لغوی مفہوم میں صحیح (یعنی صحت مند) بیمار کا متضاد ہے۔
یہ لفظ جسم کی حالت کو بیان کرتا ہے اور اسی معنی میں یہ حدیث کے لئے بھی
استعمال ہوتا ہے۔
اصطلاحی مفہوم میں صحیح حدیث اس کو کہا جاتا ہے جس میں قابل اعتماد اور
احادیث کو محفوظ رکھنے والا راوی اپنے جیسے قابل اعتماد اور محفوظ رکھنے
والے راوی سے کسی حدیث کو ملی ہوئی سند میں روایت کرتا ہے اور یہ سلسلہ آخر
سند تک ایسے ہی چلا جاتا ہے۔ اس حدیث میں دیگر قابل اعتماد احادیث کے خلاف
کوئی بات نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اور خامی پائی جاتی ہے۔
تعریف کی وضاحت
اس تعریف میں کچھ ایسے امور پائے جاتے ہیں جن کا موجود ہونا حدیث کے صحیح
ہونے کے لئے ضروری ہو۔ وہ امور یہ ہیں:
· اتصال سند: ہر راوی اپنے سے پہلے جس راوی سے بھی حدیث کو حاصل کر رہا ہے،
وہ ایسا بلا واسطہ (ڈائرکٹ) کر رہا ہو۔ یہی معاملہ حدیث کی سند کے آخر
(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم) تک چلا گیا ہو۔
· عدالۃ رواۃ: حدیث کو بیان کرنے والا ہر راوی اس وقت "عادل" قرار پائے گا
جب وہ مسلمان، عاقل، بالغ ہو۔ اس میں کوئی بدکرداری نہ پائی جاتی ہو اور وہ
معاشرے میں قابل عزت سمجھا جاتا ہو۔
· ضبط رواۃ: حدیث کو بیان کرنے والا ہر راوی حدیث کو محفوظ کرنے والا ہو۔
یہ حفاظت خواہ (اچھی یادداشت کے سہارے) سینے میں محفوظ رکھ کر کی گئی ہو یا
پھر کسی کتاب یا ڈائری میں احادیث کو لکھ کر کی گئی ہو۔
· عدم شذوذ: حدیث شاذ نہ ہو۔ شذوذ کا مطلب ہے کہ حدیث میں کسی زیادہ قابل
اعتماد راوی کی بیان کردہ کسی اور صحیح حدیث کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔
· عدم علت: حدیث میں کوئی اور علت (خامی) نہ پائی جاتی ہو۔ علت کا مطلب ہے
کہ حدیث بظاہر تو صحیح معلوم ہوتی ہو لیکن اس میں کوئی مخفی خامی ایسی ہو
جس کی بنیاد پر حدیث کی صحت مشکوک ہو جائے۔
صحیح حدیث کی شرائط
تعریف کی وضاحت سے یہ معلوم ہو گیا کہ حدیث کے صحیح ہونے کے لئے پانچ شرائط
ہیں اور وہ ہیں: اتصال سند، عدالت رواۃ، ضبط رواۃ، عدم شذوذ اور عدم علت۔
اگر ان میں سے ایک شرط بھی موجود نہ ہو تو اس حدیث کو صحیح نہیں کہا جا سکے
گا۔
صحیح حدیث کی مثالیں
جیسا کہ امام بخاری نے اپنی کتاب "صحیح" میں حدیث نقل کی ہے: عبداللہ بن
یوسف نے ہم سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مالک نے ابن شہاب سے، انہوں
نے محمد بن جبیر بن مطعم سے، اور انہوں نے اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت
کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مغرب کی نماز میں سورۃ طور
تلاوت فرمائی۔ (بخاری، کتاب الاذان)
یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ:
· اس کی سند متصل ہے کیونکہ ان میں سے ہر راوی نے اپنے شیخ سے سن کر روایت
کی ہے۔ اگرچہ اس میں لفظ "عن" کے ذریعے روایت کی گئی ہے لیکن اسے سند کا
اتصال ہی سمجھا جائے گا کیونکہ اس حدیث کے راوی مالک، ابن شہاب اور ابن
جبیر سب کے سب تدلیس کے مرتکب نہ تھے۔ (تدلیس کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اپنے
