مکتوب نگاری اور مکتوبات کے مجموعے
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
خط کی ابتدا، تدوین،تاریخ ، ان کا پڑھنا ،
تشریح کے لیے حواشی و تعلیقات مشکل اور صبر آزما فن ہے
مکتوباتی مجموعوں کا ایک جائزہ
ادیبوں ، شاعروں، دانشوروں ، تخلیق کاروں کے خطوط ادبی تاریخ میں بلند مقام
رکھتے ہیں۔مکاتیب میں علم و ادب کے مختلف موضوعات کے علاوہ مکتوب نگار اور
مکتوب الیہ کے بارے میں اساسی اور اہم معلومات مثال کے طور پر ان کے اوصاف
حمیدہ، افتادِ طبع، اسلوبِ فکر، طرزِ نگارش، علمی و ادبی دلچسپیاں اور خاص
مباحت وغیرہ کے بارے میںآگاہی ہوتی ہے۔ ان مکتوبات میں مشاہیر علم و ادب
اور محققین کے لیے ہی نہیں بلکہ علم و نظر کے لیے بھی دلچسپ آراء اور
تاثرات پائے جاتے ہیں ۔ مشاہیر کے خطوط نے ان میں پائی جانے والی علمی و
فکری سمت کی نشادھی کی ہے اور تحقیقی کاوشوں کے پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے۔
مکتوبات بنیادی طور پر فی البدیہہ ، برجستہ،بے ساختہ، بر محل اور اپنے دل
میں چھپے جذبات، خیالات و احساسات بہ الفاظِ دیگر دل کی باتیں لکھی جانے
والی تحریر ہوتی ہے جو تمام تر تکلفات سے مبرا ہوتی ہے، خط لکھنے والا جب،
جہاں ، جس ماحول میں اپنے مخاطب سے بلا تکلف ہم کلام ہوتا ہے تو اس کی
تحریر میں بے ساختہ پن پیدا ہوجاتا ہے ۔تکلف و بناوٹ سے پاک اس کی تحریرسے
مکتوب الیہ ہی نہیں بلکہ عام قاری بھی اسے ذوق و شوق سے پڑھتے اور اس کا
لطف لیتے ہیں۔بابائے اردو مولوی عبدالحق نے خط کو ’’دلی خیالات و جذبات کا
روزنامچہ اور اسرار حیات کا صحیفہ ‘‘ قرار دیا ہے۔ مکتوب نگاری کو ایک
منفرد صنف اردو کا درجہ حاصل ہے۔فیض احمد فیضؔ نے شاعر ایتھل اور جولیس
روزنبرگ کے خطوط سے متاثر ہوکر ایک غزل ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘
لکھی۔ یہ غزل 15مئی1954کو لکھی اُس وقت وہ منٹگمری جیل میں تھے ۔اس غزل کے
چند اشعار
تیرے ہونٹو ں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں کی شمعو ں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمرے عَلم
اوعر نکلیں گے عُشاق کے قافلے
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
راغبؔ مراد آبادی مرحوم نے اپنی غزل میں اس بات کا ذکر بطور خاص کیا کہ
کتاب سے محبت کرنے والے صاحب ذوق اہل دانش کے خطوط بھی بڑے شوق سے پڑھتے
ہیں
دل دادہ کتابوں کے ہیں جو صاحبِ ذوق
پڑھتے ہیں خطوط ‘ اہل دانش کے بشوق
خط لکھنے کی روایت قدیم اور اُس وقت سے ہے جب تحریر معرضِ وجود میں نہیں
آئی تھی۔ قرآن کریم میں پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کا ذکر ملتا
ہے جو انہوں نے ملک یمن کی ملکہ بلقیس (سباء )کے نام لکھا تھا۔ اﷲ تبارک و
تعالیٰ نے ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے مُسَخرکردیا تھا۔ انہیں
جانوروں کی بولیوں سے آگاہی عطا کی تھی، وہ ان کے تابع تھے ،جنات بھی ان کے
تابع کردیے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں صرف انسان ہی نہیں
بلکہ جنات، چرند پرند اور دیگر جانور بھی موجود ہوا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے
کہ پرندہ’ ہدُ ہدُ‘ کے سرپر جو تاج ہے وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی دی
ہوئی نشانی ہے۔ یہ ہد ہد ہی تھا جو حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط ملکہ
سباء(بلقیس) کے پاس لے کر گیا۔ قرآن کریم کی سورۃ النمل (27)، آیت28 میں اﷲ
تبارک و تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر اس طرح کیا ہے۔ ترجمہ’’اور کہا حضرت
سلیمان علیہ السلام نے کہ میرا یہ خط لے جااور اسے ان لوگوں کی طرف ڈال دے،
پھر الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں‘‘۔ ہدُ ہدُ وہ خط اپنی
چونچ میں دبا کر ملک یمن کی ملکہ بلقیس (سباء) کے دربار میں جا پہنچا۔ ملکہ
اس وقت سورہی تھی ، ہد ہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط ملکہ سباء کی
