بانو قدسیہ :کس سمت لے گئیں مجھے اس دِل کی دھڑکنیں
(Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana, Jhang)
پاکستان میں اردو ادب میں تانیثیت کی چاندنی ماند پڑ گئی اور اردو ادب کا
ہنستا بولتا چمن جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں کی زد میں آ گیا ۔اردو فکشن
کی وہ شمع فروزاں ہمیشہ کے لیے گُل ہو گئی جو سفاک ظلمتوں میں حوصلے اور
اُمید کی تابانی کی نقیب تھی۔زندگی بھر سماج اور معاشرے میں رو نما ہونے
والی کہانیاں زیبِ قرطاس کرنے والی ابد آشنا اسلوب کی حامل ادیبہ بانو
قدسیہ کی زندگی کی کہانی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ وہ جری ادیبہ جس نے
زندگی بھر عورت کے عزم و ہمت کی داستان رقم کی پیمانۂ عمر بھرکرراہِ رفتگاں
کی جانب سدھار گئی۔ اپنے لافانی اسلوب کے اعتبار سے بانو قدسیہ جتنی بڑی
ادیبہ تھی،شخصیت اوروقار کے لحاظ سے اتنی ہی عظیم خاتون بھی تھیں ۔وہ خاتون
جس نے سات عشروں کے دوران انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا نصب العین
بنا کر پرورش لوح و قلم کو اپنا شعار بنا یا ہماری بزمِ وفا سے اُٹھ کر راہِ
فنا پر چل پڑیں۔دنیا بھر کی خواتین کے مسائل پر کُھل کر لکھنے والی حریت ِ
فکر کی اس مجاہدہ نے جو طرزِ فغاں اپنائی وہ آنے والی نسلوں کے لیے
کئیصدیوں تکمشعلِ راہ ثابت ہو گی ۔اجل کے بے رحم ہاتھوں سے جدید اُردو فکشن
میں تانیثیتی ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی ۔وطن ،اہلِ
وطن اور پُوری انسانیت کے دِل کی راحت اور سکون کی تمنا کرنے والی ادیبہ
حرکتِ قلب بند ہوجانے کے باعث دائمی مفارقت دے گئی۔اٹھائیس نومبر 1928 کو
فیروز پور (بھارت ) کے ایک عیسائی گھرانے سے علم و ادب کی روشنی کے فقید
المثال سفر کا آغاز کرنے والی یہ راسخ العقیدہ مسلمان اور عظیم محب وطن
پاکستانی ادیبہ چار فروری 2016کی شام لاہور میں ردائے خاک اوڑھ کر ابدی
نیند سو گئی۔ حریتِ ضمیر سے جینے کی روش اپنانے والی اس فرض شناس،باوقار
اور با ضمیر ادیبہ نے اپنی تخلیقی کامرانیوں سے جریدۂ عالم پر اپنا دوام
ثبت کر دیا ۔ تقدیر اور وقت کا اس سے بڑا سانحہ کیا ہو گا کہ علم وادب کی
کہکشاں سے وہ آفتاب و ماہتاب اور نیر تاباں مسلسل غروب ہو کر عدم کی وادیوں
میں اوجھل ہوتے چلے جا رہے ہیں جن کے دبنگ لہجے سے مہیب سنا ٹے ختم ہوئے ،جن
کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتیں کا فور ہوئیں اور ہر طر ف علم و ادب کا
اُجالا پھیلا۔یہ ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن المیہ ہے کہ کافی عرصے سے افقِ
ادب پر کوئی نیا ستارۂ سحر طلوع ہو کر ٹمٹماتا دکھائی نہیں دیتا ۔بانو
قدسیہ نے اُردو ادب میں اخلاقیات ،تانیثیت ،روحانیات اور اقدارِ عالیہ کو
مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا ۔ قحط الرجال کے موجودہ
دور میں ایسی نابغۂ روزگار ادیبہ کے اُٹھ جانے کی خبر سن کر ہر شخص کا دِل
بیٹھ گیا اور ادبی دنیا سے وابستہ ہر شخص کا دِل سوگوار اور آنکھ اشک بار
دکھائی دینے لگی۔ بانو قدسیہ کی تخلیقی تحریروں میں نسائی جذبات اورزندگی
کی درخشاں اقدار و روایات کو تصوف سے ہم آہنگ کر نے کی جوسعی موجود ہے وہ
اسلوب کی ندرت اور انفرادیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے ۔ یہاں یہ امر
قابل توجہ ہے کہ بانو قدسیہ نے تانیثیت کو مردوں سے تصادم کی راہ پر گامزن
ہونے سے روکا اور مردو اور خواتین کو باہمی احترام اور مساوی بنیادوں پر
مصروف عمل رہنے کی راہ دکھائی ۔
بانو قدسیہ کا تعلق ایک ممتاز علمی وا دبی خاندان سے تھاجس نے تحریک
پاکستان میں بھر پور حصہ لیا ۔ان کے والد بد ر الزماں نے زرعی سائنس میں
گریجویشن کی اور پبلک سیکٹر کے ایک بڑے زرعی فارم کے مہتمم کی حیثیت سے
خدمات انجام دیتے رہے ۔ جب بانو قدسیہ ساڑھے تین برس کی تھیں تو ان کے والد
عالم شباب میں اکتیس سال کی عمر میں وفات پا گئے ۔ تقدیر کی تو پہچان ہی
یہی ہے کہ وہ ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے ۔بانو
قدسیہ کی والدہ ذاکرہ بیگم نے ستائیس سال کی عمر میں بیوگی کی چادر اوڑھ لی
اور مشیتِ ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ اس خاتون نے تقدیر کے ستم
سہہ کر صبر و تحمل سے اپنے دو کم سِن بچوں کی پرورش پراپنی توجہ مرکوز کر
دی۔ان کی دلی خواہش تھی کہ اپنے ننھے بچوں کو آلام ِ روزگار کی تمازت سے
محفوظ رکھیں تاکہ یہ گُلِ نو شگفتہ گلشنِ ہستی کو اپنی عنبر فشانی سے معطر
کر دیں۔ایک صابر و شاکر ماں کی حیثیت سے ذاکرہ بیگم نے اپنے بیٹے پرویز اور
بیٹی بانو قدسیہ سے اپنا مستقبل اور بقیہ زندگی وابستہ کر دی اور اپنے
ارمانوں کو اپنے دِل میں ہمیشہ کے لیے سموئے صبر و استقامت کی تصویر بن
گئیں۔ اپنے ملبوسِ حیات سے ایک بڑا ٹکڑا قطع کر کے اپنے جگر گوشوں کے چاک
دامن کو رفو کرنے کا نام ہی مامتا ہے ۔ہر ماں اپنی اولاد کو یہ عطیہ دے کر
اس ایثار کو فراموش کر دیتی ہے تا کہ صبح تمنا کی منتظر کم سِن اولادکی
زندگی کی دُھندلی صبح کو درخشاں کیا جا سکے۔ ذاکرہ بیگم نے اپنے یتیم،ہو
نہار اور کم سِن بچوں کی تعلیم و تربیت میں گہری دلچسپی لی اور انھیں ذرے
سے آفتاب بننے کے مواقع فراہم کیے ۔بغض و عناد ، وہم و گماں ،محرومی اور
مایوسی کی حرم سرا میں زندگی جیسی متاع بے بہا کو ٹھہرا نا گھر پھونک کر
تماشا دیکھنے جیسی مہلک غلطی ہے۔ذاکرہ بیگم نے شکستگی اور کر ختگی کی لرزہ
خیز اور اعصاب شکن یادوں سے گلو خلاصی حاصل کر کے اپنی اولاد سے بے لوث
محبت کو زادِ راہ بنایا اور اپنے بچوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل
بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ بانو قدسیہ کے بھائی پرویز نے فن ِ مصوری میں نام
پیدا کیا جس کا چند برس قبل انتقال ہو گیاتھا۔
بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم دھرم شالہ سکول فیروز پور(بھارت) سے حاصل کی۔
بانو قدسیہ نے کم عمری ہی میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔جب وہ
پانچویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں ،اس وقت سے ان کی کہانیاں بہت مقبول ہو
گئی تھیں ۔قیام پاکستان کے بعد بانو قدسیہ کے خاندان نے ارضِ پاکستان منتقل
ہو نے کا فیصلہ کیا اور لاہور میں قیام کیا ۔ بانو قدسیہ نے اسلامیہ کالج
،لاہور سے انٹر میڈیٹ کیا اور سال 1949میں کینیرڈ کالج لاہور سے بی۔اے کیا
۔ تخلیقِ ادب سے انھیں گہری دلچسپی تھی ، بانو قدسیہ کا پہلا افسانہ ’’
واماندگی ٔشوق‘‘ زمانہ طالب علمی ہی میں سال 1950میں لاہور سے شائع ہونے
والے ممتاز ادبی مجلہ ’’ادب لطیف ‘‘میں شائع ہوا ۔سال 1951میں بانو قدسیہ
نے گورنمنٹ کالج ،لاہور میں ایم۔اے اردو میں داخلہ لیا اور یہیں سے ایم۔اے
اردو کیا ۔ممتاز ادیب اشفاق احمد اسی ادارے میں ان کے ہم جماعت تھے۔سال
1956میں بانو قدسیہ نے اشفاق احمد سے شادی کر لی اور اسلام قبول کر لیا ۔
اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لینے والے اس نو بیاہتا
جوڑے نے گیسوئے اُردو کے نکھارنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔نمود و نمائش
اور شہرت و ناموری کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے اس با صلاحیت ادبی جوڑے نے
سدا عجز و انکسار کو زادِ راہ بنایا۔ دونوں کی سوچ یکساں تھی اور زندگی کا
لائحۂ عمل بھی ایک جیسا تھا ۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اشفاق احمد نے اپنے
نام کے ساتھ ’’ خان‘‘ لکھنا ترک کر دیا جب کہ بانو قدسیہ نے ذات پات کے
منفی تصور سے نجات حاصل کر لی اور اپنے نام کے ساتھ چٹھہ لکھنا چھوڑ دیا۔
ان درد آشنا ادیبوں نے دُکھی انسانیت کی خدمت کے سلسلے میں سدا روح بلالیؓ
کو حرزِ جاں بنایا ۔اس کے صلے میں قدرت کاملہ کی طر ف سے انھیں جو قبول عام
کی سند ملی اس کے وسیلے سے انھوں نے اقلیمِ ادب میں اپنے عقیدت مندوں
،مداحوں اور علمی و ادبی دنیا سے وابستہ افراد کے دلوں پر شانِ سکندری کے
ساتھ راج کیا ۔ احباب کے ساتھ ان کے پُر خلوص ،بے لوث، مثبت اورتعمیری سلوک
کا ایک عالم معترف تھا جس کے جواب میں انھیں بھی اسی نوعیت کے سلوک کا
مستحق سمجھا جاتا تھا۔ شادی کے بعددونوں نے مِل کر ادبی مجلہ’’ داستان گو
‘‘کی اشاعت کا آغاز کیا جو چار سال تک باقا عدگی سے شائع ہوتا رہا مگر بعض
نا گزیر مسائل کے باعث کچھ عرصہ بعد یہ مجلہ اپنی اشاعت کا سلسلہ جاری نہ
رکھ سکا۔ اشفاق احمد کے ساتھ کامیاب شادی کے ساتھ ہی بانو قدسیہ کی خوابیدہ
ادبی صلا حیتوں کو صیقل کرنے اور ان کی تخلیقی فعالیتوں کو صحیح سمت عطا کر
کے ان کی عظیم شخصیت کی تکمیل میں مدد ملی علم و ادب کی دنیا کا یہ مثالی
جوڑا ساٹھ سال تک پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہااور پُوری دنیا میں جدت
فکر کی آئینہ دار اپنی فقید المثال تخلیقی کامرانیوں کی دھاک بٹھا دی۔ ایسا
محسوس ہوتا تھا کہ دونوں جنم جنم کے ساتھی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے لیے
لازم و ملزوم ہیں۔ با نو قدسیہ کے تین بیٹے ہیں جو مختلف شعبوں سے وابستہ
ہیں اور ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں۔بانو قدسیہ کی علمی ،ادبی ،قومی
اور ملی خدمات کادنیا بھر میں اعتراف کیا گیا۔دنیا بھر کے ادیب ان کے معتقد
تھے اور انھیں ’’بانو آپا ‘‘کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ بانو قدسیہ نے عملی
زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی خدادا صلاحیتوں ،تخلیقی کامرانیوں اور ہر مر حلۂ
زیست پر اپنی عظمت کے انمٹ نقوش ثبت کیے ۔وہ ایسی ہفت اختر شخصیت کی مالک
نابغۂ روزگار ادیبہ تھیں جس کے متعدد رنگ تھے جن میں سعادت مند بیٹی، ہو
نہار طالبہ، ابد آشنا اسلوب کی حامل فقید المثال ادیبہ،فرماں بردار اہلیہ
،اپنی اولاد کی مونس و غم خوار والدہ،سادہ اور باوقار زندگی بسر کرنے والی
عورت،انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے سر گرم عمل رہنے والی حریت فکر و
عمل کی مجاہدہ،جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حق گوئی وبے باکی کو شعار بنانے
والی سماجی کا رکن،وطن اور اہلِ وطن سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ر
کھنے والی مصلح کا آہنگ دیکھ کر قاری حیر ت زدہ رہ جاتا ہے کہ ہمارے خاکستر
میں کیسی چنگاری موجود تھی۔
زمانہ طالب علمی ہی سے اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے ،ایک شان
استغنا کے ساتھ داستان سرائے میں انجمن خیال آراستہ کرنے کی دُھن میں پرورش
لوح و قلم کو اپنا نصب العین بنانے والی اس ادیبہ کی آواز لمحات نہیں بل کہ
آنے والی صدیاں بھی سنتی رہیں گی اور ہر دور کی داستاں میں اس ادیبہ کا نام
دہرایا جاتا رہے گا۔ بانو قدسیہ نے اپنے عہد کے جن ممتاز ادیبوں سے مِل کر
تخلیقِ ادب کی شمع فروزاں رکھی ان میں اشفاق احمد ،قدر ت اﷲ شہاب اور ممتاز
مفتی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ بانو قدسیہ کی الم ناک وفات سے اردو
فکشن کا وہ عہدِ زریں اپنے اختتام کو پہنچا جس کی تابانیاں اشفاق احمد،
انتظار حسین ،عبداﷲ حسین اورقرۃ العین حید رکی مرہونِ منت تھیں۔یہ وہ زیرک
،فعال اور مستعد تخلیق کار تھے جو محشر عمل تھے جنھوں نے مسلسل دو نسلوں تک
نئی نسل کی کشتِ جاں کو اپنی فکر پرور اور بصیرت افروز تخلیقات سے سیراب
کیا ۔تخلیقِ ادب میں اخلاقیات اورروحانیات کو زادِراہ بنانے والی اس نابغۂ
روزگار ادیبہ کی تحریروں میں جو بے مثال گہرائی اور گیرائی موجود تھی وہ ان
کے منفرد اسلوب کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ بانو قدسیہ نے سلطانیٔ جمہور کو
ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور قدرت اﷲ شہاب کی حق گوئی اور بے باکی کو
ہمیشہ لائق تحسین سمجھا ۔بانو قدسیہ نے مظلوم اور دُکھی خواتین سے جو عہد
وفا استوار کیا اسے علاج گردش لیل و نہار قرار دیتے ہوئے زندگی بھر اس پر
عمل کیا ۔ معاشرے کی پس ماندہ اور الم نصیب خواتین کی ڈھارس بندھاتے ہوئے
