خدا سب کو شادی سے ہم کنار کرے
(A Waseem Khattak, Peshawar)
شادی
شدہ اور کنواروں کے درمیان ایک شادی کا فرق ہوتا ہے جب بھی ملتے ہیں دونوں
ایک دوسرے کو آہ بھری نگاہو ں سے دیکھتے ہیں شادی شدہ شخص کے زبان پر بس
ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ خدا تمھیں لذت آشنا کرے کنوارے شادی شدہ کو قابل رشک
سمجھتے ہیں اور شادی شدہ کنواروں کو رشک کے قابل سمجھتے ہیں کیونکہ یہ وہ
واحد لڈو ہے جو کھانے والا کھا کر پچھتاتا ہے اور نہ کھانے والا نہ کھا کر
پچھتاتاہے جو کھاتا ہے وہ عمر بھر اس کی کڑواہٹ کو باہر نکالنے سے قاصر
ہوتا ہے ٹھنڈی ٹھنڈی معطر چھاؤں جو روح کا سائبان ہوتے ہیں بندہ اس چھاؤں
سے محروم ہوجاتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ شادی کرنے والا اپنے پیروں پر خود ہی
قبول ہے قبول ہے قبول ہے کرتے ہوئے کلہاڑی مار لیتا ہے بلکہ اپنی تکہ بوٹی
کر لیتا ہے جس سے اچھا خاصا بے فکرا ، ہنس مکھ انسان بے چارگی کی کیفیت کا
شکار ہوجاتا ہے بہاریں جن کے قدموں پر مسکاتی ہیں محفلوں میں جن کا راج
ہوتا ہے وہ اس شادی سے تاراج ہو جاتا ہے جب تمام حسینائیں طواف کرتی ہیں
مگر پھر ایک کا طواف کرنا بھی بھاری پڑجاتا ہے اگر کبھی کسی حسینہ کی طرف
نظر گئی تو جواب آئے گا اسے مسکرا کر کیوں دیکھا؟ فلاں کے بچے کو پیار کیوں
کیا؟ دیوار کی طرف منھ کر کے کیوں نہیں بیٹھے؟ غرضیکہ آزادی کی ایک ایک
سانس کو ترس جانا مقدر بن جائے گا شاددی کے پہلے دن زلفوں کا جال ریشمی
محسوس ہوتا ہے لیکن اس کے بعد سے بتدریج یہ نائلون کا مضبوط جال بن کر
الجھتا جاتا ہے جو سانس محال کر دیتا ہے شادی چار دن کی ایسی چاندنی ہے کہ
اس کے بعد اماوس کاگھور اندھیارے ہی نصیب بن جاتے ہیں۔ ابھی جو شیرینی
بکھیرتی آواز ہے، جو حیا آمیز جھکی نظر ہے، جو تسلیم و رضا کی ادائیں ہیں؛
سب مہیب جال ہییہ ادائیں، یہ سب دکھاوا ہے۔ شادی کے بعد ہی یہ جھکی ہوئی
نگاہ اٹھتی ہے اور ایسی شعلہ بار ہوتی ہے کہ اس کی چنگاریاں خرمن دل کو
خاکستر کر دیتی ہیں۔ یہ شیریں سخنی، کم آمیزی، شوخی و شرارت، ناز و عشوے کب
بدمزاجی، کرختگی، ہٹ دھرمی، سفاکی میں بدل جاتے ہیں پتا بھی نہیں لگتا اور
آزاد پنچھی کے پر کترے جاتے ہیں جب بیوی زندگی میں آتی ہے تو سمجھو آپ کی
مرضی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ آپ کا پہناوا، انداز، چال ڈھال، ہیئر اسٹائل،
داڑھی مونچھ سب بدل جاتے ہیں۔ دوست احباب، رشتے دار، تعلقات سب کی موت واقع