جانب پھینک دیا جو اس کی چھاتی پرجاگرا اورہد ہد خاموشی سے باہر نکل آیا۔
ملکہ کی آنکھ کھلی تو اپنے سینے پر خط پا کر خوف زدہ ہوئی ۔ایک روایت یہ
بھی ہے کہ جس وقت ہد ہد ملکہ سبا ء کے دربار میں پہنچا تو دربار سجا ہوا
تھا ملکہ اپنے درباریوں کے ساتھ مصروف گفتگو تھی کہ ہد ہد نے حضرت سلیمان
علیہ السلام کا خط اس کی جانب پھینک دیا۔اس واقعہ کا ذکر سورۃ النمل (27)
کی آیات29 اور30 میں اس طرح موجود ہے ترجمہ’’اور کہنے لگی بلقیس اے
درباریو! مجھے بتاؤ میری طرف ایک بڑا اہم خط پھینکا گیا ہے۔وہ حضرت سلیمان
علیہ السلام کی طرف سے ہے اور اس خط کو اﷲ رحمن و رحیم کے نام سے شروع کیا
گیا ہے ۔ اس میں یہ لکھا ہے کہ تم اپنی سلطنت پر زور مت دکھاؤ اور مسلمان
ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ‘۔ خط سُنا کر ملکہ نے کہا ’اے سردارانِ قوم،
میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو، میں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر
نہیں کرتی ہوں‘، اُنہوں نے جواب دیا ’ہم طاقت ور اور لڑنے والے لوگ ہیں۔
آگے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کوکیا حکیم دینا ہے‘‘۔
یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سباء کا واقعہ بیان کرنے کا مقصد
قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی جانب سے لکھے گئے خط اور اس کے
اندراجات کے بارے میں بتانا مقصود ہے۔خط کے جواب میں ملکہ حضرت سلیمان علیہ
السلام دربار میں حاضر ہوئی جہاں پر اس کا تخت پہلے سے پہنچ چکا تھا جسے
دیکھ کر ملکہ حیران ہوئی، مختصر یہ کہ ملکہ سباء مشرف بہ اسلام ہوئی اور
حضرت سلیمان علیہ السلام کی زوجیت میں داخل ہوئی۔
انسان نے اپنے ہم جنسوں سے جو ان سے دور یا فاصلے پر ہوا کرتے تھے سے رابطے
کے لیے خط ہی کا سہا را لیا۔ تاریخ میں ایسے خطوط کا ذکر بھی ملتا ہے جو اس
وقت لکھے گئے جب زبان معرض وجود میں نہیں آئی تھی۔ چنانچہ کائینات میں پائی
جانے والی مختلف اشیاء کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہوئے خطوط کا سہا را
لیا گیا۔ تحریر کے ارتقائی مراحل میں اشارات تحریر کی ابتدا تصور کیے جاتے
ہیں، ان اشارات نے تصویرنویسی کی شکل اختیار کی پھر علامت نویسی اور اس کے
بعد خط ایجاد ہوا ، پہلاخط خط میخی یا پیکانی تصور کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں
ایک مشرقی ترکستانی لڑکی کی جانب سے بھیجے گئے ایک ایسے خط کا ذکر ملتا ہے
جو اس کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ جب انسانوں کے درمیان گفتگو
کا کوئی ذریعہ نہ تھا اور کوئی زبان ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ اس ترکستانی لڑکی
نے ایک تھیلے میں کچھ چیزیں رکھ کر اپنے محبوب کو بھیجیں ، ہر چیز خاص
مفہوم کا اظہار کررہی تھی۔ ان اشیاء میں چائے کی پتی کی مانندبھوسا یا
سوکھے ہوئے کھانے کی ٹکیہ، اس سے مراد یہ لی گئی کہ (اب مجھ سے کھایا پیا
نہیں جاتا)، بھوسے کا ہرے رنگ کا تنکا ، اس بات کا اظہار تھا کہ (تمہاری
محبت میں میرا رنگ زرد ہوگیا ہے)، سرخ پھول چہرہ پر سرخی کو ظاہر کر رہا
تھایعنی (تمہارے تصور سے میرا چہرہ سرخ ہوجاتا ہے)، سوکھی خوبانی یا کوئی
اور سوکھا ہوا پھل (میں سوکھی ہوئی اس پھل کی مانند سوکھ گئی ہوں)، جلا ہوا
کوئلہ محبوب کی محبت میں دل کے سلگنے کا اظہار تھا (میرا دل تمہاری محبت
میں سُلگ رہا ہے، (ایک خوش نما پھول سے محبوب کی تعریف کی گئی یعنی (تم
حسین ہو)، شکر یا میٹھی چیز کی ڈلی ، یہاں بھی محبوب کو شیریں ہونے کا
پیغام دینا مقصود تھا (تم شیریں ہو)، پتھر کا ٹکڑا (کیا تمہارا دل پتھر کا
ہے)، باز کا پر (اگر میرے پر ہوتے تو میں باز کی طرح تمہارے پاس پہنچ
جاتی)، اخروٹ کی گری (میں تمہارے لیے ہوں یا میں تمہیں اپنے آپ کو سونپتی
ہوں)۔ اس خط کے حتمی ہونے کی تصدیق نہ ہوسکی ، اسی طرح اس کے اندراجات دیکھ
کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ لکھنے والوں نے اسے دلچسپ سے