،ان کی مونس و غم خوار بن کر انھیں دلاسا دیتے ہوئے اور انھیں جہد و عمل پر
مائل کرکے بانو قدسیہ نے خواتین کو اذیتوں اور عقوبتوں سے دوچار کرنے والے
فراعنہ کی سادیت پسندی اور رعونت کے خمار اور مکر کا پردہ فاش کیا اور قہر
و انتقام اور غیظ و غضب کے ان خود ساختہ دیوتاؤں کے مجسموں کو پاش پاش کر
دیا۔ بانو قدسیہ کو تصوف سے گہری دلچسپی تھی ۔ان کا خیال تھا کہ ممتاز ادیب
قدر ت اﷲ شہاب زندگی بھر یمن سے تعلق رکھنے والے حضرت اویس قرنیؓ کا عقیدت
مند رہا اور وہ اویسی سلسلہ کا ایسا صوفی تھا جسے خالق ِ کائنات نے مستقبل
کی پیش بینی کی صلاحیت سے متمتع کیا تھا ۔ اویسی تصوف کے مطابق کسی عقیدت
مند کا اپنے روحانی پیشواکے ساتھ با لمشافہ ربط ضروری نہیں ۔اس مقصد کے لیے
قلب اور روح کی وجدانی کیفیات ہی دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے اور ایام کا
راکب بننے کی معجز نما صلاحیت سے متمتع ہونے کے لیے کافی ہیں ۔قدرت اﷲ شہاب
کے انتقال کے بعد زندۂ جاوید اسلوب کے حامل اس لافانی ادیب کی آخری آرام
گاہ پر سالانہ عرس کی تقریبات کے انعقاد میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے
گہری دلچسپی لی۔ذوق سلیم سے متمتع اردو ادب کے قارئین بانو قدسیہ کو اردو
نثر کی ملکۂ عالیہ قرار دیتے تھے۔بلاشبہ مسلسل سات عشروں تک اقلیم ادب میں
اسی ملکہ کے نام کا سکہ چلتارہا ۔بانو قدسیہ نے ’’آدھی بات ‘‘جیسا مؤثر
،مقصدیت ، اور اصلاح و افادیت اور سے لبریز ڈرامہ لکھا جسے کلاسیک کا درجہ
حاصل ہے ۔بانو قدسیہ کے یاد گار ڈراموں میں تماثیل ،حوا کے نام،سہارے اور
خلیج شامل ہیں ۔اردو اور پنجابی زبان پر انھیں جو خلاقانہ دسترس حاصل تھی
وہ ان کی تحریروں سے نمایاں ہے۔ان کے شوہر اشفاق احمد نے جب فلم ’’دھوپ
سائے ‘‘بنائی تو اس فلم کی کہانی بانو قدسیہ نے لکھی۔
بانو قدسیہ کی پہلی ڈرامہ سیریل ’’سدھراں ‘‘تھی جسے بے حد پسند کیا گیا
۔بانو قدسیہ نے اپنی وقیع تصانیف سے اُردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا۔ان کا
معرکہ آرا ناول راجہ گدھ سال 1981میں شائع ہواجس کی اشاعت کے ساتھ ہی وہ
شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر جا پہنچیں ۔ اس مقبول ناول کی دنیا بھر میں
زبردست پزیرائی ہوئی ۔ اس ناول کا شمار دنیا کی اہم ترین تصانیف میں ہو تا
ہے جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اردو میں اب تک اس ناول کے تیس ایڈیشن
شائع ہو چکے ہیں۔ جہاں تک قارئین کی پزیرائی کا تعلق ہے اردو ادب میں رحیم
گُل کے ناول ’’جنت کی تلاش ‘‘کے علاوہ کوئی ناول اس کی گرد کو بھی نہیں
پہنچتا ۔ اس ناول میں مصنفہ نے حرام اور حلا ل کے مابین پائی جانے والی حدِ
فاصل کو تصوف،روحانیات اور اخلاقیات کے تناظر میں دیکھنے کی سعی کی ہے
۔صدیوں سے ہمارے معاشرے میں چغد ،شِپر ،بِجو اور کرگس کو نحوست اور نجاست
کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ایسامحسوس ہوتا ہے کہ پس ماندہ ممالک کے مفلوک
الحال باشندے ہجومِ کر گساں میں گِھر گئے ہیں۔اس ناول میں گدھ ایک علامت ہے
جسے ایک نفسیاتی کُل کے روپ میں پیش کیا گیا ہے ۔گدھ کا علامتی اور
استعاراتی حوالہ دے کر قاری کے لا شعور میں استحصالی معاشرے کے فسطائی جبر
کے بارے میں پائے جانے والے کرب کو متشکل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کرگس کے
جہاں میں عفونت، ذلت ،تخریب،نحوست ، نجاست ،بے برکتی ،بے توفیقی اور حرام
خوری عام ہوتی ہے ۔گدھ کی پہچان ہی یہ ہے کہ منحوس طائر حرام جانوروں کے
گلے سڑے اورعفونت زدہ مردہ ڈھانچے نوچنے اور کھدھیڑنے میں لذت محسوس کرتا
ہے ۔ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ سیکڑوں گدھ غول در غول کُوڑے کے ہر اس
غلیظ ڈھیر پر پہنچتے ہیں جہاں سے عفونت و سڑاند اور نجاست و کثافت کے
بھبھوکے اُٹھ رہے ہوتے ہیں۔گدھ کی سادیت پسندی اور لذت ایذا کی درندگی سے
کون واقف نہیں ۔بانو قدسیہ نے اس معرکہ آرا ناول میں آسودگی ،راحت اور
شادمانی کی تمنا کے روحانی اور اخلاقی پہلوؤں کی جانب توجہ مرکوز کرنے پر
مائل کیا ہے ۔جب بھی کسی معاشرے میں جلبِ زر،حصولِ منفعت ،مفاد پرستی،اقربا
پروری،مفت خوری، ضمیر فروشی ،بے غیرتی ،بے ضمیری اورحرام خوری کا عفریت ہر
سُو منڈلانے لگے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ معاشرہ جان لیوا بے حسی کی لپیٹ
میں آ گیا ہے ۔ وقت کے اس سانحہ کے نتیجے میں ایسے بد قسمت معاشرے میں جاہل
کو اس کی جہالت کا انعام دیا جاتا ہے اور چرخِ نیلی فام سے بھی پرے پروا
زکرنے والے عقابوں کے نشیمن میں کرگس، زاغ و زغن اور بُوم و شِپر گھس جاتے
ہیں۔ سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوتا ہے کہ ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی
عناصر زندگی کی اقدار عالیہ ،درخشاں روایات اور مسلمہ اخلاقی معائر کو
معاشرے سے بارہ پتھر کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ امر کسی بھی معاشرے کے
استحکام اور قوم کی بقا کے لیے خطر ے کی گھنٹی اور بہت بُرا شگون سمجھا
جاتا ہے ۔اس کے نتیجے میں افراد جس ذہنی،قلبی،جسمانی اور روحانی اذیت سے
دوچار ہوتے ہیں ،اس کا تریاق عنقا ہے۔جبر اور انصاف کشی کے مذموم ہتھکنڈے
ایسے بد قسمت معاشرے میں اخلاقیات کو ابتذال اور انحطاط کے اعتبار سے تحت
الثریٰ میں پہنچا دیتے ہیں۔ایسی اقوام کی تاریخ ہی نہیں ان کا جغرافیہ بھی
مکمل طور پر بدل جاتا ہے۔سیلِ زماں کے تھپیڑے ہجومِ کرگساں کو نیست و نابود
کر کے ان کی سب بد اعمالیوں کو بہا لے جاتے ہیں اور یہ سب گدھ عبرت کی مثال
بن جاتے ہیں۔درِ کسریٰ کے کھنڈرات پر منڈلانے والے کرگس نوشتۂ دیوار پر نظر
رکھیں تو انھیں سب حقائق معلوم ہو جائیں گے۔
بانو قدسیہ کے شہرۂ آفاق ناول راجا گدھ کے بارے میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی
کہا کرتے تھے کہ اس زندۂ جاوید تخلیق کے موضوعات کو نوائے سروش سے تعبیر
کیا جا سکتا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ناول کے تمام موضوعات کی تخلیق
