اکرم
بڑے حوصلے والا تھا۔ اسے کوئی کچھ بھی کہہ دیتا غصہ نہ کرتا بس تھوڑا سا
سنجیدہ ہو جاتا۔ اس کی یہ سنجیدگی بھی لمحوں کی ہوتی۔ تھوڑی ہی دیر بعد
نارمل ہو جاتا۔ کیا بات ہے‘ پہاڑ جگرے کا مالک تھا۔ شاید یہ اسے وراثت میں
ملا تھا۔ اس کا باپ بھی کمال برداشت اور صبر کا مالک تھا۔
زبان میں لکنت تھی۔ بہت سے حرف بولنے پر اس کی زبان قدرت نہ رکھتی تھی۔ اس
کی اس خامی کے سبب لوگ اسے اکو طوے طوے کہہ کر پکارتے۔ ذرا غصہ نہ کرتا۔
یوں ظاہر ہوتا جیسے اس کا نام ہی اکو طوے طوے رہا ہو۔
ایک دن پتا نہیں اسے کیا سوجھی کہ عمرے‘ جو ہم سب میں چنچل اور دھائی کا
شغلی تھا‘ سے کہنے لگا: میری طرح باتیں کرکے دکھا دو میں سب کو قادے حلوائی
کی مٹھائی کھلاؤں گا۔ عمرے نے دو تین بار منہ سنورا پھر ہوبہو اسی کی طرح
باتیں کرنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اس نے حد سے زیادہ اس طور سے باتیں
کرنے کی مشق کی ہو۔ سب حیران رہ گئے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ اکو
طوے طوے کو مٹھائی پڑ گئی۔ اس نے بڑی خوش دلی سے مٹھائی کھلائی بھی۔
اب جب بھی وہ ہمارے درمیان بیٹھتا ایک دو باتیں اکو کے طور پر ضرور کرتا۔
سمجھ نہ آئی کہ اکو نے یہ شرط کیوں لگائی تھی۔ شاید اسے امید ہی نہ تھی کہ
وہ اس طور سے بات کر سکے گا۔
اس بات کو کئی ماہ گزر گئے۔ اکو کو دیکھتے ہی اکو کی طرح ضرور بات کرتا اور
یہ اس کی عادت سی بن گئی۔ ایک روز سکندر نے شرارت سے اسے عمرو توتلا کہہ کر
پکارا تو وہ بھڑک اٹھا اور اس پر بڑا گرم ہوا۔ اب کہ اکو خوب ہنسا۔ اس کا
چڑنا بڑا ہی پرلطف تھا۔ اس کے بعد جب بھی ہم میں سے کوئی شغل کے موڈ میں
ہوتا تو اسے عمرو توتلا کہہ دیتا۔ وہ فورا سے پہلے آپے سے باہر ہو جاتا۔
گاؤں کے لوگوں کو جب اس کی چیڑ کا پتا چلا تو وہ اسے عمرو توتلا کہہ کر
پکارنے لگے اور اس کی بدحواسی سے خوب لطف اندوز ہوتے۔ پھر کیا تھا عمرو
توتلا اس کا نام پڑ گیا۔ جب وہ چڑتا تو اکو کہتا اسے کہتے ہیں جیسے کو
تیسا۔ جو بیجو گے وہ ہی کاٹو گے۔
آج دونوں کو دنیا چھوڑے کئی سال بیت گئے ہیں۔ لوگ اکو کو اکو طوے طوے کہہ
کر بہت کم یاد کرتے ہیں۔ اسے صرف اکو ہی کہتے ہیں جب کہ عمرو کو عمرو توتلا
کہہ کر یاد کرتے ہیں حالاں کہ وہ سرے سے توتلا نہ تھا۔ گویا مرنے کے بعد
بھی جیسے کو تیسا لحد میں نہیں اتر سکا۔ |