا نہیں کرسکتے... یاد ہے آپکو اماں جان سے کیا ہوا وعدہ کہ چاہے جو
بھی ہوجائے میں زری کو زونیر کی طرح کبھی بورڈینگ نھیں بھیجونگی""!!
زبیر صاحب ناشتہ مکمل کرچکےتھے نیپکن سے منہ اور ہاتھ صاف کئے اور آفس جانے
کیلئے کھڑے ہوگئے...
"پھر بیگم اسکو اسکے حال پہ چھوڑ دو... خاموشی اختیار کرو... وقت کے ساتھ
سب ٹھیک ہو جائیگا"!!
🏠🏠🏠🔸🔹🏩🏩🏩
زرین جس سے سب پیار سے زری کہتے تھے... زری نے جب سے ہوش سنبھالا تھا خود
کو دادی جان کی بانہوں میں پایا تھا... وہ ہر وقت زری کو خود سے چمٹائے
رکھتیں جیسے اس میں انکی جان بستی ہو... زونیر بھی ان سے لگا رہتا... وہ اس
سے بھی بہت محبت کرتی تھیں مگر زیادہ انھیں زری کا خیال رہتا... !!
زری کی امی اک نامور غیر سرکاری اسکول کی پرنسپل تھیں پھر انکا سوشل سرکل
کافی وسیع تھا... جاب کے بعدوہ سوشل کام میں اسقدر مصروف ہوجاتی تھیں کہ
بچوں کیلئے وقت نہ نکال پاتیں...انھوں نے بوا جی کا بندوبست کر رکھا تھا جو
بچوں کے تمام امور دیکھتی....مگر اماں جان اسکے سخت خالاف تھیں ..تو خود
بچوں کی ذمہ داری بخوشی سنبھالی.... وہ بچوں کا ہر چھوٹا بڑا کام اپنے ہاتھ
سےکرتی تھیں..بچے ان سے اس قدر مانوس ہوچکے تھے.. کہ زرا بھی ان سے دوری
برداشت نہ کرپاتے..... !!
زبیر صاحب اک معروف بزنس مین اور بہت کامیاب شخصیت کے مالک تھے... انکی
بزنس میٹینگز.... سرگرمیاں.... اتنی زیادہ تھیں کہ زیادہ تر وقت انکا بیرون
ملک میں ہی گزرتا.... وہ بچوں کو مہینوں دیکھ نہ پاتے... !!
ایسے میں اماں جان وہ واحد ہستی ثابت ہوئیں جنھوں نے بچوں سے مثالی محبت
کی... انھیں ماں باپ کی محبت کی محرومی کا احساس نہ ہونے دیا.... بچے بھی
ان پہ جان چھڑکتے تھے.... وقت بیت چکا تھا... زونیراب چھ سال کا اور زری
تین سال کی ہوچکی تھی.. !!
🏠🏠🏠🔸🔹🏩🏩🏩
کھانے کی میز پہ زبیر صاحب نے اپنا اور شمائلہ بیگم کامشترکہ فیصلہ اماں
جان کے سامنے رکھ دیا جس سے سن کے وہ گنگ تھیں.. ……وہ کسی طور پہ اسکَےلئے
رضامند نہیں تھیں.. !!
مگر زبیر صاحب کی دلائل...… شمائلہ بیگم کے اپنے موقو ف ان سب کے سامنے بے
بس ہوگئیں تھیں.... زونیر جو دادی جان کے پاس بیٹھا تھا یہ سنتے ہی ان سے
لپٹ گیا اور زور زور سے رونے لگا.... !!
"دادی جان مجھے نہیں جانا میں آئندہ کوئ ضر نہیں کرونگا... اچھا بچہ بن کے
رہونگا... پیلیس مجھے مت بھجیں. ..."!!
اماں جان سے زونیر کا رونہ دیکھا نہیں جارہاتھا.. انکا کلیجہ پھٹ رہاتھا...
اک بار پھر انھوں نے زبیر صاحب کو منانے کی کوشش کی... مگر زبیر صاحب کے
حتمی جواب پہ وہ خاموش سی ہوگئیں... !!
آخر وہ اذیت بھری گھڑی آپہنچی تھی جب زونیر بورڈینگ اسکولنگ کی روانگی
کیلئے گھر سے رخصت ہورہاتھا.... بڑی مشکل سے اس سے بہلا پھسلاکے راضی کیا
تھا اماں جان نے..... زونیر روتا ہوا چلا گیا تھا اپنوں سے دور اماں جان نے
کسطرح دل پہ پتھر رکھکر اس سے بھیجا یہ صرف وہ ہی جانتی تھیں... زری بھی
بہت روئ تھی..!!!
زونیر مہینے میں صرف دو دن کیلئے آتا تھا اور ہفتے میں اک بار کال آتی
تھی.. جس میں وہ بس روتا رہتا.. وقت تیزی سے پرواز کرتا گیا... !!!
🏠🏠🏠🔹🔸🏩🏩🏩
زری کے اسکول کا پہلا دن تھا وہ بہت رورہی تھی.. دادی جان کا دامن نہیں
چھوڑ رہی تھی انھوں نے اس سے بے اختیار بانہوں میں سمیٹ لیا اور ہمیشہ کی
طرح بہت پیار کیا.. اور پھر اس سے بہلانے لگیں.. وہ دادی کی باتوں سے کافی
حد تک بہل چکی تھی.... انھیں آج زونیر بہت یاد آیا تھا!!!
