ممالک
کی بے تدبیری اور فرعونیت کا بڑھتا ایسا رجحان ہے جس نے آج اس صورتحال کو
ابھرنے کا موقع دیا ہے۔ اسٹیٹ سپونسرڈ ٹیررازم کا بڑھتا قماش ان اندوہناک
واقعات کا سبب جا بنا ہے جب مختلف ریاستیں اپنے شہریوں کی حفاظت کی بجائے
خانہ جنگی کی افراتفری کو پنپنے دیں اور اس کے لوگوں کومختلف ممالک میں
پناہ حاصل کرنی پڑے اور دوسری ریاستیں بندوبست میں ناکام رہیں تو یہ انسان
بلِک بلِک کر موت کے منہ میں ہی جاتے ہیں ۔شام کی حالیہ جنگ ایک بہت بڑا
انسانی المیہ ہے یہ وہ گھاؤ ہیں جنہیں مندمل ہوتے بہت سا وقت لگے اب تک دس
لاکھ سے زائد گھر تباہ ہوچکے ہیں اس حوفناک جنگ کے باعث لاکھوں لوگ مختلف
ممالک میں پناہ لیئے ہوئے ہیں جن ملکوں کے پاس باافراط وسائل ہیں بھی وہ
ممالک بھی ان لوگوں کو کسی بھی قسم کے حقوق دینے سے گریزاں ہیں ۔ حقوق تو
درکنار انہیں انسانی قدروں میں بھی نہیں پرکھا جاتا یہ حیوان سی زندگی بسر
کرنے پر مجبور ہیں عدم بنیادی سہولیات کے باعث پناہ لینے کے لیے گئے ہزاروں
لوگ موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ورلڈ اکنامک فارم نے ایک نام نہاد سروے کیا
اور کہا کہ چاہے انتظام اچھا نہیں مگر کوئی ملک ایسا نہیں جو مہاجرین کے
لئے بارڈر بند کردیتا ہو۔ مگر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں ملک اپنی حرص
کو انسانی جانوں پر مقدم رکھ کر انہیں بے آسرا چھوڑ دیتے ہیں۔ یو این بھی
اس مسئلے پر سمٹ بلا چکا پر کسی نتیجے اور حل پر نہ پہنچ سکا ہے اور کچھ
عملی طور پر کرنے سے عاری ہے حتیٰ کہ خیر سگالی مہم چلانے والے بھی بے بس
نظر آتے ہیں اور فل الحال سوشل میڈیا تک ہی محدود ہیں۔ کچھ ملک ایسے بھی
ہیں جو حالات کی کشیدگی برقرار رہنے کے باوجود اپنے پاس قیام کے لئے آئے
لوگوں کوزبردستی واپس جانے پر مجبور کر رہے ہیں اور صد افسوس کے عالمی بینک
کی جانب سے امداد کے اعلانا ت بھی بے سود رہے ہیں اور طور طریقہ بے ہنگم
ہے۔پناہ لئے ہوئے لوگوں کا استحصال مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے اور یہ لوگ بے
تقصیر کرب بھگتتے چلے جارہے ہیں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو سولہ لاکھ سے
زائد پناہ گزیں سموئے ہوئے ہے اور انہیں بھرپور مساوی حقوق بھی فراہم کرتا
ہے دیارغیر سے آئے تارکین وطن کی مکمل داد رسی کرتا ہے انہیں ذلیل و رسواء
نہیں کرتا۔ایک ملک ایسا بھی ہے جس نے سرحد پر روک تھام کا بندوبست کر کے
خانہ جنگی سے لڑتے ہزاروں لوگوں کی بہیمانہ طور پر جانیں لے لیں۔ شام میں
چھے برسوں سے جاری خانہ جنگی نے لگ بھگ ایک کروڑ افراد کو نقل مکانی کرنا
پڑی ہے اور جان بچانے کے لئے انہیں اپنے اثاثہ جات سے فراق کرنا پڑا مگر
آگے بھی بربریت کے کالے بادل ان کے سروں پر منڈلاتے رہے ۔ قارئین کرام آج
کا میرا موضوع بہت ہی اہم پیرائے کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ اس قدر دقیق ہے
کہ رونگٹے کھڑے ہوجائیں ظلم کی واشگاف داستان ہے جو پچھلے کئی برسوں سے بیش
بہاسر اٹھا چکی کہ اسکا خمیازہ لاکھوں جانوں کو بھگتنا پڑا ہے ۔ آج یہ بحث
چھڑی ہے کہ حیاء ڈے منائیں یا سینٹ ویلنٹائن مگر میں دونوں کو ہی نہ منانے
کا اعادہ کرتا ہوں اور وہ اس لئے کہ سارا سال ہی حیاء کی پاسداری کی جانی
چاہیے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مغرب کی تقلید میں امت مسلمہ کا محن و
دردبھلا بیٹھے ہیں اور بے حس ہوتے چلے جارہے ہیں (جاری ہے) |