ہوجاتی ہے۔ نہ مرضی سے کھایا جاسکتا ہے نہ جایا جا سکتا ہے نہ سویا جاسکتا
ہے نہ جاگا جا سکتا ہے ، نہ کسی سے بات کی جاسکتی ہے شادی کے بعد ساری
معمولات تتر بتر ہوجاتے ہیں برش کرنے پر کڑی نگاہ، والٹ اور موبائل کی
بلاناغہ تلاشی، لباس پر نادیدہ بال تلاشنے کی کوشش کی جاتی ہے۔شادی کے بعد
اپنے والدین بہن بھائیوں سے اجنبی ہونالازمی ہے۔ جبکہ بیوی کے خاندان والوں
سے رابطے بڑھانے مقصود ہوتے ہیں گھر میں داخل ہوتے ہی سب کی شکایتیں لازمی
جز ہیں ان شکایتوں کے ردعمل میں خاموش بھی نہیں رہنا بلکہ اپنی محدود آمدن
کے باوجود کرائے کا گھر لے کر والدین کو چھوڑنا بھی ضروری ہے۔ گلے شکوے بھی
سننے ہیں اور مہنگے تحفے بھی دینے ہیں اسی طرح اگر دیکھا جائے تو لڑکیوں کے
لئے بھی شادی کسی آفت سے کم نہیں ہوتی، وہ گھر میں دیر سے اٹھنا ، کوئی کام
نہ کرنا، بھائی بھابھیوں سے لڑنا، ماں باپ کی لاڈ کی وجہ سے سب کا خاموش رہ
جانا ، سہلیوں کے گھروں میں جاکر خرمستیا ں کرنا ، عید کی راتوں میں
،شادیوں میں ناچ گانا ، سب کچھ شادی ہونے کے بعد ایک خواب بن جاتا ہے جو
آزادیاں شادی سے پہلے نصیب ہوتی ہیں وہ ماں باپ کی راج دلاری ہونا، مگر
شادی ہونے کے بعد کوئی چونچلہ نہیں چلتا لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لئے
بھی شادی کا بس ایک نام ہی سہانا ہے اور سچ کہا ہے کسی نے کہ بس حقیقت میں
شادی چار دن کی چاندنی ہے ، چار دن توجہ ملے گی، نئی نئی بیوی کے ناز نخرے
ہوں گے سسرال والے سر انکھوں پر بٹھائیں گے مگر یہ عمر انتہائی مختصر ہوتی
ہے ہنی مون کا سفر اختتام پذیر ہوتے ہی زندگی کا یہ سہانا سفر تلخ راستوں
پر گامزن ہوجاتا ہے جس طرح لڑکوں کی نہ دن اپنا ہوتا ہے نہ رات اپنی ہوتی
ہے اسی طرح لڑکیوں کے لئے بھی شادی کے بعد تو نہ دن اپنا نہ رات، نہ اپنی
خوشی نہ اپنی ہنسی، نہ مرضی کے پہناوے نہ مرضی کے کھانے، نہ موج مستی نہ
ہلا گلا۔ ماں باپ کی لاڈلی جس کے ایک اشارے پر بستر پر سب لوازمات موجود
ہوتے اور ایک یہ دن گھر بھر کی باندی۔ کسی کو چائے دینی ہے کسی کو پانی،
درجن بھر روٹیاں بھی پکانی ہیں اور چار چار کلو آٹا بھی گوندھنا ہے۔ آئے دن
سسرالیوں کی دعوتیں اور سارے مسالے ہاتھ سے ہی پیسنا، برتنوں کے انبار
دھونا اور ڈھیروں ڈھیر کپڑے دھونا۔ اور ان سب خدمتوں پر بھی ساس نندیں
نالاں اور شوہر بے زار۔ سارا دن کام میں لگی رہنا نہ بننے سنورنے کا وقت
ملنا نہ خود پر توجہ دینے کا وقت۔ شوہر کو شادی سے پہلے والی سجی سنوری
ریشمی سلکی بیوی چاہیے ہوتی ہے تو ساس کو اسی روپ سے نفرت ہوتی ہے ۔ ساس