شیخ کا نام چھپا لے اور اس کی بجائے اس کے شیخ کا ذکر کرے۔ چونکہ یہ دھوکا
ہے اس وجہ سے تدلیس کرنے والا اگر حدیث کو "عن" کہہ کر روایت کرے تو اس کی
حدیث قبول کرنے میں احتیاط برتی جاتی ہے۔)
· اس کے راوی عادل (یعنی اچھے کردار کے) اور ضابط (یعنی حدیث کو محفوظ
رکھنے والے) ہیں۔ علماء جرح و تعدیل کے نزدیک کے نزدیک ان کے اوصاف یہ ہیں:
(جرح کا مطلب ہے کسی راوی کو اس کے کردار یا ضبط پر اعتراضات کی بنیاد پر
ناقابل اعتماد ٹھہرانا اور تعدیل کا مطلب ہے کہ اس کے کردار یا ضبط کی
مضبوطی کے باعث اسے قابل اعتماد ٹھہرانا۔)
a عبداللہ بن یوسف: قابل اعتماد اور مضبوط راوی ہیں۔
a مالک بن انس: حدیث کے امام اور حافظ ہیں۔
a ابن شہاب الزہری: فقیہ اور حافظ ہیں اور ان کی بزرگی اور صلاحیت پر سب کا
اتفاق ہے۔
a محمد بن جبیر: قابل اعتماد ہیں۔
a جبیر بن مطعم: صحابی ہیں۔
· یہ حدیث شاذ بھی نہیں ہے۔ اس سے زیادہ مضبوط کوئی اور حدیث نہیں ہے جو اس
کے خلاف ہو۔
· اس کی سند یا متن میں کوئی خرابی بھی نہیں پائی جاتی۔
صحیح حدیث کا حکم
صحیح حدیث پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس بات پر حدیث، اصول فقہ اور فقہ کے
ماہرین کا اتفاق رائے ہے۔ یہ شریعت کی حجتوں میں سے ایک ہے اور ایک مسلمان
کو اسے ترک کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
اس بات کا کیا مطلب ہے کہ "یہ حدیث صحیح ہے" اور "یہ حدیث صحیح نہیں ہے"
اگر محدثین یہ کہیں کہ "یہ حدیث صحیح ہے" تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے اوپر
بیان کی گئی پانچوں شرائط کی انہوں نے تحقیق کر لی ہے اور اسے صحیح پایا
ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ حدیث ہر حال میں صحیح ہی ہو گی کیونکہ ایک
قابل اعتماد شخص سے بھی غلطی یا بھول چوک کا امکان بہرحال پھر بھی موجود
ہے۔ (تدریب الراوی، ص 75-76)
اگر محدثین بیان کریں کہ "یہ حدیث صحیح نہیں ہے" تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ
اس میں صحت کی پانچ شرائط مکمل یا جزوی طور پر نہیں پائی گئیں۔ اس کا یہ
مطلب نہیں کہ یہ حدیث ہر حال میں جھوٹی ہی ہو گی کیونکہ بہت زیادہ غلطی
کرنے والا شخص بھی درست بات کہہ سکتا ہے۔
(ایسا ممکن ہے کہ ایک محدث اپنی تحقیق کے مطابق کسی حدیث کو صحیح قرار دے
دے جبکہ دوسرا محدث اپنی تحقیق کے مطابق اسے ضعیف کے درجے پر رکھے۔ دونوں
محدثین کے دلائل کو دیکھ کر ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ کس کی تحقیق درست ہے۔)
کیا کسی سند کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح ترین سند ہی ہو
گی؟
اس نقطہ نظر کو ترجیح دی گئی ہے کہ کوئی بھی سند (خواہ وہ کتنی ہی اعلی و
ارفع کیوں نہ ہو) ہر حال میں صحیح ترین سند نہ ہو گی۔ حدیث کے صحیح ہونے کے
درجات میں اس بنیاد پر فرق کیا جاتا ہے کہ وہ حدیث صحت کی شرائط کو کس حد
تک پورا کرتی ہے۔
اگر حدیث کے صحیح ہونے کی تمام شرائط پائی جائیں تو اس میں مزید اعلی درجات
کی بہت ہی کم تحقیق کی گئی ہے۔ بہتر نقطہ نظر یہی ہے کہ محض حدیث کی سند