زونیر سے جب بھی بات ہوتی وہ بس اک ہی رٹ لگائے رکھتا کہ 'اس سے واپس بلا
لیا جائے'! ... وہ بتاتا وہاں کے استاذہ کتنی بے دردی سے مارتے ہیں کسطرح
ذہنی اذیت دیتے ہیں... مگر.... !!! اسکے ماں باپ کسی طور یہ سب تسلیم کرنے
کے حق میں نہیں تھے ... وہ اسے سمجھا بوجھاکے وہیں ٹہرنے کو کہتے... !!
اماں جان بس روتی اور دعائیں کرتی رہتیں.... !!!
وقت کچھ اور آگے بڑھا... زری کی تربیت دادی نے اتنی عمدہ کی تھی کہ ہر کوئ
اسکی تعریف کرتے نہ تھکتا...!!!!
اسکول میں اسکی کارکرد گی سے اسکے استاذہ بے حد خوش تھے... وہ انکی آنکھوں
کا تارا بن چکی تھی... !!!
گھر میں بھی سب کی جان تھی ... ہر نوکر اسکا ایسے خیال رکھتا جیسے وہ انکی
ہی بیٹی ہو... اور اماں جان کی تو وہ دل کی ڈھرکن تھی... زونیر بھی اپنی اس
موہنی سی بہن پہ جان چھڑکتا تھا... جب بھی آتا اس کو خوب گھوماتا...
پھیراتا.. باتیں کرتا... کھیلتا... اور ہنساتا.... تھا !!
شمائلہ بیگم اور زبیر صاحب کے پاس وقت کی قلت رہتی تھی... وہ دونوں سرسری
انداز لئےملتے.... زری کو دعا دیتے... اور. ..اسکو تحائف دے دیتے... پس
اپنی ذمہ داری کو اتناہی سمجھتے... !!!
🏠🏠🏠🔹🔸🏩🏩🏩
وقت اپنی پوری رفتار سے بھاگ رہاتھادیکھتے ہی دیکھتے... زری ساتویں جماعت
میں آچکی تھی... اپنے اسکول کی ٹاپر... اور انتہائ ہونہار... بااخلاق بچی
تھی... زونیر.... میٹرک کرچکاتھا.... آجکل چھٹیوں پہ گھر آیا ہواتھا... !!
اماں جان اب بیمار رہنے لگی تھیں.... اک دن رات کو وہ ایسی سوئیں پھر کبھی
نہ جاگ سکیں... !!!
وہ دن پورے گھر کیلئے قیامت کا دن تھا... زری... اور زونیر نے اپنا سب کچھ
کھو دیا تھا... انکی تو اصل دنیا ہی دادی جان تھیں... اس باغ کو اماں جان
نے اپنے خون سے سینچا تھا... اب انکے بعد یہ گلستان بکھرنے لگا تھا..شمائلہ
بیگم اور زبیر صاحب بھی کافی رنجیدہ تھے....!!!
تین دن گزر گئے تھے مگر زری نے کچھ نہیں کھایا تھا..زونیر کواسکی فکر لاحق
تھی...شمائلہ بیگم نے تھوڑی کوشش کی پھر انھوں نے بوا جی کو کہہ دیا اور
خود کسی ضروری کام سے چلی گئیں...!!
زونیر نے اسے منایا...وہ مان گئ تھی....زونیر کے واپس جانے کا وقت آگیا
تھا....اور اس دوران اسنے زری کو کافی حد تک سنبھال لیا تھا..وہ اب پھر سے
اسکول جانے شروع ہوگئ تھی...اک بار پھر زندگی اپنے معمول پہ آچکی تھی ....
!!!
🏠🏠🏠🔹🔸🏩🏩🏩
اماں جان کی وفات کو پورا اک سال بیت چکا تھا ..زری آٹھویں جماعت میں آگئ
تھی....سب نارمل ہوچکے تھے...مگر زری ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی...شمائلہ بیگم
کے پاس ہمیشہ کی طرح وقت قلیل ہوتا تھا...وہ زری کو توجہ نہیں دے پارہی
تھیں زری کلی طور پہ بوا جی کے رحم وکرم پہ تھی... !!
زری اب وہ زری نہیں رہی تھی جو اپنی دادی جان کے زمانے میں ہواکرتی
تھی...وہ اکیلے میں اکثر روتی رہتی...کئ کئ دن اسکول نہ جاتی...اس سے اسکی
کارکردگی بے حد متاثر ہوئ تھی...ڈل اسٹوڈنٹ بنتی جارہی تھی...اسکے ساتھ
اسکا رویہ ...بہت اکھڑا ہوا رہتا....بے باکی پن.... بدتمیزی عروج پہ
ہوتی..!!
وہ جو اونچی آواز میں کبھی بات نہیں کرتی تھی اب اکثر.... چیختی چلاتی نظر
آتی... کلاس میں بھی لڑائ جھگڑے میں سب سے آگے...استاذہ سے بدتمیزی
کرنا...ہوم ورک نامکمل رہتا...اسکول سے تقریبا روز کوئ نہ کوئ شکایت ضرور
آجاتی.. یہ سب شمائلہ بیگم کی برداشت سے باہر ہوتا گیا ...وہ خوب بھڑکتیں
زری پہ مگر اس پہ کوئ اثر نہ ہوتا وہ ڈھیٹ بن چکی تھی...
زونیر اس دوران اپنے امتحان میں اتنا ًمصروف تھا ..کہ وہ زری سے مہینوں بات
نہ کرپاتا...یوں وہ اور اکیلی ہوگئ تھی..اسکی مما جب اس سے ڈانٹتی تو اس سے
تسلی ہوجاتی. ... کچھ دیر کیلئے ہی سہی اپنی ماں کی توجہ تو حاصل کر
پائ..!!!
