ہم نہیں بھولیں گے
(Muhammad Nawaz, Kamalia)
ہم بھول جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لعل شہباز
قلندر کے مزار پر ہونے والے کل کے واقعہ کو ۔جس طرح ہم بھول گئے حضرت بری
امام کے مزار پر ہونے والے بم دھماکے اور اس میں شہید ہونے والے معصوم
لوگوں کو ۔جس طرح ہم بھول گئے حضرت عبداﷲ شاہ غازی کے مزار پر ہونے والے بم
دھماکہ اور اس کے نتیجے میں شہید ہونے والے زائرین کو ۔باالکل ایسے ہی بھول
جائیں گے جیسے ہم نے بھلا دیا حضرت داتا گنج بخش کے مزار اقدس پر ہولناک
دھماکے اور اس کی پاداشش میں ہونے والے شہدا ء کو ۔ ہم نے شاہ نورانی کے
مزار پر ہونے والے بم دھماکے کویوں بھلا دیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بد قسمتی سے ہم ایسی قوم ہیں جو اپنے ماضی سے کچھ سبق ہی نہیں سیکھتی ۔ اگر
ہم نے کچھ سیکھا ہوتا تو یوں وطن عزیز میں پے در پے دھماکے نہ ہوتے ۔ دہشت
گرد یوں مضبوط نہ ہوتے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان دہشت گردو ں کو ہمارے
اپنے ہی مدد و معاونت فراہم کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ اطلاع ہے کہ مال روڈ پر
ہونے والے دھماکے کا سہولت کار پکڑا گیا ہے اس نے دہشت گرد کو مکمل تعاون
فراہم کیا اور اسے موٹر سائیکل پر بیٹھا کر اور بعد ازاں پیدل چئیرنگ کراس
تک لایا ۔ اس سہولت کار نے اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ اس کا تعلق
باجوڑ ایجنسی سے ہے اور وہ خود کش طور خم سے لایا اور اس نے خود کش جیکٹ
لاہور ایک ٹرک کے ذریعے لایا ۔لیکن ایک بات ہے وطن عزیز کو نقصان پہنچانے
کیلئے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ہمارا دشمن بھی سر گرم ہو چکا ہے ۔جس طرح
کتے کو کبھی کھیر ہضم نہیں ہوتی اسی طرح اس سے ہماری ترقی بھی ہضم نہیں ہو
رہی ۔سی پیک کتے کے گلے میں ہڈی کی طرح الٹکا ہوا ہے ۔ ملک عزیز کا امن اسے
ایک آنکھ نہیں بھا رہا ۔ وہ ملک میں دہشت کی فضا پیدا کر کے یہ ثابت کرنے
کی کوشش کر رہا ہے کہ خدا نخواستہ پاکستان ایک غیر محفوظ ملک ہے ،لیکن ایک
دن دشمن کے دانت کھٹے ضرور ہوں گے ۔
ایک بات جس پر تمام مکاتب فکر کے ماننے والے متفق ہیں کہ برصغیر پاک و ہند
میں اسلام کی روشنی پھیلانے میں بزرگان دین اور صوفیا کا کردار روز روشن کی
طرح عیاں ہے ۔ بزرگان دین نے اپنے علم ،عمل اور قول لوگوں کو ایسا متاثر
کیا کہ مقامی ہندو برادری جو جوک در جوک دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے ۔
تاریخ کے اوراق پر محمد بن قاسم کا کارنامہ سنہری حروف سے لکھا ہے کہ اس نے
ہندووں کے ساتھ اس قدر مشفقانہ سلوک کیا ہندووں کی ایک کثیر تعداد حلقہ
بگوش اسلام ہوئی اور جو ہندو اس سعادت سے محروم رہے انہوں نے اپنے مندروں
میں محمد بن قاسم کی مورتی بنا کر رکھ لی ۔
آج سہون کی دھرتی لہو لہو ہے اور سندھ کے ساتھ پورا پاکستان بھی اداس ہے ۔
آج کا سہون لعل شہباز قلندر کا وہی سہون ہے جس کو آپ نے مسکن بنایا اور
یہاں سے امن و محبت کا ایسا درس دیا کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے
لا الااﷲ کی روشنی سے منور ہونے لگے ۔ ان مزارات سے آج بھی امن و محبت کا
درس دیا جاتا ہے ۔ یہاں آج بھی سے دلوں کو سکون دینے والا لنگر ہر خاص و
عام کیلئے بانٹا جاتا ہے ۔ یہ اولیا کرام کے مزارات ایسی جگہ ہیں جہاں
لوگوں کے دلوں کو سکون ملتا ہے ۔ ا ن لوگوں کے دلوں کو سکون ملتا ہے جو اس
بے ثباتی دنیا سے بیزار ہو جاتے ہیں ،جب ان کے دل بے چین ہو جاتے ہیں تو
لوگ اﷲ والوں کی بارگاہ میں چند گھڑیاں سکون تلاش کرنے آ بیٹھتے ہیں ۔ یہاں
آنے والے خود سکون کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔ظالموں تم نے ان کو بھی بے سکون
کر دیا ۔میں نے ان مزارات کے احاطے میں بیٹھے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنا
گھر بار چھوڑ کر یہاں آ بیٹھتے ہیں ۔وہ صاحب مزار سے لو لگانے کی کوشش میں
ہوتے ہیں کہ اﷲ ان کی دعا کو اس صاحب مزار کے طفیل قبول فرمائے گا اور کی
منت اور حاجت پوری ہو جائے گی ۔
دہشت گرد پھر سے مضبوط ہو رہے ہیں ،ہمیں ایک قوم بن کر ان کا مقابلہ کرنا
ہو گا ۔ ہمیں ان کو سبق سکھانے کیلئے،ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے
نیشنل ایکشن پروگرام پر عمل کرنا ہو گا ۔ ہمیں یہ باآور کرانا ہو گا کہ ہم
پاکستانی ہیں ،ہمیں اپنے کل کو بہتر بنانے کیلئے اپنی ماضی کو بھولنا نہیں
۔ہم لعل شہباز قلندر ، عبداﷲ شاہ غازی ، بری امام، احمد شاہ نورانی اور
حضرت داتا گنج بخش کے مزارات پر ہونے والی ان بزدلانہ کائیوں کو کبھی نہیں
بھولیں گے ۔
|
|