کے پسِ پردہ کسی مافوق الفطرت قوت کی معجز نما تحریک ہے جس نے ہر سطر کو
زرنگار اور ہر کردار کولا زوال اوریادگار بنا دیا ہے ۔ممتاز ادیب غلام علی
خان چین کو اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا اسلوب بہت پسند تھا ۔ان کا خیا ل
تھا کہ تخلیقی قوت اور ادبی فعالیت کے اعتبار سے بانو قدسیہ کا مقام اشفاق
احمد سے اس لیے بلند ہے کہ منفرد اسلوب کی حامل اس با کمال ادیبہ نے اشفاق
احمد جیسے نخل تناور کے سائے میں رہتے ہوئے بھی اپنے عظیم الشان تخلیقی
وجود کا اثبات کیا ہے ۔ عالمی ادب کے نباض امیر اختر بھٹی کی رائے تھی کہ
بانو قدسیہ کی تخلیقات اور ان کے پس پردہ کارفرما لاشعوری محرکات کا
تجزیاتی مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بانو
قدسیہ کے فکر و خیال کی وادی میں گونجنے والے سب مضامین کے سوتے وجدان اور
غیب سے پُھو ٹتے ہیں۔بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ راجا گدھ میں حلال
اور حرام کے بارے جن اسلامی معائر کو پیشِ نظر ر کھا گیا ہے وہ سب کشف و
کرامات اور الہام کی عطا ہیں۔
ان کی مقبول تصانیف میں تصانیف میں آتش زیر پا ،آدھی بات،آسے پاسے،امر بیل
،ایک دن،باز گشت،پُروا،پھر اچانک یوں ہوا ،پیا کا نام دیا،تما ثیل، توبہ
شکن،توجہ کی طالب،چہار چمن،چھوٹا شہر بڑے لوگ،حاصل گھاٹ ،حوا کے نام،دست
بستہ،دوسرا دروازہ،دوسرا قدم،راجہ گدھ،راہِ رواں،سامانِ وجود،سدھراں،سورج
مُکھی،شہرِ بے مثال،شہرِ لا زوال۔آباد ویرانے،فٹ پاتھ کی گھاس،کچھ اور
نہیں،لگن اپنی اپنی،مردِ ابریشم،موم کی گلیاں ،ناقابلِ ذکر اورہجرتوں کے
درمیان شامل ہیں۔بانو قدسیہ کو اس بات کا قلق تھا کہ تیسری دنیا کے اقتصادی
لحاظ سے پس ماندہ ممالک میں مفلوک الحال خواتین کی بے سمتی ،بے چہرگی اور
عدم شناخت کا مسئلہ روز بہ روز گمبھیر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ ا ٓج بھی ان پس
ماندہ ممالک میں معاشرتی زندگی پتھر کے زمانے کی یاد دلاتی ہے۔ان ممالک کی
غریب اور سادہ لوح خواتیں اگر کبھی خواب ِ غفلت سے بیدار ہونے کی کوشش کرتی
ہیں تو وہاں کے خود غرض اور ہوس پرست مرد اپنی خواتین کوبن مانگے کی نمود و
نمائش ،زیب و زینت ،تزئین و آرائش اورراحت و آسائش کے سبز باغ دکھا کر مد
ہو ش کر دیتے ہیں ۔پس نو آبادیاتی دور میں ان ممالک میں جب صنعتی ترقی کا
آغاز ہوا تو فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور
کیا ہے کہ کھیتوں ،کھلیانوں اور گھروں کے آنگن میں خون پسینہ ایک کرنے والی
خواتین کو تن آسانی اور عیش کوشی کا رسیا بنا دیا گیا ۔سب سے بڑھ کر المیہ
یہ ہوا کہ دیہی خواتین بھی خانہ داری کے کاموں ، محنت اور جفا کشی کے بجا
ئے سایوں اورسرابوں کے تعاقب میں الجھ کر رہ گئیں ۔بڑے شہروں اورقصبات میں
ہوس پرست مردوں کی خود غرضی نے عجب گُل کھلایا ۔ ساری دنیا بدل گئی ، وقت
بدل گیا اور دنیا کا نقشہ بھی تبدیل ہو گیا مگر خواتین کے حالات جوں کے تو
ں رہے۔ تاریخ کے ہر دور کی طرح اس بار بھی خواتین اپنی سادگی کے باعث مات
کھا گئیں ۔ نئے دور میں مردوں نے خواتین کو گھر کی چاردیواری سے باہر نکل
کر حصول روزگار کے لیے میدان میں اترنے کی راہ دکھائی اور کنبے کی کفالت کی
ذمہ داری خواتین کے سپرد کر کے خودبے خودی اور دِل لگی کی تمنا میں خیالوں
کی دنیا میں کھو گئے۔ معاشرتی زندگی میں خاوند اور بیوی کا آپس کا زندگی
بھر کا بندھن ایسا روپ دھا ر گیاجس کے نتیجے میں چراغِ خانہ اور وفا شعار
مامتا کوخاندان کی کفالت کرنے والی شمعِ محفل میں بدل دیا گیا۔بانو قدسیہ
کا خیال تھا کہ گھروں میں مقیم قناعت پسند خواتین نے جس بے لوث محبت
،ایثار، سادگی ، دردمندی، عجز و انکسار ،خلوص،انسانی ہمدردی ،وقار اور
خودداری کے ساتھ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے نکھارے ہیں وہ
ان کے کردار کی عظمت کی دلیل ہے۔ گھروں کی صابر و شاکر خواتین نے اپنی
زندگی کو سنوارنے اور سکون کو یقینی بنانے کے لیے معافی مانگ لینے اور
معافی دے دینے کا جو روّیہ اپنا یا ہے وہ ان کی وسعت نظر اور عالی ظرفی کا
مظہر سمجھا جاتا ہے ۔ انھوں نے زندگی بھر اختلاف سے دامن بچا کر اتفاق سے
رہنے کی تلقین کی۔ بانو قدسیہ نے جدید دور کی زندگی کے نشیب و فراز کی جس
صراحت کے ساتھ لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ ان کی حق گوئی اور بے باکی کی عمدہ
مثال ہے ۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہوس نے نوع انساں کو انتشار کی
بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ بانو قدسیہ کو اس بات کا رنج تھا کہ مادی دور کی
لعنتوں نے عدم برداشت ،ہوس اور خود غرضی کو ہوا دی ہے ۔ان کی دلی تمنا تھی
کہ تعلیم یافتہ خواتین کو نمود و نمائش اور فیشن کی بھیڑ چال سے بچنا
چاہیے۔ بانو قدسیہ کی تحریروں میں پائی جانے والی روحانیت، پر خلوص جذبات
کی تمازت ،عزم و ہمت ،ولولہ اور جوش قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتا ہے۔
وہ یہ چاہتی تھیں کہ خواتین کو اپنے دِل میں توقعات اور ارمان کم سے کم
رکھنے چاہئیں تاکہ اگر یہ توقعات اور ارمان پورے نہ ہوں تو کسی غیر معمولی
سانحہ کا اندیشہ نہ رہے۔جب توقع اُٹھ جاتی ہے تو حکایتوں اور شکایتوں کے سب
سلسلے دم توڑ دیتے ہیں۔اس موضوع پر بانو قدسیہ نے لکھا ہے :
’’اِن توقعات کا کچھ پتا نہیں چلتا،کس وقت ،کیسے یہ دِل میں پروان چڑھتی
ہیں،بالکل ٹھہرے ہوئے پانیوں پر جیسے کائی آہستہ آہستہ نا معلوم طریقے سے
چڑھ جاتی ہے ۔تمھارے دِل کا شفاف پانی بھی کسی توقع کی وجہ سے متعفن ہو گیا
ہے ۔‘‘ (فٹ پاتھ کی گھاس ۔صفحہ61)
خزاں کے سیکڑوں مناظر میں بھی طلوعِ صبح بہاراں کی آس بندھانے والی اس
یگانۂ روزگار ادیبہ کی تخلیقی تحریروں نے تصوف اور روحانیت کے امتزاج سے وہ
سماں باندھا کہ پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیا ۔معاشرتی زندگی
کی ہزار ہا راہوں اور بے شمار نگاہوں کی لفظی مرقع نگاری میں جو حقیقت