دیکھتے ہی دیکھتے اک سال اور بیت گیا...زری اب نویں جماعت میں آچکی تھی اور
اسقدر منہ پھٹ...بد لحاظ ہوچکی تھی کہ اس سے پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ وہ کس
کے سامنے کیا کہی رہی ہے....اسکی ضدیں بے لغام ہوتی جارہی تھیں... !!!
شمائلہ بیگم اب زری کی وجہ سے پریشان رہنے لگی تھیں... اکثر زبیر صاحب سے
بات کرتیں وہ زری کو جھڑکتے..ڈانٹتے...مگر زری اب کسی کی اک نہ سنتی تھی وہ
وہی کرتی جو ٹھان لیتی...مگر اکثر وہ دادی جان کو یاد کرکے بہت روتی
تھی..!!!
🏠🏠🏠🔹🔸🏩🏩🏩
شمائلہ بیگم سیخ پا تھیں... وہ زخمی بلی کی طرح ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی
تھیں...آج جو کچھ اسکول میں ہوا تھا وہ انکے اوسان خطاکردینے کیلئے کافی
تھا... ایساگمان ہورہا تھا... کہ دماغ کی رگیں پھٹ جائے گیں...زندگی میں
پہلی بار انھیں اتنی خجالت کا سامنا اٹھانا پڑا تھا... کتنی عزت تھی
انکی.... مگر اب سب خاک ہو چکی تھی اور ایسا صرف زری کی وجہ سے ہوا تھا...
وہ جب سے اسکول سے لوٹی تھیں.... اپنے کمرے میں قید ہوگئ تھیں... انھیں اک
پل سکون نہیں آرہا تھا... !!!
انھوں نے زری سے دوٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا انھوں نے یہ ٹھان لی تھی کہ
اب وہ اس سے جان کے رہے گیں آخر وہ چاہتی کیا ہے...؟ وہ روز روز کی بے عزتی
سے تنگ آچکی تھیں جتنی ذلت وہ اٹھا چکی تھیں وہ کافی تھی... اب بہت ہوچکا
تھا.. وہ مزید تماشا نہیں بنے گیں... وہ تیز تیز قدموں سے زری کے کمرے کی
جانب بڑھیں... دروازہ کھٹکھٹاکر وہ اندر داخل ہوگئی تھیں.. زری اپنا سر گود
پہ جھکا کے زمین پہ اکڑوں بیٹھی ہوئ تھی... بازوؤں کو بھی ٹانگوں کے گرد
لپیٹ لیا تھا... !!!
زری...!!! شمائلہ بیگم کی درشت آواز پہ چونکی تھی...
اس نے نیم واں آنکھوں سے اپنی ماں کا چہرہ دیکھا...اور سپاٹ لہجے میں کہا
"مجھے آپ سے کوئ بات نہیں کرنی...آپ برائے مہربانی میرے کمرے سے چلی
جائیں..."!!!
شمائلہ بیگم نے اسکی بے باکی کو یکسر نظر انداز کیا... اور غصے سے چیخیں..
"میں بات کئے بنا یہاں سے ہلنے نہیں دونگی .... "!!
"بتاؤ آخر کیا چاہتی ہو تم؟؟... کس چیز کی کم رہ گئ تھی تمھاری زندگی میں
کہ تم ایسی اوچھی حرکت پہ اتر آئی کیوں کی تم نے چوری جواب دو مجھے؟ اسکے
بعد بجائے شرمندہ ہونے کے تم نے اتنی بدتمیزی کی پرنسل صاحبہ سے... کتنی
خفت اٹھانی پڑی مجھے... تم نے میرا مذاق بنوادیا ہے... مجھے میری ہی نظروں
میں گرادیا ہے... میں اک نامی گرامی شخصیت رہی ہوں...اونچا مقام ہے میرا
معاشرے میں... مگرآج میری ہی بیٹی رسوائ کا سبب بنی... مجھے بتاؤ آخر بات
کیا ہے؟ کیوں تم ایسی ہوتی جارہی ہو؟؟""
زری نے اپنا ہاتھ شمائلہ بیگم کی گرفت سے چھوڑوایا اور جانے لگی...
شمائلہ بیگم نے اپنی گرفت اور مضبوط کر لی اور گرجتی آواز میں پکارا...
"زری!"جب تک ہماری بات مکمل نہیں ہوجاتی میں تمھیں جانے نہیں دے سکتی "!!!
زری تکلیف کے باعث زور سے چلائ. ..
" مما مجھے آپ سے کوئ بات نہیں کرنی مجھے جانے دیں.. ""!!!
میری زندگی ہے.. میری مرضی ہے.... میں کچھ بھی کروں آپ ہوتی کون ہیں مجھ سے
یہ سوال کرنے والی؟؟؟"!""!!!
شمائلہ بیگم زری کے یہ الفاظ سنتے ہی آگ بگولہ ہوگئیں... انکی برداشت اب
جواب دے چکی تھی..
"تڑخ... تڑخ.... دو تھپڑ زری کے نازک گالوں پہ جما دیئے تھے....زری تلملا
کےرہ گئ.... سرخ پڑتے گالوں ... اور اسکی تکلیف نے اس کے پورے جسم پہ درد
کی اک سرد لہر دوڑادی.. وہ جنونی کیفیت میں مبتلا ہوگٰئ.. زارو قطار...
رونا شروع کردیا... اور زور سے چلائ... !!!
'"آپ دنیا کی بری ترین مما ہیں.... میں آپ سے نفرت کرتی ہوں... بہت نفرت
کرتی ہوں...""!!!