دلچسپ بنانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم یہ بات تو مسلمہ ہے کہ زبان سے قبل اشاروں
سے کام لیا گیا جیسے آج بھی گونگے بہرے اشاروں سے اور نابینا افراد اپنی
مخصوص تحریر سے ہر بات کہتے اور سمجھادیتے ہیں۔ خوشی کا اظہار پھول پیش کر
کے کیا جاتا ہے۔شیر بہادری کی نشانی اور سانپ دشمن کا اظہار ہے ۔ دیگر بے
شمار اشارے آج بھی ہماری زندگی میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ جیسے زیبرا
کراسنگ، سرخ، پیلی اور ہری لائٹ والے سنگنلز، بسوں ، منی بسوں پر لگے ہوئے
حروف تہجی کے حروف یا اعداد وغیرہ کا استعمال عام ہے۔ ماہرین ارضیات نے 66ق
م پرانی مٹی کی 22 ہزار الواح (کلے ٹیبلیٹ) کا پتہ لگایا ۔جس جگہ کھدائی کی
گئی اس جگہ کوآ شور بنی پال کا محل بتایا گیا ۔ یہ مٹی کی تختیاں برٹش
میوزیم میں آج بھی محفوظ ہیں۔’ اسلامی کتب خانے‘ کے مصنف الحاج محمد زبیر
نے لکھا ہے کہ ’ ان تختیوں پر خط پیکانی میں مذہبی امور، شاہی احکامات اور
خطوط کے اندراجات وغیرہ کندہ تھے، بابل میں مٹی کی تختیوں پر لکھنے کی
ابتدا حضرت مسیح سے دو ہزار چارسو برس پہلے ہوئی تھی‘‘۔ زبان کی ایجاد کے
ساتھ ہی خط لکھنے کی روایت نے جنم لیا۔ یہ خطوط عام طور پر اپنے اور اپنے
متعلقین کے بارے میں خیریت فراہم کرنے کے علاوہ ادبی موضوعات پر سیر حاصل
معلومات کا مجموعہ ہو ا کرتے تھے۔
ہمارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے خطوط تاریخ کا حصہ ہیں۔ آپﷺ جب
صلح حدیبیہ سے واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ نے مختلف ممالک کے حکمرنوں اور
امراء کو خطوط تحریر فرمائے جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی
تھی۔ یہ دور6ہجری کا تھا۔ آپ ﷺ کے خطوط میں مقو قیس شاہ مصر کے نام آپ ﷺ کا
خط، شاہ فارس کسریٰ خسرو پرویز کے نام، قیصر شاہ روم کے نام، منذربن ساوی
کے نام، ہودہ بن علی یمامہ کے نام، حاکم بن ابی ثمر غسانی (حاکم دمشق) کے
نام، شاہ عمان کے نام خطوط اور ان کے مندرجات مختلف سیرت اور احادیث کی کتب
میں موجود ہیں۔خطوط لکھنے کا یہ سلسلہ خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم کے دور
میں بھی پایا جاتا ہے۔، حجاج بن یوسف کا خط، حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ
علیہ کے خطوط، شیخ شرف الحق احمد یحییٰ مینری رحمت اﷲ علیہ کے مکتوبات اور
اسی طرح دیگر علمائے دین کے خطوط تاریخ میں زندہ و جاوید ہیں۔ مولانا جامی
کے مکتوبات ’’ رقعات جامی‘‘کے عنوان سے ہیں۔ادب میں مشاہیر کے مکاتیب کا
اعلیٰ مقام ہے۔عبد الرحمٰن چغتائی نے غالب ؔ کی مکتوب نگاری کو غالبؔ کی
شاعری سے کہیں اعلیٰ
درجہ کی تخلیق قرار دیا ہے۔بقول غالبؔ
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کوئی پیغامِ زبانی اور ہے
مرزاغالبؔ بجا طور پراردو مکتوب نگاری کے دولھا تصور کیے جاتے ہیں۔حالانکہ
غالبؔ سے پہلے غلام غوث بے خبر ؔ اور رجب علی بیگ سرور کے مکتوبات تاریخ کا
حصہ ہیں۔ مرزا غلام غوث کا مجموعہ ’’انشائے بے خبر‘‘ اور ’’فضان بے خبر ‘‘
منظر عام پر آچکے تھے، جب کہ رجب علی بیگ سرورکے مکتوبات کا مجموعہ
’’انشائے سرور‘‘تھا۔اردو میں مکتوب نگاری کی ابتدا کے بارے میں بھارت کے
ادیب پروفیسر قمر منصور نے اپنے مضمون ’’مکتوب نگاری کی روایت ‘‘ میں لکھا
ہے کہ ’’اردو میں مکتوب نگاری کا رواج فورٹ ولیم کالج کے قیام سے بھی پہلے
سے تھا۔ عام طور پر رجب علی بیگ سرور اور غلام غوث بے خبر ؔ کو اردو کا
پہلا مکتوب نگار کہا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر لطیف اعظمی نے اپنے مقالے ’اردو
مکتوب نگاری‘ میں بعد از تحقیق یہ بات ثابت کی ہے کہ کرنا ٹک میں ارکاٹ کے
نواب والا جاہ کے چھوٹے بیٹے حسام الملک بہادر نے اپنی بڑی بھابی نواب بیگم
کے نام 6دسمبر1822کو خط لکھا تھا۔ ڈاکٹر لطیف اعظمی کی تحقیق کے مطابق یہ
اردو کا پہلا خط ہے۔گیان چند جین اور عنوان چشتی نے بھی اس تحقیق کی تائید
