علاقے
کے مولوی صاحب دھنیے دکان دار سے ادھار سودا لیا کرتے تھے۔ چوں کہ مولوی
صاحب تھے اس لیے وہ بڑی برداشت اور لحاظ مروت سے ادھار سودا دیتا رہا۔
ادھار کی رقم کافی ہو گئی اور معاملہ دھنیے کی بسات و برداشت سے باہر ہو
گیا تو اس نے ادھار سودا دینے سے صاف انکار کر دیا۔
مولوی صاحب نے کہا: اگر تم نے سودا نہ دیا تو یہ تمہارے لیے اچھا نہ ہو گا۔
دھنیے نے کہا: ٹھیک ہے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
مولوی صاحب نے اس کی جانب طنز آمیز غصے سے دیکھا۔ دھنیے کے چہرے پر کسی قسم
کی فکرمندی یا ملال نہ تھا۔ گویا یہ ہی تاثر تھا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
مولوی صاحب کو تین قول پورے کرنا چاہیے تھے لیکن انہوں نے دوسری بار کچھ
کہنے یا وارننگ کو مذید زوردار اور سخت بنانے کی زحمت ہی نہ اٹھائی اور پیر
پٹکتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے۔ جاتے ہیں تو جائیں دھینا بڑبڑایا اور اس
نے ان کی جانب سرسری نظر سے بھی نہ دیکھا۔
مولوی صاحب نے مسجد میں آ کر سپیکر کھولا اور دکھ بھری آواز میں اعلان کیا۔
حضرات ایک ضروری اعلان سنیے۔ بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ دھنیا دکان
دار وہابی ہو گیا ہے لہذا اس سے کسی قسم کی سودا نہ خریدا جائے اور نہ کسی
قسم کا لین دین یا بول چال رکھا جائے جو اس سے سودا خریدے گا یا کسی قسم کا
لین دین کرے گا یا بول چال رکھے گا سیدھا جہنم کی بھڑکتی آگ میں جائے گا۔
لوگوں نے دھنیے سے ہر قسم کی خریداری بول چال اور لین دین بند کر دیا۔ اس
کے بعد دھنیا سارا دن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا بدنصیبی کی مکھیاں مارتا
رہتا۔ کوئی اس کی دکان کے نزدیک سے بھی نہ گزرتا۔
کچھ دن تو اس نے برداشت سے کام لیا جب بائیکاٹ میں کسی قسم کی لچک پیدا نہ
ہوئی تو وہ مولوی صاحب کے در دولت پر حاضر ہوا اور ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنے
لگا: مولوی صاحب آپ جتنا جی چاہے سودا لے لیں لیکن یہ کٹھور پابندی اٹھا
لیں۔
مولوی صاحب اس کی دکان پر گئے اور اچھا خاصا سودا لیا۔ سودا گھر پر چھوڑ کر
مسجد میں جا کر اعلان کیا۔ حضرات آپ کے لیے خوشی کی یہ ہے بات کہ دھنیا
دکان دار تائب ہو گیا ہے اب اسی سے سودا خرید کیا کریں کہیں اور سے سودا نہ
خریدیں ۔ اپنا قریبی دکان دار چھوڑ کر کسی اور سے سودا خریدنے سے پاپ لگتا
ہے۔ دھنیے نے ایشور کا شکریہ ادا کیا اور چھری پہلے سے تیز کر دی۔ اپنی اصل
میں بالوسطہ دھنیے کے لیے یہ اچھا ہی ہوا کہ اس کے منافع کی شرح میں ہرچند
اضافہ ہی ہوا۔ |