برق رفتاری سے دوڑتے ہوئے وہ دادی جان کے کمرے میں داخل ہوگئ... کمرا اندر
سے لاکڈ کرلیا تھا....!!!
شمائلہ بیگم وہیں جمود تھیں....انھوں نے اپنے ہاتھ کو دیکھا...پھر زری کے
سرخ گال کو تصوراتی نگاہ سے دیکھا....انکی آنکھیں رم جھم برسنے لگیں..وہ
اسکی تکلیف محسوس کرچکی تھیں مگر اپنے غصے کے زعم میں خاموش رہیں...خود کو
گھسیٹے ہوئے...وہ بمشکل...باہر لائیں...تو بواجی ان سے ٹکرائ...وہ ہر بڑاتی
ہوئ اماں جان کے کمرے کی جانب جاری رہی تھی...شمائلہ بیگم نے منع کرنا
چاہا.. مگر اس نے التجائ نظروں سے دیکھا اور بتایا کہ' زری آجکل کافی
جذباتی ہوچکی ہے.. وہ خود کونقصان بھی پہنچا سکتی ہے.. : !!! یہ سب سن کے
شمائلہ بیگم کو دھچکا لگا.. دل کٹنے لگا تھا... خود وہ کتنی دور تھیں اپنی
بیٹی سے کہ اسکی بدلتی کیفیات سے اس قدرلا علم رہتی رہیں... انھوں نےبوا جی
کو جانے دیا... ...خود بھی وہاں سے گزیں تو کمرے میں جھانکا جہاں زری نے
اماں جان کے کمرے کا نقشہ ہی بدل ڈالاتھا... وہ ہنوز گریہ میں مبتلا تھی...
گلہ پھاڑ پھاڑ کے چلا رہی تھی..
"دادی کیوں چلی گئ مجھے چھوڑ کے... مجھے بھی لے جاتی.. ساتھ اپنے.... یہاں
کوئ.... نہیں.... میرا... اپنا.."!!!
وہ مزید وہاں ٹہر نہ پائیں... راہدرای کی طرف بڑھ چکی تھیں!!!
🏠🏠🏠🔹🔸🏩🏩🏩
رات انکی آنکھوں میں کٹی تھی.... آنکھوں میں سرخی اتر آئ تھی جو رت جگا کا
منظر باندھ رہی تھیں... طبیعت میں پژمردگی چھا گئ تھی... مگر اسکول جانا
بھی لازمی تھا... آج پیرنٹس میٹنگ تھی اور انکا ہونا ضروری... سو وہ تیاری
کرنے لگیں... بواجی کو دیکھا تو زری کا پوچھا... معلوم ہوا رات سے بخار میں
تپتی رہی .... وہ چند ہدایت دیتیں... اسکول کیلئے روانہ ہوگئیں... !!!
وہ باری باری.. پرینٹس سے ملتی جاتیں...
جب عفیفہ اپنی والدہ کے ساتھ ان کے پاس تشریف لائ تو اک پل کو وہ کھو سی
گئیں... "!!
عفیفہ اسکول کی سب سے ہونہار اور قابل ترین شاگردہ تھی... ہر کلاس میں اول
آتی.. وہ بھی نویں جماعت کی طالب علم تھی.... !"!
عفیفہ کو دیکھکر انھیں اکثر زری کا خیال آتا.. زری اور وہ اک جیسے تو تھے
پڑھائ میں... بھی کارکردگی میں... اخلاقیات میں.... قد کاٹھ میں..اور. ....
شکل بھی ملتی جلتی تھی...
مگر..... اب..... زری... اف!!!... وہ اس سے آگے نہ سوچ سکیں... سب کچھ ختم
ہوچکا تھا.... رات کا سارا واقعہ اک بار پھر انکی نظروں کے گرد گھومنے
لگا....!!!
وہ عفیفہ سے مخاطب ہوئیں اس سے پیار کیا... اسکی حوصلہ افزائ کی اسکے بعد
وہ عائشہ سے مخاطب ہوئیں جو کہ عفیفہ کی والدہ تھیں... !!
عائشہ ان سے عمر میں چار یا پانچ سال چھوٹی تھی... مگر ان سے زیادہ قابل...
میچور... اور گھریلو خاتون..اپنی زندگی میں ہر چیز کو خوش اسلوبی سے
سنبھالنے والی.... وہ جب بھی عائشہ سے ملتیں بہت متاثر ہوتیں... باشرعا
عائشہ... نرم گفتار.. اور.. حسن اخلاق سےمالامال... انھیں اس پہ بے حد رشک
آتا...!!!
شمائلہ بیگم نے انھیں بھی ستائشی جملوں سے نوازا... اور ان سے تفصیلی
ملاقات کی خواہش ظاہر کی...جوکہ عائشہ نے بخوشی قبول کرلی..!!!...
🏠🏠🏠🔹🔸🏩🏩🏩
زری کابخار کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا... وہ کافی پریشان ہوگئ
تھیں... زری دوائیاں بلکل نھیں لے رہی تھی... کھانا پینا بھی چھوڑ رکھا تھا
بس روتی رہتی.. زونیر اپنی پڑھائ میں اسقدر مگن تھا...کہ .. اسےاپنے سے جڑے
لوگوں اور نہ گردوپیش کی کچھ خبر تھی... !!!
شمائلہ بیگم ہمت نہیں کرپار رہی تھیں زری کے کمرے میں جانے کی... ""!!!
آج وہ اسکول سے جلدی واپس آگئیں تھیں سو انھوں نے عائشہ کے گھر جانے کا
فیصلہ کیا... نہ جانے انھیں کیوں یہ لگنے لگا تھا... کہ انکے سب مسائل کاحل
عائشہ کے پا س ہے.. !!!!