پسندی ،رجائیت اور بے باکی ہمیں رجحان ساز ادیبہ کی تحریروں میں دکھائی
دیتی ہے وہ ان کے منفرد اسلوب کی دلیل ہے۔ معاشرتی زندگی میں خواتین کی
حالت ِ زار ،سماجی زندگی کے تضادات ،مناقشات اور بے اعتدالیاں بانو قدسیہ
کے اسلوب میں اساسی اہمیت کی حامل ہیں ۔ متنوع ڈسکورس،اظہار و ابلاغ کے
کمال اور زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کے اعجاز سے ان کا منفرد اسلوب قلب
اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی جس اثر آفرینی سے متمتع ہو ا
وہ اپنی مثال آ پ ہے۔بانو قدسیہ کی عدیم النظیر ادبی کامرانیوں کو دیکھ کر
ذہن میں اختر الایمان کے یہ شعر گونجنے لگتے ہیں۔
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چُھو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی اُلجھا دیکھ رہی ہے
بانو قدسیہ کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہیں
۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو درج ذیل اعزازات سے نوازا گیا :
ستارۂ امتیاز(2003)،ہلالِ امتیاز (2010)،کمالِ فن ایوارڈ (2010)
بانو قدسیہ کو تاج ایوارڈ برائے بہترین ڈرامہ نگار سے بھی نوازا گیا۔
نگار ایوارڈ برائے بہترین ڈرامہ نگار1986 ۔ اس کے بعد مسلسل تین برس تک
(1988-1990)بانو قدسیہ کو بہترین ڈرامہ نگار کے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا
۔یہ وہ منفرداعزاز و امتیاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔
بانو قدسیہ علم و ادب سے قلبی وابستگی رکھتی تھیں اور ان کا مطالعہ بہت
وسیع تھا۔دنیا کے مختلف ممالک سے شائع ہونے والے ممتازعلمی و ادبی مجلات کا
وہ نہایت باقاعدگی سے مطالعہ کرتی تھیں اور مدیران جرائد کو خط لکھ کر
انھیں ان مجلات کے مشمولات پر اپنے تاثرات سے آ گاہ کرتی تھیں۔ اپنی شدید
علالت کے دوران بھی وہ مطالعہ ٔادب میں مصروف رہتی تھیں اور معاصر ادب کے
بارے میں اپنے تاثرات سے اپنے بیٹے کو آگاہ کرتی تھیں اور یہ تاکید کرتی
تھیں کہ وہ مدیران جرائد کو یہ مکتوبات ارسال کر دیں ۔ان کی اس علم دوستی
اور ادب پروری کے اعجاز سے تخلیق کاروں اور قارئینِ ادب میں تخلیق ادب،عصری
مسائل اور حالات کے ارتعاشات کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے میں
مدد ملتی تھی۔دولتالہ(راول پنڈی )سے شائع ہونے والے ادبی مجلے’’صبح
بہاراں‘‘کی ستمبر 2016کی اشاعت میں میرا افسانہ ’’کرموں موچی‘‘شامل تھا۔
اکتوبر 2016کے ’’صبح بہاراں ‘‘ میں بانو قدسیہ کے فرزنداثیر احمد خان نے
اپنے ایک مکتوب میں اس افسانے کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا
:
’’ضعیفی کی وجہ سے امی(بانو آپا)پڑھنے لکھنے میں یکسوئی نہیں رکھ سکتیں اور
انھوں نے یہ ذمہ داری میرے اوپر ڈال دی ہے اب اس کو میں نے ہی دیکھنا ہے
۔’’کرموں موچی‘‘ قسط وارافسانہ جو غلام ابن سلطان(ڈاکٹر غلام شبیررانا )کا
ہے جو جھنگ سے تعلق رکھتے ہیں۔انھوں نے قدرت اﷲ شہاب کی کرموں موچی کے ساتھ
ایک دلچسپ دبنگ لہجے میں معنی خیز گفتگوکو لفظوں میں خوب سنوارا ہے۔یہ
افسانہ خراج تحسین کے لائق ہے ۔۔۔‘‘
مطالعۂ ادب کے حوالے بانو قدسیہ کے ایسے جذبات قابل قدر ہیں۔وہ تاریخ اور
اس کے مسلسل عمل پر پختہ یقین رکھتی تھیں ۔ سائنس اور ٹیکنالوج کے عروج کے
موجودہ زمانے میں زندگی کی برق رفتاریوں نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے
اور قارئینِ ادب کے فہم و ادراک اور اعصاب پر بھی اس کے دُور رس اثرات مرتب
ہو رہے ہیں۔ یہ امر اطمینا ن بخش ہے کہ افسانے ’’کرموں موچی ‘‘کے بارے میں
بانو قدسیہ کے ایما پر ذوق سلیم کے آئینہ دار یہ تاثرات سامنے آئے۔
علم بشریات اور سوشیالوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ پس ماندہ ممالک کے
معاشرے میں مَردوں کو ہر دور میں بالا دستی حاصل رہی ہے ۔اکثر پس ماندہ
ممالک کے دُورافتادہ دیہی علاقوں میں شرح خواندگی کی کمی اور ناقص معیار
زندگی کے باعث خواتین اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔سرمایہ دارانہ اور
جاگیردارانہ نظام کے چنگل میں جکڑے ہوئے بے بس و لاچار ،غریب اورمظلوم
انسانوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے ۔ بانو قدسیہ نے خواتین کے ساتھ روا
رکھے جانے والے اہانت آمیز امتیازی سلوک ،شقاوت آمیز نا انصافیوں اور جورو
ستم کے خلاف کھل کر لکھا ۔ دُکھی انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے
توقیری کے خلاف وہ پورے قد سے کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔فسطائی جبر کا ہر انداز
مسترد کر تے ہوئے انھوں نے معاشرتی زندگی کے تضادات کے خلاف حریت فکر و عمل
کا علم بلند رکھا۔اردو ادب میں تانیثیت کے حوالے سے بانو قدسیہ،ممتاز شیریں
، فاطمہ وصیہ جائسی ،ثمینہ راجا،نسرین انجم بھٹی، ساوتری گوسوامی،رضیہ بٹ
،حجاب امتیاز علی،انیتا غلا م علی ،فاطمہ ثریا بجیا ،خدیجہ مستور،ہاجرہ
مسرور،پروین شاکراور قرۃ العین حیدر کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اپنی
تخلیقی تحریروں میں بانو قدسیہ نے خواتین سے نا خوش وبیزار رہنے والے جنسی
جنون میں مبتلا سادیت پسند مردوں کو آئینہ دکھانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے
۔ بانو قدسیہ بے عیب اور لائقِ صد رشک و تحسین اسلوب کی مالک زیرک ،معاملہ
فہم اور مدبر ادیبہ تھیں ۔وہ ادب کی کوہ پیکر شخصیت تھیں مگر ان کے مزاج
میں عجز و انکسار ،خلوص و دردمندی اور بے لوث محبت دیکھ کر سب ملاقاتی ان
کی مسحور کن شخصیت کے معتقدو مداح بن جاتے تھے۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق
اور اخلا ص سے لبریز سلوک کرنازندگی بھر ان کا شیوہ رہا ۔بانو قدسیہ نے ایک
بھرپور اور کامیاب زندگی بسر کی۔ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آ ئے مگر
سال 2004میں جب ان کے شو ہر اشفاق احمد نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ
لیا تو ا س ہونی نے بانو قدسیہ کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کِرچی کِرچی
