میں مولوی بنوں گا منسانہ

میں نے تنویر کے مستقبل کے بڑے سنہرے خواب دیکھ رکھے تھے۔ ًمیں اسے بہت بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا۔ اس نے میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کرکے دل خوش کر دیا۔ اسے کھیل کود سے کم کتاب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ جب کبھی اسکول گیا استاد اس کی تعلیمی حالت کی تعریف کرتے۔ ان کے منہ سے اپنے بیٹے کی تعریف سن کر دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا۔ منہ سے اس کے اچھے مستقبل کے لیے بےاختیار ڈھیر ساری دعائیں نکل جاتیں۔

ایف اے میں بھی تعلیمی معاملہ میں اچھا رہا۔ تھرڈ ایئر میں آیا تو اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ لی۔ نماز روزے کا بھی پابند ہو گیا۔ یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ چلو تعلیم میں بہتر کارگزاری کے ساتھ ساتھ نیک راہ پر بھی چل نکلا ہے ورنہ آج کے ماحول میں بےراہروی ہی لڑکی لڑکوں کا وتیرہ بن گیا ہے۔ یہ بےراہروی انہیں بدتمیز بھی بنا رہی ہے۔ بڑے چھوٹے کا کوئی پاس لحاظ ہی نہیں رہا۔ تھرڈ ایئر تو خیر سے گزر گئی اور اس نے اچھے نمبر بھی حاصل کیے۔ فورتھ ائیر ہم سب کے لیے قیامت ثابت ہوئی۔ اس نے داڑھی بڑھا دی اور ایک دن کالج کی پڑھائی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس کا یہ اعلان میرے دل و دماغ پر اٹیم بم بن کر گرا۔ مجھے پریشانی کے ساتھ ساتھ حیرانی بھی ہوئی کہ آخر اسے اچانک یہ کیا ہو گیا ہے۔ اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے کہ میں دینی مدرسے میں داخل ہو کر مستند مولوی بنوں گا۔ کہاں کالج کی پڑھائی کہاں مولوی بننے کا اعلان‘ عجب مخمصے میں پڑ گیا۔

میں دو تین دن اس کے پیچھے پڑا رہا کہ آخر اس نے مولوی بننے کا کیوں ارادہ کیا ہے۔ کچھ بتاتا ہی نہ تھا۔ چوتھے دن اس نے بڑے غصے اور اکتائے ہوئے لہجے میں کہا کہ میں کفر کے فتوے جاری کرنے کے لیے مستند مولوی بننا چاہتا ہوں۔ کفر کے فتوے۔۔۔ کس پر۔۔۔۔ مگر کیوں۔
میں پہلا کفر کا فتوی آپ کے خلاف جاری کروں گا۔
یہ سن کر میرے طور پہوں گئے۔ میرے خلاف یعنی باپ کے خلاف۔ میں اس کا کھلا اعلان سن کر دم بہ خود رہ گیا۔
پھر میں نے پوچھا: میاں آخر تم نے مجھ میں کون سی ایسی کفریہ بات دیکھ لی ہے۔
کہنے لگا: میری ماں آپ کی خالہ زاد ہے آپ انہیں خوب خوب جانتے تھے کہ بڑی بولار ہے تو شادی کیوں کی۔ کیا اور لڑکیاں مر گئی تھیں۔ آپ دونوں نے لڑ لڑ کر ہم سب کا جینا حرام کر دیا ہے۔ غلطی آپ کی ہے کہ آپ اسے بولنے کا موقع دیتے ہیں۔ اییسی بات کیوں کرتے ہیں کہ وہ سارا سارا دن اور پھر رات گئے تک بولتی رہے۔

اس کی اس بات نے مجھے پریشان کر دیا۔ میں نے فیضاں کو بلوایا اور کہا بیٹے کے ارادے سنے ہیں نا۔
ہاں میں نے سب کچھ سن لیا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے۔ ایسی بات کیوں کرتے ہیں جس سے مجھے غصہ آئے اور میں بولنے لگوں۔

چلو میں کسی دوسری جگہ تبادلہ کروا لیتا ہوں لہذا تم کالج کی پڑھائی جاری رکھو۔

ہاں ہاں اچھا فیصلہ ہے کہ پھر ہمارے ساتھ ڈٹ کر بول بولارا کرتی رہے۔ وہ تلخ اور طنز آمیز لہجے میں بولا
ماں آپ فکر نہ کرو آپ بھی میرے فتوے کی زد میں آؤ گی۔ خاوند کی اتنی بےعزتی اسلام میں جائز نہیں۔

بیٹے کی یہ بات سن کر وہ ہکا بکا رہ گئی۔ اسے امید نہ تھی کہ تنویر ایسی بات کرے۔ پھر ہم دونوں میاں بیوی کی نظریں ملیں۔ ہم دونوں کی آنکھوں میں دکھ اور پریشانی کے بادل تیر رہے تھے۔ ہم اسے بہت بڑا آدمی بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے کہ بیٹا کچھ کا کچھ سوچ رہا تھا۔ پھر ہم دونوں کے منہ سے بےاختیار نکل گیا۔ بیٹا تم کالج کی پڑھائی نہ چھوڑو ہم آگے سے نہیں لڑیں گے بل کہ معاملات بات چیت سے طے کر لیا کریں گے۔

تنویر مان ہی نہیں رہا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ وہ مولوی ہی بنے گا۔ وہ کہے جا رہا تھا کہ آپ وعدہ پر پورا نہیں اترو گے۔ کافی دیر تکرار و اصرار کا سلسلہ جاری رہا۔ تنویر کو آخر ہمارے تکرار اصرار کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑے اور وہ کالج کی کتاب لے کر بیٹھ گیا اور ہم چپ چاپ اس کے کمرے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گیے۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211184 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.