کی ہے‘‘۔خطوط نگاری میں مولانا آزادکا مقام بھی بلند ہے ۔ ’’غبارِ خا طر‘‘
ان کے مکتوبات کا مجموعہ ہے جسے مالک رام نے مرتب کیا ، یہ مجموعہ ہندوستان
سے 1983ء میں شائع ہوا۔’غبار خاطر‘مولانا آزاد کی ایک اچھوتی تخلیق ہے۔ طرز
تحریر کے باعث علم و دانش نے اس تخلیق کو مضامین کا مجموعہ بھی کہا لیکن
مولانا نے انہیں خطوط ہی قرار دیا ہے۔ یہ خطوط کم انشائیے زیادہ ہیں
اورانشائیوں کا بہترین نمونہ بھی۔ یہ خطوط مولانا آزادؔ نے احمد نگر جیل
میں قید کے دوران 10 اگست1942 ء سے جون1945 ء کے درمیان تحریر کیے تھے۔ ان
خطوط کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مولانا نے یہ خطوط اپنے دوست نواب صدر یار
جنگ ، مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام
ہی لکھے۔ مولانا آزاد کے ان مکتوبات کو مکتوب نگاری میں منفرد مقام حاصل
ہے۔
غالبؔ کے مکتوبات کی تدوین کئی احباب نے اپنے اپنے طور پر کی ۔ عود ہندی،
اردوئے معلیٰ، مکاتیب غالبؔ کا ذکر ملتا ہے۔ اس سلسلہ کا ایک مجموعہ1919ء
میں مرزا عسکری نے مرتب کیا تھا جو لکھنؤں سے نظامی پریس نے شائع کیا تھا۔
اس کے علاوہ مولانا امتیاز علی خان عرشی نے پہلی بار ’مکا تیبِ غالبؔ ‘کے
عنوان سے غالبؔ کے خطوط کو تاریخ وار ترتیب دیا جو1949ء میں شائع ہوا تھا،
آفاق حسین آفاقؔ کا مرتب کردہ مجموعہ ’نادرات غالب‘1949، غلام رسول مہر کا
مر تب کردہ مجموعہ ’خطوط غالبؔ ‘شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے علاوہ قاضی عبد
الودود اور مالک رام کا نام بھی غالبؔ کے مکاتیب کے حوالے سے معتبر اور
تاریخ میں نمایاں ہے۔ غالبؔ کے مکاتیب کے حوالے سے ہندوستان کے معروف ادیب
و دانشور ڈاکٹر خلیق انجم کو غالبؔ پر اعلا درجے کی تحقیق کرنے والوں میں
شمار کیا جات ہے۔اس موضوع پر ان کی اولین کاوش ’’غالب کی نادر تحریریں‘‘
تھی اس کے بعد ’’غالب اور شاہان تیموریہ‘‘ 1974ء میں اور’ ’ غالب کچھ
مضامین‘‘ منظر عام پر آئیں۔مکا تیبِ غالبؔ کے حوالے سے ڈاکٹر خلیق انجم کی
قابل قدر تحقیق ’’غالب کے خطوط ‘‘پانچ جلدوں پر مشتمل جن میں پانچویں
جلدخطوط غالب کی تاریخ وار فہرست ہے ہندوستان کے علاوہ پاکستان سے انجمن تر
قی اردو نے یکے بعد دیگرے شا ئع کیں۔ جلد اول و جلد دوم 1989میں، جلد سوم
1990ء، جلد چہارم 1995ء اور جلد پنجم یعنی اشاریہ 2000ء میں منظر عام پر
آئیں۔ ان جلدوں کا مطالعہ انجمن ترقی اردو پاکستان کے کتب خانے واقع گلشن
اقبال میں کیا جاسکتا ہے۔
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے خطوط کا اپنا ایک اعلیٰ مقام ہے۔ وہ شاعر ہی
نہیں بلکہ ایک فلسفی، مفکر اور مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کے داعی بھی ہیں۔
اقبال کی شخصیت اور ان کے علمی ، ادبی ، سماجی، سیاسی خدمات مسلمانوں کی
تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔مکتوباتِ اقبال کے بے شمار مجموعے منظر عام پر
آچکے ہیں ان میں مرزا شیخ عطا ء اﷲ کا مرتب کردہ ’’اقبال نامہ‘‘، سید نذیر
نیازی کا مرتب کردہ مکتوبات اقبال‘‘ 1957ء میں منظر عام پر آیا ، رفیع
الدین ہاشمی اقبالیاتی تحقیق میں معروف ہی نہیں بلکہ انہیں اقبال پر مستند
محقق کا درجہ حاصل ہے۔ ان کا مجموعہ ’’خطوطِ اقبال ‘‘ کے عنوان سے 1976ء
میں شائع ہوا، عبد اﷲ شاہ ہاشمی کا مرتب کردہ مجموعہ ’’مکاتیبِ اقبال بنام
خان نیازالدین خاں2006ء میں شائع ہوا۔ڈاکٹر خالد ندیم کا مرتب کردہ
مجموعہ2012 ءمیں ’’اقبالیاتی مکاتیب ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکا ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کے خطوط ادبی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ن م راشد، مشفق
خواجہ، ڈاکٹر وزیر آغا، علامہ نیاز فتح پوری، علامہ شبلی نعمانی، سر سید
احمد خان، جیل سے علی برادران کے خطوط، الطاف حسین حالیؔ ، امیر مینائی ،
بابائے اردو مولوی عبدالحق ، جگر مراداآبادی ، اکبر الہٰ آبادی، عبیدا ﷲ
سندھی کے سیاسی مکتوبات، رشید احمد صدیقی، پروین شاکر کے خطوط نظیر صدیقی
