انسان اور انسانیت کی بہترین پرورش کی ذمہ
داری بنیادی طور پردوہستیوں پر عائد ہوتی ہے، والدین اور اساتذہ۔ اس ذمہ
داری کو اس قدر اہمیت حاصل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اور شاید یہ
ایک واحد کام ہے جس میں ایک سے زیادہ لوگوں کی رہنمائی کی ضروررت ہے۔
پیدائش سے لے کر اپنے قدموں پر کھڑے ہونے تک ہر بچہ ماں باپ اور اساتذہ کی
رہنمائی کاطلب گاررہتا ہے۔ ایک کامیاب انسان بنانے میں والدین اور خاص طور
پر ماں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن اگرہم دنیا میں چاروں طرف نظر گمائے تو
بعض بچے ایسے بھی موجود ہوتے ہیں کہ جن کو والدین کی نعمت میسر نہیں ہوتی،
اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ بچے جو اس صورتِ حال کاشکار ہیں یا پھر
اگر کسی بھی وجہ سے والدین اپنے بچے کی پرورش نہ کرسکیں، تو پھر آخر ان
بچوں کی تربیت کس کی ذمہ داری ہے؟ تو اس کا عمومی جواب ہو گا اساتذہ، تو
ایسی صورت میں اساتذہ کی اہمیت اور ان کے کندھوں پر نسلوں کی پرورش کی باری
ذمہ داری کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔استاد،معلم اورٹیچر معاشرے میں اس عظیم
شخصیت کو کہا جاتا ہے،جو معاشروں کی بنیادوں،قوموں کی جڑوں،ملکوں اور
ریاستوں کی سرحدوں اور نظام ِ عالم کی بقاء میں بنیادی اور مرکزی کردار اد
ا کرتا ہے اور انہیں گھن لگنے سے بچاتا ہے۔ ایک استاد محض ایک شخص یا ذات
کا نام نہیں ہوتا،بلکہ پورا ایک جہان ہوتا ہے،جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ
متعلق ہوتے ہیں۔استاد کی محنت، لگن، شوق، امانت، دیانت،راست بازی،نیک نیتی
کا اثرصرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں ہوتا،بلکہ ان صفاتِ حسنہ کا دائرہ
کار کروڑوں لوگوں تک وسیع ہوتا ہے۔دنیا میں آنکھ کھولنے والا ہر انسان
استاد کے بغیر کامل انسان بن سکتا ہے ۔لیکن آج ہمارے معاشرے سے والدین کی
طرح اساتذہ کی اہمیت گھٹتی جارہی ہیں ۔اس کی بڑی وجہ اساتذہ کی غلط
پالیسیاں ہیں۔ یہاں پر اشفاق احمدصاحب کا بیان کیا ہوا ایک واقع یاد آگیا ۔کچھ
ایسا لکھا تھا کے جرمن کی عدالت میں ایک پروفیسر پیش ہوے کیوں کہ کچھ عرصہ
پہلے ٹریفک وارڈن نے انکا چالان کیا تھا کچھ مصروفیات کے باعث چالان وقت پر
جمع نہ کر سکیں جج نے پوچھا کیا کرتے ہو آپ پروفیسر نے جواب دیا استاد ہوں،
جج نے مائک میں اونچی آواز سے کہا ․․․․دہ ٹیچر از ان دہ کورٹ ․․․اور تمام
حاضرین اپنی جگہ کھڑے ہوگئے ۔یہ جرمنی کے بات تھی اب آتی ہے ہماری باری کہ
استاد کو کسی گنتی میں شمار ہی نہیں کرتے، کیوں؟؟؟ جواب پتہ نہیں․․ بحثیت
استاد سوچیے تو شاید جواب مل جائے۔ ہمارے معاشرے نے استاد کو کسی زمانے میں
روحانی والدین کا درجہ دیا تھا اور جس دورمیں استاد کو یہ درجہ دیا گیا تھا
اس دور میں اسے خوش اسلوبی سے نبھایا بھی گیا تھا۔ افسوس کہ گزرتے وقت نے
شاگرد کے کردار اور مزاج میں تبدیلی تو دیکھی ،مگر استاد کی بنیادی تعریف
میں کوئی تحریف نہ کی گئی۔ زمہ دارکون؟؟؟استاد محترم۔۔۔ اس پر ظلم یہ کہ
استاد کا پیٹ تو روحانیت سے بھر نہیں سکتا تھا تو استاد نے روحانیت کو ڈنڈے
کی صورت دی اور ساتھ میں عملیت کا راستہ اختیار کیا تاکہ وہ بھی اپنے بیوی
بچوں کا پیٹ پال سکے۔ساری دنیا میں اقوام بنیادی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت
کو سمجھ رہی ہیں اور بدلتے وقت کی ضرورت کے مطابق اپنے اساتذہ کو تیار
کررہی ہیں۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمارا نظام
تعلیم بنیادی تبدیلی کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہمارے سرکاری سکول کا استاد ابھی
بھی ڈنڈے کی ضرورت کے قائل ہے؛ شاید یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ ہمارا
استاد اپنے اندر کے خوف اور قابلیت کی کمی کو ڈنڈے کے سہارے دور کرنے کی
کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی حیرت انگیز بات بھی نہیں۔ ہر نااہل شخص اپنی
