قول وفعل میں تضاد:دعوت وتبلیغ کے غیر مؤثرہونے کا بنیادی سبب

کیااسلامی معاملات اوردینی احکام ومسائل صرف بولنے یالکھنے کے لیے ہیں؟
خوشی اور غم کے بغیر انسانی زندگی ادھوری ہے۔ہر انسان ان دوکیفیتوں سے ضرور محظوظ ہوتاہے۔یہ اور بات ہے کہ کسی کی زندگی میں خوشی کے لمحات زیادہ ہوتے ہیں تو کسی کی حیات میں دکھ کے پَل۔بہر حال ان دو حالتوں سے راہِ فرار اختیارکرنا ممکن نہیں ۔اس لیے کہ اﷲ رب العزت نے جب حضرت انسان کی تخلیق فرمائی توانسانی خاک پر چالیس روز تک بارش برسائی ۔ ان چالیس دنوں میں انتالیس دن غم کی بارش برسائی اور فقط ایک دن خوشی کی۔اسی لیے انسانی زندگی میں غم زیادہ ہوتے ہیں اور خوشی ومسرت کے لمحات مختصر۔انسانی خصلت ہے کہ انسان دکھ، درد ، غم او ر تکلیف میں اپنے خالق کوزیادہ یاد کرتاہے اور خوشی وشادمانی کے پُرمسرت دنوں میں جس رزاق کا رزق کھاتا ہے اس کی بارگاہ میں سرجھکانا بھی بھول جاتاہے۔(الا ماشآء اﷲ)شاید اسی لیے غم کی بارش زیادہ برسائی گئی تاکہ حضرت انسان کا رشتہ اپنے معبودبرحق سے ہمیشہ جڑارہے اور وہ اپنے پالن ہارِ حقیقی کے نغمے الاپتارہے،اس کے گُن گاتارہے۔باالفاظ دیگر یوں کہہ لیجئے ؂
تیراذکرلب پر خدادل کے اندر
یوں ہی زندگانی گزاراکروں میں

در اصل انسان کا اصل امتحان بھی انہی دو کیفیات میں ہوتاہے ۔کہیں ایساتو نہیں کہ بندہ خوشی ملنے پر اپنے رب کوبھول گیایا غم ملنے پر بجائے صبر کے شکوہ وشکایت کرنے لگا۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جنہیں قیامت کے دن سب سے پہلے جنت کی طرف بلایا جائے گا، وہ ہوں گے جو خوشی وغم میں اﷲ عزوجل کی حمد کرتے ہیں۔ (مشکوٰۃ ص۲۰۱) انسان اکثر خوشی کے موقع پر اﷲ عزوجل کو بھول جاتا ہے جب کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ خوشی کے وقت اﷲ عزوجل کا ذکر زیادہ کرے اور اپنے معبودِ حقیقی کا شکر بجالائے۔ اسی لیے اولیائے کرام علیہم الرضوان اﷲ عزوجل کا ذکر خوشی و غم میں زیادہ کرتے تاکہ اﷲ عزوجل راضی ہو جائے، انسان خوشی اور غم میں اﷲ عزوجل کا ذکر کرے تو اﷲ عزوجل اس بندے سے غم دور اورخوشیوں میں اضافہ کرتا ہے اس لیے کہ خوشی اور غم دونوں اﷲ عزوجل کی طرف سے ہیں۔جب بندہ یہ مان لیتا ہے اور طے کرلیتاہے کہ اﷲ عزوجل جس چیز سے راضی، میں بھی اس چیز سے راضی تو بندہ جب کمزور ہوکر اس کی رضا پر راضی رہتا ہے تو اﷲ عزوجل ایسے بندے پرکرم کی نظر فرما کرجنت کا مژدۂ جانفزا سنا دیتا ہے۔