کے نام، ساغر نظامی کے خطوط،نذیر احمددہلوی،محمد حسین آزاد، رشید حسن خان
کے خطوط، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے خطوط، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے
خطوط،ڈاکٹر محمود مصطفی صدیقی المعروف ابنِ فرید کے خطوط ڈاکٹر رفیع الدین
ہاشمی کے نام ، عبد الماجد دریاآبادی، ابوالاعلیٰ مودودی،سید سلیمان ندوی،
غلام رسول مہر،حکیم محمد سعید شہید وغیرہ کے خطوط اردو ادب کی تاریخ میں
منفرد مقام رکھتے ہیں۔’’سر سید احمد خان کے خطوط ‘‘ مرتبہ مولوی وحیدالدین
سلیم ہندوستان سے شائع ہوئے، مکتوبات آزاد (محمد حسین آزاد) مرتبہ سید جالب
دہلوی،’’خطوطِ علامہ شبلی نعمانی‘‘ مرتبہ محمد امین زبیری آگرہ سے 1910ء
میں شائع ہوئے ۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق کے خطوط کے کئی مجموعے منظر
عام پر آچکے ہیں ان میں ’’مکتوبا ت با بائے اردو مولوی عبد الحق بنام پیر
حسام الدین راشدی‘‘، مکاتیب عبدالحق‘‘ مرتبہ جلیل قدوائی، شائع شدہ1963ء،
’’خطوط عبدالحق ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ، خطوط عبدالحق‘‘ مرتبہ آلِ
احمد سرور 1998ء ، ’’مولانا عبید اﷲ سندھی کے سیاسی مکتوبات‘‘ محمد اسلم نے
مرتب کی، معروف شاعر نظیر صدیقی نے اپنے نام موصول شدہ خطوط کا مجموعہ ’’
نامے جو میرے نام آئے ‘‘ مرتب کیا، ’’پروین شاکر کے خطوط نظیر صدیقی کے
نام‘‘ یہ مجموعہ جاوید وارثی نے مرتب کیا جو 1997ء میں شائع ہوا، نظیر
صدیقی کے نام مشفق خواجہ کے خطوط کا مجموعہ ’’مکتوباتِ مشفق خواجہ بنام
نظیر صدیقی ‘‘ خواجہ عبد الر حمٰن طارق نے مرتب کیا جو لاہور سے 2010ء میں
شائع ہوا، عبدالماجد دریا آبادی نے بھی اپنے نام آئے ہوئے خطوط کا مجموعہ
’’خطوط ماجدی‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔’’خطوط رشید احمد صدیقی‘‘ لطیف الزماں
خان نے 1985ء میں مرتب کیا، اکبری حیدری نے اپنے نام لکھے گئے ڈاکٹر وزیر
آغا کے خطوط کا مجموعہ مرتب کیا جو ’’وزیر آغا کے خطوط اکبر حیدری کے نام‘‘
سے شائع ہوا، ’’خطوطِ منشی ا میر مینائی‘‘ مرتبہ محمد احسن اﷲثاقب نے مرتب
کیا جو 1910ء میں علی گڑھ سے شائع ہوا، نیاز فتح پوری نے ’’مکتوباتِ نیاز
مرتب کیا،’’رقعاتِ اکبر الہ آبادی (اکبر الہ آبادی ) ‘‘ محمد نصیر ہمایوں
نے مرتب کیا، کرشن پرشاد شاد نے ’’رقعاتِ شاد‘‘ مرتب کیا ، خواجہ حسن نظامی
کا مرتب کردہ مجموعہ ۱۹۷۰ء میں’ غدر دہلی کے گرفتار شدہ خطوط‘ شائع
ہوا،منشی مشتاق احمد نے ’’ خطوط جیل علی برادران ‘‘ کے عنوان سے مرتب
کیا،نواب محسن الملک مہدی کے خطوط کا مجموعہ محمد امین زبیری نے مرتب کیا
جو ’’مکاتیب (نواب محسن الملک مہدی) کے عنوان سے آگرہ سے شائع ہوا،محمد
اسماعیل پانی پتی نے حالیؔ کے مکاتیب کامجموعہ ’’مکاتیبِ حالی‘‘ کے عنوان
سے مرتب کیا جو کراچی سے 1950ء میں شائع ہوا،مفتی انتظام اﷲ نے ’’بیگماتِ
اودھ کے خطوط‘‘ مرتب کیے، ’’انشائے داغ (خطوط)‘‘ سید علی احسن نے مرتب کیا
جو انجمن ترقی اردو نے 1941ء میں شائع کیا تھا،محمد علی عرشی نے بدر بیگم
نواب واجد علی شاہ کے خطوط ’’رقعاتِ بدر( بدر بیگم نواب واجد علی شاہ) مرتب
کیا، ’’جگر ؔ کے خطوط‘‘ ڈاکٹر محمد اسلام نے مرتب کیا،’’ مکتوبات رئیس
الحرار‘‘ابو سلمان شاہجہاں پوری نے مرتب کیا، ’’مکتوبات حضرت امام غزالی‘‘،
مکتوبات منیر الدین احمد، ’’مکتوبات ساغر نظامی ‘‘ فیروز مظفر نے مرتب کیا،
’’مکاتیب رشید حسن خان بنام رفیع الدین ہاشمی ‘‘ ، کلماتِ آبدار‘‘ ڈاکٹر
معین الدین عقیل نے مرتب کی، مہیش پرشاد نے ’’مشاہیر اردو کے خطوط‘‘ مرتب
کی جو ہندوستان سے شائع ہوئی۔
ڈاکٹر خالد ندیم جو شعبہ اردو سرگودھا یونیورسٹی کے استاد ہیں مکاتیب کے
حوالے سے ایک مستند مقام رکھتے ہیں ، ان کے مرتب کردہ مجموعوں میں ’’ایسے
ہوتے ہیں وہ نامے :( ترجمہ و تدوین )‘‘2004ء میں منظر عام پر آیا،دوسرا
مجموعہ ’’ مکاتیبِ ابنِ فرید بنام رفیع الدین ہاشمی‘‘(حواشی و تعلیقات )،
