اللہُ اکبر
(Muhammad Ajmal Khan, Karachi)
انگریز مسلمانوں کے بد ترین دشمن ہیں۔
انہوں نے عرب و عجم سمیت ہر خطے اور ہر نسل کے مسلمانوں پر قریب دو سو سال
حکومت کی اور وہ مسلمانوں کے نفسیات سے بہت اچهی طرح واقف ہیں ۔اسی لئے آج
بھی امریکہ اور دیگرمغربی ممالک جب بھی مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور ریشہ
دوانیوں کی پلاننگ کرتےہیں تو اہل برطانیہ سے مشورہ ضرور کرتے ہیں۔ خاص
کرامریکہ اور اسرائل تو برطانیہ کو شامل کئے بغیرکبھی کوئی قدم نہیں
اُٹھاتے جس کی مثال ہم افغانستان‘ عراق‘ لیبیا وغیرہ میں دیکھ چکے ہیں۔
جب انگریز پوری مسلم دنیا پرقابض ہوئے تو انہوں نے اسلام کو مٹانے کی ہر
ممکن کوششیں کی ۔ اس کوششوں میں انہوں نے
1. علمائے حق کا بے دریغ قتل کیاقتل عام کیا
2. علماؤں پر زندگی تنگ کردی اور محلے کے ٹکڑے پر رکھ دیا
3. علمائے سوء کو آگے بڑھایا
4. مختلف برے القابوں سے نواز کرعلماؤں کا وقار عوام الناس کی نظروں میں
گرایا
5. مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کیا
6. قادیانی وغیرہ اسلام مخالف گروہ بنائے اور انہیں مسلمانوں کا فرقہ گرار
دیا
7. علمائے سوء کے ذریعے بدعات کو فروغ دلوایا
8. جہاد کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں دیں
9. جہاد کے خلاف فتویٰ دلوایا اور جہاد کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی
وغیرہ وغیرہ یہ ساری کارستانیاں انگریزوں نے اپنے دور اقتدار میں کئے ۔
پهر مسلمانوں کو انگریزوں سے آزادی ملی لیکن انگریز جانے سے پہلے ایسا
بندوبست کر گئے کہ مسلمانہمیشہ آپس میں دست و گریباں رہیں اور انکے غلام
بنے رہیں ۔
دشمن چیونکہ مسلمانوں کے جہاد سے ہمیشہ خائف رہتے ہیں اور ہر دور میں
دشمنان اسلام کی یہی کوششیں رہی ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں سے جہاد کو ختم کر
دیا جائے ۔ انگریز اپنی دورِ حکومت میں قادیانیوں اور دیگر علمائے سوء کے
ذریعے فتویٰ دلوا کر جہاد کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن علمائے حق
اور مسلمانوں کی اکثریت ہمیشہ جہاد کا نعرہ بلند کرکے اُن کی کوششوں کو
ناکام بناتے رہے۔
اب جبکہ میڈیا کا دور شروع ہوا اور ساری میڈیا پر یہودیوں کا کنٹرول ہوگیا
تو دشمنانِ اسلام کومسلمان ‘ اسلام اورجہاد کو بدنام کرنے اورختم کرنے کا
ایک سنہرا موقع مل گیا۔
انگریز اپنی دور حکومت میں جن حربوں کو بروئے کار لاکر مسلمان علماؤں کا
وقار عام مسلمانوں کی نظروں میں گرانے میں پوری طرح کامیاب ہوئے تھے ، ٹھیک
انہی حربوں کے ذریعے اس دور میں بڑی پلاننگ کے ساتھ کومسلمان ‘ اسلام
اورجہاد کو بدنام کرنے کی سازش کی گئی۔
جہاد کے نام پرسادہ لوح مسلمانوں کے ذریعے مسلمانوں ہی پر خودکش دھماکے
کروائے گئے اور میڈیا کے زور پر مسلمان‘ اسلام اور جہاد کو بدنام کیا گیا۔
طالبان، القاعدہ اور داعش وغیرہ کو بنایا گیا اور انکے ذریعے جہاد کے نام
پر مسلمانوں کو ہی بربریت کا نشانہ بنایا گیا ... اور ... مسلمان‘ اسلام
اور جہاد کو بدنام کرنے کیلئے میڈیا پر خوب پروپیگنڈا کیا گیا۔
اور اس طرح عام مسلمانوں کی نظروں میں مولویوں کی طرح اس دور میں جہاد کو
بدنام کر دیا گیا ۔
اب معاملہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ جہاں جہاد کو گالی کےطور
پراستعمال کرتا ہے تو دوسرا جہاد کا نام لینے سے بھی ڈرتا ہے۔
پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ ’اللہُ اکبر‘۔۔۔ جسے مسلمان دل و زبان سے اداکر
کے زیادہ تر عبادات کا آغاز کرتے ہیں اسی ’ اللہُ اکبر‘ کا نعرہ لگوا کر
مسلمانوں کا ہی قتل عام کیا گیا اور مسلمانوں کا ہی گلا کاٹا جانے لگا اور
کاٹاجا رہا ہے اوراس کا پرچار بھی میڈیا پر خوب کیا گیا اور کیا جا رہا
ہے۔۔۔ تاکہ مسلمان‘ اسلام اور جہاد بدنام ہو۔
تو جو مسلمان اب جہاد کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں کیاوہ ’ اللہُ اکبر‘
کہنا اور ’ اللہُ اکبر‘ دل و زبان سے ادا کرکے عبادت کرنا بھی چھوڑ دیں گے؟
ہم جانتے ہیں فی زمانہ نہ ہی جہاد (و قتال ) کے شرائط پورے ہورہے ہیں اور
نہ ہی مسلمانوں کے پاس اس کے اسباب ہیں۔
ان شاءاللہ جب بھی شرائط و اسباب پورے ہونگے مسلمان جہاد و قتال کیلئے نکل
پڑیں گے
لیکن اُس سے پہلے جو جہاد ہم کر سکتے ہیں کم از کم اس میں تو کوتاہی نہ
کریں۔
|
|