کرامتؔ بخاری کے ساتھ انجمن ترقی اردو میں ایک ادبی نشست

بابائے اردو ڈاکٹر موی عبدا لحق کی قائم کردہ ادبی تنظیم’ انجمن ترقی اردو پاکستان‘ اپنے قیام سے آج تک ادبی سرگرمیوں کے فروغ میں فعال کردار ادا کررہی ہے۔انجمن کا ایک عظیم کارنامہ وفاقی جامعہ اردو کا قیام ہے جو علم کے فروغ اور ترقی میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے، بابائے اردو کے ہاتھوں قائم ہونے والا کتب خانہ عام و کتب خانہ خاص آج بھی تحقیق کرنے والوں ، مصنفین و موؤفین کی تصنیفی و تالیفی پیاس بجھانے میں فعال ہے، انجمن کا ماہنامہ ادبی جریدہ ’قومی زبان‘ اور تحقیقی مجلہ ’اردو‘بغیر کسی وقفے کے شائع ہورہا ہے۔انجمن کے زیر اہتمام علمی وادبی کتب کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ ان تمام تر سرگرمیوں کے علاوہ تسلسل کے ساتھ ادبی نشستوں کا اہتمام ہے جن میں مختلف نامور شاعروں اور ادیبوں سے گفتگو کا اہتما م کیا جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں ہفتہ 18 فروری 2017کی صبح انجمن کے دفتر واقع گلشن اقبال میں اردو اور سرائیکی کے ادیب و شاعر سید کرامت حسین بخاری سے گفتگو اور شعر و سخن کی محفل کا انعقاد کیا گیا۔

کرامت بخاری کا پورا نام سید کرامت حسین بخاری ہے ۔ وہ 16اکتوبر 1958 ء کوضلع میانوالی کے شہر ’’ہرنولی‘‘ میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام سید زوار حسین بخاری ہے۔ سرائیکی ہیں، ان کے ساتھیوں میں تلوک چند عیسیٰ خیل ، رام لعل ہیں ، موجودہ ادیبوں اور شاعروں میں اجمل نیازی، علی اعظم شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ احمد ندیم قاسمی ان کے قریبی گاؤں خوشاب کے قصبے ’’انگا‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے سیاسیات میں ماسٹر (ایم اے) کرنے کے بعد سی ایس ایس(سول سروسز آف پاکستان) کا امتحان پاس کرنے کے بعد ملازمت کا آغاز کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس لاہور سے کیا ، 2دسمبر 2016کو انہوں نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا، کچھ عرصہ سے وہ کراچی میں اے جی سندھ کے منصب پر فائز تھے ، ان کے کہنے کے مطابق اب ان کا تبادلہ لاہور کا ہوچکا ہے۔ کرامت بخاری علمی و ادبی ذوق رکھتے ہیں، عرصہ دراز سے شاعری کررہے ہیں۔ شاعری میں انہوں نے غزل میں سادگی اورسلاست کے رجحان کی روایت کو جاری رکھا، ان کی شاعری عام فہم، سادہ ، خوبصورت اور سلاست کا عنصر نمایاہے۔ان کے شعری مجموعوں میں’ تشنگی‘،’ کیوں جاگتے ہو‘، ’یادوں کا پیراہن‘،’ رنج رائیگاں‘،’ دشت آرزو‘،’ جزیرہ خواب‘،’ دشت امکاں‘،’ بچوں کی نظمیں‘،’نظموں کا انگریزی ترجمہ‘۔ نثری تصانیف میں ’تنقیدی تاثرات‘،’ مشاہیر کے انٹر ویو‘ اورسوانح و تاریخ کی تصنیف ’یادیں اور باتیں‘ شامل ہیں۔کرامت بخاری کے فن اور شخصیت پر احسان اللہ ثاقب نے ایک کتاب بعنوان ’’کرامت بخاری فن اور شخصیت‘‘ مرتب کی۔کرامت بخاری کا کلام تسلسل کے ساتھ عالمی و قومی علمی و ادبی جرائد میں شائع ہورہا ہے۔ وہ غزل اور نظم کے شاعر ہیں۔