2010ء میں شائع ہوا ، ’’رقعات مشفق خواجہ بنام ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر
طاہر تونسوی‘‘ (حواشی و تعلیقات )2012ء ہی میں مرتب کیا ، ڈاکٹر خالد ندیم
کا مرتب کردہ مجموعہ ’’اقبالیاتی مکاتیب اول بنام رفیع الدین ہاشمی‘‘
(حواشی و تعلیقات ) اردو کا پہلا یک موضوعی مکاتیب ہے، اس مجموعے کے جملہ
خطوط کا موضوع ’’اقبال اور اقبالیات ہے اور مشاہیر کے ان خطوط کا مکتوب
الیہ بھی ایک ’رفیع الدین ہاشمی ‘ ہیں، یہ مجموعہ2012ء میں شائع ہوا۔ معروف
محقق رفیع الدین ہاشمی نے ’’مکاتیب مشفق خواجہ‘‘ کے عنوان سے مجموعہ مرتب
کیا جو 2008ء میں منطر عام پر آیا۔مکتوب نگاری کے حوالے سے مختلف جامعات کی
سطح پر تحقیقی مقالات بھی لکھے گئے اور کتب بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ڈاکٹر
لطیف اعظمی کے مقالے ’’اردو مکتوب نگاری ‘‘ کا ذکر پروفیسر قمر منصور نے
اپنے مضمون میں کیا ہے۔ اسی طرح شاداب تبسم نے ’اردو مکتوب نگاری ‘‘ کے
عنوان سے کتاب تحریر کی جو 2014میں بھارت سے شائع ہوچکی ہے۔
مکتوبات کی تدوین وا شاعت کے باعث ہی خطوط میں شامل علمی مواد سے عام لوگوں
کو آگاہی ہوسکی، اگر ان مکتوبات کی تدوین و اشاعت کا عمل شروع نہ ہوا ہوتا
تو مکتوبات میں موجود قیمتی و نایاب معلومات کسی طو ر بھی سامنے نہ آسکتی
تھیں۔ جس طرح مکتوب نگاری ایک فن ہے اسی طرح مکتوبات کی تدوین، ان کا پڑھنا
اور ان میں تشریح طلب امور کی وضاحت کے لیے حواشی و تعلیقات کا اہتمام ایک
مشکل اور صبر آزما فن سے کم نہیں۔خطوط کے حصول کے ساتھ ساتھ ان کی خستہ اور
بوسیدہ حالت کی صورت میں مکتوب نگار کی تحریر کو پڑھنا کوئی آسان کام نہیں
ہوتا۔پھر ان خطوط میں تشریح طلب باتوں کے لیے حواشی و تعلیقات کا اہتمام
کرنا مرتب کے لیے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔خطوط ذاتی نوعیت کی دستاویز ہوتے
ہیں، اس لیے ان کا حصول انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ خط لکھنے والا اور جس کو خط
لکھا گیا یعنی مکتوب نگار اور مکتوب الیہ دونوں ہی اس ذاتی قسم کی دستاویز
کو اپنے اپنے طور پر چھپا کر یا پھر اپنی خاص فائلوں میں محفوظ رکھتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ خطوط اگر کسی محقق و دانشور نے محفوظ رکھے بھی ہیں تو اس
نے اپنی آخری عمر میں وہ اپنے اس علمی سرمائے کو کسی معقول فرد یا ادارے کے
سپرد کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔اگر یہ عمل اس کی زندگی میں کسی وجہ سے
نہ ہوسکے توبعد میں اس کے متعلقین میں سے کسی نے یہ محسوس کیا کہ مرحوم کے
خطوط کی اہمیت ہے ، انہیں عام لوگوں تک پہنچنا چاہیے تو ان خطوط کو سامنے
لانے کی سعئ کرتا ہے بصورت دیگر اس قسم کی دستاویزات قدیم،بوسیدہ یا پرانی
ہوجانے کے باعث ضائع ہی ہوجاتی ہیں۔
چند ماہ قبل کی بات ہے میرے ایک علمی و ادبی دوست سید محمد اصغر کاظمی جو
پروفیسر ڈاکٹرفرمان فتح پوری مرحوم سے قربت رکھتے تھے، ادبی جریدے ’’نگارِ
پاکستان ‘‘کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر فرمان فتح پوری تھے اور کاظمی صاحب اس کے
مدیر ہوا کرتے تھے۔ فرمان صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکیم محمد
سعید شہید کے خطوط جو فرمان صاحب کے نام تھے اور ان میں چند ایسے بھی تھے
جن کے جواب بھی فرمان صاحب نے حکیم صاحب کو تحریر کیے تھے۔ ان کی تعداد سو
کے قریب ہوگی اس مقصد سے دئے تھے کہ کاظمی صاحب انہیں ترتیب دے کر شائع
کردیں گے۔ فرمان صاحب اﷲ کو پیارے ہوئے۔کچھ عرصہ ہوا اصغر کاظمی صاحب نے ان
خطوط کے بارے میں مجھ سے مشورہ ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے ان خطوط کو کتابی
شکل دی، اس کا عنوان ’’ حکیم محمد سعید شہید کے خطوط پروفیسر ڈاکٹر فرمان
فتح پوری کے نام ‘ تجویز کیا اور مجھے پیش لفظ لکھنے کے لیے کہا۔ شاید اس
کی وجہ یہ رہی ہو کہ میں ڈاکٹرفرمان فتح پوری صاحب سے بھی نیاز مندی رکھتا
تھا اور مجھے یہ بھی شرف حاصل ہے کہ فرمان صاحب نے اپنی زندگی میں کسی بھی
