کھلی تنبیہ
بیٹی مہر افروز کا خواب
اہل دنیا کے لیے
ایک کھلی تنبیہ
مقصود حسنی
کچھ دن ہوئے مجھے ایک خواب آیا اور میں نے کوئی غور نہ کیا کہ میں کون سا
کوئی درویش یا صوفی ہوں۔ ایک عام سا آدمی ہوں۔ ہاں درویشوں صوفیوں اور اہل
فقر کے لیے دل میں عزت احترام اور محبت ضرور رکھتا ہوں۔ یہ خواب سحری قریب
کا تھا۔
میں نے خواب میں دیکھا کہ ان ہی بوسیدہ اور تقریبا پھٹے پرانے سے کپڑوں میں
ملبوس ہوں اور ایک تاحد نظر میدان میں اکیلا کھڑا ہوں۔ میں نے بلند آواز
میں کہا:
لوگو! سنو سنو
کچھ لوگ جمع ہو گئے۔
میں نے کہا: دیکھو اپنے اللہ کی طرف پھر جاؤ اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔
میری آواز ازخود بلند ہو گئی اور چاروں طرف گونجنے لگی۔ پہلے چند پھر اس کے
بعد تاحد نظر لوگ جمع ہو گیے۔
میں میدان میں ہی کھڑا ہوں اور میری آواز سب تک پہنچ رہی ہے۔ آواز اتنی
بلند اور گرج دار کیسے ہو گئی۔ حیرت کی بات تھی۔ میں نے لوگوں کو خبردار
کیا کہ برا وقت آنے کو ہے۔ اس سے پہلے کہ برا وقت آئے جلد اور کسی توقف اور
تساہل کے بغیر توبہ کرکے اپنے اللہ کی طرف پھر جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔
میں نے خواب کو نظرانداز کر دیا کہ بس یہ میرا ایک محض واہمہ تھا۔ سمجھانا
یا کسی قسم کی تنبیہ کرنا تو بڑے لوگوں کا کام ہے جب کہ میں سرے سے کچھ بھی
نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔
مجھے تو خود ہدایت اور راستی پر چلنے کی ضرورت ہے۔ میں کون ہوتا ہوں کسی کو
تنبیہ کرنے والا۔ میری اوقات اور بسات ہی کیا ہے اور یہ بھی کہ میں بھلا
کسی کو کیا ہدایت اور وارننگ دے سکتا ہوں۔
دو روز ہوئے میری پیاری بیٹی مہر افروز نے اپنا خواب سنایا جس کی کڑیاں
میرے خواب سے ملتی ہیں۔ بیٹی مہر افروز حضرت بابا جی قبلہ سید معین الدین
چشتی رح کے گھرانے سے روحانی انسلاک رکھتی ہے۔ وہ ہے بھی درویش اور فقیر
طبع۔
اس نے خواب میں دیکھا
وہ پہاڑ یا چٹان کی چوٹی پر اکیلی کھڑی ہے نیچے ایک دنیا آباد ہے۔ آسمان پر
سیاہ بادل امڈے چلے آتے ہیں۔ نیچے چلتے پھرتے لوگ خرابی کا شکار ہیں۔ وہ
چیخ چیخ کر لوگوں کو خرابی سے باز آ جانے کو کہہ رہی ہے۔ لوگ اسکی آواز پر
کان دھرنے کی بجائے اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ وہ مذاق برداشت کرکے لوگوں کو
راستی کی طرف پلٹنے کو کہے جا رہی ہے لیکن لوگ خرابی سے رک نہیں رہے۔ پھر
آن واحد میں بارش کی بجائے آسمان سے برف کی سلیں گرنا شروع ہو جاتی ہیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے نیچے سوائے ویرانے کے کچھ باقی نہیں بچتا اور آسمان پھر
سے صاف اور شفاف ہو جاتا ہے۔
میں بیٹی مہر افروز کے خواب کو لایعنی اور بےمعنی نہیں سمجھتا اور اس کے اس
خواب کو دنیا کے سامنے لانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ مجھ سے جتنا جلدی ہو سکا
اس کا خواب لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ کہیں میری کوتاہی اور تساہل کے
سبب دیر نہ ہو جائے۔
لوگو! جان رکھو موت برحق ہے ہر کسی کو حقیقی مالک کے پاس جانا ہے یہاں کا
یہاں ہی رہ جائے گا۔ یہاں کا کچھ ساتھ نہ جا سکے گا۔ جتنا جلد ہو سکے توبہ
کی جانب پھرو۔
اللہ سے زیادہ کوئی اور مہربان نہیں۔ وہ سچی توبہ ضرور قبول فرمائے گا۔
اچھائی اور نیکی کا رستہ اختیار کرو۔ انسان کائتات کے لیے ہے۔ اسے خلافت
ارضی ملی ہے۔ اپنی اخری طاقت تک کائنات کی جملہ مخلوق کا بلاتفریق وامتیاز
بھلا کرو۔
سب کا خیال رکھو
جان رکھو تمہارا خیال رکھنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔
خدا کے لیے اپنے اللہ کی طرف پھرو ورنہ جان رکھو آخر کو خسارہ اور پچھتاوا
ہی ہاتھ لگے گا۔ اگر وقت گزر گیا تو واپسی نہ ہو سکے گی۔
اے اللہ! گواہ رہنا کہ میں نے لوگوں تک مہر بیٹی کا خواب پہنچا دیا ہے۔
توبہ کی استدعا کر دی ہے۔ بدی سے باز آنے کو کہہ دیا ہے۔ بھلا کرنے اور
راستی کا رستہ اپنانے کے لیے بھی گزارش کر دی ہے۔
اے اللہ! اپنے اس حقیر اور ناچیز بندے کی توبہ قبول فرما بھلا کرنے اور راہ
راست پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ! میری بیٹی مہر افروز کے دانستہ اور نادانستہ گناہوں اور ہر قسم کی
کمی کوتاہی کو معاف فرما دے۔
اس کے اچھا کرنے کی شکتی میں اضافہ فرما۔ بےشک تجھ سے زیادہ قریب کوئی نہیں
اور تجھ سے بڑھ کر مدد کرنے اور توفیق عطا کرنے والا کوئی نہیں۔ |