کر دیا۔اشفاق احمد کی رحلت کے بعد بانو قدسیہ نے اپنی تمام توجہ اشفاق احمد
کی غیر مطبوعہ منتشر تحریروں کو جمع کرنے اور مسودات کی اشاعت پر مرکوز کر
دی۔ جب بانو قدسیہ شدید علیل تھیں ،اس زمانے میں بھی ان کے فرزند اپنی
والدہ کو ویل چیر پر ماڈل ٹاؤن کے شہرِ خموشاں میں اشفاق احمد کی آخری آرام
گاہ پر لے جاتے اور بانو قدسیہ اپنے مرحوم شوہر کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے
بعد دیر تک ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف رہتیں۔
محبت کی نفسیات جیسے اہم موضوع پر بانو قدسیہ کے خیالات فکر و خیال کے
متعدد نئے دریچے وا کرتے ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں صبر و تحمل
کو شعار بنا کرانسانیت کے وقار ،سر بلندی ،توقیر اور تکریم کے خواہاں کم کم
نظر آتے ہیں۔ صبر و تحمل سے کٹھن اور صبر آزماحالات کا سامنا کرنا اور وقت
کے ستم سہہ کر بھی یاس وہراس کا شکار ہونے کے بجائے زندگی کی قدر کرنا بڑے
دِل گُردے کاکام ہے۔محبت کی نفسیات پر نظر رکھنے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں
کہ جب قریۂ جاں میں محبت کی چنگاری بھڑکتی ہے تو دِل میں تمناؤں ،خواہشات
اور اُمنگوں کا سیلِ رواں اُمڈ آتا ہے۔تُند خُو مزاجوں کی دشت نوردی
اورفرسودہ رواجوں کے صحراؤں کی خاک چھا نتے ہوئے ہجوم ِ غم میں دِ ل کو
سنبھالنارہ نوردان ِ شوق کی بہت بڑی آزمائش ہے۔دِل کی نازک رگوں پر جان
لیوا یادوں کی یلغار اور اہلِ جور کے وار سہتے ہوئے سینہ و دِل حسرتوں سے
چھا جائے تو سمے کے سم کا ثمر حوصلے پست کر دیتا ہے۔ بانو قدسیہ کا خیال
تھا کہ محبت کے دشت پُر خار کے آبلہ پا مسافر اگر کڑی دھوپ کے اس سفر میں
کسی سے کچھ طلب کرناچاہیں تو خلوص ،دردمندی،وفا اور بے لوث محبت کے سوا کچھ
نہ مانگا جائے۔یہی وہ متاعِ بے بہا ہے جس کے بعد کسی اور چیز کی احتیاج
باقی نہیں رہتی۔ان کے علاوہ زندگی کی باقی ضروریات کی تکمیل تو بالکل اُسی
طرح ہو جاتی ہے جس طرح شمع فروزاں پر منڈلانے والے اجل گرفتہ پروانوں کی
راکھ کو ٹھکانے لگانے کے کئی بہانے سامنے آ جاتے ہیں۔بانو قدسیہ کا خیال
تھا کہ بے لوث، حقیقی اور سدا بہار محبت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ بن مانگے مِل
جائے ۔محبت کے لیے کاسۂ گدائی لے کر کوچۂ محبوب کا طواف قلبی اور روحانی
محبت کا بھرم دم توڑ دیتا ہے ۔بھیک میں ملنے والی محبت دردِ دِل، خلوص اور
مروت کی حلاوت سے تہی ہوتی ہے اور اس قسم کی محبت کو ہمیشہ ناکامی کا منھ
دیکھنا پڑتا ہے ۔محبت میں ایسی ناکامی شخصیت کی شکست و ریخت اور کردار کے
مکمل انہدام پر منتج ہوتی ہے ۔ بانو قدسیہ کو نسائی جذبات کی لفظی مرقع
نگاری پر کامل دسترس حاصل تھی ۔مرد اورعورت کی محبت کے نازک رشتے کی ناکامی
سے حالات جو رخ اختیار کرتے ہیں اس کے نتیجے میں عورت کی زندگی کی تمام
رُتیں بے ثمر ہو جاتی ہیں ۔اس موضوع پر بانو قدسیہ نے لکھا ہے :
’’ عموماًمحبت میں ناکامی کے بعدلوگ اپنی ہی نفی اور اپنی ذات کی تذلیل میں
مصروف ہو جاتے ہیں۔جب بند سیپی سے بر آمد ہونے والے آب دارموتی کو اصل
خریدار نہیں ملتاتو پھر موتی اپنے آپ کو ریت کے حوالے کر دیتا ہے۔یہاں
لہروں کے ساتھ رُلنے کے علاوہ اُس کی اور کوئی وقعت نہیں رہتی۔وہ ہر کس و
نا کس کے ہو کر کسی کے نہیں رہتے۔رفتہ رفتہ اپنے جسم کی تذلیل میں انھیں
لذت محسوس ہونے لگتی ہے۔زندگی کا ہر وہ رنگ جو انھیں اپنے آپ پر ہنسنے کا
موقع دے انھیں دِل سے مرغوب ہوتا ہے ۔شراب ،عورت،جواکئی ذلتوں کی پریس سے
مرد نکلتا ہے۔محبت میں ناکام ہو کرعورت کے دِل سے جسم کی حرمت ،عصمت اور
عزت کا تصور جاتا رہتا ہے ۔‘‘(راجہ گدھ سے اقتباس)
جھنگ کی ادبی تاریخ میں گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی ہمیشہ یاد رکھی جائے
گی۔اس عرصے میں یہ شہر سدا رنگ علمی و ادبی تقریبات کا مرکز تھا۔ مقامی
ادیبوں کی دعوت پرعالمی شہرت کے حامل متعدد ممتاز ادیب اس شہر میں منعقد
ہونے والی ادبی تقریبات میں شرکت کے لیے یہاں پہنچے۔ اس قسم کی ایک یاد گار
تقریب میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو بھی دعوت دی گئی تھی۔اشفاق احمد
اور بانو قدسیہ کی شرکت سے محفل کو چارچاند لگ گئے۔ شہر کے طالب علموں
،ادیبوں اور دانش وروں کی بہت بڑی تعداد اور گرد و نواح کے قصبات میں مقیم
باذوق شہری اس ادبی نشست میں موجود تھے۔اس ادبی نشست میں بانو قدسیہ نے
تخلیقی فعالیت اور اس کے پس پردہ کا رفرما لا شعوری محرکات کے بارے جو فکر
پرو راور خیال افروزگفتگو کی ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے جھنگ کے بزرگ شاعر
امیر اختر بھٹی نے بتا یا کہ اردو ادب میں تانیثیت کی نمائندہ شخصیت بانو
قدسیہ جب بولنے لگیں تو محسوس ہوا کہ ان کے منھ پھول جھڑ رہے ہیں۔ وہ شرم و
حیا اور عجز و انکسار کو ایسے اوصاف سمجھتی تھیں جن سے متمتع افراد رعونت
اور تکبر کے سرابوں میں بھٹکنے سے بچ جاتے ہیں۔یہ اوصاف ید بیضا کا معجزہ
دکھاتے ہیں اور افراد کو خامیوں اور کوتاہیوں کے عفریت سے نجات دلا کرانھیں
شکست و ریخت سے بچانے کا موثر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ روحانیت ،معرفت اور
تصوف سے لبریز ان کی باتیں قریہ ٔ جاں کو معطر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئیں
۔اس قدیم اور تاریخی شہر کے وسط میں واقع’’ مجید امجد باغ‘‘ میں ان کے دبنگ
لہجے کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ با نو قدسیہ سے مل کر اور ان کی
مدلل گفتگوسن کر حیات و کائنات کی حقیقی معنویت سے آگہی نصیب ہوتی اور ہجوم
یاس سے مضمحل و مضطرب انسانوں کے دِل میں بھی زندگی سے محبت کے جذبات نمو
پانے لگتے۔ بانو قدسیہ کا خیال تھا کہ حق گوئی و بے باکی کو کسی ناگوار
تلخی اور درشتی سے تعبیر کرنا درست نہیں۔یہ تو انداز ِ بیان ہے جو اظہار و
ابلاغ کی نوعیت کو یکسر بدل دیتا ہے ۔حرفِ صداقت لکھنا بلا شبہ ایک لائق
تقلید فعل ہے مگر اس کے فرغلوں میں ایسے جملے لکھنا جن سے انسانیت کی