کتاب کا آخری پیش لفظ میری کتاب ’’شیخ محمد ابراہیم آزاد۔ شخصیت اور شاعری
‘‘کا ہی تحریر کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میری شناسائی اور نیاز مندی شہید
حکیم محمد سعید صاحب سے بھی تھی اور مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ میں نے
حکیم صاحب کے کتاب اور کتب خانوں کے فروغ اور ترقی کے حوالے سے تحقیق کی
اورپی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ میرے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان ’’پاکستان میں
لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمد سعید شہید کا
کردار‘‘ تھا اس پر مجھے 2009 ء میں پی ایچ ڈی کی سند ملی ۔ اس اعتبار سے
میرے لیے مکتوبات کی اس تصنیف پر لکھنا مکتوب نگار اور مکتوب الیہ سے اپنی
ذہنی وفکری وابستگی کے باعث بڑا اعزازہے۔ یہ کتاب تاحال شائع نہیں ہوئی ،
امید ہے کہ جلد منظر عام پر آجائے گی۔
حکیم محمد سعید شہید اور پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،دونوں نے علم و ادب
کے سمندر کو عبورکیا اور بلندمرتبہ پر فائز ہوئے۔ دونوں ہی مکتوب نگاربھی
تھے اور مکتوب الیہ بھی۔ مکتوب نگاری کے حوالے سے حکیم محمد سعید شہید کا
مقام بلند و بالا ہے۔ خطوط لکھنا اور انہیں محفوظ رکھنے کا ایک مربوط و
منظم نظام حکیم صاحب نے اپنی زندگی میں ترتیب دیا ہوا تھا۔ ان کے ہمعصروں
میں شاید ہی کوئی پڑھنے لکھنے والا شخص ایسا ہوگا کہ جس کے پاس ان کا خط یا
ان کے خطوط نہ ہوں۔ مجھ جیسے ادنیٰ شخص کو بھی انہوں نے اپنے خطوط سے
نوازا۔ موضوعات کے اعتبار سے بے پنا ہ موضوعات، ان میں تقریبات کا انعقاد ،
ان میں شرکت کی دعوت دینا، موضوع پر تبادلہ خیال کرنا، مہمان خصوصی کی
حیثیت سے مدعو کرنا، کتاب بھیجنا، کتاب بھیجنے والوں کو شکریے کے خطوط
تحریر کرنا، بھیجی گئی ہر کتاب پر اپنے دستخط کر کے اسے بیت الحکمہ میں
محفوظ کرنا ان کا خاص طریقہ تھا۔ حکیم صاحب کی خطوط نگاری ایک ایسا موضوع
ہے کہ جس پر کوئی بھی محقق ڈاکٹریٹ کر سکتا ہے۔ یہ عام سے بات ہے کہ مکتوب
نگار جب کسی کو خط لکھتا ہے تو اس کی نقل اپنے پاس نہیں رکھتا، لیکن حکیم
محمد سعید شہید کا یہ خاص وصف تھا کہ وہ جس کو خط لکھا کرتے اس کی ایک نقل
اپنے ریکارڈ میں بھی محفوظ کیا کرتے۔ اس لیے حکیم محمد سعید شہید کے
مکتوبات علم و دانش کے نام ایسا پیارا موضوع ہے کہ جس پر تحقیقی کام کیا
جاسکتا ہے۔ محقق کو حکیم صاحب کی جانب سے لکھے گئے خطوط اور ان کے جوابی
خطوط حکیم صاحب کے دفتر یا بیت الحکمہ میں خاص ترتیب و اہتمام سے مل جائیں
گے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی مکتوبات سے علمی وابستگی اور شہید حکیم محمد
سعید سے تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے حکیم صاحب
کے خطوط کو سنبھال سنبھال کر رکھا ۔خیال کیا جاسکتا ہے کہ فرمان صاحب کے
ذاتی ذخیرے میں دیگر احباب کے خطوط بھی ہوسکتے ہیں ۔ جن کو سامنے رکھ کر
علمی و ادبی کام کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
جس طرح کتاب نے مٹی کی تختیوں سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور زمانے، حالات
اور ترقی کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے مطبوعہ کتاب کے بعد ای بک یا برقی کتاب
(E-Book) کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور موبائل
کی ایجاد نے دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ زمانے کی اس جدید ترقی نے
انسانی کام کو مہینے کے بجائے گھنٹو ں ہی نہیں بلکہ منٹو ں سیکنڈوں میں
انجام دینے کے طریقے ایجاد کیے۔ اس جدید ترقی سے ایک جانب تیزی آئی، مشکل
کی جگہ آسانی نے لے لی، وہ بات جو خط کے توسط سے ایک شہر سے دوسرے شہر یا
ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچنے میں کئی دن یا ماہ لگا کرتے تھے اب یہی کام
چند سیکنڈ میں تبدیل ہونے لگا۔ خطوط لکھنا جو ایک تاریخی، روایتی اور علم