دیکھ کر ہی اسے مطلقاً اعلی ترین سند قرار نہ دے دیا جائے۔ بعض ائمہ حدیث
نے (اپنی کتب میں) کچھ اسناد کو صحیح ترین اسناد قرار دیا ہے۔ بظاہر یہ
معلوم ہوتا ہے کہ ہر امام نے اس سند کو ترجیح دی ہے جو اس کے نقطہ نظر کے
مطابق صحیح ترین ہے۔ صحیح ترین سند کے بارے میں یہ اقوال نقل کئے گئے ہیں:
· اسحاق بن راہویہ اور احمد بن حنبل کی رائے میں "زہری—سالم—ان کے والد
(عبداللہ بن عمر)" صحیح ترین سند ہے۔
· ابن المدینی اور الفلاس کے نزدیک "ابن سیرین—عبیدہ—علی بن ابی طالب" صحیح
ترین سند ہے۔
· ابن معین کے نزدیک "الاعمش—ابراہیم—علقمہ—عبداللہ بن مسعود" صحیح ترین
سند ہے۔
· ابوبکر بن شیبہ کے نزدیک "زہری—زین العابدین—حسین—علی بن ابی طالب" صحیح
ترین سند ہے۔
· بخاری کے نزدیک "مالک—نافع—ابن عمر" صحیح ترین سند ہے۔
صرف صحیح احادیث پر مبنی سب سے پہلی تصنیف کون سی ہے؟
صرف صحیح احادیث پر مبنی سب سے پہلی تصنیف امام بخاری کی "الجامع الصحیح"
ہے اور اس کے بعد امام مسلم کی "صحیح" ہے۔ یہ دونوں قرآن کے بعد صحیح ترین
کتب ہیں اور اس بارے میں امت مسلمہ نے متفقہ طور پر انہیں قبول کیا ہے۔
ان میں سے کون سی زیادہ صحیح ہے؟
ان دونوں میں سے زیادہ صحیح کتاب، صحیح بخاری ہے۔ اس میں کچھ اضافی خوبیاں
ہیں۔ بخاری کی احادیث میں اتصال سند میں زیادہ شدت برتی گئی ہے اور اس کے
راوی زیادہ ثقہ ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں فقہی احکام سے متعلق نکات بھی
موجود ہیں جو صحیح مسلم میں نہیں ہیں۔
صحیح بخاری کا صحیح مسلم سے زیادہ صحیح ہونا مجموعی اعتبار سے ہے۔ مسلم میں
بعض احادیث ایسی پائی جاتی ہیں جو بخاری کی نسبت زیادہ صحیح ہیں۔ بعض اہل
علم کا یہ قول ہے کہ مسلم (بخاری کی نسبت) زیادہ صحیح ہے لیکن پہلی رائے ہی
درست ہے۔
کیا بخاری و مسلم نے تمام صحیح حدیثیں اپنی کتابوں میں شامل کر لی ہیں؟
بخاری و مسلم نے اپنی صحیحین میں تمام صحیح حدیثیں شامل نہیں کی ہیں۔ بخاری
کہتے ہیں، "میں نے اپنی کتاب جامع میں صرف یہ چند صحیح احادیث درج کی ہیں
اور بہت سے صحیح احادیث طوالت کے خوف سے چھوڑ دی ہیں۔" مسلم کہتے ہیں، "جو
احادیث میرے نزدیک صحیح ہیں، میں نے وہ تمام کی تمام درج نہیں کی ہیں۔ میں
نے صرف وہی درج کی ہیں جن پر اتفاق رائے ہے۔"
کیا ان کتب میں درج ہونے سے بہت زیادہ احادیث باقی رہ گئی ہیں یا تھوڑی سی؟
حافظ ابن الاخرم کہتے ہیں کہ ان دونوں کتب میں درج ہونے سے بہت کم احادیث
ہی باقی بچی ہیں لیکن اس رائے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ صحیح رائے یہ ہے کہ
ان دونوں کتب میں بہت سے احادیث درج نہیں ہو سکیں۔ خود امام بخاری کہتے
ہیں، "میں نے ایک لاکھ صحیح اور ایک لاکھ غیر صحیح احادیث یاد کی ہیں۔"
(علوم الحدیث ص 16)
ان دونوں میں احادیث کی تعداد کیا ہے؟
بخاری میں 7275 احادیث ہیں اگر ایک سے زائد بار آنے والی احادیث کو الگ گنا
جائے۔ اگر تکرار کو حذف کر دیا جائے تو اس میں 4000 احادیث ہیں۔ مسلم میں
مکررات کو ملا کر 12000اور مکررات کو حذف کر کے 4000 احادیث ہیں۔
|