کچھ دیر میں وہ عائشہ کے گھر میں موجود تھیں... عائشہ ان سے بھت تپاک اور
گرم جوشی سے ملی... !!!!
شمائلہ بیگم جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوئیں انھیں طمانیت کے انوکھے احساس
سے جکڑ لیا.... یہاں انھیں بہت سکون سا ملا.....بیشک انھیں گھر میں روپوں
کی ریل پیل نظر آئ..مگر.اسکے باوجود.. گھر میں سادگی نمایاں تھی ..فضول
خرچی کا کہیں کو ئ شائبہ دکھائ نہیں دیا ... ہر چیز کو نہایت سلیقے اور
خوبصورتی سے آرائش کیا گیا تھا جو ہر دیکھنے والے کو بڑی بھلی لگتی....
عائشہ انھیں بیٹھک میں لے گئ... جہاں کی سیٹنگ اس گھر کی مالکان کی کفایت
شعاری اور سگھڑپن کا منہ بولتا ثبوت تھی. ...""!
تھوڑی دیر میں عفیفہ سلیقے سے سجی... لوازمات سے بھری ٹرے لے آئ..... اور
ادب سے سلام دعا کرکے چلی گئ...
وہ یہ سب دیکھکر طلسمی کیفیت میں مبتلا تھیں... کیونکہ جس سوسائٹی میں وہ
رہتی تھیں وہاں یہ سب کام نوکر ہی کرتے تھے... !!!
عائشہ نے ہر چیز انھیں پیش کی اور بتایا عفیفہ نے انکی مدد کی... ہر چیز
گھر کی بنی ہوئ تھی...
شمائلہ بیگم نے کافی حوصلہ افزائ کی اور سراہا....پھر انھوں نے یہاں آنے کے
مقصد کو اسکول کے انتظامیہ کی طرف سے کی گئ اک ریسرچ کانام دے دیا...اس سے
زیادہ معقول وجہ انکے سمجھ میں نھیں آئ تھی..انھیں اپنا برہم بھی قائم
رکھنا تھا...وہ اصل بات کی طرف آگئی تھیں..
عائشہ سے انھوں نے پوچھا وہ کیسے بچوں کی تربیت کرتی ہیں....... گھر کے کام
اور بچوں کی تربیت میں توازن کیسے رکھتی ہیں....بچوں کا کسطرح خیال رکھتی
ہیں..؟؟؟؟وغیرہ..
عائشہ مسکرانے لگی اللہ کی حمد وثناء کے بعد ...وہ جوابات دینے شروع ہوئی..
"میرا اس میں کوئ خاص کمال نہیں بیشک سب کچھ کرنے اور کروانے والی ذات باری
تعالی کی ہے...اسی نے مجھے ساس کے روپ میں وہ انمول تحفہ دیا جنھوں نے میری
زندگی سنواردی... انھوں نے مجھے اور اپنے گھر کی ہر عورت کو یہ چند باتیں
سیکھائیں اور کہا انہیں اپنے پلو سے باندھ لو میں نے ایسا ہی کیا..یوں میرا
گھر خوشیوں کا آنگن بن گیا...میں نے ایم اے کیا ہوا تھا گھریلو امور سے
اتنی واقفیت نہیں تھی دین دار بھی اتنی نہیں تھی جبکہ میری ساس ہر کام میں
ماہر اور دیندار تھیں....... پردے کی پاپند تھیں....انھوں نے اپنے انھی گڑ
سے پانچ بہوؤں کو اک ساتھ محبت سے رکھا ... انکی بیٹیوں نے سسرال میں رانی
کا درجہ پایا...انکا گھر اک مثالی گھر کہلاتا رہا....وہی باتیں میں آپکو
بھی بتانے جارہی ہوں اور اسی میں آپکے سوالات کے جوابات بھی مل جائیں
گے..ان شاء اللہ.....
♦ ہمیشہ اللہ کی شکر گزار بندی بن کے رہنا... اپنی زندگی کو دین کے مطابق
ڈھالنا....اور بچوں کی تربیت کرتے وقت ان سب باتوں کا خاص خیال رکھنا. .
!!!.
♦اخلاق کا دامن ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑنا چاہے جو بھی صورتحال ہو... خود کو
حسن اخلاق سے آراستہ رکھنا...اور بچوں کو بھی اس کی تعلیم دینا.. !!!!!...
♦غصے کو جتنا ہوسکے دبانا.. بچوں پہ بھی غصے کم سے کم کرنا اور ایسے جو
انکے لئے مشعل راہ بنے نہ کہ بغاوت کی راہ... !!!
♦کام کو انکے وقت پہ ختم کی پوری کوشش کرنا مگر ساتھ اپنا بھر پور خیال
رکھنا.. کھانے پینے کا...... حلیے کا..زیب وزینت کا... کیونکہ بچے ماں کو
دیکھکر زیادہ سیکھتے ہیں.. اکثر خواتین اس چیز پہ دھیان نھیں دیتی ہیں..
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے ماں کو گندا دیکھکر خود بھی گندگی کی طرف جاتے
ہیں... اور انھیں دوسروں کی صاف ستھری مائیں اچھی لگنے لگتی ہیں... !!!!
♦بچوں کا ہر چھوٹا بڑا کام خود سے کرنا اور دل سے کرنا یہ سوچ کر اللہ نے
اپنی نعمت سے نوازا ہےباز تو اس نعمت سے محروم ہیں.... اسطرح ماں کو بچوں
کے مزاج سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور بچے ماں سے قریب رہتے ہیں""..!!!
