ماں اگر وہ مر گیا تو پولیس نے آپ کو نہیں
چھوڑنا-----
ندا نے آخری پتا کھیلا-----
ارے کلمو میں نے اس کو فائرنگ کر کے مار دینا ہے کیا----
ماں کے سارے طوطے اڑ گئے تھے---
تو بیٹی ہے یا دشمن اور پولیس کوئی اندھی ہے اور تجھے بڑی خوش فہمی ہے کہ
وہ ڈیٹ مر بھی سکتا ہے---- اور اس کو میرا ہی گھر ملا ہے مرنے کو------ سڑک
پر کسی گاڑی کے نیچے کیوں نہیں آجاتا----
سلمان نے جب یہ سب سنا تو واپس بیڈ پر لیٹ گیا---
یہ عورت تو مجھے مارنے پر ہی تلی ہوئی ہے---Blanket اپنے اوپر لپیٹنے کے
باوجود بھی ٹھنڈ اس سے لپٹی جا رہی تھی--
ماں پورے محلے نے سن رکھا ہے ہم جو اس کو دھمکیاں دیتے ہیں بچا بچا گواہی
دے گا--- جب پولیس پوچھی گی نا سب ڈر کے مارے طوطے کی طرح فر فر بولیں گے---
پولیس پہلے ڈراتے ہیں پھر پیسے نلکواتے ہے--- کورٹ کچہری کے چکر میں یہ
تمہارا تاج محل بھی بک جائے گا--- پھر بھی کیس چلتا رہے گا---
ندا نے اب ماں کو گھیر لیا تھا--
ماں نے کھا جانے والی نظروں سے اپنی کو دیکھا---
جا کوئی دوا لا اور اس کلموہی منحوس کے منہ میں ڈال اور کہہ جا کے کہے اور
مرے--- آج تیرا باپ آجائے کہتی ہوں اس بلا سے جان چھڑائے ہماری--- زمانے
بھر کے کنگلے فقیر سیدھا ہمارے گھر آکے ڈھیرا ڈالتے ہیں--
ماں نے سر پکڑ لیا اور بڑبڑاتی ہوئی کمرے میں چلی گئی---
ندا نے چائے اور دوائی لی اور سلمان کے کمرے کی طرف جانے لگی---
ارے وہ کیا ولیمے مٰیں آیا ہے کیا جو تو چائے کھانا سب لے جا رہے ہوں ---
اف ماں پیٹ میں کچھ ہوگا تو ہی دوائی اثر کرے گی نا--- ورنہ پڑا رہے گا
کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوگا---
ماں نے غصے سے زرلب کوئی گالی دی اور واپس مڑ گئی---
جلدی سے دوائی دے کے آنا بہت کام پڑے ہیں گھر کے----
ندا نے سلمان کو آواز دی اور کمرے میں داخل ہوگئی--
جاکے کولی کر لیجئے میں آپ کے لیے دوائی اور چائے لائی ہوں---
سلمان نے کہا اتنی ساری باتیں سن کر بھوک ختم ہوگئی ہے---
اچھا تم پر بھی باتوں کا اثر ہوتا ہے رئیلی---- ندا نے مصنوئی حیرت سے
سلمان کو دیکھا--
شاید بیماری میں ہی اثر ہوگا ہے نا---
سلمان نے کوئی جواب نہ دیا--- دونوں ماں بیٹی باتوں میں یکتا ہے کون ان سے
مقابلہ کرے---
ان ہی خیالوں میں اس نے چہرے پر پانی کا چینٹا مارا--- آنکھوں میں پانی
ڈالا شاید اس سے جلن کم ہوجائے--
کچھ بھی ہے لڑکی ہے بہت نرم دل--- باپ پر گئی ہے آخری جملا اس کے زہن سے
نکلا---- جاری ہے |