صاحبہ کو بس جمکتا ہوا گھر چاہیئے ہوتا ہے ، اور اس کی جوانی کے قصے سننے
ہوتے ہیں جو اگر بہو نہ سنے تو پھر بیٹے صاحب کے کان بھرے جاتے ہیں اور پھر
رائی کا پہاڑ بنا یا جاتا ہے ، جب میکے جانے کی بات آتی ہے تو جان پر بن
آتی ہے دوسری جانب میاں صاحب گھر سے باہر اور خاص کر شادیوں میں یعنی پرائی
شادیوں میں دوسروں کی بیویوں کو چوری چوری تکنے اور نوجوان لڑکیوں کو چھپ
چھپ کر دیکھنے میں مصروف پائے جاتے ہیں بلکہ اسے اپنا فرض عین سمجھتے ہیں
وہ جو دبلی پتلی سی حسین وجمیل ہوتی ہے وہ ایک موتی تازی عورت کا روپ دھار
لیتی ہے کیونکہ شادی کے بعد لگاتار چار بچوں کی پیدائش ساری دلکشی چھین
لیتی ہے ۔ شوہر نامدار کو اس بات کا کبھی بھی کوئی احساس نہیں ہوتا کہ کیسی
گڑیا سی لڑکی بیاہ کر لائے تھے چھوئی موئی سی اور اب اسکا کیا حال کر دیا
ہے ہر وقت شادی کے سے پہلے سہیلیوں سے ملنا، لائبریری جانا، کتابیں پڑھنا،
سنیما جانا ، کزن کے ساتھ گھنٹوں گپیں لگانا ، موسیقی کے کنسرٹ سب خواب
ہوجاتے ہیں رہ جاتے ہیں تو صرف دن رات کے جھمیلے رہ جاتے ہیں سسرال والوں
کے چونچلے اٹھانے میں عمر بیت جاتی ہے اور اپنی قدرو ومنزلت بڑھانے کے لئے
نت نئے حربے سوچتے شب و روز گزرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ دنیا کا دستور ہے
کہ مرد اور عورت شادی کرلیتے ہیں خواہ انہیں اوپر ساری باتوں کا پتہ ہی
کیوں نہ ہو، ان کی آزادی سلب ہی کیوں نہ ہو ، انہیں دوستوں اور سہیلیوں سے
بے تحاشہ محبت ہی کیوں نہ ہو، اپنا گھر اپنے لوگ پیارے ہی کیوں نہ ہوں،
انہیں ساس کی جھڑکیاں سننے کو ہی کیوں نہ ملے، انہیں ساس اور سالوں کے نخرے
ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے، لڑکے اوارہ گردی سے توبہ تائب کیوں نہ ہوجائیں ،
لڑکیاں گھر میں آرام کی زندگی چھوڑ کر سسرال میں صبح سویرے لنگر کیوں نہ
شروع کرے، انہیں شادی کا ذائقہ چکھنے میں کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑتی، وہ
کسی نہ کسی موڑ پر شادی کے لئے آمادہ ضررو ہوتے ہیں اور اس لڈو کو ضرور بہ
ضرور چکھتے ہیں جس کی کڑواہٹ تاعمر منہ سے نہیں جاتی، میں تو کہتا ہوں کہ
ہر شخص کو شادی کرنی چاہیے کیونکہ ہم جو ڈوبے ہیں تو خدا سب کو اس سمندر
میں غوطہ زن کرے اور ایسا غوطہ زن کرے کہ ان کی واپسی ہی نہ ہو، اگر اب بھی
اپ کو شادی کرنی کی پڑی ہے تو بہ شوق و بہ رضا ورغبت شادی کرلینی چاہیئے
تاکہ آپ کو بھی معلوم ہوجائے چہ سیر نا سو پخیگی |
|