♦بچوں سے نرم گفتاری اور مہذب لہجے میں بات کرنا.. تاکہ وہ کبھی کوئ برا
لفظ نہ سیکھ سکیں.. !!!!!
♦انکے سامنے کسی کی برائ... تذلیل ...اور غیبت سے اجتناب کرنا....!!!!
♦ سب سے اہم اورضروری بات انھیں بھرپور توجہ دینا.. انکی ہر بات کو دھیان
سے سننا.. انکے ہر چھوٹے بڑے اور غیر اہم کام میں انکی مدد کرنا.. ..انکی
حوصلہ افزائ کرنا...اور ان سے جتنا ہوسکے پیار سے پیش آنا... !!!
♦خود میں برداشت کا عنصر بڑھاتی رہنا.... جتنا برداشت کا مادہ بڑھے گااور
درگزر سے کام لیاجائیگا اتنی ہی زندگی آسان ہوگی... اور خوشحال بھی... !!!
♦بچوں کو نوکروں یا گھر کے دوسرے افراد کے رحم وکرم پہ کبھی نہ چھوڑنا
کیونکہ جوخیال ماں رکھ سکتی ہے وہ کوئ دوسرا نہیں رکھ سکتا... اورایساکرنا
صرف گزند ہی ہے...!!!
♦بچوں کو ان سے اپنی محبت کا احساس دلاتے رہیں جیسے کبھی انکے بال ٹھیک
کردیئے ,کالر ٹھیک کردیا.. تھپکی دے دی.... گلے لگایا... بوسہ دے دیا.
..وغیرہ چاہے انکی عمریں جو بھی ہوں.. یہی محبت کا لمس انھیں طاقت وار
بنادیتا ہے اور ان میں خود اعتمادی پیداکرتا ہے.. ..!!!
♦اک وقت تعین کرلیا جائے... اس وقت پہ روزانہ کچھ دیر انکے پاس بیٹھکر انکی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کی جائے ان سے انکی دل کی بات پوچھی
جائے... وہ کیا سوچتے ہیں.. دنیا انھیں کیسی لگتی ہے ..لوگوں کے بارے میں
کیاسوچتے ہیں..؟؟؟.... غرضیکہ ہر ٹاپک پہ لازمی بات کی جائے.. ا س سے بچے
کو نہ صر ف اپنی بات کہنے میں آسانی ہوگی... بلکہ اپنی رائے بھی دے سکے
گا...!!!
♦کچھ اوقات بچوں پہ گہرا اثر ڈالتے ہیں اسلئے ان میں خاص خیال رکھا جائے...
جیسے .. جب بچہ صبح کیلئے جاگے.. اسکول سے.گھر..واپسی پہ .... اور جب سونے
لگے.. ان اوقات میں اک دلکش مسکراہٹ.... ان سے پیار بھری باتیں... بڑی معنی
خیز ثابت ہوتی ہیں یوں بچہ ہر دم تازہ دم رہتا ہے مرجھاتا نہیں...!!!!
♦آخر میں سب سے اہم بات... بچوں کو ہمیشہ ہماری توجہ کی خاص ضروت رہتی ہے
انھیں ہمارا وقت چاہئے ہوتا ہے جو کہ دینا بھی چاہیئے.. اسلئے اس میں
کوتاہی نہیں برتنی چاہیئے... ورنہ بچے بگڑ جاتے ہیں.. گمراہ ہوجاتے
ہیں...اور .... باغی بن جاتے اور ماں باپ سے دورہو جاتے ہیں... !!!
♦اور اک بات اللہ پہ ہی توکل رکھنا... کسی سے کوئ توقعات وابستہ نہیں رکھنا
چاہے اولاد ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ ہماری توقعات ہی تو ہیں جو ہم لوگوں سے
وابستہ کرلیتے ہیں جیسے.. فلاں بندہ میرایہ کام کردیگا... میری بیٹی یہ
کردیگی وغیرہ وغیرہ اور جب نہیں ہوپاتا تو ہم دل برا کرکے بیٹھ جاتے ہیں
بیٹی کو سنانا... برائیاں... غیبت... وغیرہ... اسلئے... سب توقعات بس اللہ
باری تعالی سے رکھنا... !!!
عائشہ خاموش ہوئ تو شمائلہ بیگم جو مبہوت بیٹھی سب سن رہی تھیں اور ساتھ
ساتھ خود کا موازنہ بھی کرہی تھیں... بولنے لگیں...
"بہت خوب واقعی آپکی ساس نے کافی اچھی اور جامع باتیں سیکھائ... آپکی میں
بہت شکر گزار ہوں آپ نے مجھے اپنا اتنا قیمتی وقت دیا.. اور. مجھے بھی بہت
کچھ سیکھنے کو ملا.. "
شمائلہ بیگم نے اک گفٹ پیکٹ بیگ سے نکالا اور عا ئشہ کو تھمایا..
عائشہ بہت ممنون ہوئ.. شکرایہ ادا کیا کہ اسے اس لا ئق سمجھا...اور بات
کرنے کا موقعہ دیا گیا...الوداعی کلمات کے بعد شمائلہ بیگم نے گھر کی راہ
لی...!!!