اسلام نے جو انسانی حقوق بیان فرمائے ہیں اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے کے دکھ،درد اور خوشی میں شامل ہو،مگر آج لوگوں کی سوچ وفکر کازاویہ تبدیل ہوچکاہے ، خیالات وعمل کا محور بدل چکاہے۔اگر کسی امیر کے یہاں شادی بیاہ یا خوشی کی کوئی بھی تقریب ہوتو ہزارہامصروفیات کوبالائے طاق رکھ کراس بارونق بزم کو اپنی شرکت سے کامیاب کرنے کی ہر کوئی کوشش کرتاہے مگر کسی غریب کہ یہاں کوئی تقریب ہوتو اﷲ رحم فرمائے۔اس عادتِ بدکا مشاہدہ آپ صرف خوشی کی تقریب میں نہیں بلکہ موت میت میں بھی کرسکتے ہیں۔کسی پیسے والے کے یہاں ایک دن کابچہ فوت ہوجائے یا کوئی بوڑھا انتقال کرجائے توامیر کے درِ دولت پرانسانی سروں کاہجوم نظرآئے گا،اس کے برعکس کسی مفلس کے یہاں اٹھارہ سال کاکڑیل نوجوان کسی حادثے کاشکار ہوجائے تو بوڑھے ماں باپ کودِلاسا دینے والابھی مشکل سے ملتاہے۔کانپتے ہوئے ہاتھوں اور لرزتے ہوئے قدموں سے کمزور باپ مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ اپنے جوان بیٹے کو سپردخاک کرتا ہے۔ایسا کیوں ہوتاہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ امیر کی خوشی ،خوشی ہے اور امیر کا غم ،غم،امیر کے مقابلے میں غریب کی خوشی کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی غم کی کچھ قدر؟بڑی معذرت کے ساتھ اہل علم اور خواص کی بارگاہ میں عرض کرناچاہوں گا،اگر امیر آدمی کے یہاں شادی ہوتو نکاح پڑھانے کے لیے رسہ کشی ہوتی ہے،یامیت ہوجائے تو نماز جنازہ،سورۂ بقرہ کی تلاوت اوراقربا کوتسلی دینے کے معاملات میں اہل علم کی دوڑ لگی نظر آتی ہے مگر اس کے برعکس غریب کے نکاح میں امام صاحب کی جانب سے وقتِ نکاح کاخیال بھی نہیں رکھا جاتا ،اسی طرح نماز جنازہ کے لیے بھی وہ رسہ کشی،بھاگ دوڑ اورمیت کے رشتے داروں کوباربار چہرہ دکھائی کی رسم بھی نظرنہیں آتی جو پیسوں والوں کے یہاں دکھائی دیتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امیروں کی زکوٰۃ یا مسجد ومدرسے میں ان کی امداد نے حقیقی اسلام سے ہمیں دور کردیاہے؟ روپیوں کی چمک نے آنکھوں کوایسا خیرہ کیاکہ غریبوں کادکھ درد نظر ہی نہیں آتا؟جب ہمارے ہی قول و فعل میں تضاد ہے تو کس منہ سے ہم اسلامی تعلیمات کی دعوت دیتے ہیں؟کیااسلامی معاملات ومعمولات کے احکام ومسائل صرف بولنے یالکھنے کے لیے ہیں،خود عمل کرنے کے لیے نہیں؟ماہ رمضان کے روزوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمیں غریبوں کی اضطراری بھوک وپیاس کا احساس ہو،اہل ثروت سال میں ایک مرتبہ اختیاری بھوک وپیاس برداشت کرتے ہیں مگر غریب ومفلس اور ان کے ننھّے ننھّے بچے سال بھر بھوک سے بلبلاتے ہیں،کبھی کبھی فاقوں سے ایڑیاں رگڑتے ہیں،اسلام غربا پروری کااحساس دلاتا ہے،ان کے دکھ سُکھ کا ساتھی بننے کاپیغام دیتاہے،پھر کیاوجہ ہے کہ غریبوں کے ساتھ ناروا سلوک کیاجاتاہے؟بھید بھاؤ کامعاملہ کیاجاتاہے۔ آج دل ودماغ کے بند دریچوں کوکھولنے کی ضرورت ہے،غریبوں کے لیے بھی کشادہ قلبی کا مظاہرہ کریں،ان کے سکھ دکھ کے ساتھی بنیں۔اﷲ پاک اخلا ص وعمل کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731470 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More