وہ بھی وہی تھا‘‘لوگ بھی وہی تھے‘‘بس اب لوگوں کے رویے بدل چکے تھے‘‘شاید اس لیے کہ اب اس کی حیثیت بھی بدل چکی تھی‘‘اب وہ کوئی عام معمولی کم سن لڑکا نہیں ریا تھا‘‘بلکہ امریکن نیشنلٹی والا ایک بھر پور نو جوان تھا‘‘ لوگ اسے نہیں اس کے بینک بیلنس کو سلام کرتے ہیں‘‘اور یہ صرف وہی جانتا تھا کہ کتنی محنت کی ہے اس نے یہاں تک پہنچنے کے لیے‘‘ صبح آنے والی کال پر وہ خاصا الجھا ہوا تھا‘‘ پاکستان سے پھوپھو کی کال تھی‘‘ بڑی یاد آرہی تھی انہیں اس کی‘‘ سوچ کر اسے ہنسی بھی آئی‘‘پاس تھا تو کبھی پیارنہ آیا‘‘اب ٹوٹ کر پیار آرہا تھا‘‘عجیب باتیں‘‘عجیب لوگ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر وقت آہ و بکاہ تھی‘‘بلکل ویسی جیسی عموماَان گھروں میں ہوتی ہے‘‘جہاں موت آکر گزر جائے‘‘ ایک کونے میں بیٹھی مایا نے گھٹنوں سے سر اوپر اٹھایا‘‘ اسے لگا شاید یہ بھی اس خواب کا حصہ ہو‘‘جو کل رات اسکی آنکھوں نے دیکھا‘‘ اگر مجھے پتا ہوتا‘‘کہ رات کے اندھیرے میں دیکھےگئے خواب کی تعبیر دن کے اجالے میں اتنا درد ناک ہو گی‘‘تو شاید میں اس رات سوتی ہی نا‘‘جڑنے ہی نہ دیتی‘‘پلکوں کو‘‘کہ وہ خواب بن سکے‘‘ زارو قطار روتی ہوئی وہ خود کو کوس رہی تھی‘‘ مایا‘‘آؤ بیٹا‘‘آخری بار دیکھ لو پاپا کو‘‘بڑی اماں کی آواز پر اس نے چونک کران کی طرف دیکھا‘‘ اور ان سے لپٹ کر رونے لگی‘‘ چلو بیٹا اٹھ جاؤ‘‘ تدفین کا وقت ہو رہا ہے‘‘بڑی امی نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھانا چاہا‘‘ نہں بڑی امی‘‘اتنا حو صلہ نہیں میں‘‘ کہ اپنے سب سے انمول رشتے کو اپنے سامنے رخصت ہوتا دیکھ سکوں‘‘پاپا تو یہ جانتے بھی تھے‘‘کہ انکی بیٹی کتنی کمزور ہے‘‘بلکل بھی ہمت نہیں اس میں‘‘پھر بھی کیسے چلے گئے وہ اتنی بے فکری سے‘‘پاس بیٹھے سبھی لوگ اسے بلکتا دیکھ رونے لگے‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو یار آج باہر سے کچھ کھا آتے ہیں‘‘موڈ نہیں گھرپر کچہ بنانے کا‘‘شفیق نے سستی سے کہا‘‘ اچھا!میں پہلے نماز پڑھ لوں‘‘پھر چلتے ہیں‘‘باسط نے اٹھتے ہوئے کہا‘‘ کبھی کبھی مجھے تجھے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے‘‘وہ جائےنماز سے اٹھاتو شفیق نے کہا‘‘ جتنا بھی کام ہو‘‘تھکاوٹ ہو‘‘کبھی تجھے نماز چھوڑتے نہیں دیکھا‘‘شفیق نے کہا تو وہ بس مسکرا دیا‘‘کیسے بتاتا اسےکہ نماز ہی تو اس کی تھکن اتارتی ہے‘‘
دونوں چلتے ہوئے باہر آ گئے‘‘ شفیق ارد گرد گزرتی لڑکیوں کو دیکھنے کے شغل
میں تھا‘‘اسے شفیق کی یہ عادت بہت بری لگتی تھی‘‘ایک دو بار منع بھی
کیا‘‘پر اس پر کوئی اثر نہیں‘‘(جاری ہے) |