وادب کا ایک شہہ پارہ تصور ہوتا تھا، ادب کی یہ صنف زیادہ متا ثر ہوئی ، ای
۔میل(E-Mail) نے خط کی جگہ لے لی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گھنٹو کی جگہ
سیکنڈوں نے لے لی لیکن اس عمل سے زبان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ رابطے
کی زبان جن کی اردو تھی وہ اردو نہ رہی، جن کی انگریزی تھی وہ انگریزی نہ
رہی، جن کی ہندی تھی وہ ہندی نہ رہی ، اس عمل سے ایک نئی زبان نے جنم لیا
یعنی اردو لکھنے والے پیچ بیچ میں انگریزی، رومن اور ہندی کے الفاظ استعمال
کرنے لگے، انگریزی لکھنے والوں نے اردو کے الفاظ کا سہارا لیا، ہندی کے
الفاظ شامل ہوئے الغرض بات کو مختصر اور جس طرح بھی ممکن ہو دوسرے تک
پہنچانا اصل مقصد ٹہرا۔ ادب آداب،احترام ، لحاظ، مروت،تہذیب وشائستگی،رکھ
رکاؤ،تکریم و تعظیم غرض اس عمل سے سب کچھ جاتا رہا۔ کچھ مثالیں دی جاسکتی
ہیں۔مثال کے طور پر السلام علیکم کی جگہ ASLلکھا جارہا ہے، آپ کے مزاج کیسے
ہیں کی جگہHRUلکھ کر خیریت دریافت کی جارہی ہے۔ ایک پیغام دیکھیں ’ میں نے
اس سے پہلے بھی تمہیں ایک میسیج سینٹ کیا تھا کیا تم مجھے جلدرپلائی نہیں
کرسکتے تھے‘، دیگر پیغامات کی صورت کچھ اس طرح ہوتی ہے ’آج میرا من بہت
اداس ہے‘، تمہاری یاد آرہی ہے تم کب وزٹ کروگے‘، اردو میں انگریزی کی ملاوٹ
کے ساتھ ساتھ انگریزی میں اردو کی ملاوٹ نے زبان کو عجیب و غریب بنا کر رکھ
دیا ہے۔ میری ایک شاگردہ ہے جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم اے کر
رہی ہے۔ ملاحظہ کیجئے موصوفہ اپنا میسج اپنے استاد کو کیسے لکھتی ہیں۔
ASL,Sir ap kal AIOU aen ge na(السلام علیکم، سر آپ کل علامہ اقبال
یونیورسٹی آئیں گے نہ)
Assalam o Alekum, Sir ap aj aen ge ya nahi aiou , Sir mujhe malir sy ana
hota hai is liye poch rahi hon, mujhe sirf ap k asignment chek karwane
hain"_
اب دیکھئے انگریزی میں اردو کی ملاوٹ کیسے کی جارہی ہے، یہ یو فون(U-fone)
مختلف کمپنیوں کی جانب سے میل بھیجی جارہی ہیں، انگریزی میں اردو کی آمیزش
اس طرح کی جارہی ہے۔اس ایس ایم ایس میں خط کشیدہ الفاظ انگریزی کے استعمال
کیے گئے ہیں"03332142076 nay aap ko 12:00 pm par call kiya tha. Ager aap
free hen toh une ko call back ker lain",
چند جملے ذیل میں درج ہیں جن میں انگریزی، اردو اور اعداد کی آمیزش کی گئی
ہے۔
کیا سین ہے kya scene he
راستہ کلیر ہےrasta clear he
کوئی چانس نہیں ہے koi chance nahi he
befrore you۔ B 4 U
کل ہم دونوں ملیں گےkal hum 2no milen gay
کل ہم تینوں ملیں گےkal hum 3no milen gay
کل ہم چاروں ملیں گےkal hum 4ron milen gay
میں کل پاکستان آرہا ہوںmain kal pak aaraha hon
میں کل لاہور جارہا ہوں انشاء اﷲI am ging 2 Lhr 2marrow, IA
اسی طرح کی بے شمار مثالیں ہیں۔ انگریزی میں gud ، کیوں کی جگہ qk ، w8کا
مطلب ہے wait ، اسی طرح دونوں 2no ،تینوں3no ، thankx ، جارہا ہوں کی جگہ
jaing الفاظ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ زبان کا کیا حشر ہورہا ہے کسی کی اس
جانب توجہ نہیں۔یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ کیا وقت بچانا مقصد ہے، جدت پیدا
کرنا مقصود ہے ،اپنے آپ کونئی ایجاد کا موجد بنا نا مقصد ہے یا کچھ اور؟
جدید ایجاد نے رفتار کو تو تیزسے تیز تر کردیا ہے لیکن بہت سی خرابیاں بھی
پیدا کردی ہیں ۔ خاص طور پر مکتوب نگاری یا خطوط نگاری کے فن کو شدید نقصان
پہنچا ہے۔ خطوط تو بنیادی معلومات یا First hand informationکا ذریعہ ہوتے
ہیں۔ مستقبل میں کیا کچھ ہوگا اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا، خاص طور
پر خطوط کا شعبہ شدید متاثر ہی نہیں ہوا بلکہ آیندہ سو پچاس سالوں میں لگتا
ہے کہ مکتوبات کے مجموعے مرتب ہونا بند ہی ہوجائیں گے اس لیے کہ جب کوئی خط
لکھے گا نہیں تو انہیں محفوظ کو ن کرے گا، کون انہیں شائع کرے گا۔ نہ خط
ہوں گے نہ ہی مکتوباتی ادب تخلیق پاسکے گا۔ (26فروری2017) |
|