🏠🏠🏠🔹🔸🏩🏩🏩
شمائلہ بیگم کی آنکھوں کے گرد جو پٹی بندھی تھی وہ کھل چکی تھی وہ جو انھیں
خود پہ ناز تھا اور غرور تھا.... ہر جگہ خود کو متعارف کراتی نہ تھکتی تھیں
آج وہ سب خاک میں مل گیا تھا...وہ آئینے کے سامنے کھڑی بغور اپنے سراپے کو
دیکھر رہی تھیں...حسن کی دولت سے مالا مال... عالی تعلیم یافتہ.. بھترین
جاب..دولت کی بہتات....اچھا شوہر اور بچے....سب کچھ تھا پاس ...پھر بھی وہ
خالی ہاتھ تھیں..ایسا کیوں تھا..؟وہ پسپا ہو چکی تھیں...
اماں جان کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے" بیٹا عورت کا اصل سرمایہ اسکے
بچے ہوتے ہٰٰیں... انھیں وقت دو.""
..زونیر کی آواز مما "مجھے مت بھجیں'"
..زری :''آپ دنیا کی بری مما ہیں.''..
عائشہ کی ساس کی تمام باتیں....وہ بلک بلک کے رونے لگیں..
آج برسوں بعد انھیں اللہ یاد آیا تھا...دل سے اس سے پکارا تھا وہ فو را
اٹھیں وضو بنایا ...اور نماز ادا کر نے لگیں ...آنسو مصلی کو بھگوتے رہے وہ
اپنے گناہوں پہ نادم تھیں...اپنی ہر کوتاہی پہ شرمندہ اپنے رب کے حضور لوٹ
چکی تھیں...انھیں اب اپنی ہر غلطی کو سدھارنا تھا.... اس مکان کو گھر بنانا
تھا خاص کر اپنے بچوں کو اک ماں بن کے دکھانا تھا....!!!
🏠🏠🏠🔹🔸🏩🏩🏩
زری کو بواجی دودھ میں گھول کے دوائ دے رہی تھی...وہ کچھ نھیں کھا پی رہی
تھی..چند دنوں میں برسوں کی بیمار لگ رہی تھی دو دن سے انھوں نے زری کی
صورت نہیں دیکھی تھی....وہ پر عزم سی اسکے کمرے کی جانب بڑھیں اسکی حالت نے
انھیں آبدیدہ کردیا تھا...آج پہلی بار اسکی تکلیف سے انکا دل ہل گیاتھا
ورنہ اس سے پہلے وہ نوکروں کے رحم وکرم پہ چھوڑ کے مطمئن رہتیں...بس تکلفا
پوچھ لیتی تھیں...!!!
وہ اسکے پاس گئیں شفقت سے اسکے سرپہ ہاتھ پھیرا...پیار کیا....زری بیدار
ہوگئ..انکی محبت نے اسکے دل کو چھوا تھا...وہ اسی محبت کی تو ترسی ہوئ
تھی...!!
فورا انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی...
"ممامجھے معاف کردیں.. میں نے آپ کے ساتھ بہت بدتمیزی کی میں شرمندہ
ہوں.."!!
شمائلہ بیگم زری کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے انھیں بڑے پیار سے چوما
اور بولیں..
"بیٹا آپکا کوئ قصور نہیں...مجھے آپکی کسی بات کا قطعی برا نہیں
لگا....بلکہ معافی تو مجھے مانگنی چاہئے...میں نے ہی آپکو سمجھنے میں دیر
لگادی اور اک اچھی ماں نہ بن سکی.."
زری اپنی ماں کے گلے لگ گئ...سسکی سی بندھ گئ...
"ایسا مت بولیں مما آپ تو دنیا کی بیسٹ مما ہیں آپ تو یہ سب ہمارے لئے ہی
کرہی تھیں....دادی جان ہم سے یہی کہتی تھیں. .کہ :دیکھوں تمھاری مما انتھک
محنت کرتی ہیں تمھارے لئے...تاکہ تم دونوں کو دنیا کی ہر خوشی دے سکیں..."
جب میں آپ سے لڑی ...بدتمیزی سے پیش آئ...تو اس رات دادی جان میرے خواب میں
نظر آئٰیں مجھ سے ناراض تھیں..میں بہت روئ....مما..."
شمائلہ بیگم کی آنکھیں تشکر سے بھیگ گئی تھیں قدرت نے کتنی اچھی سلجھی ہوئ
ساس سے نوازا تھا...مگر افسوس کہ وہ انکی خدمت نہ کرسکیں..نہ وقت دے
پائٰیں.."
انھوں نے آنسو صاف کئے.. زری کو خوب پیار کیا...اور کہا اب ہم سب ساتھ
رہیگے زونیر بھی... ان شاء اللہ.. اور اب سے میں اپنا زیادہ وقت اپنے پیارے
بچوں کے ساتھ گزارونگی...زری خوشی سے جھوم اٹھی...اس نے اللہ کا بے انتہا
شکر ادا کیا.!!!..
اسکا گھر بھی اب گھر بنے گا...جسکا وہ خواب دیکھا کرتی تھی....اور زونیر
اسکا پیارابھائ بھی ساتھ ہوگا...اتنے سالوں کی فراقی کے بعد..!!!
وہ دوڑی تھی زونیر کو فون کرکے خوشخبری سنانے...اپنی طبیعت کی پرواہ کئے
بنا...شمائلہ بیگم یہ دیکھکر مسکرادیں..اور وہ بھی زری کے پیچھے چل
دیں..آخر اپنے بیٹے سے بات کرنے کی... اس سے واپس بلانے کی انھیں بھی تمنا
تھی..!!!
.
بواجی یہ منظر دیکھکر بہت خوش تھیں.....برسوں بعد اس گھر کی خوشیاں لوٹی
تھیں جس میں خلوص..تھا... اپنائیت تھی....دکھاوا..اور ....تکلف نھیں تھا...