کمی کو چھپانے کیلئے دوسروں پر گرجتا ہے!آج شاگرد اگر استاد کی قدر کرنا
نہیں جانتے ،تو اس میں شاگرد کے ساتھ استاد کی بھی غلطی ہے ،وہ کیا ہے ؟میرے
نانا مرحوم بشر خان بھی چکیسر، کابلگرام اور مارتونگ میں چالیس سال کے عرصے
تک سرکاری اسکول کے استاد رہے ،آج انکو دنیا سے رخصت ہوئے 18 سال کا عرصہ
ہوگیا ہیں ،مگر آج بھی ان کی وجہ سے وہ لوگ جنہونے ان سے تعلیم حاصل کی
ہمیں قدر کی نظر سے دیکھتے ہے،لیکن آج اساتذہ بچوں کو ڈنڈے کے زور سے تقلید
پر آمادہ کرتے ہیں یعنی لیڈر کے ہاتھ میں ڈنڈا یا دوسرے معنوں میں زور
زبردستی۔ یہی بچے آگے چل کر ڈنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ، اور ان کی
نظر وں میں استاد کی قدر گھٹتی جاتی ہے ۔ اساتذہ کی ذمہ داریاں صرف پڑھانا
نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی اہم ذمہ داریاں ہیں جو اساتذہ پر عائد
ہوتی ہیں اور جن کا ادا کرنا ایک استادپر لازم ہے۔ان میں سے چند اہم ذمہ
داریاں یہ ہیں:(۱)طالب علموں کی اچھی تربیت کرنا اور ان کو اچھے اخلا ق
سکھانا جہاں والدین کی ذمہ داری ہے وہیں یہ ذمہ داری اساتذہ پر بھی عائد
ہوتی ہے‘لیکن جدید دور کے اساتذہ اس اہم ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام
نظر آتے ہیں۔اس ناکامی کی جھلک ہمیں آج کے طالب علم میں نمایاں نظر آتی ہے
کہ اکثر طلبہ اخلا ق سے عاری نظر آتے ہیں۔طالب علموں کو اکثر بس کنڈیکٹر سے
لڑتے‘بس میں عورتوں اور بزرگوں کے لیے سیٹ خالی نہ کرتے اور ہوٹلوں میں
ویٹروں سے بدتمیزی کرتے دیکھا گیا ہے۔اس طرح اور بھی کئی واقعات ہر روز
ہمارے معاشرے میں ہوتے رہتے ہیں۔ جو ہمارے آج کے طلبہ کے اخلاق پر سوالیہ
نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ان سب کی بنیادی وجہ استاد کا اپنے طلبہ کو اخلا یات کا
درس نہ دینا ہے۔(۲)اخلاقیات کے حوالے سے اساتذہ کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے
کہ وہ اپنے کردار کو اپنے طلبہ کے لیے رول ماڈل بنائیں لیکن اس میں بھی
اکثر اساتذہ ناکام نظر آتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو
احسن طریقے سے اداکریں اور استاد کے اس پاکیزہ شعبہ کا حق صحیح طو
پراداکریں۔ لیکن آج ہمارے ملک میں اساتذہ نے تعلیم کو کاروبار بنا دیا ہے
ایک وہ وقت تھا جب استاد بچوں کے ساتھ والد جیسا برتاؤ کرتا تھا اور ایک یہ
وقت ہے کہ استاد بچوں کو صرف اپنے کاروبار حصہ سمجھتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہے
کہ انگلش میڈیم کے نام پر زیادہ سے زیادہ رقم اکٹھی کر کے بڑے بڑے گھر
بنائے جائیں۔ جبکہ بچے اور بچوں کے والدین بھاری فیس ادا کر نے کے بعد
استاد کو استاد نہیں اپنا نوکر سمجھتے ہیں۔اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر کسی
رئیس کے گھر پر کو ئی ٹیچرز پڑھانے آتا ہے تو اس کی کتنی عزت ہوتی ہے اس کا
پتہ گھروں میں پڑھا نے والے ٹیچرز بہت ہی آچھی طریقے سے جانتے ہیں۔ مولانا
یوسف لدھیانو ی شہیدؒ اکثر قاریوں سے فرمایا کرتے تھے کہ گھروں میں بچوں کو
پڑھانے نہ جایا کرے۔اس سے آپ کی اورقرآن شریف کی قدر گھٹتی ہیں،دنیا میں یہ
مشہور ہے کہ جس چیز کیلئے آپ دربدربٹکھو گے نہیں اس کی قدر کبھی آپ کے دل
میں نہیں آسکتی ہے ۔بھاری بھاری بستوں سے اور نت نئی فیسوں سے اعلیٰ تعلیم
حاصل نہیں کی جاسکتی ہے ،اس کیلے اساتذہ کو اپنی پالیسوں پر نظر ثانی کرنی
ہوگی ، پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ،آپ معاشرے کو ایک اچھا انسان پروائٹ
کروگے تو آگے جاکر وہی انسان آپ کو کامیاب ٹیچر بنائیگا ۔ بہترین معاشرے
کیلئے ہمارے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا،
وقت کی ضرورت کو سمجھنا ہو گا۔ تبدیلی کا عمل بنیاد سے شروع ہو گا تو اوپر
تک جائے گا۔ نہیں تو اس نظام تعلیم سے اگلے سو سال میں بھی کوئی تبدیلی،
کوئی انقلاب نہیں آنے والا!۔۔۔۔۔اﷲ ہم سب پر اپنا خصوصی کرم فرمائے (آمین) |