14 فروری ، محبت یا بے حیائی کا دن

تحریر: عائشہ احمد
محبت کیا ہے؟ اور یہ کس سے کرنی چاہیے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر انسان کے ذہن میں گونجتے ہیں۔ اس کا جواب مختلف ادوار نے مختلف ادیبوں،شاعروں،لکھاریوں نے اپنے مختلف انداز میں دیا ہے ۔کوئی اسے عشق ھقیقی گردانتا ہے اور کوئی اسے عشق مجازی مانتا ہے۔محبت وہ پاکیزہ جذبہ ہے جو انسان کی روح میں ہوتا ہے اور ایسا چاقتور ہتھیار ہے جو پتھر سے پتھر دل انسان کو بھی موم بنا دیتا ہے۔ہر دور میں محبت مختلف انداز سے کی جاتی ہے۔اﷲکی اپنے نبی پاکﷺ سے محبت،نبی پاکﷺ کی اپنی امت سے محبت، صحابی کرام کی نبی پاکﷺ سے محبت۔ وقت کے ساتھ ساتھ محبت کے تقاضے بھی بدلتے گئے اور پھر محبت کی مختلف داستانیں وجود میں آنے لگیں۔ ہیرا اور رانجھا،سسی،پنوں۔سوہنی،مہیوال۔مرزا ،صاحباں،لیلی مجنوں،رومیو،جیولٹ،یہ وہ تمام قصے اور کہانیاں ہیں جو آج تک لوگوں کی زبان پہ زدو عام ہیں۔آج بھی اگر محبت کی بات کی جاتی ہے تو ان کرداروں کی لازاوال محبت کا ذکرضرور آتا ہے۔یہ فرضی کردار ہیں یا حقیقی ،بہر حال ان محبت کی داستانوں میں پاکیزگی دکھائی دیتی ہے۔اس لیے کہ ان محبت کی لازوال داستانوں میں محبت جسم سے نہیں بلکہ روح سے کی جاتی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ یہ کردار آج بھی زندہ ہیں اور رہتی دنیا تک زندہ رہیں گے۔یوں یوں زمانہ ترقی کرتا گیا محبت کے انداز بھی بدل گئے۔بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ لوگ ہی بدل گئے جن کیے نا صرف دل پاکیزہ ہوتے تھے بلکہ محبتیں بھی پاکیزہ ہوتی تھیں۔جو محبت کو آخری دم تک نبھانے کا عہد کرتے تھے تو اس پر مرتے دم تک قائم رہتے تھے۔آج کل کی محبت پانی کے بلبلے کی طرح ہے ۔چند لمحوں میں ختم ہوجاتی ہے اور پھر تو نہیں تو اور سہی،اور نہیں تو اور سہی۔ اب محبت کم اوے بے حیائی زیادہ ہوگئی ہے۔محبت کے نام پہ لڑکے اور لڑکوں کا آزادانہ میل ملاپ معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہا ہے ۔مغرب کی نام کی محبت ہمارے معاشرے میں ناسور کی شکل میں پنپ رہی ہے اور ہم حقیقت سے نظریں چرائے تماشائی بنے معاشرے کی بربادی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔اور رہی سہی کسر مغرب کے نام نہاد تہوار ویلنٹائن ڈے نے پوری کر دی۔
 
پاکستان میں پچھلے چند برسوں میں یہ تہوار قومی سطح پر منایا جاتا ہے۔ ٹی وی چینلز اورریڈیو سٹیشنز پر باقاعدہ ٹرانسمیشنز دکھائی جاتی ہیں۔گھروں میں تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز میں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو پھول اور تحائف پیش کرتے ہیں۔اس دن ملک کے تمام ہوٹلوں اور ریسٹورینٹس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بھرمار ہوتی ہے جو اپنے گھر والوں سے چھپ کر یہ دن منانے آئے ہوتے ہیں۔اور والدین ان تمام باتوں سے قطع تعلق یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے ہونہار بچے علم کے زیور سے آراستہ ہونے کے لیے پڑھنے گئے ہیں لیکن پائے وہ کہیں اور جاتے ہیں۔وییلنٹائن ہے کیا ؟ اس بارے میں مختلف کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ ایک خالص رومی تہوار ہے۔جس کی ابتدا ء1700 سال قبل ہوئی۔اور آج یہ ایک مشہور و مقبول تہوار کے حوالے سے پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک اور پوری دیا میں منایا جاتا ہے۔مغرب کے لیے ایسے تہوار منانا غیر اخلاقی اور غیر قانونی نہیں ہے۔بے راہ روی تو ان کے معاشرے کا خاصہ ہے لیکن پاکستان جیسا اسلامی ملک جو حاصل ہی اسلام کے نام پہ کیا گیا ہو وہاں اس طرح کے تہوار منانے کا کیا جواز ہے۔انگریزوں کو یہ تہوار منانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔لیکن ہمارا معاشرہ بے راہ روی کی طرف جا رہاہے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ا س تہوار کو منانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

میرا سوال تمام مردوں سے ہیے کہ وہ جب کسی لڑکی کو ویلنٹائن وِش کرتے ہیں تو وہ یی کیوں نہیں سوچتے کہ ان کے گھر میں بھی بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔کیا وہ یہ برداشت کر لیں گے کی ان کی بہن سے کوئی محبت کا اظہار کرے ہرگز نہیں تو پھر دوسروں کی بہن بیٹیاں بھی تو کسی کی عزت ہیں۔عزت دو گے تو عزت لو گے۔اور لڑکیاں یہ کؤں نہیں سوچتی کہ چند دن کی یہ محبت ان کے لیے زندگی بھر کا روگ بن سکتی ہے۔اور پھر معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتیں۔ حیا دار آنکھیں مرد دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں کہ یہ کسی عزت دار باپ کا بیٹا،غیرت مند باپ کا بھائی اور با حیا ماں کا بیٹا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔اور یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے۔اور لوگ جو کچھ کریں اﷲ تعالی سب سے باخبر ہے۔اور مسلمان عورتوں سے بھی کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں‘‘۔

