“وہ
سمجھتا کیا ہے خود کو ؟ مجھے آج تک کسی نے ایسے نہیں ڈانٹا جیسے یہ ڈانٹ
جاتا ہے ،،،،،خود کو کوئی اعلیٰ قسم کی مخلوق سمجھتا ہے ،،،،،مجھے نہیں
کرنی اس سے شادی ،،،،،بد تمیز انسان ،،،،میں خود صبح آنٹی کو شادی سے انکار
کردوں گی “ ،،،،وہ خود سے باتیں کرتی روتی جا رہی تھی ،،،،اگر نیند اس پر
مہربان نا ہوتی ،،،تو شاید پوری رات وہ روتی رہتی ،،،،،
اگلے دن وہ صبح ہی آنٹی کے کمرے میں رات کی کہی گئی بات کو انجام دینے پہنچ
گئی ،،،،،،،،، “ کہاں جا رہی ہیں آنٹی “ وہ شازمہ کو صبح صبح تیار ہوتا
دیکھ کر پوچھے بنا نہ رہ سکی،،، “ نائلہ آنٹی یاد ہے ؟ ان کی طرف جا رہی
ہوں “ شازمہ نے خود پر ڈھیر سارا پرفیوم چھڑکتے ہوئے کہا،،،،،،نائلہ کا نام
سنتے ہی ،،،اسے ایک مہربان چہرہ یاد آیا ،،،،وہ انہیں یہاں آکر بھول ہی تو
گئی تھی ،،،جبکہ نائلہ کی ہی وجہ سے وہ اپنی آنٹی تک آ پائی تھی ،،،اسے
انکا شکریہ ادا کرنا بھی یاد نہیں رہا تھا،،،، “آنٹی میں بھی چلو آپکے ساتھ
؟،،،،،،،،،،،کیوں نہیں بیٹا بلکہ وہ آپ کو اکثر یاد کرتی ہوتی ہے ،،،،،آپ
تیار ہو جاؤ ہم ناشتے کے بعد چلتے ہے“،،،،،،،،،،،حسنہ اثبات میں سر ہلا کر
تیار ہونے چلی گئی ۔ وہ یہاں کیا کرنے آئی تھی اسے بلکل بھی یاد نہیں رہا
تھا ،،،،،
وہ دونوں ناشتے کے بعد اب نائلہ کی طرف موجود تھی ،،،،نائلہ حسنہ کو مل کر
بہت خوش تھی ،،،جس گرم جوشی سے نائلہ حسنہ کو ملی تھی اس سے با خوبی اندازہ
لگایا جا سکتا تھا،،،“او ہو ،،،ایک تو والی نے بڑا تنگ کیا ہوا ہے ،،،،
شازمہ نے فون بند کرتے ہوئے بڑبڑاتے انداز میں کہا ،،،،وہ اور نائلہ باتوں
میں مصروف تھی جب آفس سے کال آئی ،،،“ کیا ہوا سب خیریت ؟ “ نائلہ نے تشویش
سے پوچھا،،،، “ہاں سب ٹھیک ہے پر،،،ایم سوری مجھے ابھی جانا ہوگا ،،،،والی
رضا نے آفس میں کسی کے ساتھ جھگڑا کیا ہے ایک تو میں اس لڑکے سے بہت تنگ
ہوں ،،،،حسنہ بیٹا آپ یہاں رکو گی ،،یا ڈرائیور کو واپس بھیجوں تاکہ آپکو
گھر چھوڑ آئے،،،،،،،،،،،اس نے جاتے جاتے جلدی سے پوچھا ،،،،،“ تم چلی جاؤ
اسکو میں شام کو چھوڑ آؤں گی ،،،نائلہ نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا اس
نے بھی ہاں میں گردن ہلا دی ،،،،،شازمہ مطمین ہوکر آفس چلی گئی ،،،،،(جاری
ہے )
|