تقریب کا آغاز انجمن سے وابستہ رخسانہ صبا (جو مستقبل قریب میں ڈاکٹر رخسانہ صبا ہوں گی) ماھنامہ ’قومی زبان ‘ کی مجلس ادارت کی رکن بھی ہیں نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کرامت بخاری کا مختصر تعارف کراتے ہوئے کہا کہ کرامت بخاری صاحب کے پاس وقت کم ہے انہیں کچھ دیر بعد لاہور جانا ہے ۔ تاہم ڈاکٹر حسن محمد خان صاحب سے گزارش کی کہ وہ کرامت بخاری کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ ڈاکٹر حسن محمد خان صاحب پروفیسر قاضی سراج صاحب سے میرا ایک تعلق یہ ہے کہ ہم گورنمنٹ کالج فار مین ، ناظم آباد میں ایک ساتھ کچھ عرصہ رہے۔ خان صاحب پرنسپل ہو کر کسی اور کالج چلے گئے۔ نستعلیقی خصوصیات رکھتے ہیں، خوبصورت لکھتے ہیں اور اتنی ہی عمدہ گفتگو بھی کرتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اور پروفیسر قاضی سراج الدین اکثر ادبی محفلوں میں مل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن محمد خان صاحب نے کرامت بخاری کے بحیثیت اے جی سندھ کے وہ واقعات سنائے جن سے کرامت بخاری کے ایک فرض شناس اعلیٰ سرکاری افسر ہونے کا پتاچلتا ہے۔ بعد میں پروفیسر سراج الدین قاضی نے بھی کرامت بخاری کی انہیں خصوصیات پر تفصیلی روشنی ڈالی جو انہیں ایک اعلیٰ افسر کے طور پرسامنے لاتی ہیں۔ڈاکٹر حسن محمد خان نے ایک شعر پر اپنی بات ختم کی ؂
یوں تو طبیعت بہل جائے گی
لیکن اے دوست تیری یاد بہت آئے گی

کرامت بخاری کا تعارف جن احباب نے کرایا ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ احباب انہیں صرف اے جی سندھ کے سربراہ کے طور پر ہی جانتے ہیں، ان کی شاعری اور نثر نگاری سے کم ہی واقف ہیں حالانکہ ایسا شاعر جس کے دس کے قریب شعری مجموعے شائع ہوچکے ہوں ، وہ ایسا گمنام ہو۔ یہ بات رخسانہ صبا نے تقریب کے اختتام پر جب کہ میں ڈاکٹر ممتاز خان صاحب سے گفتگو کر رہا تھا نے بتائی کہ انہوں نے نیٹ پر تلاش کرنے کی کوشش کی کہ کرامت بخاری کی شاعری یا نثر نگاری، یا ان کے شعری مجموعوں کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوجائیں لیکن وہ باوجود تلاش و جستجو کے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں بھی کرامت بخاری صاحب سے واقف نہیں تھا ، چنانچہ جب انجمن کے ایک کارکن محمد زبیر جو میرے شاگرد بھی ہیں نے تقریب کے دوران مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کرامت بخاری صاحب پر کچھ بولنا چاہیں گے تو میرا دو ٹوک جواب’ نہیں ‘میں تھا اس لیے کہ میں ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا بلاوجہ آئیں بائیں شائیں مناسب نہیں ہوتیں۔ سرکاری اعلیٰ آفیسر کتنا ہی ایماندا ر کیوں نہ ہو وہ بیروکریٹ ہی ہوتا ہے۔ طویل سرکاری ملازمت میں سب ہی اچھا نہیں ہوتا ، تقریب کے اختتام پر میں نے فوری طور پر انجمن کی لائبریری میں کرامت بخاری کے شعری مجموعے تلاش کیے معلوم ہوا کہ ان کی ایک کتاب بھی لائبریری میں موجود نہیں۔ دوسری بات جب گھرآکر روداد لکھنے کے لیے کرامت بخاری کے بارے میں نیٹ پر تلاش کیا تو ایک جانب تو مجھے ان کی کتابوں کی تفصیل مل گئی لیکن اس کے ساتھ ہی کرامت بخاری کے بارے میں ان باتوں کے برعکس جو ڈاکٹر حسن محمد خان اور پروفیسر قاضی سراج صاحب نے کیں تھیں سننے اور دیکھنے کو ملیں جن میں کرامت بخاری کے بطور بیوکریٹ اچھی نہ تھیں۔ ہمیں تو کرامت بخاری کی ادبی زندگی سے غرض تھی اور ہے۔ چنانچہ ان کے شعری مجموعوں کے نام تلاش کیے، کچھ اشعار بھی مل گئے جوروداد میں درج کیے جارہے ہیں۔

