سوال
یہ نہیں تھا کہ چوری کیوں ہوئی۔ سوال یہ ہے چور کو چوری کرنے کا موقع کیوں
فراہم کیا گیا۔ دوسرا گھر میں اگر کچھ تھا تو ہی چور کو موقع ملا اور گھر
میں چوری ہوئی۔ گھر کے مالک کی کوتاہی کے سبب نقص امن کی صورت نکلی۔ گھر
میں گربت اور عسرت کا پہرہ ہوتا تو چوری نہ ہوتی۔ یہ بھی کہ گریب لوگوں میں
صاحب حیثیت کا بھلا کیا کام۔ لوگ پھل سے بھرے آوارہ اور برسرعام پیڑ کی طرف
آتے ہیں۔ پھل لگا بامالک پٰیڑ ہمیشہ سے باعث عزت و احترام ٹھہرا ہے۔
خوش حالی کا تقاضا تھا کہ رہائش فحش ایریے میں بنائی جاتی۔ صاحب حیثیت اور
شرےفا وہاں ہی رہائش کرتے ہیں۔ وہاں بنے گھروں سے باہر کچھ جاتا نہیں بل کہ
محتلف حوالوں اور ذریعوں سے وہاں جا کر محفوظ ہو جاتا ہے۔ چور اچکے کیا
پھنے خاں سے پھنے خاں دہشت گرد بھی وہاں کی فوق الفطرت مخلوق کو کورنش بجا
لاتا ہے۔
ایک طرح سے چور نے علاقے کے لوگوں پر نیکی ہی کی۔ وہ علاقے میں تھوڑا الگ
سے لگتے تھے اور لوگوں کا انہیں سلام میں پہل کرنا سماجی مجبوری تھی۔ اب
ایک صف میں کھڑے ہو گئے تھے محمود و ایاز۔ عین ممکن تھا کچھ ہی وقت بعد وہ
علاقے کی سپر پاور کے طور پر سامنے آتے اور لوگوں کی انا اور عزت غیرمحفوظ
ہو جاتے۔ انتظامیہ اور جملہ دو نمبری لوگ ان کے اشیرواد کے محتاج ہو جاتے۔
شورےفا کی بستی مٰیں گھر نہ بنانا ناشکری کے مترادف تھا۔ ناشکری کی سزا تو
ملنا تھا۔ ایک طرف اصول کی دھجیاں اڑائی گئی تھیں اوپر سے لایعنی شور مچایا
جا رہا تھا کہ چوری ہو گئی ہے۔ چور کا اس میں آخر کیا قصور تھا۔ یہ ان کا
فرض تھا کہ گھر کی حفاظت کا خصوصی بندوبست کرتے۔ تالے اچھے خریدتے۔ چوتھے
درجے کے کنڈے تالے کیوں لگائے گئے تھے۔ اگر اس طرح کے معمولی معمولی کاموں
کے لیے پلس والے دوڑ بھاگ کریں گے تو کار سرکار کس طرح انجام دے سکیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ پلس والوں کی تنخواہ معقول ہے حالاں کہ اس کا حقیقت سے دور
کا بھی تعلق واسطہ نہیں۔ یہ محض زبانی کلامی کی بات ہے۔ ایک شحص پنڈ پیسے
بھر کر پلس میں بھرتی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اسے شرےفا کا جیون میسر نہ ہو
تو پیسے بھرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس قسم کے لاپرواہ جو اپنے گھروں کی
حفاظت نہیں کر سکتے ہی ان کی جان بنانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
پلس والے بڑے باخبر لوگ ہوتے ہیں۔ اگر وہ خبرگیری میں تیز طرار نہ ہوں تو
لو کلاس زندگی کریں۔ جہاز میں مختف ولائتوں کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص
فرانس کا تھا کہنے لگا ہماری پولیس چوبیس گھنٹے میں چور تلاش کر لیتی ہے۔
جرمن کا باشندہ ہنسا اور کہنے لگا کہ یہ کون سا کارنامہ ہوا۔ ہماری پولیس
بارہ گھنٹوں میں تلاش کر لیتی ہے۔ سب بڑے حیران ہوئے۔ وہاں ہمارے علاقے کا
باشندہ بھی تشریف فرما تھا۔ دونوں ملکوں کے باشندوں کی پولیس کی غیر ذمہ
دار پر ہنسا اور کہنے لگا او پاگلو تم ہمارا مقبلہ نہیں کر سکتے ہماری
پولیس کو تو چوبیس گھنٹے پہلے معلوم ہوتا ہے کہ کب اور کہاں چوری ہونے والی
ہے۔ اتنی ًمخبری تو کہٰیں نہیں ہو سکتی۔
خیر چوری تو ہوئی تھی اس لیے اس گھر کے لوگ پکڑ لیے گئے کہ آخر لاپرواہی سے
کام کیوں لیا گیا۔ جن پر شک تھا وہ بھی لا کر حوالات میں بند کر دیے گئے۔
اطراف کے ہم سایوں پر بھی گرفت کی گئی کہ ہمسایہ ماں پیو جایا ہوتا ہے وہ
اپنے ہم سائے کے بارے میں اتنے لاپرواہ کیوں ہو گئے۔ گھر کے بڑے لڑکے پر شک
کیا گیا کہ وہ بےشک چوروں سے ملا ہو گا۔ مالک کو اس لیے کڑی سختی میں رکھا
گیا کہ عین ممکن ہے مال ماں کے ہاں پنچا آیا ہو اور چوری کا ناٹک رچا رہا
ہو۔ باقول گھر کی بیگم کے کہ اس کے مائی باپ بڑے لوبھی ہیں اور انہوں نے
ہمارا کچھ بننے ہی نہیں دیا۔
تھانے میں ایک طرف سوگ وار تو دوسری طرف عید کا سماں تھا۔ سب منت سماجت سے
کام لے رہے تھے لیکن مفتے میں بات نہ بن رہی تھی۔ بےچارے ممبر کو ہی زحمت
اٹھانا پڑی اور وہ اپنے اور اپنوں کے کام کاج چھوڑ کر آ گیا۔ تھانے والوں
سے مک مکا کیا اور اس وعدہ پر رہائی دلوائی کہ وہ آتے الیکشوں میں اسے ووٹ
دیں گے۔ بلا شبہ وہ برے وقت میں ان کے کام آیا تھا ووٹ کا صحیح اور اصولی
حق دار تھا۔
پچھواڑے کے ہم سائے گریب تھے کچھ نہ جھڑ سکے اس لیے چوری کے الزام میں ان
کے دونوں بیٹوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ برآمدی بھی ڈال دی گئی۔
برآمدی کے سامان سے مدعی متفق نہ تھے۔ خیر ان کے متفق ہونے یا نہ ہونے سے
کیا فرق پڑتا تھا پولیس والے تو متفق تھے‘ بس اتنا ہی کافی تھا۔ اب معاملہ
کورٹ کچہری میں تھا۔ پولیس کا جہاں تک فرض تھا اس نے معاملے کو عصری اصولوں
کے مطابق طے کر دیا۔ اب عدالت جانے معاملے کے مدعی اور ملزم جانیں۔ |