کیا ہمارے لیے اﷲ تعالی کا یہ حکم کافی نہیں ۔ہم کیسے اﷲ پاک کے احکامات کو جھٹلا سکتے ہیں؟ کیسے اس کی آیتوں کا انکار کر سکتے ہیں ۔کیا ہم گذشتہ قوموں کی بربادی بھول گئے ہیں کہ جن انہوں نے اﷲ پاک کی آیتوں کا انکار کیا تو اﷲ نے ان کو صفحہء ہستی سے مٹا دیا اور ان پہ اپنا عذاب نازل کر دیااور ہمارے لے عبرات کا نشان بنا دیا۔لیکن ہم پھر بھی اس سے سبق نہیں سیکھ رہے۔ہم کس طرف جا رہے ہیں۔دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر ہم اپنے اصل مقصد سے ہٹتے جا رہے ہیں۔نام نہاد آزادی کہ نام پہ اپنے معاشرے میں ویلنٹائن کی صورت میں بے حیائی اور فحاشی کو عام کر رہے ہیں ۔اور عذابِ الہی کو دعوت دے رہی ہیں ’’اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلادو‘‘۔ (صلاح الدین ایوبی)

یہ وہ کڑوا سچ ہے جس سے سن کر ہم نہیں چونکتے۔مغرب جس طرح ہمارے نوجوانوں میں بے راہ روی پھیلا رہا ہے یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔محبت کے لیے صرف ایک دن ہی کیوں؟ محبت صرف ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہی کیوں؟ ارے محبت کرنی ہے تو اُس خالق کائنات سے کرو کہ جو ہمیں ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے جو ہماری ہر غلطی اور گناہ کو ہمارے ندامت کے ایک آنسو کے بدلے معاف فرما دیتا ہے۔جو ہمیں دن میں پانچ بار کامیابی کی طرف بلاتا ہے۔محبت کرنی ہے تو اُس مالک کائنات سے کرو جس کی عطا کی حد تو دیکھو کہ اپنا محبوب ہمیں بخش دیا۔ورنہ کون دیتا ہے کسی کو محبوب اپنا۔محبت کرنی ہے تو اُس سرورِ کونین حضرت محمدﷺ سے کرو جو ہماری بخشش کے لیے راتوں کو اٹھ کر روتے تھے۔جو اپنی جلوتوں اور خلوتوں میں ہماری مغفرت کی دعائیں مانگتے تھے۔ارے محبت کرنی ہے تو ضلفائے راشدین سے کرو جو راتوں کو اٹھ کر گلیوں میں گشت کرتے تھے کہ کوئی بھوکا تو نہیں ہے۔محبت کرنی ہے تو اپنے ماں باپ سے کرو جو ہماری خاظر اپنا سکھ چین ہم پہ قربان کر دیتے ہیں۔محبت کرنی ہے تو اپنی بہن سے کرو جو اپنے بھائی کی عزت کی خاطر اپنا آپ قربان کر دیتی ہے ۔محبت کرنی ہے تو اپنے بھائی سے کرو جو اپنی بہن کی آنکھوں میں ایک آنسو نہیں آنے دیتا۔محبت کرنی ہے تو اُس بوڑھے آدمی سے کرو جو سخت گرمی اور سردی میں اپنے ناتواں کندھوں پہ بوری اٹھائے مزدوری کر رہا ہے تاکہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے۔محبت کرنی ہے تو اُس ماں سے کرو جو اپنے بھوکے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اپنی عزتبیچ دیتی ہے۔محبت کرنی ہے تو اپنے رشتہ داروں سے کرو جو آپ کا نارواں سلوک کی وجہ سے آپ کے گھر نہیں آتے۔محبت کرنی ہے تو اُس پڑوسی سے کرو جو رات کو بھوکا سو گیا،جس کے بچے بھوک سے بلکتے رہے۔محبت کرنی ہے تو اُس یتیم سے کرو جو ہماری امداد کا منتظر ہے۔محبت کرنی ہے تو اُس فٹ پاتھ پہ پڑے بچے سے کرو جو پڑھنا چاہتا ہے لیکن وسائل نہہونی کی وجہ سے پڑھ نہیں پایا اور بھیک مانگنے پر مجبور۔محبت تو وہ سمندر ہے جس میں انسان ڈوب کر بھی تیرتا ہے۔جس کے طلاطم میں گم ہو کر وہ اپنی ذات کی نفی کر کے صرف اپنے ب کی رضا کی خاطر محبت کے سمندر میں ڈوب کر دوسروں کے دکھ درد سمیٹ لیتا ہے۔اور وہ اس سمندر سے پھر سر خرو ہو کر نکلتا ہے جس سے نا صرف اس کی دنیا سنورتی ہے بلکہ آخرت بھی سنور جاتی ہے۔یہ ایک دن کی محبت صرف تھوڑی دیر کی لذت کے لیے ہے۔چند دن کی دیناوی زندگی میں کھو کر آخرت کو بھول جانا کہاں کی عقل مندی ہے۔اصل محبت تو اپنے رب سے اور اس کے احکامات کی پیروی کرنے سے ہے۔یہی سیدھا راستہ ہے یہی صراط مستقیم ہے۔آؤ کامیابی کی طرف ،آؤ کامیابی کی طرف۔آؤ روشنی کی طرف۔آخر کار ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ہوس نے کر دیا ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انسان کو
اخوت کا بیان ہو جا ، محبت کی زبان ہو جا
 
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1028296 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.