اپنی گفتگو میں کرامت بخاری صاحب نے اپنی شخصیت کے بارے میں کم ہی بتا یا ، البتہ میرے ہی سوال کے جواب میں انہوں نے کچھ باتیں بتائیں جو میں نے روداد کے آغاز میں درج کردی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سرائیکی ہوں لیکن اردو سے عقیدت رکھتا ہوں ، انہوں نے اپنے ساتھی شاعروں جون ایلیا، ساقیؔ ، منظرؔ ، جمالؔ اور دیگر کو بھی یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو بولی جانے اور لکھی جانے والی زبان ہے اس کا مزاج جمہوری ہے اور اسی مزاج اور رواداری کے ساتھ یہ بڑھتی چلی گئی اور بڑھے گی۔ کرامت بخاری نے زور دے کر کہا کہ بعض لوگ اس کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں ، اسے تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔حاضرین محفل نے تالیاں بجا کر کرامت بخاری کی اس رائے کی پرزور تائید کی۔کرامت بخاری نے کہا کہ یہ اچھی نیت نہیں ہے ، اس کے رسم الخط کو رومنائیز کریں گے تو اس میں بہت سی آوازیں تبدیل ہوجائیں گی۔ رسم الخط کسی بھی زبان کا لباس ہوتا ہے ، میں اردو کو اسی لباس میں دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں۔اردو میں اصناف کی کمی نہیں ، جو اصناف کم ہیں ، یا بالکل نہیں ہیں وہ بھی آجائیں گی۔اردو دنیا کی بڑی بین القوامی زبانوں میں سے ہے، یہ ہماری آن بان شان اور ایقان ہے۔ ہر قوم کسی ایک زبان پر متفق ہوتی ہے، بار بار فیصلے نہیں بدلنے چاہیے۔کہی تو رکنا ہی ہوگا۔کرامت بخاری نے کراچی کے بارے میں کہا کہ لکھنے والے اس شہر کے بارے میں سوچیں، وہ اس کے حالات کو بدل سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے اپنی ملازمت کے دوران سخت حالات کا مقابلہ کرنا پڑا ، مجھے اکثر تھریڈ ملیں، مجھے ٹیکنیکلی ناکام کرنے کی کوشش کی گئی۔اے جی سندھ میں جو مطالبات میرے سامنے لائے گئے میں نے انہیں سرکاری بجٹ سے نہیں بلکہ لوگوں کے تعاون سے حل کیا جیسے مسجد بنوائی، لائبریری قائم ہوئی، ڈسپنسری بنائی پھر بھی مجھے سخت حالات سے گزرنا پڑا، اب میں کراچی سے لاہور جارہا ہوں۔ کرامت بخاری نے اپناکلام بھی سنایا ۔ انہوں نے اپنی نظم ’وقت ‘ اور شبِ ہجراں‘ کے اشعار سنائے۔ یہ اشعار کرامت بخاری صاحب سے سنتے ہوئے نوٹ کیے گئے، ان کی تصدیق ان کے شعری مجموعوں سے نہیں ہوسکی اس لیے اگر ان میں کوئی غلطی نظر آئے تواس کی معزرت۔
ظلم بھرے کردار پہ خاک
خاک اس پندار پہ خاک
سب اچھی اقدار گئیں
وقت کی اس رفتار پہ خاک
خوشی کم زندگی میں غم بہت ہیں
یہیں ہیں امتحاں تو ہم بہت ہیں
خوشیوں کے دن کم ہوتے ہیں
باقی غم ہی غم ہوتے ہیں
وہ تلوار سے کب ڈرتے ہیں
جن کے ہاتھ میں قلم ہوتے ہیں
زمیں پر آسماں رکھا ہوا ہے
مجھے بھی درمیاں رکھا ہواہے
چھپا کر مجھ سے راز لاکھوں
مجھ ہی کو راز داں رکھا ہوا ہے
میں خود بھی نظر آتا نہیں ہوں
مجھے آخر کہا ں رکھا ہوا ہے
کرامت پہ کرامت ہے غزل کی
مجھے اس نے جواں رکھا ہوا ہے
غزل کو ناقد و ناصح کہاں سمجھتے ہیں
یہ اہل دل ہیں جو دل کی زباں سمجھتے ہیں
محبتوں میں کنارے نہیں ملا کرتے
مگر یہ ڈوبنے والے کہاں سمجھتے ہیں
سمندریوں یہ سب سیلاب میرے
مرے چاروں طرف گرداب میرے
کبھی تو کھل سر شاخ تمنا
کبھی تو مل مجھے مہتاب میرے
آنکھ برسات میں برستی رہی
پانی ملتا رہا پانی میں
جو مٹانے سے نہیں مٹ سکتا
ایسا کردار ہوں کہانی میں
ہر اک سو ہوائے ھَوَس چل رہی ہے
نہ بس چل رہا ہے نہ بس چل رہی ہے
کرامتؔ کو بھلا اشعار کہنے کی کہاں فرصت
وہ صبح و شام یاد آکر پریشان کرتے رہتے ہیں

ادبی نشست کی صدارت پروفیسر سَحر انصاری صاحب نے کی ۔ انہوں نے کہاں کہ سندھ میں جو حالات ہیں ان کے پیش نظر بہت سے پروگرام منسوخ ہوئے ، آرٹس کونسل کا پروگرام بھی ملتوی ہوگیا، ہم سے بھی کئی لوگوں نے دریافت کا کہ کیا یہ پروگرام ہوگا ، ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ یہ کیوں کہ سنجیدہ اور ابی نشست ہے اس لیے اسے منسوخ نہ کریں۔ تقریب کے اختتام پر لعل شہباز قلندر کے مزار پر شہید ہونے
والوں کے لیے فاتح پڑھی گئی۔ اس طرح یہ پر لفط ادبی محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437814 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More