🏠🏠🏠🔹🔸🏩🏩🏩
زبیر صاحب کی اپنے بزنس ٹرپ سے پورے دوماہ بعد واپسی ہوئ تھی...اپنے گھر کو
دیکھکر اک پل کو انہیں یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ کسی اور کے گھر میں تو نہیں
آگئے....!!!
گھر کا پورا نقشہ بدلہ ہوا تھا....پورا گھر جگا مگا رہاتھا...رات کو اطلاع
دے دی تھی اپنی واپسی کی.....پہلی بار انکے واپس لوٹنے پہ یوں استقبال ہوا
تھا...وہ جس قدر حیران تھے اتنے ہی خوش بھی....!!!
پہلی نظر انکی اپنی شریک حیات پہ پڑی...جن کی تبدیلی نمایاں تھی..سرپے
قرینے سے ڈوپٹہ اوڑھے دروازے پہ بچوں سمیت کھڑی انکی منتظر تھیں...انھیں یہ
سب بہت دلکش لگا....انکی آنکھیں نم ہورہی تھیں...بچوں کو دیکھا تو انکی
خوشی دوبالا ہوگئ..زری بھی سلیقے سے سر پہ دوپٹہ اوڑھے ادب سے کھڑی
تھی....ساتھ زونیر جو کہ قد میں ان سے بھی بڑا ہو گیا تھا...شلوار قمیض میں
ملبوس بڑا الگ نکھرا سا.. اور کافی خوش لگا...!!!
وہ بھی والہانہ انداز سے اپنی فیملی سے ملے.. شمائلہ بیگم نے دسترخوان
لگوایا اور کھانے کے تمام لوازمات زبیر صاحب کے پسندیدہ تھے.. جوکہ شادی کے
اتنے عرصے بعد شمائلہ بیگم نے خود تیار کئے تھے.. سب نے مسنون طریقے سے
کھانا تناول فرمایا...!!!
زبیر صاحب بہت خوش تھے کتنے عرصے بعد...اپنے گھر والوں سے یوں کھل کے باتیں
کیں..گھر بچوں کی کھلکھلاہٹ سے گونج رہا تھا...ہر طرف خوشی کا سماں تھا..وہ
چاہے کتنے ہی بڑے کامیاب بزنس مین تھے مگر گھر کا ماحول انھیں روایتی پسند
تھا اور ایسی ہی شریک حیات جو اپنے کام کے ساتھ گھر کو بھی سنبھالے....اور
اپنی موجودگی کا احساس دلائے..بچے انکے آس پاس گھومیں..انھیں تنگ کریں
..اور... فرمائشیں کریں...یہ خواہش انکے دل کے اک کونے میں دبی ہوئ تھی
جسکا اظہار وہ کبھی بر ملا نہیں کر پائے تھے....مگر آج کر چکے تھے...!!!
شمائلہ بیگم نے اپنی سرگرمیاں اسکول تک محدود کر لی تھیں..اسکول کے بعد
سارا وقت وہ گھر پہ گزارتیں..بچوں کو دیتیں...!!!
زری اب پھر سے پہلی والی زری بن چکی تھی....ساتھ پردے کی جانب بڑھ چکی
تھی....!!!
زونیر کی بھی بچپن کی خواہش پوری ہوگئ تھی اکٹھے ساتھ رہنے کی ..اور....وقت
گزارنے کی....!!!
"زبیر صاحب بچےیہ سب مادی چیزوں سے زیادہ ہماری توجہ ..اور .محبت چاہتے
ہیں..دیکھیں دونوں بہن بھائ کتنے خوش ہیں...اور کتنے پیارے لگ رہے ہیں اک
دوسرے سےلڑتے ہوئے.... مناتے ہوئے... ہم نے کتنے ایسے پیارے لمحات
کھودٰیئے...اللہ کا لا کھ شکر کے اس نے مجھ ناکارہ کو سیدھی راہ دکھادی....
اپنوں سے ملوادیا... عورت ہونے کا صحیح مفہوم سمجھا دیا..اور... اس سلسلے
میں عائشہ بہن کا بڑا کردار رہا.... میں آج بھی اسکا شکریہ ادا کرنا نہیں
بھولتی..."" !!!
شمائلہ بیگم تشکر بھری نگاہوں سے اپنے آشیانے کو دیکھ رہی تھیں جہاں اب
خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ہر سو...!!!
زبیر صاحب نےاپنی عینک درست کی.... چہرے پہ دلکش مسکراہٹ رقصاں تھی.... !!!
"بیشک بیگم گھر وہی ہوتا ہے جہاں کی مالکن گھر پہ وقت دے اپنی چار دیواری
کو اپنا اصل مکان سمجھے... اور اسکو سنوارنے میں خود کو مگن رکھے.. بچے ماں
باپ دونوں کو خاص سمجھیں اپنا وقت انہی کے ساتھ گزارے... اللہ کا شکر ہے کہ
اسنے میرے گھر میں بھی ایسی خوشیوں کے پودے لگادیئے... بس ذرا سی توجہ کی
بات ہوتی ہے.... گھر پھر خوشی کا گہوارہ بن جاتا ہے.'".. !!!
زونیر... زری...دونوں...اک ساتھ.... دوڑتے ہوئے انکے پاس آئے اور گلے لگ
گئے... شدت جزبات سے شمائلہ بیگم اور زبیر صاحب کی آنکھیں پرنم ہوچکی
تھیں...
🔽🔼🔽🔼🔽
گہوارہ خوشی کا بن جائے ہر آشیانہ
انساں گر سمجھ لے زندگی کا فسانہ
🌻 🌻** ازقلم**حیا مسکان 🌻🌻
|