توہین،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری کا شائبہ ہو ہر اعتبار سے قابلِ گرفت ہے ۔
تصنع پر مبنی اور عجز و انکسار کے لبادے میں لپٹی ہوئی مو ہوم سچائی جب زہر
ناکی کا روپ دھا ر لیتی ہے تواس کے مسموم اثرات سے معاشرتی زندگی کا سکون
غارت ہو جاتا ہے۔بے لوث محبت کا بھرم بر قراررکھنے کی خاطرانسان کو مصلحت
سے کام لیتے ہوئے قربانی کو شعار بنانا چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ اس عالمِ
آب و گِل میں بے لوث محبت انسان کو ایک ایسے طوطے کا رُوپ عطا کرتی ہے جو
اپنی مرضی اور خوشی سے کسی حسین صیاد کی زلفِ گرہ گیر کے جال میں پھنس کر،
اس حسین و جمیل محبوب کے دِل کے قفس میں مستقل قیام کر کے آرام و سکون کی
زندگی بسر کرنے کو حاصلِ زیست سمجھتا ہے ۔بے لوث محبت اور انمول چاہت کی
چُوری کھانے کا رسیا یہ قناعت پسند طوطا خلوص و مروّت اور عطا و وفا کے
پنجرے میں بند رہتے ہوئے بھی اپنے منھ میاں مٹھو بننے کے بجائے اپنے محبوب
سے پیمانِ وفا باندھ کر اس سے قلبی اور روحانی وابستگی کا اظہار کر نے کو
علاج گردشِ لیل و نہار سمجھتا ہے اور سدا اُسی مہ جبیں صیادکے گُن گاتا ہے۔
تخلیق فن کے لمحوں میں بانو قدسیہ نے اپنے جذبات اور تخلیقی محرکات کے بارے
میں بتایاکہ وہ خود بھی اپنی تخلیقی کیفیت کی رمز آشنا نہیں ۔ پرانی یادیں
تازہ کرتے ہوئے امیر اختر بھٹی نے بانو قدسیہ کے خیالات کا ملخص بیان کرتے
ہوئے کہاکہ انھوں نے اپنے تخلیقی وجدان اور صریرِ خامہ کو نوائے سروش سے
تعبیر کیا ۔بانو قدسیہ کا کہنا تھا کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ وہ اپنے
تجربات ،مشاہدات،جذبات و احساسات کو کیسے زیب قرطاس کرتی ہیں۔ان کا کہنا
تھاکہ وہ بھی تخلیقی عمل کی جہات اور اس کی مقتضیات سے اسی طرح نا آشنا ہیں
:
’’جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی
کے منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار اپنی گھنی
چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے
،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،کلام ِ نرم و
نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے ، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار
اپنے معیار اور نزاکت سے ،کردار اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے
خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ،
سمے کا سم کے اپنے ثمر سے ،قوتِ عشق اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار
حیلہ جُو سے، گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی
مچان سے ،خلوص و دردمندی اپنی خُو سے ،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر
تدبیر سوچنے والے نوشتۂ تقدیر سے،ایثار و عجز و انکسار کی راہ اپنانے والے
جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے ، حسن و رومان کی داستان جی کے زیاں سے ،جبر کی
ہیبت صبر کی قوت سے ،ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ،چام کے دام چلانے والے
مظلومو ں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ
و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک
تخلیق کار کے قلزم ِ خیال کا پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس
کی غواصی کرنے کے باوجود تخلیقی عمل کے پس پردہ کا فرما محرکات کے تاب دار
موتی بر آمد کرنے سے قاصر ہے ۔‘‘
خواتین کی زندگی کے نشیب و فراز کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت علامت نگاری
میں بانو قدسیہ کو مہارت حاصل تھی ۔اپنے ایک افسانے میں انھوں نے اپنے ایک
مرد کردار کی نفسیات کی گرہ کشائی کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’بہار اور خزا ں کے دِن تتلیوں اور پُھولوں کی وجہ سے تکلیف دِہ تھے۔یہ
دونوں چیزیں مجھ بہت پسند تھیں اور ان دونوں سے میں بہت خوف زدہ تھا ۔ایک
دفعہ میں نے ایک زرد رنگ کی ایک تتلی پکڑ کر ایک گلاس کے نیچے بند کردی ۔
اس کا دل بہلانے کے لیے میں نے دو چار رنگین پھول بھی ساتھ مقید کردئیے ۔
یوں زرد تتلی کو محبوس کرکے مجھے عجیب راحت سی محسوس ہوئی ۔ لیکن جب میں
دوپہر کا کھانا کھا کر لوٹا تو وہ تتلی پھولوں کی قبر میں پہلو کے بل پڑی
تھی ۔ میں نے اُسے پانی پلاکر زندہ کرنا چاہا تو اس کے پروں کا زرد برادہ
میری انگلیوں پر اتر آیا ۔ اس کے خوش رنگ پر زندہ رہے لیکن وہ خود مر گئی ۔
تنہائی کی موت!‘‘(امر بیل ،صفحہ 78)
تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک کی خواتین پر دہرا عذاب ہے ۔غربت و افلاس کے
پاٹوں میں پسنے والی یہ خواتیں بے جوڑ شادیوں کے بعد جنم لینے والی اولاد
کی تعلیم و تربیت کے کٹھن مراحل طے کرتے کرتے زندہ در گور ہو جاتی
ہیں۔مردوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور آلام ِ روزگار کے مسموم ماحول کے
بارے میں سوچ سوچ کر یہ خواتین مایوسی اور محرومی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
مظلوم بیویوں پر کوہِ ستم توڑنے والے شوہروں سے اپنے جائز حقوق کی بات کرنے
والی خواتین کے سر پر طلاق کی تلوار ہمہ وقت لٹکی رہتی ہے ۔مردوں کی نا
انصافیوں کا شکار ہونے والی خواتین کے مسائل پر بانو قدسیہ نے نہایت جرأت
کے ساتھ قلم اُٹھایا ہے۔ بانو قدسیہ نے کینہ پرورمردوں کے انتقام کا نشانہ
بننے والی مظلوم خواتین کی حسرت بھری شادی شدہ زندگی کے بارے میں لکھا ہے :
’’شادی شدہ زندگی وہ بجلی ہے جس میں لوڈ ہمیشہ زیادہ پڑتا ہے اور کسی لمحے
کسی جگہ کسی بھی حالت میں اس کا فیوز بھک سے اُڑ جانے کے امکانات ہیں ۔
شادی کے دو ماہ تین کے بعد سات سال تین ہفتے گزرجانے پر ستائیس سال اور نو
گھنٹے کی مدت کے بعد غرضیکہ کسی وقت بھی اچانک مین سوئچ فیوز ہوسکتا ہے اور
مشکل یہ ہے کہ نیا فیوز کبھی پرا نی تار سے نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے لیے
ہمیشہ نیا تا ر لگانا پڑتا ہے۔‘‘(امر بیل ، صفحہ 5)
سوانح نگاری کے فن میں بھی بانو قدسیہ کی تخلیقی فعالیت کا جادو سر چڑھ کر
