بیٹی کو رخصتی کے وقت یہ سختی سے ہداہت کی
جانی چاہیے کہ وہ میکہ کی کوئی منفی بات سسرال میں یا سسرال کی کوئی منفی
بات میکہ میں شیئر نہ کرے۔ اس علت بد کے سبب غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جو
بعد میں تلخیوں کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہنستی مسکراتی زندگی پریشانیوں میں بدل
جاتی ہے۔ بدقسمتی سے گھر کے گھر اس بیماری کے باعث تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہی
لوتیاں بعد میں کورٹ کچہری والوں کی کھٹی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ہوں
کہ یہ کورٹ کچہری والے‘ ہنستے مسکراتے چلتے پھرتے لوگ انہیں بھلے نہں لگتے۔
حنیف غربت کی چکی میں پس رہا تھا۔ سارا دن مشقت میں کٹ جاتا۔ رات میاں بیوی
کی لایعنی چخ چخ میں گزر جاتی۔ دونوں میاں بیوی کو پچھلوں میں چھوٹی چھوٹی
بات شیئر کرنے کی عادت بد لاحق تھی۔ پچھلے کوئی مالی مدد تو نہ کرتے ہاں
دونوں میاں بیوی میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والے سبق ضرور پڑھاتے رہتے تھے۔
یہ تھے کہ اس عادت سے باز ہی نہیں آ رہے تھے۔ پچھلوں کے پڑھائے گئے اسباق
کی وجہ سے ان کے درمیان نفرتوں میں ہرچند اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا۔
انہوں نے کبھی سر جوڑ کر حالات سے لڑنے کی مشاورت کی ضرورت ہی محسوس نہ کی
تھی حالاں کہ ایسے حالات میں سر جوڑ کر مشاورت بہت ضروری ہوتی ہے۔
خدا معلوم حنیف کی کس طرح درک لگ گئی کہ اس کی بیرون ملک میں سرکاری نوکری
لگ گئی۔ پھر کیا تھا‘ نوٹ آنا شروع ہو گئے۔ جہاں بھوک بھنگڑے ڈالتی تھی
وہاں رج کے نقارے بجنا شروع ہو گئے۔ جو بیوی کو رقم بھجتا اس کی خبریں
پچھلوں کو بھجوا دیتا۔ ادھر اس کی بیوی میکہ اور ارد گرد میں یہ مشہور کرنے
بیٹھ گئی جو کماتا ہے اپنے پچھلوں کو بھجوا دیتا ہے اور ہم اسی طرح غربت کی
زندگی گزارتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ جو حنیف بھجواتا اس سے اس کے میکہ
کی بھوک نکلنے لگی تھی۔ اس غلطی کے سبب دونوں خاندانوں میں اٹ کتے کا بیر
چل نکلا۔ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ رہے۔
حنیف چھٹی پر آیا تو اطراف سے خوب لون مرچ مصالحہ لگا کر اسے خبریں دی
گئیں۔ بجائے چھٹی کے دن ہنس کھیڈ کر گزارے جاتے جنگ جدل کی عملی کیفیتں
طاری رہیں۔ ان کی اس باہمی بکواس کے سبب بچے بڑے ڈسٹرب ہوتے۔ جب چھٹی کاٹ
کر جانے لگا تو اس نے عنائتاں کو گھر سے نکال دیا۔
چند دن تو اس نے بھائیوں کے ہاں گزارے۔ باہر سے آئی رقم سے اس نے پائی بھی
جمع نہ کی تھی۔ کھانے والے کب کھلا سکتے ہیں۔ وہاں اس کی زندگی عذاب ہو
گئی۔ بچے کھانے پینے کی چیزوں تک کو ترسنے لگے۔ حنیف نے رقم بھجوانا بند کر
دی۔ حنیف کے بڑے بھائی نے بچوں کی یہ حالت دیکھی تو بڑا افسردہ ہوا۔ اس نے
بچوں کو کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھجوانا شروٰع کر دیں۔
اپنے ہی لوگوں کو یہ برداشت نہ ہوا۔ اس امر کی بڑھا چڑھا کر حنیف کو خبریں
بیجھنا شروع کر دیں۔
حنیف کو بھائی کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا۔ اس نے ٹیلی فون پر اپنے بڑے
بھائی کی بڑی بےعزتی کی۔ اس نے کسی الزام سے بچنے کے لیے عنائتاں اور بچوں
کو کچھ بیجھنا بند کر دیا۔ پھر ہونا کیا تھا‘ باپ کی بھری جیب ہوتے بچے
بھوکوں مرنے لگے۔ اللہ تو نافرمان سے نافرمان کا رزق بند نہیں کرتا بل کہ
اسے سدھرنے کے مواقع مسیر کرتا ہے اگر نہ سمجھے تو وہ اپنی ہی کسی کرنی میں
پھنس جاتا ہے۔
حنیف کے دماغ میں اوقات سے باہر میسر کا فتور آ گیا تھا اور وہ یہ سوچنے سے
عاری ہو گیا تھا کہ رزق تو اللہ کا دیا ہوا ہے اور اس کی جیب میں پڑا بھی
اللہ ہی کا ہے۔ وہ تو اپنے سانس کا بھی مالک و وارث نہیں۔
پتا نہیں اس سے کیا ہو گیا اور وہ نوکری سے نکال باہر کر دیا گیا۔ جوتے
چٹخاتا ہوا واپس لوٹ آیا۔ اس نے عنائتاں سے چھٹکارے کے لیے عدالت میں مقدمہ
دائر کر دیا۔ جو ساتھ لایا تھا کورٹ کچہری کی نذر ہو گیا۔ دوبارہ سے مشقت
کی جانب راغب ہوا۔ اس سے پہلے کی طرح کام نہیں ہو پا رہا تھا۔ بڑے بھائی نے
کافی بھاگ دوڑ کی اور دونوں میاں بیوی کی صلاح کروا دی۔ ان دنوں دونوں میاں
بیوی ایک چھت کے نیچے رہ رہے تھے لیکن اتنا بڑا جھٹکا لگنے کے باوجود انہیں
عقل نہیں آئی تھی اور اب بھی ان کا چالا وہ ہی پرانا تھا۔ |