بولتا ہے ۔لفظی مرقع نگاری میں ان کے موثر اسلوب کے اعجازسے شخصیت متکلم
نظر آتی ہے اور اسلوب کی دل کشی کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔ قیام
پاکستان کے بعدپاکستان کی سول سروس میں گراں قدر خدمات انجا م دینے والے
منفرد اسلوب کے حامل ادیب قدرت اﷲ شہاب(1917-1986) کی زندگی پر بانو قدسیہ
کی اہم کتاب ’’مرد ابریشم‘‘موضوع اور قابلِ مطالعہ مواد کے اعتبار سے نہایت
دلچسپ ہے ۔ قدر ت اﷲ شہاب نے اپنی معرکہ آرا تصانیف (شہاب نامہ ،ماں جی
،نفسانے،سرخ فیتہ) سے ستاروں کو چُھو لیا ۔ بانو قدسیہ نے ’’ مرد ابریشم
‘‘لکھ کر قدرت اﷲ شہاب کو شان دار خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔
اردو زبان کے مایہ ناز ترقی پسند ادیب ممتاز مفتی(1905-1995)کی تخلیقی
کامرانیوں کا ایک عالم معترف ہے ۔ ممتاز مفتی نے اُردو ادب میں تصوف
،نفسیات اور معاشرتی زندگی کے تلخ حقائق پر کُھل کر لکھا ۔ممتاز مفتی نے
ناول، افسانے ،سفرنامے اور سوانح نگاری میں اپنی تخلیقی فعالیت سے قارئینِ
ادب کے دلوں کو مسخر کیا ۔ ممتاز مفتی نے علی پور کا ایلی،الکھ
نگری،لبیک،تلاش اور مفتیانے جیسی وقیع تصانیف پیش کر کے اردو ادب کی ثروت
میں جو اضافہ کیا اس کی بنا پر انھیں ستارۂ امتیاز( 1986)اور منشی پریم چند
ایوارڈ(1989)سے نوازا گیا۔ ممتاز مفتی اور قدرت اﷲ شہاب کی دیرینہ رفاقت
اورقریبی تعلقات کے موضوع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے سوانحی مواد
کے حصول میں تجسس اور قدرت اﷲ شہاب کی شخصیت سے ممتاز مفتی کی وابستگی کے
بارے میں بانو قدسیہ نے لکھا ہے :
’’مفتی جی نے اسلام آباد منتقلہونے کے بعدشہاب صاحب کے متعلق ڈائریاں رکھیں
،اُن کے خطوط محفوظ کیے،اخباروں میں سے تراشے کاٹے ۔وہ شہاب بھائی کے متعلق
اتنا ڈیٹا جمع کر چُکے تھے کہ کبھی کبھی لگتاوہ دِن دُور نہیں جب وہ شکر
پڑیوں کے درختوں پر شہاب شہاب لکھا کریں گے اور کسی نے انھیں روکا تو وہ
روکنے والے کا سر قلم کر دیں گے لیکن اتنا سارا اظہار بھی حجاب بن گیا اور
مجھے اصلی شہاب بھائی نظر نہ آ سکے۔‘‘ (مرد ابریشم،صفحہ 46)
بانو قدسیہ نے اپنے شوہر اشفاق احمد (1925-2004)کے ساتھ قدرت اﷲ شہاب کے
تعلقات کو جمیکا میں واقع کلے من جارو (Killamanjaro)کے سلسلۂ کوہ پر اُگنے
والے ایک انوکھے پُھول سے تعبیر کیا ہے ۔بانو قدسیہ کی گل افشانی ٔ گفتار
کا انداز قابلِ غور ہے :
’’ اشفاق اور شہاب کی دوستی افریقہ کا وہ پھول ہے جو کلے من جارو کے پہاڑ
پر اُگتا ہے اور جو ں ہی کوئی ذی روح پاس آ جائے معمولی پتے کی شکل اختیار
کر لیتا ہے ۔شہاب اور اشفاق لو گوں کے سامنے اجنبی ہیں ۔شاید تخلیے میں بھی
اجنبی ہوں لیکن لگتا ہے احباب کا پتہ کاٹ کر جب و ہ تنہا ہوتے ہیں تو اپنے
اپنے سیف کی چابیاں لگا کروہ مال متاع ضرور ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں جنھیں
انھوں نے عام نظروں سے بچا رکھا ہے ۔‘‘ (مردِ ابریشم،صفحہ 15)
زندگی کا ساز بھی عجب ساز ہے جو پیہم بج رہا ہے مگر اس کی آواز سنائی نہیں
دیتی ۔اس کائنات کی تمام مخلوق ہستیٔ نا پائیدار کے دم دینے کے بارے میں
کچھ نہیں جانتی اورعمر ِ رواں کی ناؤپر سوار عدم کی جانب اپنے سفر پر رواں
ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ یہ اجل گرفتہ ناؤ ملاح
اور کھیون ہارے سے محروم ہے۔بانو قدسیہ نے زندگی اور موت کے سر بستہ رازوں
کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ جس کشتی میں کوئی ناخدا نہیں ہوتا، جس کے پتوار شکستہ ہوتے ہیں اور جس
کے باد بانوں کے چیتھڑے اُڑاتی سمندری ہوائیں قہقہے لگاتی ہیں اور جب ایسی
کشتی میں سوراخ ہوجایاکرتے ہیں تو یہی سمندر آغوش بڑھا کر، دامن پھیلا کر
اُسے سمیٹ لیتا ہے اور پھر کبھی کشتی اِدھر اُدھر ڈولتی نہیں پھرتی ،کبھی
خشک ساحلوں کی تلاش میں نہیں بھٹکتی کبھی ریتلے کناروں کی تمنا نہیں
کرتی۔‘‘(پُروا،صفحہ96)
اشفاق احمد کی رحلت کے بعد بانو قدسیہ نے عملا ً گوشہ نشینی اختیار کر لی
تھی۔ گلشنِ ہستی میں عدم کا خوف کاروانِ وجود کو اس قدر یاس و ہراس میں
مبتلا کر دیتا ہے کہ زندگی کی تمام رعنائیاں گہنا جاتی ہیں۔دائمی مفارقت
دینے والوں کے غم میں دِل سے خواہشیں ،تمنائیں ،آرزوئیں اور اُمنگیں ایک
ایک کر کے رخصت ہونے لگتی ہیں ۔تقدیر کا دیا ہوایہ غم انسان کو اندر سے کھو
کھلا کر دیتا ہے کہ وہ پیارے لوگ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے اب وہ ہمیشہ کے
لیے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔یاد ِ رفتگاں کا صدمہ جب الم نصیب پس
ماندگان کے نہاں خانۂ دِل میں بس جائے تو یہ غم جان لے کر ہی نکلتا ہے۔
اشفاق احمد کی وفات کے بعد بانو قدسیہ کی کشتیٔ جاں سیلِ زماں کی لہروں کے
گرداب میں اس طرح آئی کہ اسے سنبھا لنے کی کوئی اُمید بر نہ آئی۔عزتِ نفس
اور خود اعتمادی کے ساتھ اپنے رفیقِ حیات کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرنے
والی اس عظیم ادیبہ کو اپنے شوہر کی وفات کے صدمے نے اندر سے منہدم کر دیا
۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے کے غیر یقینی حالات کو دیکھتے ہوئے بھی ایک
بات جو اٹل اور یقینی ہے وہ اجل کی تحریر ہے جسے کسی صورت میں تاخیر و تعطل
یا التوا میں نہیں ڈالا جا سکتا۔بانو قدسیہ نے ایک زیرک،فعال،مستعد اور جری
ادیبہ کی حیثیت سے بھرپور زندگی بسر کی۔بانو قدسیہ نے اپنے غم کا بھید کبھی
نہ کھولا مگر سب لوگ جانتے تھے کہ اس نے اشفاق احمد کی دائمی مفارقت کے
بعدذہنی طور پر اشفاق احمد کے پاس جانے کی مکمل تیاری کر لی تھی۔ جب دِل کی
ویرانی نے حشر سامانی کی صورت اختیار کر لی تو بانو قدسیہ نے چُپکے سے زینۂ
ہستی سے اُتر کرعدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت ِسفر باندھ لیا اورماڈل
ٹاؤن ،لاہور کے شہرِ خموشاں میں اشفاق احمد کے پہلو میں ردائے خاک اوڑھ کر
ابدی نیند سو گئیں ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں |
|